فاقول و باللہ التو فیق(میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتا ہُوں ۔ت) مسمانو ! عقائد وہ سنت ہیں جو حضور پُر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم و صحابہ و تا بعین و سلف صالحین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سے ثابت ہیں انھیں کے بیان کے لئے کتب عقائد کے متو ن موضوع ہوتے ہیں، زمانہ خیر میں یہ عقائد صدور و السنہ ائمہ سے تلقی کئے جاتے تھے، اور مسلمان اپنی سلامت صدر سے ان پر ایمان لاتے تھے انھیں چون و چرا و لِمَ ولانسلم کی علّت نہ تھی، جب بد مذہبوں کا شیوع ہُوا اور گمراہ مکلبوں نے عام مسلمین کو بہکانے کےلئے اپنے عقائد باطلہ پر عقلی و نقلی مغالطے پیش کرنے شروع کئے تو علمائے سنت و جماعت کو حاجت ہُوئی کہ ان کے دلائل باطلہ کا رَد کریں اپنے عقائد حقّہ پر دلائل قائم فرمائیں ، یہاں سے کلام متا خرین کی بنا پڑی اب کہ استدلا ل و بحث و مناظرہ کا پھاٹک کُھلا خود اپنے دلائل و جوابات کی جانچ پرکھ کی بھی حاجت ہوئی ، اذہان مختلف ہوتے ہیں اور بحث و استخراج میں خطا و اصابت آدمی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ایک نے مذہب پر ایک دلیل قائم فرمائی یا مخالفت کی یا کسی اعتراض کا جواب دیا دوسرے نے اس پر بحث کر دی کہ اپنے مذہب پر یہ دلیل کمزور ہے مخالف کی طرف سے اس کا رَد یہ ہو سکتا ہے ، یا اعتراض کا یہ جواب کافی نہیں مخالف اس میں یوں کہہ سکتا ہے ، اس رَدوبحث کااثر فقط اسی دلیل وجواب تک ہوتاہے عام ازیں کہ اس دلیل وجواب ہی میں قصور ہو جیسا کہ بحث کرنے والے کا بیان ہے ، یا خود اس باحث کی نظر نے خطا کی دلیل و جواب صحیح و صواب ہو، بہر حال معاذاللہ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اپنا اصل مذہب باطل یا مخالف کا ضلا ل حق ہے، ہر عاقل جانتا ہے کہ کسی کی قائم کی ہُوئی ایک دلیل یا دیا ہُوا جواب بگڑ جانے سے اصل مسئلہ باطل نہیں ہو سکتا نہ معاذاللہ یہ بحث کرنے والا اپنا عقیدہ بدلتا اور مذہب اہلسنّت کو باطل جان کر اس سے باہر نکلتا ہے یہ ایک ایسی بات ہے جسے نہ فقط اہلسنت بلکہ ہر مذہب و ملّت والا اپنے یہاں دیکھتا جانتا ہے ، پھر بھی جب تک زمانہ خیر کا قرب تھا اس رَد و کد میں ایک اعتدال باقی تھا جب فن کلام فلسفہ دان متا خرین کے ہاتھ پڑا اب توبات بات میں وجہ بے وجہ نکتہ چینی کی لَے بڑھی جس سے مقصو د صرف بردو مات ورَدّو اثبات و منع و نقض و اخذ میں ذہن آزمائی اور اپنی طاقت سخن کی رونمائی ہوتی ہے وبس،نہ کہ معاذاللہ مذہب سے پھریں دین و عقائد کو باطل کریں حاشاللہ یہاں سے ہر ذی انصاف پر ظاہر کہ یہ متاخر شارح محشی جو کچھ بحث میں لکھ جایا کرتے ہیں وہ مطلقا خود ان کا اپنا بھی اعتقا د نہیں ہوتا نہ کہ تمام اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ، عقیدہ وُہ ہوتا ہے جو متون و مسائل میں بیان کر دیا بالائی تقریریں اس کے موافق ہیں تو حق ہیں، مخالف ہیں تو وہی ان کی بحث بازیاں اور ذہن آزمائیاں اور قلم کی جولانیاں ہیں جن کا خود انھیں اقرار ہے کہ ان میں قواعد اہل حق کی پابندی نہیں کی جاتی اور معرفتِ سامع پر چھوڑا جاتا ہے کہ عقیدہ اہل حق اسے معلوم ہے اس کی مراعات کر لے گا ، مواقف میں ہے :
انت تعرف مذھب اھل الحق و انما لا نتعرض لا مثالہ للا عتماد علی معر فتک بھا فی موا ضعھا۔ ۱؎
تم اہل حق کا مذہب جانتے ہو اور تمھاری اس معرفت کی بنا پر ہی ہم ایسے مقامات میں اس سے تعرض نہیں کرتے۔ (ت)
(۱؎ المواقف شرح المواقف القسم الاول المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی قم ایران ۵/ ۲۴۴)
شرح میں ہے:
فعلیک برعایۃ قواعد اھل الحق فی جمیع الباحث وان لم نصرح بھا۔ ۲؎
توتجھ پر لازم ہے کہ تمام مباحث میں اہل حق کے قواعد کا پاس کرے اگرچہ ہم وہاں یہ تصریح نہ کریں ۔ (ت)
(۲؎المواقف شرح المواقف القسم الاول المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی قم ایران ۵/ ۲۴۴)
شرح مقاصد میں ہے:
کثیر اما توردالا راء الباطلۃ للفلا سفۃ من غیر تعرض لبیان البطلان الافیما یحتاج الٰی زیاد ۃ بیان ۳؎
عام طو رپر فلا سفہ کی باطل آراء کو ان کا بطلان ذکر کئے بغیر وار د کر دیا جاتا ہے ہاں جہاں کسی زائد بیان کی ضرورت ہو تو وہاں ان کا بطلان و اضح کر دیا جاتا ہے ۔ (ت)
(۳؎ شرح المقاصد المقصدالثالث الفصل الثالث القسم الاول النوع الثالث المسموعات دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۱ / ۲۱۶)
بعینہ اسی طرح حسن چلپی علی السید میں ہے تو عقائد ان کے وہی ہیں جو متون خود اور ان کے کلام میں جابجا مصرح ہیں اگرچہ بحث مباحث میں کچھ کہیں، خصو صا وُہ جن پر فلسفہ کا رنگ چڑ ھا اُن کو تولِمَ ولا نسلم کا وہ لپکا بڑھا جس کے آگے کھائی ، خندق ، دریا ، پہاڑ سب یکساں ہیں مطارحات میں وہ باتیں کہہ جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ ، شرح فقہ اکبر میں ہے سیّدنا امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
لقد اطلعت من اھل الکلام علٰی شیئ ماطننت مسلما یقولہ ۔ ۱؎
میں نے اہل کلام سے بعض باتیں وہ سنیں کہ مجھے گمان نہ تھا کہ کوئی مسلمان ایسا کہتا۔
وُہ تو سمجھ لئے کہ بحث مذہب پر حاکم نہیں، ہمارے عقائد معلوم و معروف ہیں لِمَ ولانسلم میں جو بات اس کے خلاف ہو گی ناظرین خود ہی سمجھ لیں گے اور ان کے متعدد اکابر نے اس پر تنبیہ بھی کر دی ، مگر مضل مغوی کا کیا علاج وُہ تو ایسے ہی موقع کی تاک میں رہتا ہے ادھر عامی بیچارہ مارا پڑا یا وادی حیرت میں سر گرداں رہا اسے ہر بات میں قاعدہ اہل حق کہاں معلوم کہ اس کی مراعات کر لے گا، یہی وُہ باتیں ہیں جنھوں نے اس قسم کے کلام متاخرین کو ائمہ دین کی نگاہ میں سخت ذلیل و بے قدر بنا دیا، یہاں تک کہ امام ابو یو سب رحمۃاللہ تعالٰی نے فرمایا:
من طلب العلم بالکلام تزندق ۔ ۲؎
جس نے عِلم کلا م کے ذریعہ علم حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ زندیق بنا۔ (ت)
(۲؎منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر خطبۃ الکتاب مصطفٰی البابی مصر ص ۴)
فقہائے کرام نے فرمایا جو مال علماء کے لئے وصیّت کیا گیاہو متکلمین کا اس میں حصہ نہیں، نہ کتبِ کلام کتبِ علم میں داخل، ہندیہ میں محیط سے ہے :
لا ید خل فی ھذہ الوصیۃ المتکلمون۔ ۳؎
اس وصیت میں متکلمون ( علم کلام والے) داخل نہ ہوں گے۔ (ت)
(۳؎ فتاوی ہندیۃ الباب السادس نورانی کتب خانہ پشاور ۶/ ۱۲۱)
انھیں میں امام ابو القاسم صفار رحمۃ اللہ تعالٰی سے ہے:
کتب الکلام لیست کتب العلم ۴؎
(کلام کی کتب علم کی کتب نہیں۔ت)
(۴؎فتاوی ہندیۃ الباب السادس نورانی کتب خانہ پشاور ۶/ ۱۲۱)
منح الروض الازہر میں فتاوی ظہیر یہ سے ہے:
اوصی لعلماء بلدہ لا ید خل المتکلمون ولو اوصی انسان ان یوقف من کتبہ کتب العلم فافتی السلف انہ یباع ما فیھا من کتب الکلام۔ ۱؎
کسی نے علاقہ کے علماء کے لئے کچھ وصیت کی تو اس میں متکلمون ( علم کلام والے) داخل نہ ہوں گے، اور اگر کسی نے وصیت کی کہ میر ی کتب میں سے علم کی کتب کو وقف کیا جائے تو اسلاف کا فتوٰی ہے کہ علم کلام کی کتب کو ان میں سے فروخت کیا جائے( یعنی یہ علم کی کُتب نہیں ہیں)۔ (ت)
(۱ ؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر خطبۃ الکتاب مصطفٰی البابی مصر ص ۴)
طریقہ محمدیہ میں بحوالہ تا تا ر خانیہ امام حافظ ابو اللیث سمر قندی سے ہے :
من اشتغل بالکلام محی اسمہ علی العلماء ۔ ۲؎
جو شخص کلام میں مشغول ہو ا تو اس کا نام علما ء کی فہرست سے خارج قرار دیا جائے گا۔ (ت)
(۲؎ طریقہ محمدیۃ النوع الثانی فی المنہی عنہا مطبع اسلامیہ سٹیم پریس لاہور ۱/ ۹۳ و ۹۴)
حدیقہ ندیہ میں ہے:
فلایقال لہ عالم ۳؎
(اس کو عالم نہ کہا جائے گا۔ ت)
(۳؎ الحدیقۃالندیۃ بحوالہ تا تار خانیہ النوع الثانی فی العلوم المنہی عنہا فیصل آباد ۱/ ۳۳۰)
اس کے نظائر نظرِ فقیر میں کثیر و وافر، سرِدست انھیں تین کتابوں سے نظائرلیجئے کہ مکذّبانِ خدانے قرآن عظیم و نصوص صریحہ متون و عقائد و اجماعی قطعی ائمہ سلف و خلف کو یکسر چھوڑ کر ابحاث زائدہ میں ان کی تراشیدہ تقریروں کا دامن پکڑا ہے یعنی مسایرہ و شرح مواقف جن کی دو عبارتیں دیو بندیوں کی پُرانی دست مال ہیں، اور تیسری حاشیہ سیالکوٹی کی یہ عبارت کہ سوال میں گزری ، ان کے بعد بحمد اللہ تعالٰی مکذبوں کا ہاتھ بالکل خالی رہ جائیگا اور وسوسہ ابلیس مردود و مطرود ہو کر
"ویل یو مئذ للمکذبین ۴؎
( اس روز جھٹلانے والوں کے لئے ہلاکت ہے۔ت)کا نقشہ ان پر یہیں سے نظر آئے گا وبا للہ التوفیق۔