Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
96 - 150
وخامساً(عہ)ھب ان القصد بالقصد فلابد من الانتھاء الی قصد لیس بالقصد والاتسلسل فی الاعیان لانہ وجودی عندکم، واذاانتھی الامر الی الایجاب انتھٰی الاختیار لزم القرار علی ماکان منہ الفرار ماقولھم الوجوب بالاختیار لاینافی الاختیار بل یحققہ،
خامساً، تسلیم کرلیں کہ قصد وارادہ کے لئے بھی قصد ضروری ہے تو لازماً آخر میں ایسا قصد ہوگا ورنہ تو خارج میں تسلسل کا وجود لازم آئے گا کیونکہ تمہارے ہاں قصد وجودی چیز ہے، توجب آخر میں قصد خود بخود بغیر قصد پایا گیا تو یہ بطور ایجاب ہوگا اور اختیاری نہ ہوگا یہی وہ جبر ہے، تو نے جس سے فرار اختیار کیا وہی پیش آیا، لیکن یہاں ان کا یہ کہنا کہ یہ وجوب بالاختیار ہے جو اختیارکے منافی نہیں بلکہ اس کے بندے کا اختیار  ثابت ہوتا ہے،
عہ:  اقول وھنا دلیلان اٰخران یمکن لہ الجواب عنھما۔
اقول(میں کہتاہوں) یہاں دو دلیلیں اور ہیں، ان کا جواب ممکن ہے،پہلی سادساً اور دوسری سابعاً ہے۔
سادساً وما تشأون الاان یشاء اﷲ۱؎
فمشیتنا لیست بمشیتنا بل بمشیۃ ربنا۔
سادساً، اﷲ تعالٰی کے ارشاد''تم نہیں چاہو گے سوائے اس کے کہ اﷲ تعالٰی چاہے'' کی رو سے ہماری کوئی مشیت نہیں ہے اگر ہے تو اﷲ تعالٰی کی مشیت سے ہے(توبندے کا مجبور ہونا ثابت ہے)
 (۱؎ القرآن الکریم   ۷۶ /۳۰)
سابعاً ورد مرفوعا وانعقد اجماع المسلمین علٰی قولھم ماشاء اﷲکان ومالم یشاء لم یکن فلولم یشاء مشیتنالما کانت لکن کانت فقد شاء ھا والجواب عنھما مشیتنا بمشیتنا لمشیتہ ان تکون بمشیتنا ویخص الاول ان المعنی لاتشاؤن شیئا من افعالکم الاماشاء اﷲ ان یخلقہ عند مشیتکم ۱۲منہ۔
سابعاً، مرفوع حدیث اور اجماعِ مسلمین سے ثابت ہے کہ یہ مسلم قول ہے جو اﷲ تعالٰی چاہے گا وہ ہوگا اور جو نہ چاہے گا نہ ہوگا، تو اگر اﷲ تعالٰی ہماری مشیئت کو نہ چاہے تو نہ ہوگی، لیکن ہماری مشیئت پائی جاتی ہے لہذا اﷲ تعالٰی نے اس کی مشیئت فرمائی ہے(تو بندے کے لئے جبرثابت ہے) دونوں دلیلوں کاجواب یہ ہے کہ ہماری مشیئت کا وجود ہماری مشیئت سے ہے کہ اللہ تعالی کی مشیئت ہے کہ بندے کی مشیئت پائی جائے، اور پہلی دلیل میں آیہ کریمہ میں تخصیص یوں ہوگی تم اپنے افعال سے کچھ نہ چاہوگے مگر جب اﷲ تعالٰی تمہاری مشیت سے اس کو پیدا کرنا چاہے گا ۱۲منہ(ت)
اقول لیس ھذا وجوبا بالاختیار بل اختیار بالوجوب ای لایستطیع ان لایختار وھو ینافی الاختیار بمعنی التمکن من الترک قطعًا فیعود المحذور وارداعلی القائلین بالتاثیر فی الحال ایضا ولامحیص بماقالوا ان القصد اعتباری فلیتسلسل وذٰلک لانہ فی المبدء محال ولوفی الاعتباریات اقول لان سر تجویزہ ھو انقطاعہ بانقطاع الاعتبار وھٰھنا حیث انقطع انقطع ماتحتہ لانعدام العلۃ فینعدم الفعل، ولابان قصد القصد عین القصد فان المحتاج کیف یکون عین المحتاج الیہ ولا بانہ عدمی فلایحتاج الٰی مؤثر فان کل متجدد لاغناء لہ عن مؤثر ولو عدمیا کالعمی ولابان اختیار المختار لایعلل کایجاب الموجب ،اقول نعم لایسأل لم خصص ھذا لاذاک کما حققتہ فی رسالۃ'' الافھام المصحح للترجیح بدون مرجح'' التی الفتھا بعد ورود ھذاالاستفتاء اما نفس التخصیص فمتجدد ولیس لہ عن المؤثر محیص، فان قال الکل لانرید بالاختیاری الامایقع بالاختیار او عند الاختیار وان لم یکن الاختیار بالاختیار قلنا ان دفع قول الاشعری ان فعل العبد اضطراری ولکن این المحیص من ثبوت الحجۃ للعبد فی المعاصی فانہ یقول ماخلقت وانما قصدت وماکان قصدی ایضاً باختیاری فماذنبی،
اقول (میں کہتا ہوں ) یہ وجوب بالاختیار نہیں بلکہ اختیاربالوجوب ہے یعنی بندہ کو اس کے اختیار نہ کرنے کی استطاعت نہ ہو گی ، یہ تو قطعا اختیار بمعنی قدرت ترک کے منافی ہے تو خرابی کا عود لازم آیا جو بندے کے لئے حال میں تاثیر کے قائل ہیں ان پر بھی یہ اعتراض وارد ہوگا، اور ان کا یہ کہنا کہ قصداعتباری چیز ہے جس میں تسلسل ہوسکتاہے(یہ قول بھی اس اعتراض سے ان کو نجات نہیں دے سکتا) کیونکہ اس تسلسل کے مبدء میں (بلاقصد ہونا) ایک محال چیز ہے اگرچہ یہ اعتباری چیزوں کا تسلسل بھی ہو اقول(میں کہتا ہوں) اعتبار یات میں تسلسل کے جواز کا قول اس بنیاد پر تھا کہ یہ اعتبار کے انقطاع سے منقطع ہوجاتاہے تو یہاں جب اعتباری قصد منقطع ہوگیا تو تسلسل بھی ختم ہوگیا کیوں کہ علت (قصد) جب ختم ہوگئی تو فعل ختم ہوجائے گا، اس تسلسل کے جواز کی بنیاد یہ نہیں کہ قصد کا قصد عین وہی قصد ہوتا ہے کیونکہ یہ غلط ہے اس لئے دوسرا قصد پہلے کی طرف محتاج ہے اور پہلا محتاج الیہ ہے تو محتاج کا عین محتاج الیہ ہونا کیونکر ہوسکتا ہے، اور اس کے جواز کی بنیاد یہ بھی نہیں، کہ قصد عدمی ہے تو عدمی کسی مؤثر کا محتاج نہیں ہوتا، یہ اس لئے غلط ہے کہ قصد متجد د ہوتا ہے تو متجدد چیز مؤثر سے مستغنی نہیں ہوسکتی اگرچہ وہ متجدد عدمی ہو، جیسا کہ بینا نہ ہونا، اور اس کے جواز کی وجہ یہ بھی نہیں کہ مختار کے اختیار کےلئے کسی اور علت کی ضرورت نہیں، جیسا کہ موجبِ کے ایجاب کےلئے ضرورت نہیں، اقول یہ اس لئے غلط ہے کہ مختار کے اختیار سے تخصیص ہوتی ہے تو اس تخصیص کے متعلق وجہ نہیں پوچھی جاسکتی کہ اس کو کیوں خاص کیا یا اسکو کیوں خاص نہ کیا مختار کو اختیار تخصیص کی تحقیق میں نے اپنے رسالہ الافھام المصحح للترجیح بدون المرجح میں کی ہے جس کو میں نے اس استفتاء کے بعد تالیف کیا ہے لیکن نفسِ تخصیص تومتجدد ہے جس کو مؤثر سے غنی ٰ نہیں، اور تمام مذکور حضرات یہ کہیں کہ اختیاری سے ہماری مراد یہ ہے کہ وہ مختار سے یا اختیار پر صادر ہواگرچہ وہ اختیار اختیاری نہ ہو، تو ہم کہیں گے کہ یہ بات اگرچہ اشعری کے اس قول کے لئے دافع ہوجائیگی کہ بندے کا فعل اضطراری ہے، لیکن قیامت کے روز گناہوں پر جواب طلبی کے وقت بندے کی اس حجت، کہ میں نے گناہ کے فعل کی تخلیق نہ کی صرف قصد کیا، اور میرا قصداختیار ی بھی نہ تھا تو گناہ میرا کیسے ہوگیا، کا جواب کیسے بنے گا تو خلاصی نہ ہوئی،
واعلم ان الکلام ھٰھنا ینجر الی حویصۃ اخری امر وادھی، لاتنحل بانامل الافکار الابتوفیق العزیز الغفار ولعصوبۃ ھذاسکت عنہ مثل السید الشریف فی موضعین من شرح المواقف والتزم مصیبتہ البحر فی الفواتح والعیاذ باﷲ تعالٰی وتتبعت کلمات المتکلمین والاصولیین من جمیع مظان ھذا البحث الیھا فاجمتعت لی منھا ثمانیۃ اجوبۃ لاغناء فی شیئ  منھا ثم المولٰی سبحٰنہ وتعالٰی فتح بفضلہ وھدانی للجواب الحق کما اوردت کل ذٰلک فی رسالتی ''تحبیرالحبر بقصم الجبر۱۳۲۹ھ'' التی الفتھا بعد ورود ھذاالاستفتاء قبل ان انھی الجواب عنہ فنکل ھذاالبحث قبل ان انھی الجواب عنہ فنکل ھذا البحث الیھا ونفیض فیما کنا فیہ فنقول لھم تبین ان ما زعمتم ان الحاجۃ تندفع بہ فماحملکم علٰی تخصیص النصوص، وانت تعلم ان ھذاکما یکفی للرد علی المحقق رحمہ اﷲ تعالٰی کذٰلک لرد کل مایدعی العبد خالقالہ من فعل اوعزم اوغیر ذٰلک للخلاص من ھذہ الورطۃ الظلماء،فان الکلام یجری فی الکل، ولایزال یتسلسل الابالانھاء الی الالجاء، وھذامانقل فی شرح المقاصد وغیرہ عن المحققین ان المال ھوالجبر فثبت بالبرھان اسناد خلق شیئ  ماالی العبد مع کونہ مخالفاً للقراٰن العظیم والاجماع القدیم والدین القویم لایسمن ولایغنی من جوع، فوجب حمل کلام اﷲ تعالٰی علٰی عمومہ والایمان بان لاخالق الااﷲ تعالٰی، ثم البداھۃ شاھدۃ بالفرق بین البشروالحجر فلاجبر ولاتفویض ولکن امربین امرین، ولایلزم للعلم بحقیقۃ شیئ  العلم بحقیقتہ کما بینتہ فی ''ثلج الصدر لایمان القدر'' وھذا ھوالعلم الموروث عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ومن رام فوقہ فانما یروم خرط القتاد۔
اور معلوم ہونا چاہئے کہ یہاں کلام ایک نئی مشکل میں پڑگیا ہے جو مشکل ترین ہے اوراﷲ تعالٰی العزیز الغفار کی توفیق کے بغیر افکار کے ذریعہ حل نہیں ہوسکتی بحث کی اس صعوبت کی بناء پر سید شریف نے شرح المواقف کے دو مقام پر خاموشی اختیارکرلی، اوربحرالعلوم نے فواتح میں اس کو مصیبت تسلیم کیا ہے، والعیاذ باﷲ تعالٰی، اس معاملہ میں متکلمین اوراصولیین کے مواقعِ بحث کی میں نے چھان بین کی تو مجھے وہاں سے آٹھ جواب ملے جن سے کوئی تسلی بخش اطمینان نہ ملا، پھر مولٰی تعالٰی نے اپنے فضل اور رہنمائی سے حق جواب کا راستہ کھول دیا، جیسا کہ میں نے اس تمام بحث کو اپنے رسالہ''تجبیر الحبر بقصم الجبر'' میں لایا ہوں، اس رسالہ کو میں نے اس استفتا کے ورود کے بعد اور اس کے جواب کو مکمل کرنے سے قبل تالیف کیا ہے ،تو میں اس بحث کو اس کے سپرد کرتا ہوں اور اپنی جاری کلام میں چل رہا ہوں،تو ہم ان سےگزارش کررہے ہیں کہ واضح ہوچکا ہے کہ تمہاری مجبوری والی حاجت اس سے ختم ہوگئی ہے تو پھر کس لئے تم نصوص کی تخصیص کررہے ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ جس طرح یہ بیان محقق رحمہ اﷲ تعالٰی کے رد کےلئے کافی ہے اسی طرح ان تمام لوگوں کے رد کے لئے کافی ہے جو بندے کو فعل یا عز م وغیرہ کیلئے خالق ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں اور اس اندھیری نگری سے خلاصی دینے کے لئے کافی ہے کیونکہ یہ کلام تمام لوگوں کے موقف پر جاری ہوتا ہے اور یہ سلسلہ کلام جاری رہے گا تاوقتیکہ جبر تک انتہا نہ ہوجائے، اور یہی کچھ ہے جو شرح المقاصد وغیرہ میں محققین سے منقول ہے کہ بالآخر معاملہ جبر پر ختم ہوتا ہے، تو برہان سے ثابت ہوگیا ہے کہ بندے کی طرف کسی چیز کے خلق کو منسوب کرنا باوجود یکہ، قرآن قدیم، اجماع اور دین قویم کے مخالف ہے، نہ کسی طرح مفید ہے اور نہ ہی کسی حاجت میں کار آمد ہے، تو ضروری ہے کہ اﷲ تعالٰی کے کلام کو اس کے عموم پر محمول کیا جائے اور اﷲ تعالٰی کے سواکسی کے خالق نہ ہونے پر ایمان رکھاجائے، پھر بداہت اس بات پر شاہد ہے کہ بشر اورحجر میں فرق ہے لہذا جبر کا قول نہ کیا جائے اور نہ ہی تفویض کی بات کی جائے بلکہ ان دونوں کے درمیان معاملہ ہے،اور کسی چیز کے حق ہونے کے علم سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی حقیقت کا علم ہوجائے جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ''ثلج الصدر لایمان بالقدر''میں بیان کیا ہے یہی وہ علم ہےجو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے وراثت میں ملا ہے اور جو شخص اس سے زائد کا متلاشی ہے وہ ناممکن کا متلاشی ہے۔.
Flag Counter