فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر) |
نظیر دوم: مسایرہ میں اصل عقیدہ تو وہی لکھا جو ائمہ اہلسنّت و جماعت کا ہے کہ اللہ کے سوا اصلاَکسی شے کا کوئی خالق نہیں،بندوں کے افعال اختیا ریہ بھی تمام و کمال اسی کے مخلوق ہیں، بندہ صرف کاسب ہے،اور اسے دلائل عقلیہ و نقلیہ سے روشن کیا:
حیث قال الا صل الا ول العلم بانہ تعالٰی لا خالق سواہ فھو سبحٰنہ الخالق لکل حادث جو ھراو عرض کحرکۃ کل شعرۃ وکل قدرۃ و فعل اضطراری کحرکۃ المرتعش والنبض اواختیاری کا فعال الحیوانات المقصود لھم ، واصلہ من النقل قولہ تعالٰی اللّہ خالق کل شیئ وقولہ تعالٰی واﷲ خلقکم وما تعملون ومن العقل ان قدرتہ تعالٰی صالحۃ للکل لا قصورلھا عن شیئ منہ فوجب اضافتہا الیہ بالخلق اھ ۱؎ مختصرَا۔
جہاں اُنھوں نے فرمایا کہ پہلا ضابطہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے متعلق یہ علم ہے کہ وُہ خالق ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی خالق نہیں، تو اللہ تعالٰی ہر حادث خواہ وہ جو ہر ہو یا عرض جیسے ہر بال کی حرکت، ہر طاقت و قدرت اور ہر فعل خواہ اضطراری ہو جیسے رعشہ والے اور نبض کی حرکت ، یا فعل اختیاری ہو جیسا کہ اپنے مقصدکے لئے ہر حیوان کی حرکت کا خالق ہے ، اور یہ ضابطہ، اللہ تعالٰی کے قول" خالق کل شیئ " ، اور اس کے قول "واﷲ خلقکم وما تعملون" سے ماخوذ ہے، اور یہ عقلی تقاضا ہے کہ اللہ تعالٰی کی قدرت کاملہ ہے وُہ کسی چیز کے متعلق ناقص نہیں ہے لہذا ہر چیز اللہ تعالٰی کی صفت خلق کی طرف منسوب ہے اھ مختصراَ (ت)
(۱؎ المسایرہ متن المسامرۃ الا صل الاول المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص ۹۶ تا ۱۰۵)
پھر جب عادت متاخرین اہل کلام بحث کے طو ر پر ایک بات لکھ گئے اگر مسلّم ہو تو اس بحرِ عمیق مسئلہ قدر میں شناوری اور سر الٰہی کی جلوہ گری چاہے جس میں بحث سے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صدیق اکبر و فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما کو ممانعت فرمائی اورآخر نتیجہ وہی ہُوا جو ہونا چاہئےکہ گو ہرکی جگہ خزف پر ہاتھ پڑے اور وہ بھی محض
لا یسمن ولا یغنی من جوع ۲؎
( نہ فربہ کرے اور نہ بُھوک ختم کرے ۔ ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۸۸/ ۷)
وُہ بحث یہ کہ عزم کو نصوص سے مخصوص مان لیجئے اس کا آغازلقائل ان یقول (سے کیا یعنی کوئی کہنے والا یُوں کہہ سکتا ہے اور وہی شبہات جو معتزلہ پیش کرتے ہیں اس کی تقریر میں بیا ن کرکے کہا:
فلنفی الجبر المحض و تصحیح التکلیف وجب التخصیص وھو لا یتو قف علٰی نسبۃ جمیع افعال العباد الیھم بالا یجاد (ای کما فعلت المعتزلۃ) بل یکفی ان یقال جمیع ما یتو قف علیہ افعال الجوارح من الحرکات وکذاالتروک التی ھی افعال النفس من المیل و الداعیۃ والاختیار ربخلق اﷲ تعالٰی لاتاثیر لقدرۃالعبد فیہ وانما محل قدرتہ عزمہ عقیب خلق اﷲ تعالٰی ھذہ الا مور فی باطنہ عزمامصمما بلا تردد و تو جھہ توجہا صادقاللفعل طالباایا ہ فاذااوجد العبد ذٰلک العز م خلق اﷲ لہ الفعل فیکون منسوبا الیہ تعالٰی من حیث ھو حرکۃ والی العبد من حیث ھو زنا و نحوہ ( الٰی ان قال ) وکفی فی التخصیص لتصحیح التکلیف ھذا الامر الواحداعنی العزم المصمم وما سواہ مما لا یحصی من الافعال الجزئیۃ والتروک کلھامخلوقۃﷲ تعالٰی متأ ثرۃ عن قدرتہ ابتداء بلا واسطۃ القدرۃ الحادثۃ المتأثرۃ عن قدرتہ تعالٰی واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم ۱؎ ( ملخصاً)
بندے کے مجبور محض ہونے کی نفی اور اس کی تکلیف کی صحت کے لئے تخصیص واجب ہے اور یہ اس بات پر وقوف نہیں کہ بندوں کے تام افعال کا ایجاد، بندوں کی طرف منسوب ہو، یعنی جیسا کہ معتزلہ نے کیا ہے، بلکہ اس کے لئے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ چیز جس پر بندہ کے افعال جوارح حرکات اور تر وک وغیرہ نفس کے افعال مثلاَمیلان، دواعی اور اختیارات وغیرہ ہیں یہ سب کے سب اللہ تعالٰی کی تخلیق سے ہیں اور ان امور میں بندے کی قدرت کی کوئی تاثیر نہیں ہے، اور بندے کی قدرت صرف اس کے عزم میں ہے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے ان امور کی تحقیق کے بعد اس کے باطن میں عزم صمیم بلا تر دّد پیدا ہوتا ہے اور اس کی توجہ صادق اور طلب برائے فعل سے حاصل ہوتاہے، تو جب بندہ اپنے اس عزم کو بروئے کار لاتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے لئے فعل کو پیدا فرمادیتا ہے تو یہ فعل اللہ تعالٰی کی طرف حرکت ہونے کے لحاظ سے منسوب ہوتا ہے اور بندے کی طرف مثلاَزنا وغیرہ ہونے کے لحاظ سے منسوب ہوتاہے، آگے یہاں تک فرمایا ، اور بندے کی تکلیف کی صحت کے لئے یہی ایک امر یعنی عزم مصمم کافی ہے، اسکے علاوہ باقی تمام افعال جزئیہ اور تروک وغیرہ اللہ تعالٰی کی مخلوق ہیں اور براہِ راست اللہ تعالٰی کی قدرت سے متأ ثر ہیں جبکہ اس تاثیر کے لئے اور جدید تاثیر کی ضرورت نہیں ہے واللہ سبحانہ وتعالٰی(ملخصاً)۔ (ت)
(۱؎ المسایرۃ متن المسامرۃ الاصل الاول العلم بانہ تعالٰی الخ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص ۱۱۹ تا ۱۲۳)
مسایرہ کے بیان سے کسی نافہم کو دھوکا نہ ہو کہ یہ حنفیہ کا مذہب ہے ، حاشا بلکہ ان کا مذہب وہ ہے جو ان کے امام امام الائمۃ الانام سیّدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فقہ اکبر ووصایا ئے شریفہ میں تصریح فرمائی کہ افعال عبادجمیع و تمام و کمال بلا تخصیص و بلا استثناء مخلوق الٰہی ہیں، خود مسایرہ کے لفظ صاف بتارہے ہیں کہ یہ ایک طبع زاد بحث ہے نہ کہ مذہب منقول، بلکہ فی الواقع یہ صاحبِ مسایرہ کا بھی عقیدہ نہیں،بحث عقیدہ نہیں ہوتی، عقیدہ یُوں نہیں کہا جاتا کہ کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے ، ان کا عقیدہ وہی ہے جو اصل مسئلہ یہاں بیان کیا اور آخر کتاب میں عقیدہ اہلسنّت و جماعت کی فہرست میں لکھا یہ عبارات عنقریب اِ ن شاء اللہ مذکور ہوتی ہیں، یہاں مجھے اس بحث کا نا موجہّ و بیحا صل ہونا بتانا ہے، جو ضرورت اس بحث کی بیان کی، اس کا باذنہ تعالٰی شافی و کافی جواب فقیر کے رسالہ "ثلج الصدر لایمان القدر (۱۳۳۵ھ)" سے کہ تحفہ حنفیہ میں طبع ہُوا ملے گا اور اس بحث کا نامفید بے ثمر ہونا اس حاشیہ سے واضح جو فقیر نے یہاں ہا مشِ مسایرہ پر لکھا ،
وہ یہ ہے:
قولہ فاذااوجد العبد ذٰلک العزم اقول معاذاللہ ان یقول بان العبد یخلق شیئا واحدا ولا عشر عشیر معشار شیئ الا لہ الخلق والامر تبارک اﷲ رب العٰلمین افمن یخلق کمن لا یخلق ما کان لھم الخیرۃ ھل من خالق غیر اﷲ و کون ھذا قلیلا بالنسبۃ الٰی مقدورات اﷲ تعالٰی لا یجدی نفعَا فانہ کثیر بثیر فی نفسہ جدا فان الا نسان لا یحصی مالہ من العزمات فی یو م واحد فکیف فی عمرہ فکیف عزائم الا ولین والاٰ خرین من الانس والجن والملک وغیر ھم فتخرج ھٰذہ الکثرۃ التی تفنی دون عد بعضھا الا عمار عن مخلوقات العزیز الغفار بلا واسطۃ و تد خل فی مخلوقات العبید فیکون جواب ھل من خالق غیر اﷲ بالا یجاب والعیاذ باﷲای بلٰی ھنا ک الوف مؤ لفۃ خالقون غیر اﷲ ولم تبثت المعتزلۃ اکثرمن ھذااذ شنع علیھم ائمتنا من مشائخ ماوراء النھر وغیرھم رحمھم اﷲتعالٰی قائلین انھم اقبح من المجوس حیث ان المجوس لم یقولوالا بخالقین اثنین فما اثبتوا لا شریکا واحد ا والمعتزلۃ اثبتوا شرکاء لا تحصی و ذٰلک انھا انما قالت بخلق العبد فعلہ الا ختیاری و کل فعل اختیاری لا بد لہ من عزم فعدد العزمات والا فعال سواء بل ربما تکون العزمات اکثر اذ قدیعزم العبد علی فعل ثم یصرف عنہ فلا یقع قال سیدنا علی کرم اﷲ تعالٰی وجھہ عر فت ربیّ بفسخ العزائم فان کانت العزمات یشملھا اسم واحد و ھو العزم فکذٰلک الا فعال ینتظمہا اسم واحد وھو الفعل ، فلا طائل تحت ما قد م الشارح و یأ تی اٰ نفَا للمصنف انہ یکفی اسناد جزئی واحد الی العبد وھو العزم، بل لو فرضنا انہ واحد بالشخص فاﷲ تعالٰی متعال عن ان یشارکہ احد فی خلق شیئ ولو جزئیا واحدااما اعتذار المصنف بان البراھین ای الاٰ یات الناصۃ باختصاص الخلق بہ تعالٰی عمو مات تحتمل التخصیص وقد اوجبہ العقل اذ ار ادۃ العموم فیھا تستلزم الجبر المحض المستلزم لضیا ع التکلیف و بطلان الا مرو النھی و تعلق القدر ۃ بلا تا ثیر ای کما تقو لہ الا شاعرۃ لا ید فعہ لا ن موجب الجبر لیس سوٰی ان لا تاثیر لقدرۃ العبد فی ایجاد فعل اھ ۱؎ملخصاً، فاعترضہ القاری فی منح الروض بان ذٰلک العزم المصمم داخل تحت الحکم المعمم اھ۔ ۲؎
قولہ اذا اوجد العبد ذٰلک العزم(جب بندہ اس عزم کو ایجاد کرتا ہے)اقول( میں کہتا ہوں) معاذاللہ کہ ہم یہ کہیں کہ بندہ کسی ایک چیز کو پیدا کرتا ہے جبکہ کسی بھی چیز کا عشر عشیر صرف اللہ تعالٰی کی تخلیق اور حکم سے ہوتا ہے اللہ تبارک تعالٰی ہی رب العالمین ہے، کیا خالق غیر خالق کی طرح ہے جو کوئی اختیار نہیں رکھتے، کیا اللہ تعالٰی کے سوا کوئی خالق ہو سکتا ہے،اس عزم کا اللہ تعالی کی مقدورات کی نسبت قلیل ہونا کسی طرح مفید نہیں،کیونکہ یہ فی نفسہ کثیر و وسیع ہے کیونکہ انسان ایک دن کے اپنے عزمات کا شمار نہیں کر سکتا تو اپنی عمر بھر کے عزمات کا احاطہ کیسے کر سکتا ہے تو اولین و آخرین انسانوں، جنات اور فرشتوں وغیرہم کے عزمات کا کیا اندازہ ہو سکتاہے، تو اس عظیم کثرت جس کے کچھ حصّہ کو شمار کرنے میں عمریں ختم ہو جائیں، کو تم اللہ تعالٰی عزیز غفار کی مخلوقات سے براہِ راست خارج کر دو اور اس کو بندے کی مخلوقات بنا دو تو لازم آئیگا کہ '' ھل خالق من غیراﷲ''(کیا اللہ کے ماسوا کوئی خالق ہے )کا جواب ایجاب میں ہو گا ( کہ ہاں اور خالق ہے ) والعیاذ باللہ تعالٰی ( پھر یوں کہنا ہو گا )ہاں یہاں ہزاروں ہزار ماسوا اللہ خالق ہیں، معتزلہ بھی تو اتنا ہی کہتے ہیں جبکہ ماوراء النہرکے ہمارے ائمہ وغیر ہم رحمہم اللہ تعالٰی نے ان پر زبر دست تشنیع کی ہے اور انھوں نے ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ معتز لہ لوگ مجوس سے بد تر ہیں کیو نکہ مجوس نے دو خالقوں کا قول کیا ہے یعنی اللہ تعالٰی کے ساتھ ایک اور شریک بنا دیا ہے جکہ معتزلہ نے اللہ تعالٰی کے بے شمار شریک بنا دئے یہ اس طرح کہ انھوں نے کہا کہ بندہ اپنے افعال اختیار یہ کا خود خالق ہے جبکہ ہر اختیاری فعل کےلئے عزم ضروری ہے تو اس طرح افعال اور عزمات کی تعداد مساوی ہُوئی بلکہ عزمات کی تعداد بڑھ جاتی ہے کیونکہ بندہ کبھی ایک فعل کا عزم کرکے اس فعل کو ترک کر دیتا ہے،جس سے فعل وجود میں نہیں آتا جیسا کہ علی المر تضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب کو عزائم کے ناکام ہونے سے پہچانا ہے، اگر تمام عزائم کو ایک عزم کے نام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اس طرح تو تمام افعال کو بھی ایک فعل کے نام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک سب کو شامل ہے ، تو یہ بات شارح کی گزشتہ اور مصنّف کی آئندہ گفتگوکہ بندہ کی طرف ایک جزئی چیز یعنی عزم کی نسبت اس کے مکلّف ہونے کے لئے کافی ہے، کو مفیدنہیں ، بلکہ اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ یہ واحد شخصی ہے تب بھی اللہ تعالٰی اپنی تخلیق میں اس ایک شریک سے بھی پاک ہے اگرچہ یہ ایک جزئی ہو، مصنّف کا یہ عذر کہ وہ آیات جن میں تخلیق کو اللہ تعالٰی کا خاصہ بیان کیا گیا ہے وہ ایسے عمومات ہیں جن میں تخصیص کا احتمال ہے اور اس تخصیص کو عقل نے لازم کیا ہے کیو نکہ ان آیات کا عموم انسان کے مجبور محض ہونے کو مستلزم ہے جس سے مکلف ہونے اور امرونہی کا بطلان اور انسانی قدرت کا غیر مؤثر ہونا لازم آتا ہے اور اشاعرہ کا اس کے متعلق موقف کو ختم نہیں کرتا کیونکہ جبر کا موجب صرف یہی ہے کہ اس کے فعل کے ایجاد میں انسان کی اپنی قدرت کی تاثیر نہیں ہے اھ ملخصا ، تو اس عذر پر ملا علی قاری نے منح الروض میں اعتراض کیا ہے کہ انسان کا یہ عزم صمیم خود ان آیات کے عموم میں داخل ہے اور وہ اللہ تعالٰی کا مخلوق ہے اھ۔
(۱؎ المسایرۃ مع المسامرۃ العلم بانہ تعالٰی لاخالق سواہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص ۱۱۶ و ۱۱۷) (۲؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر افعال العبدکسبھم الخ مصطفٰی البابی مصر ص ۵۲)