Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
86 - 150
چہارم: یہ قضیہ بیشک حق تھا کہ جس پر انسان قادر ہے اس سب اور اس کے علاوہ نامتناہی اشیاء پر مولٰی عزو جل قادر ہے وہ بقدرت ظاہر یہ عطائیہ اور حق بقدرت حقیقیہ ذاتیہ مگر اس حق کو یہ ناحق کوش کس طرح باطل محض کی طرف لے گیا انسان کا کسی فعل کوکرنا کسب کہلاتاہے انسان کی قدرت ظاہر یہ صرف اس قدرہے ،قدرت حقیقیہ خلق و ایجاد میں اس کا حصہ نہیں وہ خاص مولٰی عزوجل کی قدرت ہے تو اس کلمہ حق کا حاصل یہ تھا کہ انسان جس چیز کے کسب پر قادر ہے اللہ عزوجل اسکے خلق اور پیدا کرنے پر قادر ہے کہ وہ کسب نہ ہو گا مگر بقدرت خدا اس دل کے اندھے نے یہ بنا لیا کہ انسان جس چیز کے کسب پر قادر ہے ، رحمن بھی خود اپنے لئے اس کے کسب پر قادر ہے سبحٰن اللہ رب العرش عما یصفون (پاکی ہے عرش کے رب کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔ت) اندھے نے نہ جانا کہ کسی کا کسی شے پر قادر ہونا '' صحۃ الشیئ منہ'' ہے نہ کہ '' صحۃ الشیئ علیہ ''، اور صاف گھڑلیا کہ '' ما یصح علی العبد یصح علی اللہ ''جو بندے پر جاری ہو سکے خدا پر بھی جاری ہو سکتا ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا ضلالت و شیطنت بے انتہا ہے،
وسیعلم الذین ظلمواای منقلب ینقلبون ۔ ۱؎
اور عنقریب ظالم جان لیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے (ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۲۶ /۲۲۷)
دیوبندی اسے قطعی دلیل کہتا ہے ، ہم ایک فائدہ عجیبہ بتائیں، میں کہتا ہوں ہاں وہ ضرور قطعی دلیل ہے مگر کاہے پر ،وہابیہ امام الوہابیہ کے ایک ایک قول ایک ایک فقرے ایک ایک حرف وہابیت کے ابطالِ صریح پر ، اس حجت عامۃ الظہور لامعۃ النور کی تقریر ایک مقدمہ واضحہ کے بیان سے روشن و منیر، وُہ مقدمہ یہ کہ جس بات کا حق جاننا خدا پر جائز و رو اہے وُہ ضرور فی الواقع حق و بجا ہے ورنہ خدا پر جہل مرکب جائز ہو کہ اپنی غلط فہمی سے ناحق کو حق جان لے باطل کو صحیح مان لے ، امام الوہابیہ نے اگر چہ اس کا کذب ممکن کہا مگر وُہ یُوں تھاکہ اس کے علم میں ٹھیک بات ہے اور دوسروں سے اس کے خلاف کہے نہ یہ کہ خود اس کا علم ہی باطل و خلافِ حق ہو اس کے امکان کی اس نے تصریح نہ کی، دیوبندیوں نے اگرچہ امکان جہل(عہ) صراحۃً اوڑھ لیا مگر وہ جہل بسیط تھا کہ ایک بات معلوم نہ ہونا، نہ کہ جہل مرکب کہ باطل کو حق اعتقاد کرنا، اس کا امکان ان سے بھی مسموع نہیں ،
عہ:  مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری مرحوم مصنف تقدیس الوکیل عن توہین الرشید و الخلیل وغیرہ نے جو اس ہذیان امام الوہابیہ پر لزوم امکان جہل وغیرہ شناعات سے نقص کیا تھا ، مولوی محمود حسن دیو بندی وغیرہ پارٹی دیوبند نے عقائد گنگوہی کے بیان و حمایت میں اس کا جواب اخبار نظام الملک پرچہ ۲۵ / اگست ۱۸۸۹ء میں یہ چھاپا '' چوری شراب خوری ، جہل ، ظلم سے معارضہ کم فہمی معلوم ہوتا ہے ، غلام دستگیر کے نزدیک خداکی قدرت بندہ سے زائد ہونا ضروری نہیں حالانکہ یہ کلیہ ہے جو مقدورالعبد ہے مقدور اللہ ہے ۔'' دیکھو کیسا صاف اقرار ہے کہ وہابیہ کا معبود چوریاں کرئے شرابیں پئے ، جاہل بنے ، ظلم میں سے سب کچھ روا ہے، اعوذباللہ من الخذلان اس پرچہ کی خرافات ملعونہ کا ردآخر کتاب مستطاب سبحٰن السبوح میں چھپا ہے وہاں ملا حظہ ہو ۱۲ منہ۔
رہے ہم اہل اسلام ، ہمارے نزدیک تو بحمداللہ تعالٰی یہ مقدمہ اجلی بد یہیات و اعلٰی ضروریات دین سے ہے، اگر خدا کا علم جائز الخطا ہو تو قیامت و حشرو نشر و جنت و نار وغیر ہا جملہ سمعیات باطل محض ہو جائیں کہ ان کی طرف عقل کو آپ تو راہ ہی نہیں کہ کسی دلیل کسی تعلیل ، کسی استقراء، کسی تمثیل سے ان پر اعتقاد کر سکے ان کا اعتقاد محض بربنائے کلام الٰہی تھا اب اس کی جانچ واجب ٹھہری کہ ایک جائز الخطاء کی بات ہے، جانچ کا ہے سے ہوگی عقل سے، عقل وہاں چل سکتی  ہی نہیں تو محض مہمل و بے ثبوت جاننا اور ان سب کا چھوڑ دینا لازم ہُوا کذب نے تو بات ہی میں شبہ ڈالا تھا جہل مرکب نے جڑ سے لگی نہ رکھی بلکہ نظر بمذہب وہابیہ اس تقدیر پر نہ صرف ایمانیات معاد بلکہ خود اصل ایمان اعنی تو حید الٰہی پر بھی ایمان ہاتھ سے جائے گا، وجہ سُنئے وہابیہ کے طور پر خدا کےلئے بیٹا ہونا عقلاًمحال نہیں ان کا امام صاف مان رہا ہے کہ جو کچھ انسان کر سکتا ہے خدا بھی اپنے لئے کر سکتاہے تو واجب ہُوا کہ خدا عورت سے نکاح بعدہ جماع بعدہ اس کے رحم میں اپنے نطفے کا ایقاع کر سکے ورنہ قدرت میں انسان سے گھٹ جو رہے گا، اور جب یہا ں تک ہو لیا تو اب نطفہ ٹھہرانے اور بچہّ بنانے اور پیدا کرلانے میں کیا زہر گھُل گیا کہ ان سے عاجز رہے گا دنیا بھر کی ماؤں کے ساتھ یہ افعال کر رہا ہے، اپنی زوجہ کے بارے میں کیوں تھک رہے گا، آخر وہا بیہ کا ایک پُرانا امام ابن حزم غیر مقلّد ظاہری المذہب مدعی عمل بالحدیث منہ بھرکربک گیا کہ خدا کے بیٹا ہو سکتاہے،
ملل ونحل میں کہتا ہے:
انہ تعالٰی قادر ان یتخذ ولد ااذلو لم یقدر لکان عاجزا ۱؎
بیشک اللہ تعالٰی اس بات پر قادر ہے کہ اولاد رکھے کیونکہ اگر اس پر قادر نہ ہوا تو عاجز ہو گا (ت)
 (۱؎ الملل والنحل لابن حزم)
اس کا رد سبحٰن السبوح صفحہ ۳۴ و ۳۵ میں ملا حظہ ہو، اور شک نہیں کہ خدا کا بیٹا ہو گا تو ضرور وہ بھی مستحقِ عبادت ہو گا،
قال اللہ تعالٰی : قل ان کان للرحمٰن ولد فانا اول العابدین ۔۲؎
تم فرمادو کہ  رحمن کے کوئی بچہ ہے تو سب سے پہلے اس کا پُوجنے والا میں ہوں۔
 (۲؎ القرآن الکریم ۴۳ / ۸۱)
تو ثابت ہُوا کہ وہابیہ کے نزدیک ہزاروں خدا مستحقِ عبادت ممکن ہیں، عقلی استحالہ تو یُوں یا ، رہا شرعی اس کے کھونے کو امکان کذب کیا تھوڑا تھا کہ اب خدا کی بات سچّی ہونی ضرور نہیں ، جہل مرکب ممکن مانا گیا، تو پوری رجسٹری ہو جائے گی کہ ممکن کہ ادعائے توحید و مذمت شرک سے جو تمام قرآن گونج رہا ہے سب بر بنائے جہل مرکب و غلط فہمی ہو ، اب لا الٰہ الّااللہ بھی ہاتھ سے گیا والعیاذ باللہ سبحٰنہ وتعالٰی ، بالجمہ اللہ عزوجل پر جہل مرکب محال بالذات ہونے میں وہابیہ کو بھی اہل اسلام کا ساتھ دینے سے چارہ نہیں تو یہ مقدمہ کہ '' جس بات کا حق جاننا خدا پر روا ہے وُہ ضرور حق و بجا ہے ۔''بر ہانی ایقانی بھی ہے اور مخالف کا تسلیمی اذعانی بھی، اس کا نام مقدمہ ایمانیہ رکھئے۔
اب خلاف وہابیہ و وہابیت جو بات چاہئے فرض کر لیجئے خواہ وہ ہمارے موافق ہو یا ہمارے احکام سے بھی زائد مثلا:

(۱) اسمٰعیل دہلوی نراکافر تھا۔

(۲)گنگوہی ، دیوبندی ، نانوتوی ، انبٹھی، تھانوی وغیر ہم وہابی سب کھلے مرتد ہیں۔

(۳) جو کذبِ الٰہی ممکن کہے ملحد ہے۔
 (۴) تقویۃ الایمان، تنویر العینین، ایضاح الحق، صراطِ مستقیم تصانیف اسمعیل دہلوی، معیار الحق تصنیف نذیر حسین دہلوی، تحذیر الناس تصنیف نانوتوی، براہین قاطعہ تصنیف گنگوہی وغیرہا جملہ نباحات انبوہی سب کفری بول نجس تر ازبول ہیں،جو ایسا نہ جانے زند یق ہے۔

(۵) جو باوصف اطلاع اقوال ان میں سے کسی کا معتقد ہو ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے۔

(۶) ان سفہا اور اُن کے نُظرا تمام خبثا جنھوں نے شانِ  اقدس وار فع رب العالمین و حضور پُر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تنقیص کی ،جو شخص رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ورب العزت جل جلالہ کے مقابل ان ملحدوں کی حمایت مروت رعایت کرے ان کی باتوں کی تحسین ، توجیہ تاویل کرے وہ عدوِ خدا دشمنِ مصطفٰی ہے جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

(۷) غیر مقلدین سب بے دین پکّے شیا طین پورے ملاعین ہیں۔

سات یہ اور سات ہزار اور  ،جوبات لو کیا انسان اس کا اعتقاد نہیں کر سکتا ہر شخص بدا ہۃً جانتا ہے کہ آدمی ضرور ان میں سے ہر بات کے اعتقاد(عہ) پر قادر ہے ، یہ مقدمہ بدہییہ عامۃ الورود محفوظ رکھئے کہ '' اس امر کا اعتقاد انسان کر سکتا ہے ''۔
عہ:  ظاہر ہے کہ کوئی خبر بھی ہو حق ہو گی یا باطل، اور سب جانتے کہتے مانتے ہیں کہ حق کا اعتقاد فرض یا کم از کم جائز اور باطل کا اعتقاد حرام و ممنوع ، اور فرض وحرام و ممنوع وہی شے ہو گی جس پر انسان کو قدرت ہو ، یہی یہاں ملحوظ ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ
مسلمانو ! (اس ) میں آپ کو اختیار رہا ، ردّ وہابیہ کی جس بات کو چاہئے اس کا مشارالیہ بنائیے ،اب اس مقدمہ بدیہیہ کو صغری کیجیے اور مقدمہ وہابیہ یعنی دہلوی ضلیل کا وہ دعوی ذلیل کہ '' جو کچھ انسان کر سکتا ہے خدا کر سکتا ہے '' اسے کبرٰی بنائیے، شکل اوّل بد یہی الا نتاج سے نتیجہ نکلا کہ '' اس امر کا اعتقاد خدا کر سکتاہے'' اب اس نتیجہ صغری کیجیے اور مقدمہ ایمانیہ کو کبری کہ "ہر وہ امرجس کا اعتقاد خدا کر سکتا ہے قطعا یقینا حق ہے ، شکل اول کا نتیجہ بد یہیہ ہو گا کہ یہ امر قطعا یقینا حق ہے ، وہابیہ کو یہاں معارضہ بالقلب کی گنجائش نہیں کہ اپنے عقاید باطلہ کو کہیں انسان ان کا بھی اعتقاد کر سکتا ہے تو خدا بھی کر سکتا ہے تو یہ بھی حق ہیں  کہ مبنائے دلیل مقدمہ وہابیہ ہے اور وہ ان پر حجت کہ ان کا اور ان کے امام کا ایمان ہے، ہمارے نزدیک وُہ باطل محض ہے تو کبرٰی قیاس  اول مردود ہو کر پہلا ہی نتیجہ باطل ہو گا، اب کہئے مفر کدھر، تین ہی احتمال ہیں:

اول : مقدمہ ایمانیہ کا انکار کرو اور اپنے خدا کا جہل مرکب میں گرفتار ہونابھی جائز جانو، جب تو قیامت و حشر و نشر و جنت و نارجملہ سمعیات اور خود اصل اصول دین لا الٰہ الا اللّہ (پر ایمان کواستعفاء دواور کھلے کافر بنو۔
دوم : اقرارکرو کہ مقدمہ وہابیہ یعنی دہلوی ضلیل کی دلیل ذلیل کا وہ شیطانی کلیہ مردود و ملعون و مطرو دتھاہیہات اول تو اسے تمھارا دل کب گوارا کرے ؎
انی لکم الی الھدی تھویل     قد اشرب فی القلوب اسمٰعیل
 (تمھیں ہدایت کی طرف پلٹناکہاں نصیب ہو گا، تحقیق تمھارے دلوں میں اسمٰعیل ( کی محبت) رچ گئی ہے ۔ ت) اور خدا کا دھرا سر پر، براہ ناچاری اس کے انکار پر آؤ بھی تو تمھارا خصم کب مانے وہ کہے گا میرا استدلال اسی مقدمہ کی بنا پر الزامی تھا، اور خصم جب دلیل الزامی قائم کرے تو فریق کو اپنے مقدمہ مسلمہ سے پلٹ جانے کی گنجائش نہیں، کما  صرح (عہ)بہ العلما ء الکرام(جیسا کہ علماءِ کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ت)ورنہ کوئی دلیل الزامی قائم ہی نہ ہوسکے، ہمیشہ مغلوب کے لئے یہ بھاگنے کا رستہ کُھلا رہے کہ دلیل جس مقدمہ مسلمہ پر مبنی ہو اس سے انحراف کر جائے اور بالفرض وُہ بھی درگزر کر ے تو کیا یہ اقرار نرے قول کی ضلالت پر اقتضاء ہو گا، نہیں نہیں صاف صاف کہنا پڑے گا کہ امام الوہابیہ باری سبوح قدوس عزوجل کو ایسی شنیع ناپاک گالی کہ کروڑوں گالیوں پر مشتمل ہے دے کر صریح ضال مضل بے دین ہوا اور تم اور فلاں و فلانی اس کے سارے معتقدین بھی اس کی طرح گمراہ بددین ہوں۔
عہ:  فی مسلم الثبوت و شر حہ فواتح الرحموت للمولی بحر العلوم لو تم ھذالم یکن الدلیل الجدلی مفیدا للالز ام اصلا، اذ یمکن اعتراضہ بالخطاء فی تسلیم احدی المسلمات و لم تکن القضایا المسلمۃ من مقا طع البحث والکل با طل علی ما تقرر فی محلہ والحق ان المسلّمہ کالمفروض فی حکم الضروری لا یصح انکارہ فانکارہ اشد من الا لزام ۱؎ اھ باختصار ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
مسلم الثبوت اور اس کی شرح فواتح الرحموت تصنیف مولانا بحرالعلوم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں ہے کہ اگر یہ تام ہو جائے تو پھر دلیل جدلی بالکل مفید الزام نہ رہے گی کیونکہ ممکن ہوگا کہ خصم قضائے مسلمہ میں سے کسی کو خطا مان لے اور مسلمات بحث کے خاتمہ کا ذریعہ نہ رہینگے اور یہ سب باطل ہے جیسا کہ ہم اس کو اپنے محل میں ثابت کر چکے ہیں، اور حق یہ ہے کہ مسلّم، حکم ضرورۃ و بداہۃ میں مفروض سمجھا جاتا ہے جس کا انکار صحیح نہیں، پس اس کا انکار الزام سے شدید تر ہے ۱ ھ باختصار رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
 (۱؂فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت مع بذیل المستصفٰی)
سوم : اگر ان دونوں سے فرار کرو تو اب نہ رہا مگر یہ تیسرا کہ ان سب نتائج کو جو تمھارے امام ہی کے گھر سے پیدا ہوئے حق جانو اور دہلوی(عہ۱) اول و دہلوی(عہ۲) آخروگنگوہی و نانوی و انبیٹھی و تھانوی و دیوبندی اور خود اپنے آپ اور جملہ وہابیہ اور سارے غیر مقلدین سب کو کافر مرتداور تقویۃ الایمان و براہین قاطعہ و تحذیر الناس و معیارالحق وغیر تمام تصانیف وہابیہ کوکفری قول اور پیشاب سے زیادہ نجس و بد مانو، 

عہ۱ : اسمٰعیل ۱۲		عہ۲ :نذیر حسین ۱۲

فرمائیے ان میں کون سا آپ کو پسند ہے جسے اختیار کیجئے اپنے اور اپنے امام سب کے کفرو نی یا کم از کم گمراہی و بددینی کا اقرار کیجئے،کہو کچھ جواب فرماؤ گے یا آج ہی سے
مالکم لا تنا صرون oبل ھم الیوم مستسلمون ۱؎
 (تمھیں کیا ہو ا آپس میں ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے بلکہ وہ آج گردن ڈالے ہیں۔ت)کارنگ دکھاؤ گےکیوں،
 (۱؎ القرآن الکریم      ۳۷/ ۲۵ و ۶ ۲ )
ھل ثوب الفجار ماکانو ایا فکون والحمد للّہ رب العٰلمین وصلی اللّہ تعالٰی علٰی سیدنا و مولانا محمد و اٰ لہ وصحبہ اجمعین واللّہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
کیا کچھ بدلہ فاجروں کو اس کا ملا جو وہ جھوٹ بولے تھے، اور تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کےلئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے اور اللہ تعالٰی ہمارے آقا و مولٰی محمد مصطفٰی اور ان کے تمام آل و اصحاب پر درود نازل فرمائے، اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے اور اس کا علم اتم واحکم ہے (ت)
Flag Counter