رسالہ
القمع المبین لاٰ مال المکذبین(۱۳۲۹ھ)
(مسایرہ وشرح مواقف وسیالکوٹی کی عبارات میں مکذّبوں کی سر شکنی)
بسم اللّہ الرحمٰن الرحیم
مسئلہ ۷۴ :از نگلہ اروہ ڈاکخانہ اچھنیرہ ضلع اکبر آباد، مرسلہ محمد صاد ق خاں ، شوال ۱۳۲۹ ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں:
قلت الکذب نقص والنقص علیہ تعالٰی محال ، فلا یکون من الممکنات الخ قولہ والنقص علیہ الخ لا یخفی انہ موقوف علٰی کونہ ممتنعا بالذات ولا نسلم ذٰلک اذلوکان ممتنعا لما وقع الکذب من احد فھو ممتنع بواسطۃ انہ مناف لکما لہ تعالی فیکون ممتنعا بالغیر والا متناع بالغیر لاینافی الامکان الذاتی۔ حاشیہ عبدالحکیم سیالکوٹی
میں کہتاہوں ، جھوٹ نقص ہے، اور نقص اللہ تعالٰی کے لئے محال، لہذایہ ممکنات میں سے نہیں ہے الخ اس کاقول ،کہ نقص اللہ تعالٰی کے لئے محال الخ، مخفی نہ رہے کہ یہ بات کذ ب کے ممتنع بالذات ہونے پر موقوف ہے، جبکہ یہ ہم تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اگر یہ محال بالذات ہوتا تو پھر کسی سے بھی کذب صادر نہ ہوتا، لہذایہ اللہ تعالٰی کمال کے منافی ہونے کے واسطہ سے ممتنع ہے تو ممتنع بالغیرہُوا جو امکان ذاتی کے منافی نہ ہوا۔ (ت) حاشیہ عبدالحکیم سیالکوٹی
الجواب
بسم اللّہ الرحمٰن الرحیم ،
الحمد للّہ الواجب الصدق المستحیل الکذب المحال علیہ بذاتہ لذاتہ کل نقص و شین،فمن تقول علیہ بامکان کذبہ وتفرق الیہ بخلف وعیدہ فقد استوجب لعنۃاللّہ علیہ فی الدارین،
قل صدق اللّہ ۱؎ ومن اصدق من اللہ قیلا ۲ ومن کان فی ھذہ اعمٰی فھو فی الاٰ خرۃ اعمٰی واضل سبیلا ۳؎ o ویلکم لا تفترو اعلی اللّہ کذبافیسحتکم بعذاب ۴؎، ان الذین یفترون علی اللّہ الکذب لا یفلحون ۵؎o متاع قلیل ولھم عذاب الیم ۶؎ ومن اظلم ممن افتری علی اللّہ کذبا، او کذب باٰیتہ ۷؎ اولئک یعرضون علٰی ربھم ویقول الا شھاد ھٰؤلاء الذین کذبو اعلی ربھم الا لعنۃ اللّہ علی الظّٰلمین ۸؎ oھو الذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون ۱؎ o
صلی اللّہ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی اٰلہٖ و صحبہ وبارک وکرم کلما ذکرہ الذاکرون و کلما غفل عن ذکرہ الغافلون ، والحمد للّہ رب العٰلمین۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم، سب تعریفیں اس اللہ تعالٰی کے لئے جو واجب ، صادق ، کذب جس کے لئے محال بذاتہ ہے ، جس کی ذات کے لیے ہر نقص اور عیب محال بذاتہ ہے ، اور جو شخص اس کے لئے امکانِ کذب کا قول کرے اور خلفِ وعید کے ذریعہ اس کا راستہ بنائے تو بیشک وہ دونوں جہانوں میں اللہ تعالٰی کی لعنت کا مستحق ہوا، فرمادیجئے اللہ تعالٰی نے سچ فرمایا، اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی، جو یہاں اندھا ہو آخرت میں اندھا اور زیادہ گمراہ ہے، تمھاری خرابی اللہ پر کذب کی تہمت نہ باندھو کہ تمھیں عذاب سے پیس ڈالےگا، بیشک جو اللہ پر کذب کی تہمت رکھتے ہیں انھیں چھٹکارانہ ملے گا دنیا میں تھوڑا برتنا ہے اور آخرت میں ان کے لئے درد ناک عذاب، اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر کذب کی تہمت رکھے یا اس کی آیتیں جھٹلائے یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیش کئے جائیں گے اور گواہ کہیں گے کہ یہ ہیں جنھوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا سنتا ہے اللہ کی لعنت ان ظالموں پر، اور اللہ تعالٰی وُہ ذات ہے جس نے اپنا رسول ہدایت کے ساتھ اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرک لوگ ناپسند کریں۔ اللہ تعالٰی اپنی رحمت فرمائے اس رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر اور ان کے صحابہ پر، اور ان پر برکتیں اور کرامتیں نازل فرمائےجب تک اس کو یاد کرنے والے یاد کرتے رہیں اور جب تک اس کے ذکر سے غافل لوگ غفلت کرتے رہیں ، اور سب تعریفیں اللہ تعالٰی سب جہانوں کے پالنے والے کےلئے ۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۳ / ۹۵) ( ۲؎ القرآن الکریم ۴/ ۲۱) (۳؎القرآن الکریم ۱۷/ ۲ ۷ )
(۴؎ القرآن الکریم ۲۰ / ۶۱) (۵؎القرآن الکریم ۱۶ / ۱۱۶ ) ( ۶؎ القرآن الکریم ۱۶ / ۱۱۷)
(۷؎القرآن الکریم ۶/ ۲۱) (۸؎ القرآن الکریم ۱۱/ ۸) (۱؎ القرآن الکریم ۹ /۳۳)
اللہ عزوجل کے غضب سے اسی کی پناہ ، پھر اس کے حبیب اکرم رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پناہ ، جب غضب الٰہی کسی قوم سے دین لیتا ہے عقل پہلے چھین لیتا ہے کہ عقل سلیم بفضل کریم باطل کو قبول نہیں کرتی ، اور اگر کبھی شیطان نے کچھ دھوکا دیناچاہا
تذکروا فاذاھم مبصرون ۲؎
(یاد دلاؤ تو جلد ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں)مگر جب عقل نہ رہی ( یعنی دین متین کی سمجھ اگر چہ دنیا و دیگر علوم و فنون کی کتنی ہی دانش ہو
لا یعقلون شیئا ولا یھتدون ۳؎
(نہ کسی چیز کو سمجھتے ہیں اور نہ ہدایت پاتے ہیں ۔ت) اس وقت انسان شیطان کا مسخرہ ہوجاتا ہے کہ صورت میں آدمی اور باطن میں گدھا ہے
کمثل الحماریحمل اسفارا۴؎کانھم حمر مستنفرۃ ۵؎
(گدھے کی مثل کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہُوئے ہیں ،گویا بھاگتے ہو ئے گدھے ہیں ۔ت)
( ۲؎ القرآن الکریم ۷/ ۲۰۱) (۳؎القرآن الکریم ۲/ ۱۷۰)( ۴؎ القرآن الکریم ۶۲ / ۵)(۵؎القرآن الکریم ۷۴/ ۵۰)
اپنی اغراض فاسدہ کے لئے اس کی کتاب مبنی کی مثال بالکل سوئر اور سیرِ باغ کی ہوتی ہے، پُھول مہکیں، کلیاں چٹکیں ، تختے لہکیں،فوارے چھلیکں، بلبلیں چہکیں، اسے کسی لطف و سرور سے کام نہیں وہ اس تلاش میں پھرتا ہے کہ کہیں نجاست پڑی ہو تو نوشِ جان کرے بعینہ یہی حالت گمراہ بد دین کی ہوتی ہے ہزار ورق کی کتاب میں لاکھ باتیں نفیس و جلیل فوائدکی ہوں ان سے اسے بحث نہ ہو گی، کتاب بھر میں اگر کوئی غلط و باطل و خطا جملہ اپنے مطلب کا سمجھے گا اسی کو پکڑ لے گا اگر چہ واقع میں وہ اس کے مطلب کا بھی نہ ہو اتنی بات اس میں خنزیر سے بھی بڑھ کر ہوئی کہ وہ نجاست لے گا تو اپنے مطلب کی اور اسے اس کی بھی تمیز نہیں، انبیا ء علیہم الصلٰوۃ والثناء کے سواکوئی بشر معصوم نہیں اور غیر معصوم سے کوئی نہ کوئی کلمہ یا بیجا صادر ہونا کچھ نادر کا لعدم نہیں پھر سلف صالحین و ائمہ دین سے آج تک اہل حق کا یہ معمول رہا ہے،
کل ماخوذمن قولہ و مردود علیہ الا صاحب ھذا القبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم۔
اس روضہ پاک والے صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے سوا ہر ایک کا قول لیا جا سکتا ہے اور اس پر رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ (ت)
جس کی جو بات خلاف اہل حق و جمہور دیکھی وہ اسی پر چھوڑی اور اعتقاد وہی رکھا جو جماعت کا ہے کہ ید اللّہ علی الجمائۃ اتبعو السوادالاعظم اللہ تعالٰی کی حمایت جماعت کو حاصل ہے سواداعظم کی پیروی کرو ۔ ت) نہ کہ اجماع امت کے خلاف کسی نے محض بطور بحث منطقی کوئی شگوفہ چھوڑ دیا اور دل کی میچ کر اس کے پیچھے ہوئے یا اندھے ملاعین کا طریقہ ہوتا ہے یا اوندھے شیاطین کا کہ رب عزوجل فرماتاہے:
وان یر واسبیل الرشد لا یتخذ وہ سبیلا وان یر واسبیل الغی یتخذ وہ سبیلا ذٰلک بانھم کذبوا باٰ ٰیتنا و کا نوا عنھا غٰفلین۔ ۱؎
اگر ہدایت کی راہ دیکھیں تو اس میں چلنا پسند نہ کریں اور گمراہی کا رستہ نظر پڑے تو اس میں چلنے کو موجود ہو جائیں یہ اس لئے کہ وُہ ہمارے کلا م کی طرف کذب کی نسبت کرتے اور ہماری آیتوں میں غافل ہیں۔
(۱القرآن الکریم ۷/ ۱۴۶)
اس وصف میں تمام طوائف گمراہان میں طائفہ وہابیہ اور طوائف وہابیہ میں خاص طائفہ دیو بندیہ سب سے ممتاز ہیں،اور ہوا ہی چاہیں کہ قرآن عظیم فرماتاہے یہ اس کذب کی شامت ہے جو وُہ ہمارے کلا م کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اللہ کی طرف نسبتِ کذب میں وہابیہ سب سے پیش قدم ہیں کہ ان کے پیشوا اسمعیل دہلوی صاحب نے یک روزی میں اس کی چنائی چنی اور وہابیوں میں دیو بندی اس میں اگواہیں کہ ان کے پیر گنگوہی صاحب نے براہین میں اس پر استر کار ی کی، نیز جناب موصوف کی تقلید سے ماشاء اللہ اندھے ہونے میں بھی اس طائفہ کو دنیا بھر کے دلی اندھوں پر ترجیح ہے اگر ایک آدھ آنکھ آدھی چوتھائی بھی کھلی ہوتی تو یہ نہ سوجھتا کہ سیالکوٹی ملا توجس کذب میں یہاں ممکن بالذات کہہ رہے ہیں اسے نہ صرف ممکن بلکہ واقع بتا رہے ہیں یعنی نفس کذ ب کسی کا ہو جنگلی کا یا کوہی کا، دہلوی کا یا گنگوہی کا، اور اس کے ممکن بلکہ روزانہ لاکھوں کروڑوں بار واقع ہونے میں کیاکلا م ہے ان کے لفظ دیکھئے کہ "لوکا ن ممتنعا لما وقع الکذب من احد"یعنی جس طرح اجتماع نقیضین وارتفاع نقیضین اپنی ذات میں محال ہیں یو ں ہی اگر مطلق جُھوٹ خود اپنی ذات میں محال ہوتا تو کبھی کوئی شخص جھوٹ نہ بول سکتا مگر کروڑوں لوگ جھوٹ بول رہے ہیں، تو معلوم ہوا کہ جھوٹ خود اپنی حد ذات میں محال نہیں، ہاں جب اسے اللہ عزوجل کی طرف نسبت کرو تو ضرور محال ہے کہ ذات الٰہی بالذات مقتضی جملہ کمالات و منافی جملہ نقائص ہے تو اس پر کذب محال بالذات ہے یہ استحالہ جانب باری سے بالذات ہوا کہ اس کی ذات کریم ہر عیب کے منافی ہے،مگر مطلق کذب جو کلیِ عام شامل ہر کذب اور ہر شخص کے کذب کو تھا اس فرد کے استحالہ سے اسے بھی ایک استحالہ عارض ہوا کہ ہر فرد کا حکم طبیعت من حیث کی طرف ساری ہوتا ہے یہ استحالہ مطلق کذب کے حق میں ذاتی نہ ہوا کہ خود مطلق کذب کی ذات سے پیدا نہ ہوا بلکہ اللہ عزوجل کی ذات سے،بعینہ اس کی مثال وہی اجتماع نقیضین ہے ، مطلق اجتماع کسی کا ہو اپنی حد ذات میں محال نہیں ورنہ کبھی کوئی دو ۲ چیزیں جمع نہ ہو سکتیں ہاں نقیضین کا اجتماع محال بالذات ہے کہ ذات نقیضین منافی اجتماع ہے، مگر مطلق اجتماع کہ ہر دوشےَ کے جمع ہو نے کو عام شامل تھا وہ جو اس مادہ خاصہ میں آکر محال ہوا تو یہ استحالہ اس کے لئے ذاتی نہیں بلکہ خصوص نقیضین کے باعث ہے تو مطلق اجتماع کہ ماہیت مطلقہ ہے ضرور ممکن بالذات بلکہ لاکھوں جگہ موجوداور اس کے سبب اجتماع نقیضین ممکن نہیں ہو سکتا وہ قطعا محال بالذات ہے یو نہی مطلق کذب کہ طبیعت مرسلہ ہے ضرور ممکن بالذات بلکہ ہزاروں جگہ موجود اس کے سبب معاذاللہ کذب باری ممکن نہیں ہو سکتا وہ یقینامحال بالذات ہے، یہ ہے اس عبارت کی تقریر جس سے اعتراض ملّا سیالکوٹی صاحب کی تشریح بھی ہو گئی اور اس سے جواب کی خوب تو ضیح بھی کہ یہاں کلام کذب خاص میں ہے نہ کہ مطلق طبیعت کذب میں، اور کلی کا امکان اس کے ہر فرد کے امکان کو مستلزم نہیں، یہاں ملّا سیالکوٹی کی تو اتنی ہی خطا تھی کہ محلِ نزاع میں فرق نہ کیا امکانِ فرد میں بحث تھی اور لے کر چلے امکان طبیعت، مگر دیو بندی اپنے کفر سے کب باز آتے ہیں ، وہ اسی کو معاذاللہ امکان باری پر دلیل بتاتے اور اپنے کفریا ت ان کے سر منڈھاچاہتے ہیں، بہت خوب اب دیو بندی سنبھل کر بتائیں کہ یہ سیا لکوٹی تقریر جس طرح تم بتاتے ہو تمھارے نزدیک حق ہے یا باطل، اگر باطل ہے تو کیوں دانستہ اوندھے چلتے اور ناواقف مسلمانوں کو چھَلتے ہو، اور حق ہے تو تمھارے ہی منہ ثابت ہو کہ تم مشرک ہی نہیں بلکہ نرے بت پرست ہو کہ اللہ عزوجل کو مانتے ہی نہیں صرف اپنے ساختہ ٹھا کر کو پُوجتے ہو، یُوں نہ مانو ہم ثابت کر دیں تو سہی، جس تقریر سے اس کا کذب معاذ اللہ ممکن ٹھہرایا، بعینہ بلا تفاوت اسی تقریر سے اس کا شریک بھی ممکن ہےکہ شریک اگر محال ہو تا تو کوئی کسی کا شریک نہ ہو سکتا تو شریک باری اس واسطے سے محال ہو گا کہ اس کے کمال کے منافی ہے تو ممتنع بالغیر ہوا اور امتناع بالغیر امکان ذاتی کا منافی نہیں، بعینہ بلاتفاوت اسی تقریر سے اس کی موت و فنا بھی ممکن ہے کہ موت محال ہوتی تو کوئی کبھی نہ مرتا تو موتِ باری اس واسطے محال ہوئی کہ منافی کما ل ہوئی تو امتناع بالغیر رہا تو اس کا مرنا فنا ہو جا نا ممکن بالذات ہوا تو وہ واجب الوجود نہ ہوا تو الٰہ نہ ہوا بلکہ کوئی تمھارا ساختہ ٹھا کر ہُوا،
الا لعنۃ اللہ علی الظلمین ۱؎
(خبر دار ظالموں پراللہ کی لعنت ہے ۔ت)
(۱القرآن الکریم ۱۱ / ۱۸)
اس عبارت کے جواب کو تو اسی قدربس ہے مگر فقیر بعون القدیر چاہتا ہے کہ اس بحث کو اعلٰی درجہ کمال پر پہنچائے اور گنگوہی و دیو بندی مکذّ بانِ الٰہی نے مسایرہ و شرح مواقف کی دو عبارتوں سے جو مسلمانوں کو دھوکا دینا چاہا ہے ایک ضربتِ حیدری و صولتِ فاروقی سے اس کی بھی پردہ دری ہو جائے ، وباللہ التوفیق ان عبارتوں سے استناد اس سے زیادہ پوچ و لچر ہے ، جیسا اس عبارت سیالکوٹی سے تھا، مگر اللہ کے مکذّبوں کا مقصود مردود تو صرف عوام کو دھوکے دینا اور یہود کے تلبسوا الحق بالباطل و تکتمواالحق (حق کو باطل سے ملا تے ہو اور حق کو چھپاتے ہو۔ت) سے پُورا تر کر لینا ہے۔
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۔۱؎
ظالم لوگ عنقریب معلوم کر لیں گے کہ وہ کس کروٹ پلٹتے ہیں (ت)