Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
89 - 150
نظیر اوّل: مُلّا عبدالحکیم سیالکوٹی کی سُنئے، منہیہ خیالی سےمنقول ہُوا کہ اس میں باری عز و جل کے علم کا امور متناہیہ سے تفصیلا متعلق ہونا ممنوع کہہ دیا، ملّا نے خیالی کا خیال خبالی نقل کرکے اس پر رجسٹری کر دی:
حیث قال قولہ فتا مل نقل عنہ وجہ التا مل ان علمہ تعالی الشا مل انمایشتمل مالا یمتنع وجودہ و امکان تعلق العلم بالمراتب الغیر المتناھیۃ مفصلۃ ممنو ع انتھی فان قیل فیلز م الجھل علی اللہ قلت الجہل عدم العلم بما یصح تعلق العلم بہ کما ان العجزعدم تعلق القدرۃ بما یصح ان تتعلق بہ فتأ مل اھ۔ ۱؎
جہاں انہوں نے کہا قولہ فتامل(اس کا قول کہ تامل کرو) وہاں انھوں نے وجہ تأمل ان سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالٰی کا شامل علم ان چیزوں کومشتمل ہو گا جن کا وجو د ممتنع نہ ہو گا جس طرح اس کی شامل قدرت ان چیزوں کو مشتمل ہے جن کا وجو د ممتنع نہ ہو، او رمفصل طورپر غیر متناہی مراتب میں علم کے تعلق کا امکان ممنوع ہے انتہٰی، اگر اعتراض کیا جائے کہ اس سے اللہ تعالٰی کا جہل لازم آئے گا ، تو میں کہتا ہوں جن چیزوں سے علم کا تعلق صحیح ہو ان کو نہ جاننا جہل ہے، جس طرح جن چیزوں سے قدرت کا تعلق صحیح ہو ان چیزوں کی قدرت نہ ہونا  عجز کہلاتا ہے ، غور کر اھ۔ (ت)
ممنوع کہتے تو کہہ گئے لیکن نظر کرتے کہ یہ وسو سہ باطلہ جو عدد مبین اعاذنااللہ تعالٰی من شرہ المہین نے القا کیا،اس کی تہ میں کیا کیا آفات قاہرہ ہیں ، تو ہر گز خامہ و نامہ کو اس سے آلودہ کرنا روانہ رکھتے،
 (۱؎ حاشیہ عبدالحکیم سیا لکوٹی علی الخیالی    مطبع مجتبائی دہلی    ص ۶۵)
فاقول اوّلا(دونوں ملّا صاحب فرمائیں تو کہ سلسلہ اعداد سے کس قدر پر مولٰی عزوجل کا علم جاکر رُک گیا کہ اس سے آگے کا عدد خدا کو معلوم نہیں،سلسلہ ایاّم آخرت سے کتنے دن خدا کو معلوم ہیں، آگے مجہو ل نعیم جنان و عذاب نیران سے کتنی مقدار علم الٰہی میں ہے زیادہ کی اسے خبر نہیں، کیا کوئی عاقل مسلم سوچ سمجھ کر ایسی بات کہہ سکتا ہے، حاشاوکلاّ دیکھو کیسی صریح تصدیق ہے امام شافعی کے اس ارشاد کی کہ ما ظنت مسلماَ یقولہ ۲؎(مجھے گمان نہ تھا کہ کوئی مسلمان یہ بات کہے گا۔ت)، ہاں انھوں نے اطلعت علٰی شیئ(میں نے کسی چیز پراطلاع پائی۔ ت) فرمایا،
"وقد اطلعنا علٰی اشیا ء اذفسد الزمان و الی اللہ المشتکی وعلیہ التکلان"۔
جبکہ ہم نے فساد زمان کی وجہ سے بہت سی چیزوں پر اطلائی پائی جبکہ شکایت اللہ تعالٰی کے دربار میں ہے اور اسی پر تو کل ہے (ت)
 (۲؂ و۳؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الا کبر خطبۃ الکتاب مصطفٰی البابی مصر     ص ۴)
ثانیاجوحد مقرر کیجئے وہاں فارق بتایئے کہ حد بندی کرے، کیا سبب کہ یہاں تک کا علم ہوا بعد کا نہیں، علم کے لئے معلوم کا وجود خارجی درکا رہو تو آخرت درکنا ر معاذاللہ کل آئندہ کا علم نہ ہو بلکہ ازل میں جملہ ماورا سے عیاذاباللہ جہل مطلق ہو پھر خلق کیونکر ہو اور جب وجود ضرور نہیں تو معدوم ـ'معدوم سب یکساں، کسی حدِ خاص پر رُکنا ترجیح بلا مر جح ہے بخلاف علوم عالم کہ وہاں مر جح ارادہ الٰہیہ ہے، جسے جتنا دیا اُتناملا
لا یحیطون بشیئ من علمہ الاّ بما شاء ۴؎
 (اللہ تعالٰی کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر صرف جتنا اللہ تعالٰی چاہے ۔ت)
 (۴؎ القرآن الکریم ۲ / ۲۵۵)
ثالثاجوحد مقرر کیجئے یقینا معلوم کہ ایام و ایلام و انعام اس سے آگے بڑھیں گے کہ "لاتقف عند"حد ہیں، اب جو بعد کو آئے ان کا علم باری عزوجل کو ہو گا یا نہیں،اگر نہیں تو جہل موجود، اور جو عذر کیا تھا زا ہق و مردود، کہ اب تو وہ خود عباد کو معلوم و مشہود، معہذاانھیں پیدا کون کرے گا، وہی خبیر شہید، تو نہ جانناکیا معنی!
الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیرo۱؎
کیا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا اور وہی ہے ہر باریکی جانتا خبر دار۔(ت)
 (۱ ؎ القرآن الکریم    ۶۷/ ۱۴)
اور اگر وہاں تم نے اور مانا کہ ان کا علم پہلے نہ تھا تو اس کا علم معا ذاللہ حادث ہُوا، متجدد ہوا ،کیا یہ عقیدہ اہلسنّت کا ہے جو ہمارے رب عزوجل نے فرمایاوکان اللہ بکلّ شیئ علیما ۲؎(اللہ تعالٰی ہر شیئ کا عالم ہے۔ت)
(۲؎ القرآن الکریم     ۴۸/ ۲۶)
عقیدہ وُہ ہے جو خود سیالکوٹی نے حاشیہ شر ح عقاید جلالی میں لکھا:
المعلومات فی انفسھا غیر متناھیۃ لشمولھا الموجوات والمعدومات۔ ۳؎
معلوماتِ باری تعالٰی اپنی ذات میں غیر متناہی ہیں کیونکہ موجودات اور معدومات سب کو شامل ہیں ۔(ت)
 (۳؎ حاشیہ شرح عقاید جلالی        مطبع مجتبائی دہلی    ص ۲۱)
خود شرح میں ہے:
اعلم ان المتکلمین ینفون الوجود الذھنی ویثبتون علم اللہ تعالٰی بالحوادث الغیر المتناھیۃ۔ ۴؎
واضح رہے علمِ کلام والے  ذہنی وجود کی نفی کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کے لئے غیر متناہی حوادث کا علم ثابت کرتے ہیں(ت)
(۴؎ شرح الدوانی علی العقاید العضدیۃ        مطبع مجتبائی دہلی   ص ۲۱)
بلکہ خود اسی حاشیہ سیالکوٹی علی الخیالی میں ہے :
ھذہ التعلقات قد یمۃغیر متناھیۃ بالفصل ضرور ۃ عدم  تناھی متعلقا تھا اعنی جمیع مایمکن ان یعلم من الا مور الکلیۃ والجز ئیۃ الا زلیۃ والمتجددۃ لشمو لہ الممکن والممتنع والواجب ۔ ۱؎

ی
ہ تعلقات تفصیلی طور پر غیر متناہی قدیم ہیں یہ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ان کے متعلقات غیر متناہی ہیں، یعنی تمام وُہ امور جن کو جانا جا سکتا ہے کلیات، جزئیات، ازلیہ ہوں یا حادثہ، کیونکہ یہ علم ممکنات،محالات اور واجبات سب کو شامل ہے (ت)
 (۱؎ حاشیہ عبدالحکیم سیالکوٹی علی الخیالی     مطبع مجتبائی دہلی    ص ۲ ۸)
عقیدہ وہ ہے جو مقاصد و شرح میں فرمایا:
علمہ تعالٰی لا یتناھی و محیط بما لا یتناھی کا لا عداد والا شکال) ونعیم الجنان و شامل لجمیع الموجودات والمعدومات الممکنۃ والممتنعۃ وجمیع الکلیات و الجزئیات سمعا و عقلا۔ ۲؎
اللہ تعالٰی کا علم غیرمتناہی ہے اور اعداد واشکال اور جنّت کی نعمتوں جیسی غیر متناہی اشیاء کو محیط اور تمام موجودات و معدومات و ممکنات و ممتنعات کو اور تمام کلیات و جز ئیات کو نقلا و عقلا شامل ہے ۔(ت)
 (۲؎ مقاصد و شرح المقاصد خاتمہ علمہ لایتناہی الخ    دارالمعارف النعمانیہ لاہور     ۲ /۹۰)
عقیدہ وُہ ہے جو مواقف و شرح میں بیا ن فرمایا:
علمہ تعالٰی یعم المفھومات کلھا الممکنۃ والواجبۃ والممتنعۃ والمخالف فی ھذا الفصل فِرَ ق الاولٰی من قال لا یعلم نفسہ ( الٰی ان قال) الرابعۃ من قال لا یعقل غیرالمتناہی۔ ۳؎
اللہ تعالٰی کا علم تمام ممکنہ ، واجبہ اور محال مفہومات کو شامل ہے، اس بحث میں کچھ مخالف فرقے ہیں، پہلا وُہ جو کہتا ہے کہ اللہ تعالٰی کو اپنی ذات کا بھی علم نہیں ہے،اور یہاں تک کہا کہ چوتھا فرقہ وُہ ہے جو کہتا ہے کہ اللہ تعالٰی کو غیر متناہی امور کا علم نہیں ہے۔ (ت)
(۳؎ مواقف و شرح المواقف المقصد الثالث فی علمہ تعالٰی منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸/ ۷۰)
عقیدہ وُہ ہے جو حدیقہ ندیہ میں فرمایا:
المعلومات موجودۃ او معدومۃ محالۃ او ممکنۃ قدیمۃ اوحادثۃ متناھیۃ اوغیرمتناھیۃ جزئیۃ اوکلیۃ وبالجملۃ جمیع مایمکن ان یتعلق بہ العلم فھو معلوم للّہ تعالٰی ۔ ۴؎
موجود اور معدوم محال یا ممکن ہوں، قدیم و حادث، متنا ہی ، غیر متناہی ، جزئی یا کُلّی غرضیکہ جس چیز سے بھی علم کا تعلق ہو سکتا ہے وہ سب اللہ تعالٰی کو معلوم ہے۔ (ت)
 (۴؎ الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقہ المحمدیۃ        مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد         ۱/ ۲۵۴)
عقیدہ وُہ ہے جو اس فقیر ربِّ قدیر نے الدولۃ المکیہ میں لکھا اور علمائے کرام حرمین طیبین نے مزینّ بتصدیقاتِ جلیلہ کیا:
ان ربنا تبارک وتعالٰی یعلم ذاتہ الکریمۃ و وصفا تہ الغیر المتناھیۃ والحوادث التی وجدت والتی توجد غیر متناھیۃ الٰی ابد الا بد والممکنات التی لم توجد ولن توجد بل والمحالات باسرھا فلیس شیئ من المفاھیم خارجا عن علمہ سبحٰنہ وتعالٰی یعلمہا جمیعا تفصیلا تا ما ازلا ابدا وذاتہ سبحٰنہ وتعالٰی غیر متناھیۃ وصفا تہ غیر متنا ھیات و کل صفۃ منھا غیر متناھیۃ وسلاسل الاعداد غیرمتناھیۃ وکذاایام الابد و ساعاتہ واٰناتہ وکل نعیم من نعم الجنۃ وکل عذاب من عقوبات جھنم و انفاس اھل الجنۃ واھل النار ولمحاتھم وحرکاتھم وغیر ذٰلک کلھاغیر متناہ والکل معلوم للّہ تعالٰی ازلا وابدَاباحاطۃ تامۃ تفصیلیۃ ففی علمہ سبحٰنہ وتعالٰی سلاسل غیر المتناھیات بمرات غیرمتناھی  بل لہ سبحانہ وتعالی فی کل ذرۃ علوم لا متناھی لان لکل ذرۃ مع کل ذرۃ کانت اوتکون اویمکن ان تکون نسبۃ بالقرب والبعد والجھۃ مختلفۃ فی الا ز منۃ باختلاف الا مکنۃ الواقعۃ والممکنۃ من اول یوم الٰی مالا اٰ خر لہ والکل معلوم لہ سبحٰنہ وتعالٰی بالفعل فعلمہ عز جلالہ غیر متناہ غیر متناہ فی غیر متناہ کا نہ معکب غیر المتناھی علی اصطلاح الحساب وھذا جمیعا واضح عند من لہ من الا سلام نصیب۔ ۱؎
ہمارے رب تعالٰی اپنی ذات کریمہ و صفات غیر متناہیہ اور حوادث جو موجود ہیں یا ہو سکیں خواہ ابدالا بد تک غیر متناہی ہوں اورممکنات غیر موجودہ اور جو موجود نہ ہو سکیں اور محالات تمام ان مفہومات میں سے کوئی بھی اللہ تعالٰی کے علم سے خارج نہیں،ان تمام کو تفصیلا کا ملّا ازل و ابد سے جانتا ہے، اللہ تعالٰی کی ذات پاک لا محدود اور اس کی صفات غیر متناہی ہیں اور پھر اس کی ہر صفت غیر متناہی ہے، اعداد کا سلسلہ اور یو نہی ابد تک ایاّم، ان کے گھنٹے، ان کی آنات اور جنت کی نعمتیں ، اور پھر ہر نعمت، یو نہی جہنم کی سزاؤں کے عذاب ، اور جنتی اور جہنمی لوگوں کے سانس ، ان کے لمحات ، حرکات وغیرہا یہ تمام غیر متناہی ہیں اور اللہ تعالٰی کا علم ازلا وابدا ان سب کو محیط تام ہے اور تفصیلا ہے، تو اللہ تعالٰی کے علم میں غیرمتناہی سلسلے غیرمتناہی طور پر داخل ہیں بلکہ ہر ذرّہ کے متعلق اللہ تعالٰی کے معلومات ہیں کیونکہ ہر ذرّہ کو ذرّہ کے ساتھ خواہ وہ موجود ہو یا ہو سکتا ہو یا اس کی نسبت قُرب وبُعد اور زمانہ کی مختلف جہات سے باعتبار اختلاف مکانات وزمانات اول تا غیرمنتہٰی ، ضرور نسبت حاصل ہے، اور تمام کا اللہ تعالٰی کو بالفعل علم ہے تو اللہ تعالٰی کا علم غیر متناہی ، غیر متناہی میں غیرمتناہی ہے،گویا کہ حساب والوں کی اصطلاح میں غیر متناہی معکب ہے اور تمام بیان کردہ اس شخص کے ہاں واضح ہے جس کو اسلام نصیب ہے۔ (ت)
(۱؎ الدولۃ المکیہّ  القسم الاوّل مطبعہ اہل السنۃ والجماعت بریلی ص ۷)
عقیدہ وُہ ہے جو فقیر نے اس کی تعلیقات الفیوضات الملکیہ میں نقل کیا:
حیث کتبت علٰی قولی بل لہ سبحٰنہ فی کل ذرّۃ علوم لامتناھی ما نصہ الحمد للّہ ھذالذی کتبتہ من عندی ایمانا بربی ثم رأیت التصریح بہ فی التفسیر الکبیر اذ یقول تحت کریمۃ وکذٰلک نری ابرٰھیم، سمعت الشیخ الامام الوالد عمر ضیاء الدین رحمہ اللہ تعالٰی قال سمعت الشیخ ابا القاسم الانصاری یقول سمعت امام الحرمین یقول معلومات اللّہ تعالٰی غیر متناھیۃ ومعلوماتہ فی کل واحد من تلک المعلومات  ایضا غیر متناھیۃ و ذٰلک لان الجو ھر الفر دیمکن و قو عہ فی احیا ز لا نہا یۃ لھا علی البدل ویمکن اتصافہ بصفات لانہا یۃ لھا علی البدل الخ۔ ۲؎
جہاں میں نے اپنے مذکور قول '' بلکہ اللہ تعالٰی سبحٰنہ کے ہر ذرّہ میں علوم غیر متناہی ہیں'' پر یہ عبارت لکھی ہے،الحمد للہ یہ جو کچھُ میں نے لکھا ہے یہ میں نے اپنی طرف سے اپنے رب پر اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے'اس کے بعد میں نے تفسیر کبیر میں اس کی تصریح پائی، جہاں آیہ کریمہ "وکذٰلک نری ابراھیم ''کےتحت فرمایا کہ میں نے اپنے والد شیخ امام عمر ضیاء الدین رحمہ اللہ تعالٰی سے سُنا اُنھوں نے فرمایا میں نے شیخ ابوا لقاسم انصاری سے انھوں نے فرمایا میں نے امام الحرمین سے سُنا کہ فرمارہے تھے کہ اللہ تعالٰی کے معلومات غیر متناہی اور ان معلومات میں سے ہر ایک کے معلومات بھی غیر متناہی ہیں یہ اس لئے کہ جو ہر فرد کا غیرمتناہی احیاز میں علٰی سبیل البدل پایا جانا ممکن ہے اوریُونہی اس کا بدل کے طو ر پر غیر متناہی صفا ت سے متصف ہونا ممکن ہے الخ۔ (ت)
(۲؎ الفیوضات الملکیۃ تعلیقات الدولۃ المکیۃّ    مطبعہ اہل السنۃ والجماعت بریلی    ص ۹)
Flag Counter