فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر) |
ثالثا : احمق بددین نے اگرچہ مسلمانوں کا دل رکھنے کو اپنے رسالہ یکروزی میں جہاں یہ ناپاک دلیل ذلیل لکھی ہے یہ اظہار کیا کہ خدا کا کذب ممکن بالذات ہونے پر بھی ممتنع بالغیر ضرور ہے مگر دلیل وہ پیش کی جس نے امتناع بالغیر کو بھی صارف اڑا دیا، ظاہر ہےکہ انسان کا کذب نہ ممتنع بالذات نہ ممتنع بالغیر، بلکہ ہر روز و سب ہزاروں بار واقع تو کذب پر ا س کی قدرت آزاد ہوئی جس پر کوئی روک نہیں اور برابرکام دے رہی ہے، مگر خدا کی قدرت بستہ و مسدود ہے کہ واقع کرنے کی مجال نہیں اور شک نہیں کہ آزاد قدرت مسدود قدرت پر صریح فوقیت رکھتی ہے تو یوں کیا انسانی قدرت اس کی قدرت سے فائق نہ رہی باعتبار مقدورات کمًّا نہ سہی تو با عتبار نفاذکیفا سہی، ناچار تمھیں ضرور ہے کہ امتناع بالغیر بھی نہ مانو کہ انسانی قدرت سے شرمانا تو نہ پڑے۔
رابعا : اس قول خبیث کی خباثتیں کہاں تک گنیں کہ وُہ تو بلا مبالغہ کروڑوں کفریات کا خمیرہ ہے ، ہاں وہ پوچ بے حقیقت گرہ کھو لیں جو اس نے اپنا جادو پھونک کر لگائی اورحماقت سے بہت کرّی گتھی جانی، یہ چار طور پر ہے بغضہا قریب من بعض:
اوّل: ساری بات یہ ہے کہ احمق نے افعال انسانی کو خدا کی قدرت سے علیحدہ سمجھا ہے کہ آدمی اپنے کام اپنی قدرت سے کرتا ہے یہ رافضیوں معترلیوں فلسفوں کا مذہب ہے، اہلسنت کے نزدیک انسانی حیوانی تمام جہان کے افعال اقوال اعمال احوال سب اللہ عزوجل ہی کی قدرت سے واقع ہوتے ہیں،اور وں کی قدرت ایک ظاہری قدرت ہے جسے تاثیر و ایجاد میں کچھ دخل نہیں تمام کائنات وممکنات پر قدرت موثرہ خاص اللہ عزو جل کے لئے ہے، تو کذب ہو یا صدق ، کفر ہو یا ایمان،حسن ہو یا قبح ، طاعت ہو یا عصیان ، انسان سے جو کچھ واقع ہو گا وہ اللہ ہی کا مقددر اللہ ہی کا مخلوق ہو گا، اسی کی قدرت اسی کی ایجاد سے پیدا ہو گا، پھر کیونکر ممکن کہ انسان کو فعل قدرتِ الٰہی سے جُدا کر سکے جس کے لئے وزن برابرکر نے کو خدا کو خوداپنے لئے بھی کر سکنا پڑے، اس ضلالت و بدینی کی کوئی حد ہے مقاصد میں ہے :
فعل العبد واقع بقدرۃ اللہ تعالٰی انما اللعبد الکسب والمعتزلۃ بقدرۃ العبد صحۃ الحکماء ایجابا ۱؎۔
یعنی بندے کا ہر فعل اللہ تعالٰی ہی کی قدرت سے واقع ہوتا ہے بندہ کا فقط کسب ہے اور معتزلہ و فلاسفہ کہتے ہیں کہ بندے کا فعل خود بندے کی قدرت سے ہو تا ہے ، معتزلہ کے نزدیک امکانی طورپر کہ قدرت بندہ سے وقوعِ فعل ممکن ہے واجب نہیں اور فلاسفہ کے نزدیک وجوبی طور پر کہ تخلف ممکن نہیں۔
(۱؎ المقاصدمع شرح المقاصد الفصل الخامس دارا المعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۱۲۰)
دوم: اندھے سے پوچھو انسان کو کس کے کذب پر قدرت ہے، اپنے یا خدا کے ۔ ظاہر ہے کہ انسان قادر ہے تو صرف کذبِ انسانی پر نہ کہ معاذاللہ کذبِ رباّنی پر۔ اور شک نہیں کہ کذب انسانی ضرور قدرت ربانی میں ہے، پھر اگر کذ ب ربانی قدرت ربانی میں نہ ہُوا تو قدرت انسانی کیونکر بڑھ گئی، وہ کذب ربانی پر کب تھی اور جس پر تھی یعنی کذب انسانی، اسے ضرور قدرت ربانی محیط ہے، مگر خداجب دین لیتا ہے عقل پہلے چھین لیتا ہے ، دل کے اندھے نے یہ خیال کیا کہ انسان اپنے کذب پر قادر ہے، اور یہی لفظ بارگاہِ عزت میں بول کر دیکھا کہ اسے بھی اپنے کذب پر قدرت چاہئے اور نہ سوُجھا کہ وہاں اپنے سے انسان مراد تھا اور اب خدا مرا دہو گیا،اس کی نظیر یہی ہو سکتی ہے کہ اسی کی طرح کا کوئی کورباطن خیال کرے کہ انسان اپنے خدا کی تسبیح کر سکتا ہے تو چاہئے کہ خدا بھی اپنے خدا کی تسبیح کرسکے ورنہ قدرت انسانی بڑھ جائے گی، تو خدا کے لئے اور خدا درکار ہوا،
وھلم جرا الٰی غیر نھایۃ و غیر قرار ، کذٰ لک یطبع اللہ علٰی کل قلب متکبر جبار۔
اور کھینچتا چل مالا نہایۃ تک ، یونہی اللہ تعالٰی ہر متکبر سر کش کے دل پر مُہر لگا دیتا ہے (ت)
سوم : ہم پُوچھتے ہیں قدرتِ انسانی بڑھ جانےسے کیا مراد ہے ، آیا یہ کہ انسان کے مقدورات گنتی میں خدا کے مقدورات سے زائد ہو جائیں گے ، یہ تو بداہۃً استحالہ کذب کولازم نہیں کہ کذب و جملہ نقائص سرکا رعزت کے لئے سرکار عزت کی قدرت میں نہ ہو نے پر بھی اس کے مقدورات غیر متناہی ہیں اور انسان کتنی ہی ناپاکیوں پر قادر ہو آخر اس کے مقدورات محدود ہی رہیں گے اور متناہی کو نامتناہی سے کوئی نسبت نہیں ہو سکتی، ہاں یہ کہئے کہ ایک چیز بھی ایسی نکلنا جو انسان کے زیر قدرت ہو اور رحمٰن کے زیر قدرت نہ ہو محال ہے ( اور بیشک ایسا ہی ہے ) اسی کو زیادت قدرت سے تعبیر کیا ہے تو اب ہم دریافت کرتے ہیں یہ خاص کذب کہ انسان سے واقع ہوا قدرتِ خدا سے ہوا یا قدرتِ خدا سے جدا، بر تقدیر اول وہ کون سی چیز نکلی جو انسان کے زیر قدرت تھی اور رحمن کے زیر قدرت نہ تھی کہ یہ جو قدرت انسان سے ہوا خود مانتے ہو کہ قدرت رحمن سے ہوا پھرزیادت کہاں ، بر تقدیر دوم رحمن اگرچہ معاذاللہ اپنے کروڑکذبوں پر قادر ہو وہ کذب اس کذب کے عین نہ ہوں گے جو انسان سے واقع ہُوا بلکہ کذب ہونے میں اس کے مثل ہوں گے اور مثل پر قدرت شے پر قدرت نہیں ، وُہ خاص کذب انسانی جو قدرت انسانی سے واقع ہوا اسے صراحۃً قدرتِ خدا سے جدا کہہ رہے ہو تو خدا کا کذب ممکن بلکہ اب تازہ ایمان گنگوہی پر معاذاللہ واقع مان کر بھی وُہ کال تو نہ کٹا کہ ایک شیئ جو زیر قدرت انسانی تھی زیر قدرت رحمانی نہ ہوئی اس کی نوع مقدورخدا ہوئی نہ کہ خود وہ فرد، تو تونے خدا اور انسان کو دربارہ کذب برابر کے دو عاجز مانا کہ نوع کذب کے افراد سے جس فرد پر انسان قادر ہے اور جس فرد پر خدا قادر ہے انسان قادر نہیں۔
دہلوی کے بندو! اسی پر اس مسئلہ میں
ان اللہ علٰی کل شیئ قدیر ۱؎
(بیشک اللہ تعالٰی ہر شیئ پر قادر ہے۔ت) پڑھتے اور کذب الٰہی محال جاننے والے مسلمانوں پر عجز ماننے کی تہمت رکھتے ہو، حالانکہ تم خود ہی وُہ ہو کہ خدا کو افراد مقدورہ عبد پر قادر نہیں مانتے جب تو وزن برابر کرنے کوامثال مقدورات عبد خود اس کے نفس کریم میں گھڑنا چاہتے ہوقاتلکم اللہ(اللہ تعالٰی تمھیں ہلاک کرے ۔ت)کسی مذہب خبیث کی بھی تقلید چھوڑو گے یا سب میں سے ایک ایک حصّہ لو گے،یہ طوائف معتزلہ سے طائفہ جبائیہ کامذہب ہے کہ اللہ تعالٰی نفس مقدورات عبد پر قادر نہیں۔
(۱؎ القران الکریم ۱۶ /۷۷)
مواقف میں ہے :
الجبائیۃ قالوا لایقدر علی عین فعل العبد ۲؎ الخ۔
جبائیہ نے کہا کہ اللہ تعالٰی عین فعل عبد پر قدرت نہیں رکھتا الخ (ت)
(۲؎ المواقف مع شرح المواقف المر صدالرابع فی الصفات الو جودیۃ منشورات الشریف الر ضی قم ایران ۸ /۶۴)
ہم اہلسنّت کے نزدیک اللہ تعالٰی عین مقدورات عبد پر بھی قادر ہے کہ وہ اسی کی قدرت کاملہ سے واقع ہوتے ہیں اور ان کے امثال پر بھی کہ امثال عبد سے امثال فعل صادر کر اسکتا ہے ، مگر ایسے امثا ل پر قدرت کہ خود اپنے نفس کریم سے ویسی ناپاکیاں صادر کر دکھائے اس سے وُہ پاک و متعالی ہے ، سبحٰن اللہ رب العر ش عما یصفون (پاکی ہے عرش کے رب کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں ۔ت )
اس کی مثال یُوں سمجھو کہ زید و عمر و دونوں اپنی اپنی زوجہ (عہ۱) کو طلاق(عہ۲) دینے پرقادر ہیں مگر ایک دوسرے کی زوجہ کو طلاق (عہ) نہیں دے سکتا تو ہر ایک دوسرے کے مقدور پر قادر نہیں بلکہ اس کی نظیر پر قادر ہے ، لیکن حق جل مجدہ دونوں پر قادر ہے کہ ان میں جواپنی زوجہ کو طلاق دے گا وُہ طلاق اللہ ہی کی قدرت سے واقع و موجود و مخلوق ہوگی تو اللہ تعالٰی زید و عمرو ہر ایک کے عین فعل پر بھی قادر ہے اور مثل فعل پر بھی کہ ایک کا فعل دوسرے کا مثل تھا،مگر امام الوہابیہ کی ضلالت نے اسے خدا کی قدرت نہ جانا بلکہ قدرت کے لئے یہ لازم سمجھا کہ جیسے وہ اپنی اپنی جورو کو طلاق دے سکتے ہیں خدا خود بھی اپنی جورو مقدسہ کو طلاق دے سکے، اس گدھے پن کی حد ہے ؟ اس بے ایمانی کا ٹھکانہ ہے ؟ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
عہ۱: یہ فہم امام الوہابیہ کے قابل واضح تغایر لکھا ہے ورنہ مخلوق میں کسی فعل بعینہ پر دوسرے کو قدرت نہیں ہو سکتی کہ فعل فاعل سے تعین پاتا ہےتو وہ فعل مثلا روٹی کھانا، پانی پینا یا اٹھنا بیٹھنا وغیرہ وغیرہ جو زید سے صادر ہوا عمرو سے صادر نہیں ہو سکتا اس کی نظیر اس سے صادر ہو گی ۱۲ منہ مد ظلہ عہ۲: یعنی ایسی طلاق جس میں اصیل خود مختارہو ۱۲ منہ عہ: بمعنی مذکور ۱۲ منہ