Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
92 - 150
قال محشیہ الفا ضل محمد الد سوقی اشاربھذاالٰی ثلٰثۃ اقوال نقلت عن اھل السنۃ قول القاضی بتا ثیر قدرۃ العبد فی حال الفعل و قول الاستاذالا سفر ائنی تو ثر فی اعتبار لا ن الا ستاذ لایقول بالا حوال و قول امام الحرمین فی ذات الفعل علٰی وفق مشیئۃ الرب وھذہ الا قوال غیرصحیحۃ لمخالفتھا لا جماع السلف الصالح فان قلت کیف یصح من ھٰؤ لاء الا ئمۃ مخالفۃ الاجماع قلت قال فی شرح الکبری لا یصح نسبتھا لھم بل ھی مکذوبۃ عنھم ولئن صحت فانما قالوہ فی مناظرۃ مع المعتزلۃ جرالیھا الجدل اھ ۲؎ ملخصاً۔
اس کے محشی فاضل محمد دسوقی نے یہاں کہا کہ انھوں نے بعض ناقلین کہہ کر تین اقوال کی طرف اشارہ کیا ہے جو اہلسنت و جماعت کی طرف منسوب ہیں جن میں ایک قاضی کا قول ہے کہ بندے کی قدرت فعل کے حال میں تاثیر کرتی ہے اور دوسرا قول استاذاسفرائنی کا ہے کہ بندے کی قدرت اعتبار میں مؤثر ہے، کیونکہ یہ استاذ احوال کے قائل نہیں، اور تیسراقول امام الحرمین کا ہے کہ بندے کی قدرت کی تاثیر نفسِ فعل میں اللہ تعالٰی کی مشیت کے مطابق ہوتی ہے ، یہ تینوں اقوال نادرست ہیں کیونکہ یہ سلف صالحین کے اجماع کے خلاف ہیں۔ اگر یہ اعتراض ہو کہ ان ائمہ کرام کے اقوال اجماع کے خلاف کیونکر صادر ہوئے ، تو اس کے جواب میں مَیں کہتا ہوں کہ شرح کبرٰی میں فرمایا کہ ان اقوال کی نسبت ان ائمہ کی طرف درست نہیں ہے بلکہ یہ ان پر جھوٹ کہا گیا ہے اور اگر یہ نسبت درست بھی ہو تو انھوں نے یہ بات معتزلہ کے ساتھ مناظرہ میں بطور ارخاء عنان کہی ہے اھ ملخصا۔
 (۲؎ حاشیہ شرح ام البراہین للفاضل الدسوقی)
اقول اما مخالفۃ مانقل عن ابی المعالی للا جماع فظا ھر و قد صح خلافہ کما ستسمع اما قول امام اھل السنۃ الباقلانی والاستاذ الا مام ابی اسحٰق علی مانقل ھٰھنا فلیس فیہ رائحۃ خلاف ما اسقر علیہ الا جماع والا تفاق لما علمت انہ لیس فی شیئ  من الا یجاد والتکوین علی الا طلاق و قال العلامۃ فی شرح المقاصد المشہورفیما بین القوم والمذکور فی کتبھم ان مذھب امام الحرمین ان فعل العبد واقع بقدرتہ وارادتہ کما ھور أی الحکما ء وھذا خلاف ما صرح بہ الامام فیما وقع الینا من کتبہ قال فی الا رشاد اتفق ائمۃ السلف قبل ظھور البدع والا ھواء علی ان الخالق ھواﷲ ولا خالق سواہ ان الحوادث کلھا حدثت بقدرۃ اﷲ تعالٰی من غیر فرق بین ما یتعلق قدرۃ العبادبہ و بین ما یتعلق فان تعلق الصفۃ بشیئ  لا یستلزم تا ثیر ھا فیہ کالعلم بالمعلوم والا رادۃ (عہ) بفعل الغیرفا لقدرۃ الحادثۃ لا تؤ ثرفی مقدورھااصلا و اتفقت المعتزلۃ ومن تابعہم من اھل الزیغ  علٰی ان العبادموجدون لافعالھم مخترعون لھابقدرتھم ثم المتقدمون منھم کانوا یمنعون من تسمیۃ العبد خالقالقرب عھد ھھم باجماع السلف علٰی انہ لا خالق الااﷲتعالٰی واجترأ المتأ خرون فسموا العبد خالقا علی الحقیقۃ ھذا کلامہ ثم اورد ادلۃ الاصحاب واجاب عن شبہ المعتزلۃ وبالغ فی الردعلیھم وعلی الجبریۃ واثبت للعبد کسبا وقدرۃ مقارنۃ للفعل غیر مؤثرفیہ ۱؎ اھ فھذا اصرح نص علی ان معتقدہ رحمہ اﷲتعالٰی ھواھل السنۃ سواء بسواء فلم یبق احد تسایرہ المسایرۃ،
 (۱؎ شرح المقاصد  الفصل الخامس فی افعال البحث   الا ول فعل العبد الخ دارا لمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۱۲۶)
اقول(میں کہتا ہوں) ابو المعالی سے جو منقول ہے اس کا اجماع کے مخالف ہونا ظاہر ہے حالانکہ ان سے اس کا خلاف صحیح ثابت ہے جیسا کہ عنقریب آپ سنیں گے، لیکن امام اہلسنت باقلانی اور استا ذ امام ابو اسحٰق اسفرائنی سے جو یہاں ان کے اقوال نقل کئے گئے ہیں اس میں اجماع اور اتفاق کے خلاف بُو تک بھی نہیں ہے کیونکہ انکے کلام میں ایجاد و تکوین کے متعلق علی الا طلاق کوئی بات نہیں ہے، اور شرح مقاصد میں علّامہ نے فرمایا کہ قوم میں مشہور اور ان کی کُتب میں مذکور ہے کہ امام الحرمین کا مذہب یہ ہے کہ بندے کا فعل اس کی اپنی قدرت اور ارادہ سے واقع ہوتا ہے جیسا کہ حکماء کی رائے ہے ، حالانکہ یہ بات امام کی اس تصریح کے خلاف ہے جو انھوں نے اپنی ان کتب میں کی ہے، جو ہمارے پاس پہنچی ہیں انھوں نے ارشاد میں فرمایا کہ بد عات و گمراہی کے ظہور سے قبل ائمہ سلف کاا تفاق ہے کہ خالق صرف اللہ تعالٰی ہے اس کے سو ا کوئی خالق نہیں ہے اور تمام حوادث کا وجو د اللہ تعالٰی کی قدرت سے ہوتا ہے خواہ ان کے ساتھ بندوں کی قدرت کا تعلق ہو یا نہ ہو ان میں کوئی فرق نہیں،کیونکہ کسی چیز کے ساتھ صفت کے تعلق سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس صفت کی تاثیر اس چیز میں پائی جائے جیسا کہ علم کا تعلق معلوم سے اور ارادہ کا تعلق غیر کے فعل سے ہوتا ہے تو قدرت حادثہ اپنی مقدورات میں ہر گز مؤ ثر نہیں ہوتی جبکہ معتزلہ اور انکے متبعین گمراہ حضرات اس پر متفق ہیں کہ بندے اپنے فعال کے موجد ہیں اورا پنی قدرت سے ان کو سرزد کرتے ہیں پھر معتزلہ کے متقدمین حضرات اجماع سلف سے قریب زمانہ کی بنا پر بندے پر خالق کا اطلاق نہ کرتے تھے اور لا خالق الا اللہ پر اجماع کے خلاف قول نہ کرتے اور انکے متاخرین نے جرأت کرتے ہوئے بندے پر حقیقی خالق کا اطلاق شروع کر دیا، امام نے اپنے اس کلام کے بعد معتزلہ کے دلائل کا رَد اور ان کے شبہات کا جواب دیا انھوں نے ان کا اور جبریہ کا خُوب رَد فرمایا اور یہ ثابت کیا کہ بندے کا صرف کسب ہوتا ہے اور فعل کے مقارن اس کو ایک قسم کی قدرت حاصل ہوتی ہے جو کہ غیر مؤثر ہوتی ہے اھ، تو ان کیطرف سے یہ واضح نص ہے کہ انکا عقیدہ وہی ہے جو اہلسنت کا عقیدہ ہے اور کوئی فرق نہیں ہے تو مسایرہ کی راہ چلنے والا کوئی بھی نہ ہُوا،
عہ: اقول ارادۃ فعل الغیر وان لم تکن من الا ر ادۃ المبحوث عنھا اعنی صفۃ من شانھا تخصیص احد المقدورین کما لا یخفی بل بمعنی المحبۃ والھوی لکنہ یر یدا الا ستیضا ح بصفا ت اخرٰی الا ترٰ ی انہ ذکر العلم ثم التقیید الفعل الغیر لیکون اوضح واظھر والا فارادۃ فعل نفسہ ایضا غیر مؤ ثرۃ فی الفعل انما شانھا التخصیص والتاثیر شان القدرۃ کما نص علیہ فی المسا یرۃ غیرانہ یتجہ لھم الجواب بان الکلام فی القدرۃ ولیس من شانھا الا التاثیر عند تعلق الا رادۃ ا ما العلم والا رادۃ فبمعزل عن التاثیر وکانہ لھذا عدل عنہ الامام حجۃ الاسلام فی قواعد العقائد فاستند بنفس القدرۃ اذ یقول ولیس من ضرورۃ تعلق القدرۃ بالمقدوران یکون بالا ختراع فقط، اذ قدرہ اﷲ تعالٰی فی الا زل قد کانت متعلقۃ با لعالم ولم یکن الاختراع حاصلا بھا وھی عندالا ختراع متعلقۃ بہ نو عا اٰخر من التعلق فیہ فبطل ان القدرۃ تختص بایجاد المقدر اھ ۱؎ وانت تعلم ان القدرۃ انما تؤ ثر علی وفق الارادۃ وانما تعلقت الارادۃ فی الازل ان توجدالکائنات فی اوقاتھاالمخصوصۃ فیمالایزال فلانسلم ان القدرۃتعلقت مع العراء عن الاختراع بل اثرت واختراعت علی و فق الارادۃ اماھٰھنا فتعلق بلا تاثیراصلافلم تکن الااسمابلامسمی ولفظا بلا معنی وھذاما حصل ماناقشہ بہ فی المسایرۃ۔
اقول(میں کہتا ہوں۔ت) غیر کے فعل کا ارادہ وُہ ارادہ نہیں جو زیر بحث ہے یعنی وُہ صفت جو مقدورین میں سے ایک کو خاص کرے، یہ مراد نہیں کمالا یخفی بلکہ یہاں بمعنٰی محبت اور خواہش کے ہے، دوسری صفت کے ذکر سے ان کا مقصد صرف وضاحت کرنا ، آپ غو رنہیں کرتے کہ انھوں نے صفتِ علم ذکر کی اور پھر ارادہ کو غیر کے فعل سے مقید کیا تاکہ زیادہ وضاحت و اظہار ہوسکے، ورنہ تو اپنے فعل کا ارادہ بھی غیر مؤثر ہوتا ہے جس کی شان صرف تخصیص کرنا ہے جبکہ تاثیر صرف قدرت کی شان ہوتی ہے جیسا کہ اس پر مسایرہ میں نص کی گئی ہے، علا وہ ازیں وہ معتزلہ کو جواب دے رہے ہیں کہ بحث قدرت میں ہو رہی ہے جو صرف اس وقت تاثیر کرتی ہے جب ارادہ کا تعلق ہو،لیکن محض علم اور ارادہ کا تاثیر میں کوئی دخل نہیں ہے،گویا کہ اسی لئے امام حجۃ الاسلام نے اس انداز کو تبدیل کرتے ہُوئے قواعد العقائد میں نفس قدرت کو دلیل میں اختیار کیا جب انھوں نے فرمایا کہ مقدور کے ساتھ قدرت کے تعلق کو یہ لازم نہیں ہے کہ وہ تعلق صرف ایجاد و اختراع کے لئے ہو کیونکہ ازل میں اللہ تعالٰی کی قدرت کا تعلق تمام عالم سے ہُوا حالانکہ اس وقت اختراع و ایجاد اس تعلق سے نہ ہُوا جبکہ اختراع کے وقت ایک اور تعلق ہُوا تو اس سے یہ کہنا باطل ٹھہرا کہ قدرت صرف ایجاد مقدِر سے مختص ہے اھ ، آپ جانتے ہیں کہ قدرت کی تا ثیرارادہ کے موافق ہوتی ہے تو ازل میں اس ارادہ کا تعلق ہوا کہ کائنات اپنے مخصوص اوقات میں یعنی لا یزال میں موجود ہو، اس لئے ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ قدرت کا تعلق اختراع سے خالی ہو سکتا ہے بلکہ قدرت ارادہ کے موافق تاثیر کرتی ہے اور اختراع کرتی ہے، لیکن یہاں بند ے کے معاملہ میں قدرت کا تعلق ہر گز تاثیر کے لئے معنٰی نہیں، مسایرہ میں جو مناقشہ بیان کیا ہے یہ اس کا ماحصل ہے۔
 (۱؎ احیاء العلوم کتاب قواعد العقائد    الفصل الثالث مطبعۃ المشہد الحسینی قاہرہ    ۱/ ۱۱۱)
اقول ولا اری ھذہ العقدۃتنفک الاباحدامرین الاول لیست القدرۃماتؤثرحتماولامع الارادۃولامحیدعنہ للمعتزلۃ ایضا الاترٰی ان الکفرۃبذلواجھدھم فی ایذاء النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وھموابمالم ینالوا ورداﷲالذین کفروابغیظھم فانّما القدرۃ صفۃمن شانھا التاثیروتؤثرمع الارادۃ لولامانع وقدقال فی المسامرۃشرح المسایرۃاعلم ان الاشعریۃلاینفون عن القدرۃالحادثۃ الا التا ثیربالفعل لا بالقوۃ لان القدرۃالحادثۃعندھم صفۃشانھا التأثیروالایجادولکن تخلف اثرھا فی افعال العبادلمانع ھوتعلق قدرۃاﷲتعالٰی بایجادھا، کما حقق فی شرح المقاصدوغیرہ اھ۱؎قلت وصرح بہ الامدی ثم رأیت فی شرح المقاصدمن بحث القدرۃ الحادثۃ من مقصدالاعراض نسبہ لہ ولم یأت بتحقیق یزیدعلی مامر،
اقول(میں کہتاہُوں) اور یہ عقدہ میری رائے میں صرف دوامور میں سے ایک کے ساتھ حل ہو گا، اوّل یہ کہ کوئی بھی قدرت اگرچہ ارادہ کے ساتھ بھی ہو حتمی طور پر موثر نہیں ہے اور معتزلہ کو بھی اس سے فرار نہیں ہے،کیاآپ نہیں دیکھتےکہ کفار نے حضورنبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایذارسانی میں مکمل جدوجہد کی اور پورا عزم کیا جو حاصل نہ کر پائے اور اللہ تعالٰی نے کفار کے غیظ و غضب کو مردود کر دیا ، لہذا قدرت ایک ایسی صفت ہے جس کی شان صرف تاثیر کرنا ہے اوروُہ ارادہ کے ساتھ تاثیر کرتی ہے بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو، چنانچہ مسامرہ شرح مسایرہ میں کہا ہے کہ اشعری حضرات قدرت حادثہ کی تاثیر بالفعل کی نفی کرتے ہیں اس کی بالقوۃ تاثیر کی نفی نہیں کرتے ،کیونکہ ان کے ہاں حادث قدرت ایسی صفت ہے جس کی شان تاثیرکرنا ہے لیکن بندوں کے افعال میں اس کا اثر اس لئے نہیں ہوتا کہ وہاں مانع موجود ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی قدرت کا تعلق جو ان کے افعال کے ایجاد میں مؤثر ہے، کا موجود ہونا ، جیسا کہ شرح مقاصد وغیرہ میں اس کی تحقیق ہے اھ قلت(میں کہتا ہوں) اس بیان کی تصریح آمد ی نے کی ہے  پھر میں نے شرح مقاصد کی بحث قدرت حادثہ جو اعراض کے مقصد میں ہے،اس بحث کو ان کی طرف منسوب پایا جس میں گزشتہ تحقیق سے کچھ زائد نہیں ہے،
(۱؎ المسامرۃشرح المسایرۃ    العلم بانہ تعالٰی لا خالق سواہ     المکتبۃ التجاریۃا لکبرٰی مصر ص ۱۱۲)
اقول وفیہ حزازۃ والقلب لا یطمئن بہ ولا یسکن الیہ والالکان کل حیوان ولواخس مایکون واضعہ قادراعلٰی الخلق والایجاد وان لم یتفق لہ ذٰلک لعروض مانع وھوسبقۃالخلق الالٰھی وماذاتفعل الاشاعرۃالاقدمون ح بدلیلھم ان لوقدر العبدعلی فعلہ لقدرعلی خلق الاجسام والجواھر اذلامصحح سوی الحدوث والامکان وھمامشترکان افتراھم قائلین ان کل انسان وحیوان حتی الخناس والدیدان یقدرعلٰی خلق السمٰوٰت والارض وان لم یقع لھم لسبقۃخلق اﷲتعالٰی،وقدنص الاشعریۃان لیس للعبدمن الفعل الاالمحلیۃ فتدبروا نصف، والثانی ان الحادثۃ تحدث ولا تخلق وکفی بہ تاثیرا وھذاھوالذی حمل الحنفیۃ والقاضی والاستادوجمعامن المحققین علی القول بان للحادثۃتاثیرافیمادون الوجودوالحق ان العقل لایستقل بادارک تلک الحقائق فنؤمن بما اتی بہ القراٰن وشہدت بہ الضرورۃ وادی الیہ البرھان ان الفرق بین الانسان والحجروبین حرکتی البطش والارتعاش والصعود والھبوط والوثبۃ والسقوط بدیھی، وان لیس للانسان الاماسعی ولان لاخالق لشیئ  الا العلی الاعلی وان لامشیئۃ للانسان الابمشیئۃاﷲتعالٰی ولانزید علی ھذاولانقتحم بحرا لانقدرعلٰی سباحتہ و اﷲ الھادی۱۲منہ۔
اقول(میں کہتا ہوں) اس میں خلش ہے اور دل کو اطمینان و سکون ا س سے حاصل نہ ہوسکا، ورنہ تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہر انسان بلکہ خسیس ترین اور ضعیف ترین حیوان بھی خلق و ایجاد پر قادر ہوجائے اگرچہ اس کو مانع کی وجہ سے اتفاق نہ ہو سکے اوروہ مانع اللہ تعالٰی کی تخلیق کاپہلے موجود ہونا ہے، اور اشاعرہ متقدمین اس وقت اپنی اس دلیل کو کیسے بیان کریں گے کہ اگر بندہ اپنے فعل پر قادر ہو تو پھر وُہ اجسام و جواہر کے خلق پر بھی قادر ہو گا کیونکہ فعل اور اجسام دونوں حدوث وامکان میں مساوی طور پر مشترک ہیں اور یہی حدوث و امکان ہی خلق و ایجاد کی صحت کا معیار ہیں تو کیا اشعریہ کو اس بات کا قائل تصور کرو گے کہ ہر انسان اور حیوان حتٰی کہ کیڑے مکوڑے زمین و آسمان کی تخلیق پر قادر ہیں اگر چہ اس تخلیق کا ان کو اتفاق نہ ہوا کہ اللہ تعالٰی کا خلق پہلے موجود ہے حالانکہ اشعریہ کی صریح نص ہے کہ فعل میں بندے کا دخل صرف محلیۃ کا ہے، تو غور اور انصاف کرو۔ دوسرا یہ کہ قدرت حادثہ صرف حدوث کر سکتی ہے خلق نہیں کر سکتی اس کے لئے اتنی تا ثیر ہی کافی ہے، یہی وُہ حقیقت ہے جس نے احناف قاضی، استاذ ار محققین کی جماعت کو اس قول پر مجبور کیا کہ حادث قدرت کی تاثیر ہے لیکن وجود کے لئے مؤثر نہیں ہے، حق تو یہ ہے کہ ان حقائق کے ادراک میں عقل کو استقلال نہیں ہے لہذا قرآن کے بیان کردہ اور بداہت کی شہادت اور جہاں تک دلائل کی رسائی ہے کہ انسان اور پتھر ، ارادی اور رعشہ کی حرکتوں، اٹھنے اور کوُدنے ، گرنے اوراترنے میں بدیہی فرق پر ہم ایمان رکھیں اور انسان کے بس میں صرف سعی کرنا ہے اور اللہ تعالٰی کے بغیر کسی چیز کا کوئی خالق نہیں اور انسان کی مشیئت اللہ تعالٰی کی مشیئت کے تابع ہے ، پر پختہ یقین کریں اور اس پر مزید کوئی بات نہ کریں، اور ایسے سمندر میں چھلانگ نہ لگائیں جس میں تیرنے کی ہمیں قدرت نہیں ہے اور اللہ تعالٰی ہی ہدایت دینے والا ہے ۱۲ منہ (ت)
Flag Counter