Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
83 - 150
التماس ہدایت اساس: میں جانتا ہوں کہ فقیر کے اس رسالے پر حسبِ معمول سخن پروری و بحکم دستور تعصب و خود سری اگر بعض سلیم خاطرین شرمائیں گی، قبول وانصاف کو کام فرمائیں گی، تو بہت عنادی طبیعتیں گر مائیں گی،جبلی نزاکتیں غصہ لائیں گی، جاہلی حمیتں جوش دکھائیں گی، تعصبی حمائتیں ہمت پر آئیں گی،
وحسبنا اللہ ونعم  الوکیل، نعم المولٰی ونعم الکفیل
 (ہمارے لئے اللہ کافی اور وہ سب سے بڑا کار ساز، سب سے بہتر آقااور سب سے بہتر کفالت فرمانے والا ہے۔ ت)یہ سب کچھ قبول ، کھسینا عاجزوں کا قدیمی معمول ، مگر انمااعظکم بواحدۃ ۲؎(میں تمھیں ایک نصیحت کرتا ہوں۔ت) حق اسلام یادلا کر اتنا مامول کر چند ساعت کے لئے تعصب و نفسا نیت کو راہ بتائیں، مثنٰی و فرادٰی ، تنہا یا دو دو صاحب بیٹھ کر غور فرمائیں اگر کلام خصم حق و صواب ہو تو اللہ ! حق سے کیوں اجتناب ہو ، کیا قرآن نے نہ سنایا کہ تمھارے رب نے کیا فرمایا
سیذکر من یخشٰیoو یتجنبہا الا شقی ۳؎o
 (عنقریب نصیحت مانے گاجوڈرتا ہے اور اس سے وہ بڑا بد بخت دور رہے گا۔ت) اے میرے پیارے بھائیو! کلمہ اسلام کے ہمراہیو ! اگر نفس امّارہ رہزن عیّارہ اور شیطان لعین اس کا معین ، ولہذا خطا کا اقرار آدمی کو نا گوار ، مگر واللہ !
واذاقیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ با لا ثم ۴؎
اورجب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو اسے اور ضد چڑھے گناہ کی ۔ ت) کی آفت سخت شدید،
الیس منکم رجل رشید ۵؎
 (کیا تم میں ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں ۔ ت)خدارا ذرا انصاف کو کام فرماؤ، خلق کا کیا پاس خالق سے شرماؤ، کچھ دیکھا بھی کس پر امکانِ کذب کی تہمت دھرتے ہو، کس پاک بے عیب میں عیب آنے کا احتمال کرتے ہو، العظمۃ للہ ! ارے وہ خدا ہے سب خوبیوں والا ہر عیب و نقصان سے پاک نرالا، ذرا تو گربیان میں منہ ڈالو جس نے زبان عطافرمائی اس کے بارے میں تو زبان سنبھالو ، وائے بے انصافی تمھیں کوئی جھُوٹا کہے تو آپے میں نہ رہو اور ملک جبار و احد قہار کا جُھوٹا ہونا یو ممکن کہو، یہ کون سی دیانت ہے، کیا انصاف ہے، اس پر یہ قہر  اصرار  یہ بلا اعتساف ہے،
 (۲؎ القر آن الکریم  ۳۴ / ۴۶ )    	(۳؎ القرآن الکریم     ۸۷ / ۱۰ و ۱۱)

(۴؎القرآن الکریم    ۲ / ۲۰۶)       (۵؎ القرآن الکریم    ۱۱/ ۷۸)
اے طائفہ حائفہ اے قوم مفتون ! مانو تو ایک تدبیر تمھیں بتاؤں ، میرا رسا لہ تنہائی میں بیٹھ کر بغور دیکھو، ان دو سو ۲۰۰ دلائل و اعتراضات کو ایک ایک کرکے انصاف سے پرکھو ، فرض کر دم کہ دہ سو ۲۰۰ میں استحالہ کذبِ الٰہی پر صرف  ایک دلیل اور تمھارے خیال اور تمھارے امام کے ہذیانی اقوال پر فقط ایک ایک اعتراض قاطع ہر قال و قیل باقی رہ گیا، باقی سب تم نے جواب دے لیا، تو جان برادر ! احقاقِ حق کو ایک دلیل کافی، ابطال باطل کوایک اعتراض و افی ، نہ کر دلائل باہرہ اعتراضیا ت قاہرہ صد ہانسو اور ایک نہ گِنو۔ دل میں جانتے جاؤ کہ دلائل باصواب اور اعتراض لاجواب، مگر ماننے کی قسم ' توبہ کی اان بلکہ اُلٹے تائید باطل کی فکر سامان، یہ تو حق پرستی نہ ہُوئی بادبد ستی ،نشہ تعصب میں سیاہ مستی ہوئی، پھر قیامت تو نہ آئے گی،حساب تو نہ ہو گا،خدا کےحضور سوال و جواب تو نہ ہوگا، اے رب میرے ! ہدایت فرما اور ان لجیلی آنکھوں کو کُچھ تو شرما ؎
می توانی کہ دہی اشک مراحسن قبول         اے کہ دُر ساختہ قطرہ بارانی را
 ( اے اللہ ! تُو میرے آنسو ؤ ں کو حسنِ قبول دے سکتا ہے جیسا کہ تو بارس کے قطرہ کو موتی بنا دیتا ہے ۔ ت)
اور یہیں سے ظاہر کہ جو صاحب قصد جواب کی ہمت رکھیں ایک ایک دلیل ایک ایک اعتراض کا تفصیلی جواب سمجھ کر لکھیں، یہ نہ ہو کہ ابقائے مشیخت ، رفع مزامت ، فریب عوام، جواب کے نام کو کہیں، کچھ اعتراج باقی سے اعراض ، یہ کلا خصم کا رَد نہ کرے گا، الٹا تمھیں پر صاعقہ بن کر گرےگا کہ جب حجت خصم مٹا نہ سکے مذہب سے اعتراض ہتا نہ سکے تو نا حق تکلیف خامہ اٹھائی، مصیبت سیاہی نامہ اٹھائی، اپنے ہی عجز کا اظہار کیا، بطلان مذہب کا اقرار کیا، للہ کُچھ دیر تو حق و انصاف کی قدر سمجھو، زنجیر تعصب کی قید سے سلجھو، خار زارتکبرّ میں اتنا نہ اُلجھو، افسوس کہ حق کا چاند جلوہ نما اور تمھارے نصیب کی وہی کا لی گھٹا، ہمارے ہُمایُوں سایہ فگن اور تمھارا تاج وہی بالِ زغن ،اے سچے ّ خدا سچ سے مو صوف جُھوٹ سے نرالے، سچے رسو ل پر سچی کتاب اتارنے والے ! اپنے سچے حبیب کی سچی و جاہت کا صدقہ آمت مصطفٰی کو سچّی ہدایت نصیب فرما،
صلی اللہ تعالٰی علی الحبیب وسلم  وعلٰی اٰلہ و صحبہ و شرف کرمہ مانجی الصادق و ھلک الکا ذب و نھی الصدق عن تعاطی الکواذب   قولک الحق و وعدک الصدق ولک الحمد والیک المصیر انک علٰی کل شئی قدیر و صلی اللہ تعالٰی علٰی سیدّ الصادقین محمد و آلہ و صحبہ اجمین اٰمین اٰمین  الہ الحق اٰمین !
اے اللہ ! رحمیتں نازل فرما اور آپ کے شرف و بزرگی میں مزید اضافہ فرما جو حبیب ہیں جب تک صادق نجات پاتے رہیں، کاذب ہلاک ہوتے رہیں، جنھوں نے تمام کواذب سے منع فرمایا ، تیرا قول حق تیرا وعدہ سچاّ حمد تیرے لئے ، تمام کا لوٹنا تیر طرف اور تو ہر شیئ پر قادر ہے، اللہ تعالٰی کی رحمت ہو سید الصادقین حضرت محمد ، آپ کی آ ل اور اصحاب سب پر ، آمین آمین الٰہ الحق آمین ! (ت)
الحمد للہ کہ یہ مبارک رسالہ موجز عجالہ باوجود کثرت اشغالِ تحریر مسائل و ترتیب رسائل ، تیرہ ۱۳ دن کے متفرق جلسوں میں مسودہ اور تئیس ۲۳ دن میں صاف و مبیضہ ہو کر دوازدہم ماہ مبارک و فاخر شہر ربیع الآخر رو ز ہمایوں جمعہ ۱۳۰۷ھ علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والتحیۃ کو بہم وجوہ بدر سمای تمام و شمع بزمِ ہدایت انام ہوا۔

للہ الھمد والمنہ کہ آج اس مبارک رسالے ،سنّت کےقبالے، رنگِ صدق جمانے والے، زنگِ کذب گمانے والے سے علومِ دینیہ میں تصانیفِ فقیر نے ۱۰۰ سُو کا عد کامل پایا ،
والحمد للہ وھّاب العطایا، ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم oوالحمد للہ رب العٰلمین والصلاۃ والسلام علٰی سید المرسلین محمد و الہ وصحبہ اجمعین ، سبحٰن ربک رب العزۃ عمّا یصفون ، و سلام علی المرسلین، والحمد للہ رب العٰلمین، تمّت و بالخیر عمّت بعون من قال وقولہ الحق تمت کلمٰت ربک صدقا وعدلا ط لامبدل لکمٰتہ ج وھو السمیع العلیم o الحمد للہ الذی بنعمہ وجلالہ تتم الصالحات ، والصلٰوۃ والسلام علی سیدنا ومولانا محمد سید الکائنات و اٰلہ و صحبہ وامتہ و حزبہ الجمعین ، والحمد للّہ رب العٰلمین۔
تمام حمد اللہ تعالٰی کی ہے جو تمام انعامات کا اعطا کرنیوالا ہے، اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے قبول فرما بلا شبہ تُو سننے والا ہے ، تمام حمداللہ کی جو جہانوں کا پرور دگار ہے، صلٰوۃ وسلام نازل ہو تمام رسولوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر آپ کی آل و اصحاب تمام پر ، سلام علی المرسلین والحمد للہ رب العٰلمن۔رسالہ تام ہوا اور خیر کے ساتھ وسیع ہوا اس ذات کی مدد سے جس نے فرمایا جبکہ اس کا فرمان بر حق ہے '' ترے رب کے کلمات صدق و عدل میں تام ہیں کوئی ان کو تبدیل کرنے والا نہیں وہی سننے جاننے والا ہے ۔'' تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کی جس کی نعمت و جلال سے خوبیا تام ہوتی ہیں اور صلٰوۃ ولام ہمارے آقا مولٰی سید کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل و اصحاب و اُمت اور ان کی سب جماعت پر ، والحمد رب العالمین (ت)
کتب عبدہ المذنب احمد رضا البریلوی عفی عنہ بمحمدن المصطفٰی النبی الامی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
تحریر جناب مولانا گلام دستگیر علیہ الرحمۃ من ربنا القدیر بر رسالہ مبرکہ '' سُبحٰن السبوح من عیب کذب المقبوح فقیر غلام دستگیر قصوری کان اللہ لہ جمادی الاول ۱۳۰۸ ھ میں بریلی میں وار دہُوا اور اس مبارک رسالہ کے دیکھنے کا اتفاق پڑا، چونکہ مدتِ دراز کے بعد یہاں آنے کا اتفاق ہوا ہے اور ملاقات احباب اور نیز مشورہ امر دینی کے سبب جو وکلاء سے کرنا تھااس قدر کم فرصتی ہُوئی کہ معمولی و ظائف جو کبھی سفر و حضر میں ترک نہیں ہوئے تھے ان چارروز میں وُہ بھی پُورے نہ ہوسکے، اس کشاکش میں اس رسالہ سلالہ کو فقیر بالا ستیعا ب کیا کچھ حصّہ معتد بہا بھی نہ دیکھ سکا مگر ابتدا اور درمیان اور انتہا سے جو دیکھا تو مسئلہ امکان کذب باری تعالٰی کا رَد پایا اور اس کا آنکھوں سے لگایا الحمد للہ حمداکثیراکہ اس کے مولف علامہ فہامہ نے جو ایک علم اور فضل کے خاندان سے عمدۃ الخلف و بقیۃ السلف ہیں اس بارے میں بھی اپنے عزیز واقارب کو جو ہمیشہ کارِ خبر اشاعت علوم دینیہ میں مصروف ہیں صرف فرمایا
جزاہ اللہ الشکور عنی وعن جمیع المسلمین خبر الجزا ء واوصلہ الی غایۃ ما یحب و یر ضی، اللھم تقبل مّنا انّک انت السمیع العلیم ، وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ و مظھر لطفہ و احسانہ سیدنا محمد و عترتہ اجمعین اللھم ارحمنا معھم برحمتک یا ارحم الراحمین !
۱۵ جمادی الاول روز روانگی وطن پر چند حروف لکھے گئے وللہ ھو المسیر للصعاب۔
Flag Counter