Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
84 - 150
رسالہ

دامان باغ سبحٰن السبوح

( سبحٰن السبوح کے باغ کا دامن  ۱۳۰۷ھ)
مسئلہ ۷۳: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کی دیو بند کا پڑھا ہُوا ایک مولوی کہتا ہے کہ اللہ تعالٰی جُھوٹا ہو سکتا ہے اور اس پر دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ آدمی جُھوٹ بول سکتا ہے تو اگر اللہ تعالٰی نہ بول سکے تو آدمی کی قدرت خدا کی قدرت سے بڑھ جائے گی کہ ایک کام ایسا نکلا کہ آدمی تو کر سکتا ہے اور خدا نہیں کر سکتا، یہ ظاہر بات ہے کہ خدا کی قدرت بے انتہا ہے آدمی  جس جس بات پر قادر ہے خدا ضرور ان سب باتوں پر قادر ہے اور ان کے سوا بے انتہا چیزوں پر قدرت رکھتاہے  جن پر آدمی کو قدرت نہیں انسان کو اپنے کذب پر قدرت اور خداکو اپنے کذب پر قدرت نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے، اور اس دلیل کو کہتا ہے کہ یہ ایسی قاطع دلیل ہے کہ جس کا جواب نہیں ہو سکتا ہے امید کہ اس بارہ میں جو حق ہو تحریر فرمائیں اور مسلمانوں کو گمراہ ہونے سے بچائیں۔ بیّنوا توجروا (بیان کیجئے اجر حاصل کیجئے ۔ ت)
الجواب

سبحٰن اللہ رب العر ش عما یصفون (پاکی ہے عرش کے رب کو ان باتوں سےجو یہ بناتے ہیں۔ت) اللہ عزوجل مسلمانوں کو شیطانوں کے وسوسوں سے بچائے، دیو بندی نہ دیوبندی کہ دیو بندیوں نہ دیوبندیوں کہ ان کے امام اسمٰعیل دہلوی کا یہ قول صریح ضلالت و گمراہی و بد دینی ہے جس میں بلا مبالغہ ہزار ہا وجہ سے کفر لزومی ہے، جمہور فقہائےکرام کے طورپر ایسی ضلالت کا قائل صریح کافر ہو جاتاہے اگر ہم باتباع جمہور متکلمین کرام صرف لزوم پر بے التزام کافر کہنا نہیں چاہتے اور ضال مضل بددین کہنے پر قناعت کرتے ہیں۔
اس مسئلہ میں فقیر کا یک کافر و افی رسالہ مسمّٰی بہ سبحٰن السبوح عن کذب مقبوح مدت ہوئی چھپ کر شائع ہو چکا اورگنگوہیوں دیو بندیوں وغیر ہم وہابیوں کسی سے اس کا جواب نہ ہو سکا نہ ان شاء اللہ العزیز قیامت تک ہو سکے،
حقت علیم کلمۃ العذاب بما کذبوا ربھم وبما کانو یفسقون اولٰئک اصمھم اللہ واعمٰی البصارھم فھم طغیا نھم یعمھونo
عذاب کا قول ان پر ٹھیک اترا بسبب اس کے کہ انھوں نے اپنے رب کی طرف جھوٹ منسوب کیا اور اس سبب سے کہ وہ حکم عدولی کرتے تھے یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالٰی نے بہرہ کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا پس وُہ اپنی سرکشی میں سر گرداں رہتے ہیں (ت)
میں نے اس رسالے میں تیس ۳۰ نصوص اور تیس دلائل قطعیہ سے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالٰی کا کذب محال بالذات  ہے اور یہ کہ اس کے محال بالذات ہو نے پر تمام ائمہ امت کا اجماع ہے۔ مسلمان جس کے دل میں اس کے رب کی عظمت اور اس کے کلام کی تصدیق ہوا گر کچھ بھی سمجھ رکھتا ہے تو اس کے لئے یہی دو حرف کافی ہیں، اول یہ کہ کذب ایسا گندا ناپاک عیب ہے جس سے ہر تھوڑی ظاہری عزّت والا بھی بچنا چاہتا ہے اور ہر بھنگی چمار بھی اپنی طرف اس کی نسبت سے عار رکھتا ہے، اگر وہ اللہ عزوجل جلالہ کے لئے ممکن ہوا تو وہ عیبی ناقص ملوث گندہی گھناؤئی نجاست سے آلودہ ہو سکے گا، کیا کوئی مسلمان اپنے رب پر ایسا گمان کر سکتا ہے ، مسلمان تو مسلمان کہ اس کے لئے ا سکے رب کی امان، ادنٰی سمجھ وال یہودی نصرانی بھی ایسی بات اپنے رب کی نسبت گوارا نہ کرے گا، پاکی ہے اسے جس کے سراپردہ عزت و جلا ل کے گرد کسی عیب و نقص کا گزر قطعا محال بالذات ہے، جس کی عظمت و قدوسیت کو ہرلوث و آلودگی سے بالذات منافات ہے۔ شرح مقاصد میں ہے :
الکذب محال باجماع العلماء لان الکذب نقص باتفاق العقلاء وھو علی اللہ تعالٰی محال ۱؎۔
    یعنی جُھوٹ باجمایِ علماء محال ہے کہ وُو بالاتفاق عقلا عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال ۔
(۱؂ شرح المقاصد  المبحث االسادس فی انہ تعالٰی متکلم  دارا لمعارف النعمانیہ لاہور     ۲ / ۱۰۴)
نیز مقصد سادس فصل ثالث محبث سابع جملہ اہلسنت کے عقئد اجماعیہ میں فرماتے ہیں:
طریقۃ اھل السنۃ ان العالم حادث و الصانع قدیم متصف بصفات قدیمۃ و الا یصح علیہ الجھل ولا الکذب ولا النقص  ۱؎۔
اہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ تمام جہان حادث ونو پیدا ہے ، اور اس کا بنانے ولا قدیم اور صفاتِ قدیمہ سے موصوف ہے، نہ اس کا جہل ممکن ہے نہ کذب ممکن ہے نہ اس میں کسی طرح کے عیب و نقص کا امکان ہے۔
 (۱؂شرح المقاصد  فصل ثالث مبحث ثامن   دارا المعارف النعمانیہ لاہور      ۲/ ۲۷۰)
دوم یہ کہ جب ا س کاکذب ممکن ہو تو اس کا صدق ضروری نہ رہا ، جب اس کا صدق ضروری نہ رہا تو اس کی کون سی بات پر اطمینان ہو سکے گا، ہر بات میں احتمال رہے گا کہ شاید جُھوٹ کہہ دی ہو، جب وُہ جُھوٹ بول سکتا ہے تو اس یقین کاکیا ذریعہ ہے کہ اس نے کبھی نہ بولا،کیا اس کسی کا ڈر ہے یا اس پر کوئی حاکم و افسر ہے جو اسے دبائے گا اورجو بات وہ کر سکتا ہے نہ کرنے دے گا، ہاں ذریعہ صرف یہی ہو سکتا تھا کہ خود اس کا وعدہ ہو کہ ہمیشہ سچ بولوں گا یا اس نے فرمادیا ہے کہ میر اسب باتیں سچی ہیں مگر جب اس کا جھوٹ ممکن ٹھہرا لو تو سرے سے اس وعدہ و فرمان ہی کے صدق پر کیا اطمینان رہا، ہو سکتا ہے کہ پہلا جُھوٹ یہی بولا ہو، غرض معاذاللہ اس کا کذب ممکن مان کر دین و شریعت واسلام و ملّت کسی کا اصلاّ پتا نہیں لگا رہتا، جزا و سزا و جنت و نارہ حساب و کتاب و حشر و نشر کسی پر ایمان کا کوئی ذریعہ نہیں رہتا، تعالٰی اللہ
عما یقولون الظلمون علواکبیرا۔
    اللہ تعالٰی بہت بلند ہے اس سے جو ظالم کہتے ہیں ۔ (ت)
علاّ مہ سعد الدین تفتازانی شرح مقاصدمیں فرماتے ہیں :
الکذب فی اخبار اللہ تعالٰی فیہ مفاسد لا تحصی و مطاعن فی الاسلام لا تخفی، منھا مقال الفلاسفۃ فی المعاد ومجال الملاحدۃ فی العناد' و بطلان ماعلیہ الاجماع من القطع بخلود الکفار فی نار فمع صریح اخبار اللہ تعالٰی بہ ، فجواز عدم وقوع مضمون ھٰذا الخبر محتمل ولما کان ھٰذا باطلا قطعا علم ان القول بجواز الکذب جی اخبار اللہ تعالٰی باطل قطعا ۱؎ (ملتقطا)۔
اخبارالٰہیہ میں امکان کذب ماننے سے بے شمار خرابیاں اور اسلام میں ایسے طعنے سراٹھائیں گے جو پوشیدہ نہیں منجملہ ان کے معاد کے بارے میں فلاسفہ کا کلام ، عناد پر مبنی بے دینوں کی جسارت اور کفار کے ہمیشہ جہنم میں رہنے جیسے اجماعی نظریات کا بطلان ہے باوجودیکہ اس بارے میں اللہ تعالٰی کی تصریح وارد ہے، چناچہ اس خبر کے مضمون کے عدم وقوع کا جائز ہو نا محتمل ہوا، اور جب یہ قطعا باطل ہے تو معلوم ہُوا کہ اخبار الٰہیہ میں امکان کذب کا قول قطعا باطل ہے ( ملتقطا)(ت)
 (۱؎ شرح المقاصد     المحث الثانی عشر      دارا لمعارف النعمانیہ لاہور     ۲ / ۲۳۸)
رہی دیوبندی کی دلیل ذلیل وہ اس کی اپنی ایجاد نہیں، امام الوہابیہ کی اختراع خبیث ہے، سبحٰن السبوح میں اسکے ہذیانوں کی پوری خدمت گزاری کر دی ہے، یہاں چند حرف گزارش ،
اوّ لا : جب یہ تھہرا کہ انسان جو کچھ اپنے لئے کرسکتا ہے وہابیہ کاخدابھی خود اپنے واسطے کر سکتا ہے، تو جائز ہُوا کہ اُن کا خدا زنا کرے، شراب ئیے، چوری کرے، بُتوں کو پُوجے ، پیشاب کرے، پاخان پھرے، اپنے آپ کو آگ میں جلائے ، دریا میں ڈبائے، سرِ بازار بدمعاشوں کے ساتھ دھول چھکڑ لڑے ، جوتیاں کھائے وغیر ہ وغیرہ وہ کون سی ناپاکی، کون سی ذلت ، کو نسی خواری ہے جو ان کے خدا سے اُٹھ رے گی۔
ثانیا : بے دین اس گھمنڈ میں ہیں کہ انھوں نے خدا کا عیبی ہونا فقط ممکن کہا ہےکوئی عیب بالفعل تو اسے نہ لگایا' حالانکہ اوّل تو یہی ان کا گدھا پن ہے اُس جلیل جمیل سبوّح قدوس کی شان جلال کے لئے فقط امکان عیب ہی خود بڑا بھاری ہے
فی سبحٰن السبوح واوضحناہ اللغواۃ مع مالہ من الواضوح
 (جیسا کہ ہم نے اس کو سبحٰن السبوح میں بیان کیا ور گمراہوں کےلئے اس کی خوب وضاحت کی ۔ ت)خیر یہ تو ایما ن والے جانتے ہیں ، میں وُہ بتاؤں جسے یہ عیب لگانے والے بھی سمجھ جائیں کہ بیشک انھوں نے خدا کو بالفعل عیبی مانا اور کتنا سخت سے سخت عیبی جانا بلکہ اس کے حق میں کچھ لگی نہ رکھی صاف صاف اس کی الوہیت ہی باطل کردی، وجہ سُنئے جب ٹھہری کہ آدمی جو کچھ کرتا ہے خدا بھی اپنے لئے کر سکتا ہے ، اور ظاہر ہے کہ آدمی قادر ہے کہ اپنی ماں کی تواضع و خدمت کے لئے اس کے تلووں پر اپنی آنکھیں ملے، اپنے باپ کی تعظیم وغلامی کے لئے اس کے جُوتے اپنے سر پر رکھ کر چلے تو ضرور ہے کہ وہابیہ کا خدا بھی اپنے ما ں باپ کے ساتھ  ایسی تعظیم و تواضع وخدمت و غلامی پر قادر ہو ورنہ انسان کی قدرت جو اس کی قدرت سے بڑھ جائے گی کہ ایک کام وہ نکلا جو انسان کر سکا اور خدا سے نہیں ہو سکتا، اگر کہئے اسے اس کام پر اس وجہ سےقدرت نہ ہوئی کہ اس کے ماں باپ ہی نہیں تو اس میں اس زخم کا کیا علاج ہُوا، مطلب تو  اتنا تھاکہا ایک کام  ایسا نکلا جسے بعض انسان کر رہے ہیں اور خدا سے نہیں ہو سکتا خواہ نہ ہو سکنے کی کوئی وجہ ہو، لاجرم تمھارے طورپر ضرور ہے کہ خدا کے ماں باپ ہوں تاکہ وُہ بھی ایسی سعادت مندی کر سکے جیسی انسان کر رہا ہے، اور ظاہر کہ جو ماں باپ سے پیدا ہو وہ حادث ہو گا اور حادث خدا نہیں ہو سکتا، اس کا کوئی خالق ہو گا اور مخلوق خدا نہیں ہو سکتا، اب تو تم سمجھے کہ تم خدا کو بالفعل عیبی مانتے اور سرے سے اس کی الوہیت ہی باطل کر رہے ہو۔ہاں ایک صورت نکل سکتی ہے کہ بالفعل خدا کے ماں باپ نہ ہوں اور پھربھی اسے ان سعادتمندیوں پر قدرت ہو، کہو تو بتا دیں،وہ یہ کہ وہابیہ کا خدا کسی دن اپنے آپ کو موت دے اور آواگون کے ہاتھوں کسی پُر ش کے بھوگ سے کسی استری کے گربھ میں دوسراجنم لے اپنے ان آئندہ ماں باپوں کی غلامی کرے، مگر الوہیت تو یُوں بھی گئی کہ جو مر سکا وُہ خدا کہاں !
Flag Counter