Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
94 - 150
اقول ماذکرمن ان الصفۃاثرقدرۃ العبدحق بلامریۃلکن لاعلی الوجہ الذی قررالمصنّف بل الامران المولٰی تعالٰی اجری سنتہ بان العبداذاارادفعلایخلقہ اﷲ تعالٰی فیہ فالارادۃبخلق اﷲ تعالٰی والفعل بخلق اﷲتعالٰی ولیس للعبدمن الخلق شیئ  لکن کون الفعل ارادیایتوقف علی ارادۃالعبدتوقفاعقلیاقطعیااذلوخلق اﷲفیہ الفعل من دون ان یخلق فیہ ارادۃ لہ لکان کحرکۃالحجربالتحریک فلم یکن ارادیا والفعل لایکون طاعۃ ولامعصیۃالا اذاکان ارادیافھذہ الصفۃ للفعل لاتحصل الابارادتناای لکونہ مصحوبا لارادۃ خلقھااﷲتعالٰی فیناولولاذٰلک لم یکن طاعۃ ولامعصیۃ قطعًا،ثمّ انیّ رأیت المحقق ذکرفی التحریراماالحنفیۃ فالکسب صرف القدرۃالمخلوقۃ الی القصدالمصمم فاثرھا فی القصد ویخلق سبحٰنہ الفعل عندہ بالعادۃ فان کان القصد حالا غیر موجود و لا معد وم فلیس بخلق وعلیہ جمع من المحققین وعلٰی نفیہ فکذٰلک (ای لیس الکسب بخلق ایضا) علٰی ما قیل (ای قول صدر الشریعۃ) الخلق یقع بہ المقدورلامحل فی القدرۃ و یصح انفراد القادر با یجاد المقدور والکسب یقع بہ فی محلھا ولا یصح انفرادہ با یجادہ ولو بطلت ھٰذہ التفرقۃ ( بین الخلق و الکسب)علٰی تعذرہ ( ای بطلانھا) وجب تخصیص القصد المصمم من عمو م الخلق بالعقل اھ ۱؎ باختصار، مزیدامابین الھلا لین من شرحہ التقریر والتحبیر لتلمیذہ المحقق ابن امیر حاج رحمھما اﷲتعالٰی فقد ابان البون البین بین مابحثہ فی المسایرۃ وبین ماذھب الیہ الا مام القاضی وظھر ت بحمد اﷲتعالٰی منہ علیّ فائدۃ نفسیۃ وھوانی کنت کتبت علی المسایرۃ قبل ھذا بنحو اربع سنین ما نصہ نرجوان المصنف رحمہ اﷲتعالٰی رجع عنہ اذلم یذکرہ فی فکذٰلک ما یعتقدہ الا ما علیہ اھل السنۃ کما سیأ تی و نر جوان المولٰی سبحٰنہ وتعالٰی جعل ھذہ الزلۃالواحدۃوان عظمت مغمورۃ فیما اولاہ من بحارالحسنات الجمیلۃ ونسأل اﷲالثبات علی الحق وھدایۃ الصواب فی کل باب وصلی اﷲتعالٰی علٰی سیدنامحمدواٰلہ وسلم ابدًااٰمین۱؎اھ،
اقول(میں کہتا ہوں ) قاضی کا یہ کہنا کہ فعل کی صفت بندے کی قدرت کا اثر ہے بلا شک یہ حق ہے لیکن اس طورپر نہیں جس طرح مصنّف نے اس کی تقریر کی بلکہ معاملہ یُوں ہے کہ اللہ تعالٰی کی یہ سنت جاریہ ہے کہ بندہ جب کسی فعل کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے ارادہ پر فعل کی تخلیق فرماتا ہے لہذا ارادہ اور فعل دونوں اللہ تعالٰی کی مخلوق ہوئے اور بندے کا خلق میں کسی قسم کا کوئی دخل نہیں ہوتا لیکن کسی فعل کے ارادی ہونے کا دار و مدار بندے کے ارادے پر ہے یہ دار و مدار عقلی اور قطعی ہے کیونکہ اگر اللہ تعالٰی بندے کے ارادہ کے بغیر فعل کی اس میں تخلیق کر دے تو پھر یُوں ہُوا جیسے پتھر کو حرکت دی جائے تو وہ حرکت کرتا ہے، تو اس طرح فعل نہ ارادی ہو گا نہ طاعت و معصیت ہو گا،یہ جبھی ممکن ہے وُہ فعل ارادی ہو تو فعل کی یہ صفت ہمارے ارادے سے حاصل ہُوئی ، یعنی یہ صفت اللہ تعالٰی کی طرف سے ارادہ کی تخلیق کے ساتھ حاصل ہُوئی ، اگر یہ نہ ہو تو وہ فعل قطعًا طاعت و معصیت نہ بنے گا۔ پھر میں نے محقق ابن ہمام کو تحریر میں یہ ذکر کرتے ہوئے پایا کہ حنفی حضرات کے ہاں کسب یہ ہے کہ مخلوق قدرت کو مصمم قصد کے لئے صرف کرنا اس مخلوق قدرت کا اثر قصد میں ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس وقت اپنی عادت کریمہ کے مطابق فعل کو پیدا فرماتاہے تو اگر قصد صرف ایسا حال ہو جو نہ معدوم اور نہ موجود ہو تو مخلوق نہ بنے گا۔ قصد کے مخلوق نہ ہونے اور اس کے حال ہونے کی نفی محققین کی ایک جماعت کا موقف ہے اوریُوں ہی کسب بھی مخلوق نہیں ہے ایک قول کے مطابق یعنی صدر الشریعہ کے قول پرکہ خلق سے مقدور کا وجود محل قدرت کے بغیر ہوتا ہے اور اس میں قادر کا مقدور کے ایجاد میں منفرد ہونا صحیح ہوتا ہے اور کسب سے مقدور کا وجود محل قدرت (قصد) کے ذریہ ہوتا ہے اور اس کے بغیر ایجاد میں منفرد ہونا صحیح نہیں ہوتا ، اور اگر ( خلق اورکسب کا یہ فرق) باطل ہو جائے جبکہ یہ فرق متعذر ہے یعنی یہ فرق باطل ہے، تو پھر عموم خلق میں سے قصد مصمم کی تخصیص ضروری ہو گی اھ اختصارَا، اور ہلا لین میں اسکی شرح التقریر والتحبیر سے اضافہ ہے، یہ شرح ان کے شاگرد محقق ابن امیر الحاج ( رحمہا اللہ تعالٰی) کی ہے ،تو انھوں نے اپنی مسایرہ کی بحث اور امام قاضی کے مذہب میں واضح فرق کر دیا ہے اور میرے لئے بحمد اللہ تعالٰی یہاں ایک نفیس فائدہ ظاہر ہُوا، وہ یہ کہ میں نے مسایرہ پر چار سال قبل حاشیہ لکھا تھا جس کی عبارت یہ ہے، ہمیں امید ہے کہ مصنف رحمہ اللہ تعالٰی نے اسی سے رجوع کر لیا ہو گا کیونکہ انھوں نے تشبیہ ( فکذٰلک)(میں اپنا عقیدہ ذکر کئے بغیر صرف اہلسنت کا موقف ذکر فرمایا ہے، کما سیأتی اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالٰی ان کی اس ایک خطا کو(اگرچہ یہ گراں ہے) انکو عطا کردہ نیکیوں کے دریاؤں میں غوطہ زن کر دے گا اور ہم اللہ تعالٰی سے ثابت قدمی کے سائل ہیں کہ وہ ہمیں ہر معاملہ میں حق اور صواب کی رہنمائی فرمائے و صلی اللہ تعالٰی علٰی حبیبہ محمد وآلہ و سلم ابدًا، آمین ، اھ۔
 (۱؎ التحریر فی اصول الفقہ     الباب الاول     الفصل الثانی فی الحکم     مصطفی البابی مصر ص ۲۲۸)

(۱؎ حاشیہ اعلٰیحضرت علی المسایرۃ)
فبحمد اﷲ تعالٰی قدحقق اﷲ رجائی وظھررجوع المحقق عن اختیارما بحثہ،اذعلقہ ھٰھناعلٰی تعذرالتفرقۃبین الخلق والکسب وصرح ببطلان التعذر فاذا بطل المبنی وجب تھدم البناء وﷲ الحمدوتصنیف التحریرمتأخرعن تالیف المسایرۃکمالاتخفی علٰی من طالعہ وذٰلک قولہ تعالٰی
یثبت اﷲالذین اٰمنوا بالقول الثابت فی الحٰیوۃ الدنیا والاٰ خرۃ ۲؎
والحمد ﷲربّ العٰلمین، اماّ ما اورد الشیخ القزوینی علی الامام ابی بکر الباقلانی کما نقلہ فی الیواقیت لامام الشعرانی مقرا علیہ انہ یقال لہ ھذہ الحال مقدورۃ ﷲتعالٰی ام لا علی الثانی لا محالۃ تکون مقدورۃ للعبد وھو مذھب المعتزلۃ بعینہ وعلی الا ول لم یکن للعبد شیئ  البتۃ و ذٰلک ھو مذھب الجبر یۃ بعینہ فلا فائدۃ لتمسک بالحال۱؎اھ باختصار۔
اللہ تعالٰی کا شکر ہے کہ اس نے میر ی امید کو پُورا فرمادیا اور محقق مذکور نے اپنی بحث کو مختار قرار دینے سے رجوع فرمالیا جب انھوں نے خلق اور کسب میں فرق کے متعذر ہونے پر حاشیہ لکھ کر اس تعذر کو باطل قرار دیا، تو جب مبنٰی باطل ہو گیا تو اس پر بنی ہوئی عمارت بھی گر گئی، وللہ الحمد، اور انکی کتاب التحریر مسایرہ سے بعد کی تصنیف ہے جیسا کہ مطالعہ کرنے والے پر مخفی نہیں ہے،اور یہ اللہ تعالٰی کے ارشاد کہ '' اللہ تعالٰی ایمان و الوں کو دُنیا و آخرت میں حق پر ثابت قدمی عطا فرماتا ہے'' کا مظہر ہے' الحمد للہ رب العالمین ، لیکن شیخ قزوینی کا اما م ابو بکر باقلانی پر وہ اعتراض جس کو امام شعرانی نے یوا قیت میں نقل کرکے ثابت رکھا یعنی اس حال (قصد) کے متعلق ان سے سوال کیا گیا کہ یہ ا للہ تعالٰی کا مقدور ہے یا نہیں، اور اگر نہیں، توپھر لا محالہ یہ بند ے کا مقدور ہو گا جبکہ معتزلہ کابعینہ یہی مذہب ہے اور اوّل صورت یعنی اگر اللہ تعالٰی کا مقدور ہے تو پھر بندے کےلئے کچھ مقدور نہ ہُوا جبکہ یہ بعینہ جبریہ کا مذہب ہے، لہذا حال کا سہارا لینا بیکار ہوا اھ اختصارًا
 (۲؎ القرآن الکریم ۱۴ / ۲۷)

(۱؎ الیواقیت والجواہر    المبحث الرابع والعشرون الخ    مصطفی البابی مصر    ۱ /۱۴۰)
اقول و تلک شکاۃ ظاھر عنک عارھا، ولما یتراأی ظاھر ان ھٰذا سوال عام الورود لا محیص عنہ لشیئ من الاقوال فشان من اثبت للقدرۃ الحادثۃ تا ثیرا مافی شیئ  من عین اوحال فیقال لہ کما قلتم فان قال ان ذلک الشیئ  لیس مقدوراﷲتعالٰی فھوالاعتزال اوقال مقدور لہ فلم یبق للعبد شیئ  وھو الجبر ومن لم یثبت کسا دتنا الا شعریۃ فقد افصح بالشق الا خیر من الاول فیقال اذن لا شیئ  للعبد البتۃ فھو الجبر بعینہ و ذٰلک لا نہ انما یر ید انکم لجأ تم الٰی ھٰذا نفیا للجبر فاذااعترفتم انہ واقع بقدرۃ اﷲتعالٰی لا بقدرۃ العبد لا ستحالۃ اجتماع مؤثرین علٰی اثر فقد انتفٰی الملجأ ولزم القرار علٰی ما منہ الفرار فالمعنی ھو الجبر بعینہ عند کم بل لما اقول یختار انہ مقدور اﷲتعالٰی بل و مرادہ ایضا لکن ارادان یر ید العبد فیکون فلا جبر ولا اعتزال والٰی منحی ھذا ینحو مافی المسایرۃ غایۃ مافیہ انہ تعالٰی قدرہ علی بعض مقدوراتہ تعالٰی کما انہ اعلمنا بعض معلوماتہ سبحٰنہ تفضلا۱؎الخ
اقول(میں کہتا ہوں) یہ ایسی شکایت ہے جس کی عار آپ کی طرف سے ظاہر ، اورظاہراً نظر آرہا ہے کہ یہ سوال عام الورود ہے اس سے کسی قول کو بھی چھٹکارا نہیں ہے،تو جو بھی حادث قدرت کےلئے کسی قسم کی تاثیر کسی عین چیز یا حال میں ثابت کرے گاتو اس پر تمھارا یہی اعتراض وارد ہو گا کہ اگر یہ چیز اللہ تعالٰی کا مقدور نہیں تو اعتزال لازم آئے گا ، اور اگر اللہ تعالٰی کامقدور ہو تو پھر بندے کا کچھ دخل نہ رہا، تو یہ جبر ہے، اور جو لوگ اس قدرت کے لئے کوئی تاثیر ثابت نہ مانیں جیسا کہ ہمارے سادات اشعریہ کا موقف ہے تو ان پر پہلی دو۲ شقوں میں سے دوسری شق والا اعتراض ہو گا کہ بندے کی کوئی تاثیر نہیں تو یہ بعینہ جبر ہے، بندے کے لئے تاثیر نہ ماننے والوں کی مراد یہ ہے کہ بندے کی تا ثیر ماننے والوں کو اس بات پر جبر کی نفی کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا، تو ان سے کہا جائےگا کہ تم نے بندے کی تاثیر ماننے کے باوجود جب یہ اعتراف کر لیا کہ اللہ تعالٰی کی قدرت سے بندے کا فعل ہوتا ہے اور بندے کی قدرت سے نہیں کیونکہ ایک اثر کے لئے دو موثر محال ہیں تو اس سے تمھار امقصد(یعنی جبر کی نفی) فوت ہو گیا اور جس سے فرار تھا اسی پر قرار ہُوا، یہی فعل کا اللہ تعالٰی کی قدرت سے ہونا تمھارے ہاں بعینہ جبر ہے، تو کوئی قول بھی مذکورہ اعتراض سے نہ بچ سکے گا بلکہ یہ اعتراض ختم ہوگا تو میرے اس قول سے ہوگا کہ بندے کا فعل اﷲ تعالٰی کا مقدور ہے بلکہ اسکی مراد بھی ہے لیکن اﷲ تعالٰی ارادہ فرماتا ہے کہ بندہ اس فعل کا ارادہ کرے تو پایا جائے، تواس طرح نہ جبر لازم آیااور نہ ہی اعتزال ہوا میرے کلام کے انداز پر ہی مسایرہ کا یہ بیان ہے، اس میں انتہائی قابل اعتراض بات یہ ہوگی کہ اﷲ تعالٰی نے اپنے بعض مقدورات پر بندے کو قادر بنادیا(جبکہ واقع میں ایسا ہے) جیسے اﷲ تعالٰی اپنے بعض معلومات کا ہمیں علم دیتا ہے اور یہ اس کا فضل ہے الخ،
 (۱؎ المسایرۃ متن المسامرۃ     العلم بانہ تعالٰی لاخالق سواہ     المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص۱۸۔۱۱۷)
Flag Counter