فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر) |
اقول ولکن العجب کل العجب من العلامۃ بحرالعلوم الکنوی عفااﷲتعالٰی عنا وعنہ جنح فی الفواتح الٰی مافی المسایرۃ مع تصریحہ فیھاقبلہ باسطربما نصہ (وما فھموا) ادی المعتزلۃ بل ھٰؤلاء الجھلۃ ایضا ( ان الامکان لیس من شانہ افاضۃ الوجود) فان من ھو فی نفسہ باطل الذات محتاج فی الواقعیۃ الی الغیروکَل (عہ) علی مولا ہ کیف یقدرعلٰی ایجادالافعال من غیراختلال بالنظام الاجود ، وھذاظاھر لمن لہ اقل حدس من اصحاب العنایۃ الالٰھیۃ، لکن من لم یجعل اﷲ لہ نورفمالہ من نور(وعند اھل الحق) اصحاب العنایۃ الذین ھم اھل السنۃ الباذلون انفسھم فی سبیل اﷲ بالجھادالاکبر(لہ قدرۃکاسبۃ) فقط لا خالقۃ ۱؎ الخ فکیف رضی مع ھذابان جعل الممکن الباطل الذات خالقا لعزائمہ مع ان قول التاثیرفی امر اعتباری کان بمرأی عینیہ و قد کان بینہ ھو بنفسہ علی وجہ کاف و لم یتعقبہ فان کان مختاراولا بدفکان اختیار ماعلیہ جمع من المحققین ولبس فیہ مخالفۃ نص ولا اجماع وھو اولٰی واحری ولکن اﷲ یفعل مایرید ھذا وتلمیذالمحقق العلامۃ الکمال بن ابی شریف وان سایر ھٰھنا شیخہ رحمھما اﷲتعالٰی لکنہ اشار بعدہ الٰی ان ھذا خلاف ما علیہ اھل السنۃ حیث قال فی المسامرۃعندقول المصنف قد منا ان للمکلف اختیار ااوعزما یصمم مانصہ (اختیارا) علٰی ما علیہ اھل السنۃ (اوعزما) علٰی مااختارہ المصنف ۱؎ اھ و تلمیذہ الاٰخرالعلامۃ الذین بن قطلوبغافی تعلیقہ علی المسایرۃ لم یرض بہ من اول الامروقال للطریق الذی سلکہ المصنف انہ المرضی عندہ الرفع للجبرفلم یندفع بہ سأنبہ علیہ ثم اوردطریقا اختارہ العلامۃالفناری فی الفصول واقرہ ومحصلہ ھو التاثیر فی الا عتباری ولو لاغرابۃ المقام لاوردتہ مع ما یرد علیہ،
(۱؎ فواتح الرحموت بذیل المستصفی فائدہ فی تحقیق صدو رالافعال الخ منشورا ت الشریف الرضی قم ایران ۱/ ۴۰ و ۴۱) (۱؎ المسامرۃ شرح المسایرۃ فعل العبدالخ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص ۱۴۳)
اقول(میں کہتا ہُوں ) لیکن تعجب ہے کہ علامہ بحرالعلوم لکھنوی (ہمیں اور انھیں اللہ تعالٰی معاف فرمائے) نے فواتح میں مسایرہ میں مذکور کی طرف میلان فرمایا،حالانکہ انھوں نے خود فواتح میں چند سطر قبل ازیں تصریح کی ہے جس کی عبارت یُوں ہے کہ(ومافھموا)یعنی معتزلہ اور ان جاہلوں نے بھی نہ سمجھا کہ (ممکن کی یہ شان نہیں کہ وُہ وجود عطا کرے)کیونکہ جو چیز فی نفسہ اپنی ذات میں باطل اور اپنے وجود میں غیر کی محتاج ہو اور اپنے مالک پر بوجھ قرار پائے، وُہ بہترین نظام عالم میں خلل انداز ہوکر افعال کو کیسے ایجاد کر سکتی ہے اور یہ حقیقت ہر اس شخص پر عیاں ہے جس کو اللہ تعالٰی کی طرف سے عنایت پر معمولی سی سمجھ ہے، لیکن جس کو اللہ تعالٰی نورِ علم نہ عطا فرمائے اس کو نور کیسے نصیب ہو سکتا ہے ( اور اہل حق کے ہاں) یعنی اللہ تعالٰی کی عنایت والے لوگ وُہ اہل سنت و جماعت ہیں جو اللہ تعالٰی کے راستے میں جہاد اکبر کرتے ہُوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ( بندہ کو صرف قدرت کا سبہ حاصل ہے) نہ کہ قدرت خالقہ الخ، تو اس تصریح کے باوجود انھوں نے ممکن باطل الذات کو کیسے اپنے عزائم کا خالق کہہ دیا حالانکہ انکا مطمح نظر یہ ہے کہ بندے کی تاثیر صرف اعتباری چیز میں ہوتی ہے اس کو انھوں نے خود کافی تفصیل سے بیان کیا اور پھر اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، اگر یہی ان کا مختار ہے اور ہونا بھی ضروری ہے تو یہ تمام محققین کا اجماعی مختار ہے اور اس میں نہ کسی نص کی مخالفت ہے نہ اجماع کی، یہی مناسب اور اولی ہے، لیکن اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتاہے اسے محفوظ کرو، ار محقق مذکور کے شاگرد علامہ کمال بن ابی شریف اگر چہ یہاں انھوں نے اپنے شیخ کی موافقت کی ہے لیکن اس کے بعد انھوں نے اشارہ دیاکہ یہ بات اہلسنّت کے مسلک کے خلاف ہے، جہاں انھوں نے مسامرہ میں مصنّف کے قول (کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ مکلف کو اختیار یا عزم صمیم حاصل ہے ) پر کہاجس کی عبارت یوں ہے(اختیار حاصل ہے)جیسا کہ اہلسنّت کا مؤقف ہے ( یا عزم صمیم حاصل ہے) جیسا کہ مصنف نے خود پسند کیا اھ، اور محقق مذکور کے دوسرے شاگرد ( علامہ زین بن قطلوبغا مسایرہ پر اپنی تعلیقات میں ابتداَہی اپنے استاذ کے موقف پر راضی نہ ہوئے اور یوں کہاجس راستہ پر مصنف چلے وہ انکا اپنا پسندیدہ ہے اور وہ جبر کو ختم کرنے کےلئے کہاجبکہ اس سے جبر مند فع نہ ہوا میں اس پر عنقریب تنبیہ لاؤں گا، اس کے بعد انھوں نے علامہ فناری کا راستہ اپنایا جس کو انھوں نے فصول میں بیان کرکے اس پر ثابت قدم رہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بندے کی تاثیرا عتباری چیزمیں ہوتی ہے، اگر یہ مقام غرابت کا حامل نہ ہوتا تو میں اس کو اور اس پر اعتراض کو ذکر کرتا،
عہ: استعملہ بمعنی المحتاج وانماھو بمعنی التقیل واﷲ متعال ان یکون احد کلا علیہ ۱۲ منہ۔
کَل''کالفظ انھوں نے یہاں محتاج کے معنٰی میں استعمال کیا ہے اور اس کا معنٰی بوجھ ہے جبکہ اللہ تعالٰی اس سے پاک ہے کہ کوئی اس پر بوجھ بنے ۱۲ منہ (ت)
اقول وبما ذکرنا ظھران الفرق بین ما سارہ فی المسایرۃ وماقضٰی بہ القاضی کالفرق بین الغرب والشرق فماقال فی المسامرۃان حاصل کلام المصنف رحمہ اﷲ تعالٰی تعویل علٰی مذھب القاضی الباقلانی ۱؎ الخ وتبعہ علی القاری فی منح الروض الا زھرفقال مااختارہ ھوقول الباقلانی من ائمۃ اھل السنۃ ۲؎ الخ فھما لا وجہ لہ نعم انما وافقہ فی لفظ وھوانہ یکون منسوباًالیہ تعالٰی من حیث ھوحرکۃ والی العبد من حیث ھوزنا ونحوہ وقال القاضی قدرۃ اﷲتعالٰی تتعلق باصل الفعل ، وقدرۃ العبد بوصفہ من کونہ طاعۃ اومعصیۃ ،فمتعلق تاثیرالقدرتین مختلف کمافی لطم الیتیم تادیباوایذاء فان ذات اللطم واقعۃ بقدرۃاﷲتعالٰی وتاثیرہ، وکونہ طاعۃ علی الاول ومعصیۃعلی الثانی بقدرۃالعبدوتاثیرہ لتعلق ذٰلک بعزمہ المصمم۳؎ اھ فانماالاشتراک فی نسبۃ صفۃالفعل الٰی تاثیرقدرۃالعبد واین ماادعی المحقق من خلقہ عزمہ۔
اقول (میں کہتا ہُوں ) ہمارے ذکر کردہ سے مسایرہ کی روش اور قاضی باقلانی کے فیصلہ میں فرق واضح ہو گیا یہ مغرب و مشرق جیسا فرق ہے، مسامرہ میں جو کہا کہ مصنّف رحمہ اللہ تعالٰی کے کلام کا ماحصل قاضی باقلانی کے مذہب پر اظہار اعتماد ہے الخ، اور ملا علی قاری نے منح الروض الازہر میں اس کی اتباع کرتے ہوئے کہا کہ مصنّف نے جسے اختیار کیا وُہ اہلسنّت کے ایک امام قاضی باقلانی کا قول ہے الخ، حالانکہ ان دونوں کی بات میں کوئی وزن نہیں ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ فعل سے دو ۲ قسم کی تا ثیروں کے تعلق میں دونوں کا لفظی اشتراک ہے، مصنّف نے کہا کہ فعل حرکت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالٰی کی طرف منسوب ہے اور مثلاَزنا وغیرہ ہونے کے اعتبار سے بندے کی طرف منسوب ہے اور قاضی نے فرمایا اللہ تعالٰی کی قدرت کا تعلق اصل فعل سے ہے اور بندے کی قدرت کا تعلق فعل کی صفت کہ طاعت یا معصیت ہونے سے ہے تو دونوں قدرتوں کی تا ثیر کا تعلق مختلف ہے، جیسا کہ یتیم بچے کو تھپّڑ مارنا تربیت اور ایذا بھی ہوتا ہے تو تھپڑ کالگنا اللہ تعالٰی کی قدرت اور تا ثیر سے ہوتا ہے اور طاعت کے لحاظ سے نیکی اور اذیت کے لحاظ سے گناہ ہونا یہ بندے کی قدرت اور تا ثیر سے ہے جو اس کے عزم مصمم کے تعلق کی وجہ سے ہُوئی اھ، تو یہاں اشتراک صرف فعل کی صفت کو بندے کی قدرت کی طرف منسوب کرنے میں ہے جبکہ محقق مذکور کا یہ دعوٰی کہ بندہ اپنے عزم کا خالق ہے ، وہ کہاں ہے۔
(۱؎ المسامرۃ العلم بانہ تعالٰی لا خالق سواہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص ۱۴۳) (۲؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر افعال العبد کسبہم الخ مصطفی البابی مصر ص ۵۲) (۳؎منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر افعال العبد کسبہم الخ مصطفی البابی مصر ص ۵۲)