فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر) |
وبالجملۃ لاتنافی بین کونہ مقدوراﷲ تعالٰی ومقدورالعبد باقدارہ حتی یقال لم یکن للعبد شیئ وایضاً لایلزم من کونھا مقدورۃ للعبد الاعتزال لانھم یقولون بخالقیۃ العبد والخلق افاضۃ الوجود والحال غیر موجود ھذا، ولیعلم انی لاارید بالدفاع عن ھذاالقول ان اقول بہ انما اقول انی لااعلم مایردہ من نص اواجماع وقد رأوا ان ھٰھنا ثلٰثۃ اشیاء حال بین عینین ارادۃ العبد وفعلہ وتعلقھا بہ فان لم یکن للعبد مدخل فی شیئ من ذٰلک خرج من البین قطعًا وھوالجبر حقاکما لازم بہ الحنفیۃ الاشعریۃ بل قدنصت الاشاعرۃ انفسھم فی بحث عقلیۃ الحسن والقبح ان فعل العبد اضطراری غیراختیار فوجب ان لایوصف بحسن ولاقبح عقلا، ونص الامام ابوالحسن الاشعری ان العبد محل الفعل فحسب وصرح کبراء الاشاعرۃ کالامام الفخر والعلامۃ سعدالدین فی اٰخرین ان الماٰل ھوالجبر وان العبد مجبور فی صورۃ مختار وتبعھم القاری فی منح الروض فجعلہ الانصاف، ومن المعلوم قطعًا اجماعًا وسمعًا ان لیس للعبد شیئ من الایجاد فارادتہ کقولہ لیست الاخلق ربہ تبارک وتعالٰی فلم یبق الاالتعلق المسمی بالقصد فقالواھذامااقدرہ علیہ ربہ ولیس من الخلق فی شیئ کما عرفت، فھذا نزاع ساداتنا الحنفیۃ فی ھذاالباب اماانا فکما ذکرت فی الفیوض الملکیۃ تعلیقات کتابی الدولۃ المکیۃ لست ممن یخوض فی ھذاوانما ایمانی وﷲ الحمد ماثبت بالقراٰن واجمع علیہ الفریقان، شھدت بہ البداھۃ وادی الیہ البرھان، ان لاجبرولاتفویض ولکن امربین امرین، (وسرت اسرد فیہ الکلام الٰی ان قلت) فالتکلیف حق، والجزاء حق، والحکم عدل، والاعتراض کفر، والاستبداد ضلال، والتحجرجنون، والجنون فنون، ولاحجۃ لاحد علی اﷲ تعالٰی مھما فعل وﷲ الحجۃ البالغۃ، لایسئل عما یفعل وھم یسئلون، فھٰذاایماننا ولانزید علیہ وان سئلنا عما ورائہ قلنا لاندری ولاکلفنا بہ ولانخوض بحرا لانقدر علی سباحتہ نسأل اﷲ الثبات علی دین الحق وسذا جتہ، والحمد ﷲ رب العٰلمین۱؎اھ۔
خلاصہ یہ کہ اﷲ تعالٰی کے مقدور اور اﷲ تعالٰی کے قادربننے پر بندے کے مقدور، میں کوئی منافات نہیں تاکہ یہ کہا جائے کہ بندے کی کوئی قدرت نہیں، نیز فعل کا اﷲ تعالٰی کی قدرت سے بندے کا مقدور ہوجانے سے اعتزال بھی لازم نہ آئے گا، کیونکہ معتزلہ بندے کی خالقیت کا قول کرتے ہیں، جبکہ خلق وجود عطا کرنے کا نام ہے حالانکہ حال(قصد) موجود نہیں ہوتا، اسے محفوظ کرو۔ معلوم ہونا چاہئے کہ حال(قصد) میں بندے کی تاثیر والے قول کے دفاع سے میرا مقصد یہ نہیں کہ میں اس کا قائل ہوں، میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اس قول کے رد میں کوئی نص یا اجماع میرے علم میں نہیں ہے، جبکہ ان کے خیال میں یہاں تین امور ہیں، بندے کے فعل اوراس کے ارادے کے درمیان ایک حال اور بندے کے ارادے کا اس سے تعلق ان تینوں امور میں اگر بندے کا کوئی دخل نہیں تو بندہ بالکل الگ تھلگ رہا تو یہ قطعاً جبر ہے جس کا اشعری حنفی لوگ الزام دیتے ہیں، بلکہ اشاعرہ نے حسن وقبح کے عقلی ہونے کی بحث میں خود تصریح کی ہے کہ بندے کا فعل اضطراری غیر ارادی ہے تو وہ کیسے حسن وقبح سے عقلاً موصوف ہوسکتا ہے، امام ابوالحسن اشعری نے یہ تصریح کی ہے کہ بندہ تو صرف فعل کا محل ہے اور بس، اور امام فخر الدین اور علامہ سعدالدین جیسے بڑے اشاعرہ نے آخری دور میں تصریح کی ہے کہ نتیجۃً جبرلازم ہے اور بندہ مختار کی صورت میں مجبور ہے اور ملا علی قاری نے منح الروض میں ان کی اتباع کرتے ہوئے اسی کو انصاف قرار دیا ہے، اور یہ بات قطعاً اجماعی اور سماعی طور پر معلوم ہے کہ بندے کوایجاد میں کوئی دخل نہیں ہے تو اس کا ارادہ اس کے قول کی طرح صرف اور صرف اﷲ تعالٰی کی مخلوق ہے اب صرف ارادے کا فعل سے تعلق باقی ہے جس کو قصد کا نام دیا جاتا ہے تو اس کے لئے انہوں نے کہا ہے کہ اس پر اﷲ تعالٰی نے بندے کو قادر فرمایا ہے اور یہ قصد کسی شئے کے خلق میں دخیل نہیں ہے جیسا کہ تو معلوم کرچکا ہے تو اس باب میں ہمارے سادات احناف کا یہ نزاع ہے ۔ لیکن میرا معاملہ تو وہ ہے جو میں نے اپنی کتاب الدولۃ المکیہ کے حاشیہ الفیوض الملکیہ میں ذکر کردیا ہے کہ میں اس گہرائی میں نہیں پڑتا، میرا توصرف وہ ایمان ہے(وﷲ الحمد) جس کو قرآن نے ثابت کیا، جس پر دونوں فریق متفق ہیں ، جس پر بداہت شاہد ہے اور جس پر دلیل و برہان نے آگاہی دی ہے کہ نہ جبر ہے نہ تفویض ہے بلکہ ان دونوں چیزوں کے بین بین ایک امر ہے، میں نے اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے آخر میں یہ کہا کہ تکلیف حق ہے، جزاء حق ہے اورحکم عدل اور انکار کفر ہے، بندہ کو مستقل بنانا گمراہی ہے اور اس کو پتھر بنانا جنون ہے اور جنون کئی قسم ہے اور اﷲتعالٰی جو کرتا ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، کامل حجت اﷲ تعالٰی کی ہے وہ جو کرے اس پر اعتراض نہیں، لوگ جو کریں ان سے پوچھ ہوگی، پس ہمارا تو یہ ایمان ہے اور بس، اس سے زائد کوئی ہم سے سوال کرے تو کہہ دیں گے، کہ ہم نہیں جانتے اور نہ ہم اس کے مکلف ہیں، ہم اس سمندر میں غوطہ زن نہ ہونگے جس میں تیراکی نہیں کرسکتے، ہم تو اﷲ تعالٰی سے اس کے دین پر ثابت قدمی اور سادہ فہمی کی دعا کرتے ہیں والحمدﷲ رب العالمین اھ
(۱؎ الفیوضا ت الملکیۃ تعلیقات الدولۃ المکیۃ مطبعۃ اہل السنۃ والجماعت بریلی ص۲۲)
وثالثاً الخلق لغۃ وعرفا وشرعا ھوالایجاد بالاختیار، قال تعالٰی
الایعلم من خلق۲؎،
فافادان العلم لازم للخلق وذٰلک ھوالایجاد بالقصد فان الموجب لایجب ان یعلم الموجب من جھۃ کونہ موجبا وان علم علمہ من جھۃ اخری واما ما نوزع فیہ بان الدلالۃ بالتتمۃ
وھو اللطیف الخبیر۱؎،
فاقول کونہ لطیفا خبیرا کاف فلولم یکف للخالقیۃ لکان اقحام من خلق مستدرکا، علی انہ قد تواتر من القراء الوقف علی من خلق فھی جملۃ مستقلۃ ولا توقف لھا علی مابعدھا والحق ان الکل دلیل مستقل، فلوکان قصدنا بخلقنا لکان بقصد نا وکل احد یعلم من وجدانہ انمایرید الفعل لاانہ یرید ان یرید ثم یرید۔
وثالثاً الخلق لغۃ وعرفا وشرعا ھوالایجاد بالاختیار، قال تعالٰی الایعلم من خلق۲؎، فافادان العلم لازم للخلق وذٰلک ھوالایجاد بالقصد فان الموجب لایجب ان یعلم الموجب من جھۃ کونہ موجبا وان علم علمہ من جھۃ اخری واما ما نوزع فیہ بان الدلالۃ بالتتمۃ وھو اللطیف الخبیر۱؎، فاقول کونہ لطیفا خبیرا کاف فلولم یکف للخالقیۃ لکان اقحام من خلق مستدرکا، علی انہ قد تواتر من القراء الوقف علی من خلق فھی جملۃ مستقلۃ ولا توقف لھا علی مابعدھا والحق ان الکل دلیل مستقل، فلوکان قصدنا بخلقنا لکان بقصد نا وکل احد یعلم من وجدانہ انمایرید الفعل لاانہ یرید ان یرید ثم یرید۔ ثالثاً لغت، عرف اور شرع میں خلق کا معنٰی ''اختیار سے کسی چیز کو ایجاد کرنا'' ہے، اﷲ تعالٰی کا ارشاد ہے الایعلم من خلق یعنی کیا تخلیق کرنے والا علم نہیں رکھتا، تو اس آیہ کریمہ نے یہ فائدہ دیا کہ خلق کو علم لازم ہے جبکہ یہی ایجاد بالقصد ہے، اس کے برخلاف موجب کے لئے ضروری نہیں کہ وہ موجب ہونے کی حیثیت سے موجب کوجانے، اگر وہ اسے جانے گا تو دوری جہت سے جانے گا اور یہ نزاع کہ علم پر اس آیہ کریمہ کا تتمہ دلالت کررہا ہے تو میں کہتا ہوں کہ اﷲ تعالٰی کا لطیف و خبیر ہونا خالقیت کے لئے کافی ہے اور اگر یہ خالقیت کیلئے کافی نہ ہوتو پھر اس آیہ کریمہ کے درمیان''من خلق'' کا ذکر زائد قرار پائے گا، اس کے علاوہ قراء حضرات کا'' من خلق'' پر وقت تواترسے منقول ہے لہذا یہ مستقل جملہ ہے جس کا معنٰی مابعد پر موقوف نہیں ہے، اور حق تو یہ کہ یہ دونوں جملے خالق کے عالم ہونے پر مستقل دلیل ہیں تواگر ہمارا قصد ہمارے خلق سے ہو تو وہ بھی ہمارے قصد سے ہوگا اور ہر ایک اپنے وجدان سے جانتا ہے کہ یہ فعل کا قصد اور ارادہ ہے نہ کہ یہ ارادے کا ارادہ ہے اور پھر اس ارادے کےلئے ارادہ کرنا ہوگا(تو اگر یہ قصدوارادہ فعل کیلئے نہ ہوبلکہ ارادے کےلئے ہوتو یوں ارادہ در ارادہ سے تسلسل لازم آئے گا)
(۲؎ القرآن الکریم ۶۷/ ۱۴) (۱؎ القرآن الکریم ۶۷ /۱۴)
ورابعاً، لایخالف ملأ حتی المعتزلی ان الارادۃ الکلیۃ فینا لیس بخلقنا بل خلق ربنا خالق القول والقدر، فلا یکون لنا ان کان الاالقصد الجزئی۔
رابعاً، کوئی گروہ حتی کہ معتزلہ حضرات بھی اس بات سے انکاری نہیں ہیں کہ ہمارا کلی ارادہ ہمارا خلق نہیں ہے بلکہ یہ ارادہ کلیہ ہم میں اﷲ تعالٰی کا خلق ہے، اور ہمارا رب خالق قول اورخالق قدرہے، تو یہ ارادہ کلیہ ہمارا خلق نہیں، اگر ہمارا ہے توصرف جزئی ارادہ ہے۔
اقول ولیست کلیۃ الارادۃ المخلوقۃ فی عبدانھا نوع تحتہ افراد بل ھی صفۃ شخصیۃ قائمۃ بشخص وانما کلیتھا بمعنی الاطلاق عن التعلقات فکلما تعلقت بمقدور معین سمیت جزئیۃ، فما القصد الجزئی الاخصوص تعلق تلک الصفۃ الشخصیۃ بفعل شخصی والتعلق امراضافی لاوجودلہ فی الاعیان فان اسند الی العبد لم یکن فی شیئ من الخلق فلم عدلتم عن قول الحنیفۃ وملتم الی تخصیص النصوص۔
اقول (میں کہتا ہوں) بندے میں پیدا شدہ ارادہ اس معنی میں کلیہ نہیں کہ اس کے تحت کئی افراد ہوں بلکہ یہ ایک صفت ہے جو شخصی ہے اور ایک شخص سے قائم ہے، اس ارادے کی کلیت اس معنی میں ہے کہ یہ ارادہ تمام تعلقات سے خالی ہے توجب اس کا تعلق کسی جزئی اور معین مقدور سے ہوتا ہے تو وہی ارادہ جزئی کہلاتا ہے لہذا جزئی قصد وارادہ صرف اسی معنٰی میں ہے کہ اس شخصی صفت کا شخصی فعل سے خصوصی تعلق ہوتا ہے جبکہ یہ تعلق ایک نسبت و اضافت ہے جس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے، لہذا اگر اس قصد جزئی کوبندے کی طرف منسوب کیا جائے تو کسی بھی چیز کا خلق نہ ہوگا(کیونکہ یہ خاص تعلق ہے جس کا کوئی وجودنہیں ہے)تو آپ حضرات نے کس خاطر احناف رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے قول سے اعراض کیا اور کیوں نصوص میں تخصیص کا تکلف کیا۔