Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
91 - 150
اقول ھذا من اعجب ما تسمع من الرد فابن الھما م متی انکر د خولہ تحت العام ولو انکرہ فما کان یحوجہ الی التخصیص بل النظر فیہ بما ستسمع بتو فیق اﷲتعالٰی،
اقول(میں کہتا ہُوں) تیری شنید میں یہ پسندیدہ رَد ہے، تو علّامہ ابن ھمام نے عزم کو کب آیات کے عموم میں داخل ہونے سے انکار کیا ہے، اگر انکار کیا ہوتا تو پھر تخصیص کی ان کو ضرورت پیش نہ آتی ، بلکہ ا س میں قابل غور وُہ بات ہے جو آپ ابھی اللہ تعالٰی کی تو فیق سے سُنیں گے،
فاقول اولا بل الاٰ یات عمومات لا تحتمل التخصیص لا جماع ائمۃ السنۃ علٰی اجرائھا علٰی سنتھا وان الخلق مختص باﷲ تعالٰی لا حظ فیہ للعبد فما ذاینفع کون اللفظ فی ذاتہ محتملا للخصوص مع الا جماع علٰی ان لا خصوص و من کان فی ریب مما قلنا فلیأ تنا بنقل من الصحا بۃ والتا بعین اومن بعد ھم من ائمۃ السنۃ المتقدمین قبل حدوث ھٰؤلا المتأ خرین یکون فیہ ان للعبد ایضا قسطا من الخلق والا یجاد ولن یاتی بہ حتی بوب القار ظان ویمکن التکلف بارجاع ماللقاری الٰی ھذا ای الا جماع قائم علٰی عدم التخصیص فذلک العز م ایضا غیر مخرج من الحکم۔
فاقول(تو میں کہتا ہُوں) اولاَکہ یہ آیا ت اپنے عموم پر ہیں ان میں کسی تخصیـص کا احتمال نہیں کہ اہلسنّت کے ائمہ کا اجماع ہے کہ یہ آیات اپنے عمومی اقتضاء پر جاری ہیں اور یہ کہ خلق کی صفت صرف اللہ تعالٰی سے خاص ہے اس میں بندے کا کوئی دخل نہیں ہے،تو لفظ کافی نفسہ محتمل تخصیص ہونا کیا مفید ہو سکتاہے جبکہ اجماع یہ ہے کہ یہاں تخصیص نہیں ہے، اور اگر ہمارے اس بیان میں کسی کو شک ہو تو اسے چاہئے کہ وُہ صحابہ کرام ، تابعین اور ان کے بعد والے متقدمین ائمہ اہلسنّت میں سے کوئی نقل پیش کرےجس میں یہ ہو کہ بندے کے لئے کبھی خلق و ایجاد میں دخل ہے ان سے قبل کسی امام سے کوئی نقل پیش نہیں کی جا سکتی حتی کہ قارظان واپس لوٹ آئیں، اور علامہ قاری کی کلام کوتکلف سے اسی عدم تخصیص کے اجماع کی طرف راجع کیا جائے گا کہ یہ عزم صمیم بھی ان آیات کے عموم سے خارج نہیں ہے۔
ثانیا : لا حاجۃ بنا الٰی تخصیص النصوص و اثبات منصب افاضۃ الوجود لمن لا وجود لہ فی حد ذاتہ بل تندفع الحاجۃ علٰی وزان ماتز عمون اندفاعھاھٰھنا باثبات تا ثیر القدرۃ الحادثۃ فی شیئ  دون الوجود کما ھو مذھب الا مام ابی بکر الباقلانی اناللانسان قدرۃ مؤثرۃ لکن لا فی الوجود بل فی حال زائدۃ علی الوجود وقد ارتضاہ جمع من المحققین ذاھبین الی ان تا ثیر ھا فی القصد والقصد حال لا موجود ولا معدوم ای ھو من الامور الا عتبار یۃ التی وجو دھا بمنا شیھا والخلٰف فی الحال لفظی کما فی الفصول البد ائع وغیرھا ، فلیس افاضتھا خلقا فانہ افاضۃ الوجو د بل ھو احداث والا حداث اھون من الخلق کما فی المسلم وفواتح وعلیہ تد ور کلمات الامام المحقق صدر الشریعۃ فی التو ضیح والعلامۃ الشمس الفناری فی الفصول البدائع و تبعہ العلامۃ قاسم تلمیذ المحقق ابن الھما م فی تعلیقاتہ علی المسایرۃ وغیرھم رحمھم اﷲ تعالٰی وھم مع تنو ع مناز عھم یر جعون الٰی ذلک الحرف الواحد ولم ار احد منھم یر ضی بتخصیص العمومات ، اللھم الا ماحکی عن الامام ابی المعالی علی الاضطر اب فیہ فتارۃ یثبتہ و تا رۃ ینفیہ کما فی الیواقیت عن الشیخ ابی طاھر القزوینی بل الکلام فی ثبوتہ عنہ کما سیأتی، والمنقول عن الحنفیۃفی کتب المتا  خرین ھو ھذا القد راعنی ان للقدرۃ الحادثۃ اثرا فی القصد ا ما انہ خلق وایجاد او النصوص مخصصۃ فکلا لا یو جد ھذا الا للمحقق و قد قال الا ما م صدر الشریعۃ فی التو ضیح بعد ما استفرغ و سعہ فی التو ضیح والتنقیح فالحاصل ان مشایخنا ر حمھم اﷲ تعالٰی ینفون عن العبد قدرۃ الا یجاد والتکوین فلا خالق ولا مکون الا اﷲ تعالٰی لکن یقولون ان للعبد قدرۃ ماعلی وجہ لا یلزم منہ وجود امر حقیقی لم یکن بل انما یختلف بقدرتہ النسب والا ضافات فقط کتعین احد المتسا ویین و ترجیحہ ۱؂اھ فھذا نص صریح فی ان مذھب الحنفیۃ علی خلاف ما بحث المحقق ولو لا نسحب الکلام علٰی منوال الا لتزا م لقلت انہ ابداہ نقضا علی القدریۃ اللئام بانہ لو سلم ان الحاجۃ الٰی تصحیح التکلیف والجزاء تؤ دی الٰی ذٰلک ولا بد فھی تندفع بشیئ  واحد وھو القصد  فلم قلتم فی جمیع الافعال بخالقیۃ العبد ، ولعمری ھذا قاطع لھم لا یمکنھم الخروج عنہ۔ ھذاوقال الامام محمد السنوسی رحمہ اﷲ تعالٰی فی شرح ام البراھین مقدمتہ فی التوحید وبالجملۃ فلیعلم ان الکائنات کلھا یستحیل منھا الاختراع لا ثر ما، بل جمیعھا مخلوق لمو لٰنا جل و عز و مفتقر الیہ اشد الا فتقار ابتداء ودوا ما بلا واسطۃ فبھذاشھدالبرھان العقلی و دل علیہ الکتاب والسنۃ واجماع السلف الصالح قبل ظہور البدع ، ولا تصغ باذ نیک لما ینقلہ بعض من اولع ینقل الغث والسمین عن مذھب بعض اھل السنۃ مما یخالف ما ذکرنا ہ لک فشد یدک علٰی ما ذکر نا ہ فھو الحق الذی لا شک فیہ ولا یصح غیرہ واقطع تشرفک الی سماع الباطل تعش سعیدا و تمت ان شا ء اﷲ تعالٰی طیبا رشیدا واﷲ المستعان ۱؎ اھ،
ثانیا: ہمیں ان نصوص کے عموم میں تخصیص کرنے اور ایجاد کا منصب ایسی ذات کے لئے ثابت کرنے کی حاجت نہیں جس کا اپنا وجود ذاتی نہیں ہے بلکہ بندے کے مجبور محض کو دفع کرنے کی حاجت ان کے اس اندفاع سے پُوری ہو جاتی ہے جس کو انھوں نے اپنے خیال میں اند فاع قرار دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالٰی کی قدرت کی تا ثیر کے بعد بندے کی نئی تاثیر کا تعلق وجود میں نہیں بلکہ اور چیز میں ہے جیسا کہ امام ابو بکر با قلانی کا مذہب ہے، کہ انسان کی قدرت مؤثر ہے لیکن وجود میں نہیں بلکہ وجود سے زائد ایک حال میں ہے جس کو بہت سے محققین نے پسند کرتے ہوئے کہا کہ انسان کی تا ثیر کا تعلق قصد سے ہے اور یہ قصد ایک حال ہے جو نہ موجود  ہے اور نہ معدوم ہے یعنی وہ ایک ایسی اعتباری چیز ہے جس کا و جود صرف اس کے منشاء کے تابع ہے اور اس حال میں اختلاف صرف لفظی جیسا کہ الفصول البدائع وغیرہ میں ہے تو اس قصد کو بروئے کار لانا بطور خلق نہیں ہوتابلکہ خلق اور وجود کا فیضان ہے جس کو احداث کہاجاتاہے اور احداث کی شان خلق سے کمزور ہے جیسا کہ مسلم الثبوت اور فواتح میں ہے اور امام محقق صدرالشریعۃ کا تو ضیح اور علامہ شمس فناری کا الفصول البدائع میں کلا م اسی پر دائر ہے، اور علامہ قاسم شاگردرشید محقق ابن ہمام نے مسایرہ پر اپنی تعلیقات میں اس کی اتباع کی ہے اور مذکور حضرات کے غیر رحمہم اللہ تعالٰی باوجودیکہ وُہ اپنے اپنے بیان میں مختلف ہیں وہ سب اس ایک بات پر متفق ہیں، میں نے اس میں سے کسی کو بھی عمومات میں تخصیص پر راضی نہیں پایا، صرف امام ابو المعالی سے اس میں اضطراب منقول ہے کہ کبھی وہ تخصیص کوثابت اور کبھی اسکی نفی کرتے ہیں جیسا کہ یواقیت میں شیخ ابو طاہر قزوینی سےمنقول ہے بلکہ ان سے  ثبوت میں کلا م ہے جیسا کہ آرہا ہے ،اور متأخرین کی کتب میں جو کچھ احناف سے منقول ہے وُہ صرف یہ ہے کہ انسان کی قدرت حادثہ کا اثر قصد میں ہے لیکن یہ کہ وُہ خلق و ایجاد ہے یا آیات میں تخصیص ہے اس کاہر گز کہیں وجود نہیں، ہاں صرف محقق مذکور نے ذکر کیا ہے جبکہ امام صدر الشریعۃ نے توضیح میں مکمل تو ضیح و تنقیح سے فراغت کے بعد فرمایا ، کہ حاصل یہ ہے کہ ہمارے مشائخ رحمہم اللہ تعالٰی بندے کی قدرت  خلق و ایجاد اور تکوین کی نفی کرتے ہیں لہذا اللہ تعالٰی کے ماسوا کوئی خالق اور مکّون نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وُہ بندے کی قدرت کے اس طرح قائل ہیں کہ اس سے کسی معدوم چیز کے  حقیقی وجود کا قول لازم نہ آئے بلکہ انسانی قدرت سے صرف نسبت و اضافت تبدیل ہوتی ہے مثلَا دو مساوی چیزوں میں سے ایک کا تعین اور ترجیح ہو جائے اھ تو یہ صریح نص ہے کہ احناف کا مسلک محقق مذکور کی بحث کے خلاف ہے ، اگر محقق مذکور کے کلام کو ان کے التزام پر محمول نہ کریں تو میں کہوں گا کہ انھوں نے یہ گفتگو قدریہ ملعون فرقے پر بطور نقض ذکر کی ہے کہ اگر بقول قدریہ یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ انسان کے مکلف ہونے اور علم کی جزادئے جانے کی بنا پر اس چیز کی حاجت ہے تو بھی یہ حاجت صرف ایک قصد کے ایجاد سے پُوری ہو جاتی ہے تو پھر تم تمام افعال کے لئے بندے کی خالقیت کا قول کیوں کرتے ہو تو یقینَا محقق مذکور کا یہ موقف قدریہ کے موقف کا قاطع ہے جس سے ان کو فرار ممکن نہیں ہے، اس کو محفوظ کرو۔امام سنوسی رحمہ اللہ تعالٰی نے ام البراہین کے مقدمہ فی التوحید میں فرمایا خلاصہ یہ کہ معلوم ہونا چاہئے کہ تمام کائنات میں کسی اثر سے اختراع محال ہے بلکہ پوری کائنات اللہ تعالٰی مولٰی عزوجل کی مخلوق ہے اور ابتداء و دوام میں بلا واسطہ اسی کی سخت محتاج ہے عقلی دلیل کی یہی شہادت ہے اور کتا ب و سنّت اور اجماع سلف صالحین کا یہی مدلول ہے اور بدعات کے ظہور سے قبل یہ مسلم ہے ، لہذا بعض ایسے لوگوں کی بات مت سُنو جو مذہب اہل سنت و جماعت کے متعلق ضعیف و قوی ہر قسم کی بات ہمارے ذکر کردہ کے خلاف نقل کردیتے ہیں، لہذا ہمارے ذکرکردہ پر ہاتھ کو مضبوط کر، یہی حق ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے اور اس کے علاوہ سب نادرست ہے اس لئے باطل کی طرف اپنی توجہ کو مبذول مت کر  ان شاء اللہ سعادت مند زندگی پائے گا اور پاکیزہ کامیاب موت پائے گا جبکہ اللہ تعالٰی ہی مستعان و مدد گار ہے اھ
 (۱؎ التو ضیح مع التلو یح    فصل فی مسائل الجبر والقدر        المطبعۃ الخیریۃ مصر     ۲ /۱۵۵)

(۱؎ شرح ام البراہین للا مام محمدالسنوسی۔)
Flag Counter