دیکھو باوجود امکان ملزوم لازم کو محال مانتا ہے ، پھر تمھاری جہالت کہ تعزیب مطیع و عفو کافر کے امکان سے امکان کذب پر استدلال کرتے ہو، غرض حق یہ ہے کہ یہ نفیس استدلال کسی ایسے ہی مقدس آدمی کا کام ہے جسے دیو جہالت کی بندوقید میں کبھی علم و فہم کی ہوا نہ لگی ہو، واللہ الھادی خیر یہ تو وہ تھے جنھو ں نے تقلید امام سے تجاوز نہ کیا تھا ، رہے امام عنید کے مریدرشید، انھوں نے بیشک ہمت فرماکر وُہ طرفہ ابکار افکار ہدیہ انظار فحول نظار کیں یعنی یہی جواز خلف کی تقریر ناز نین جس کے باعث اُن پر لزوم کفر کی تین و جہیں اور بڑھیں:
اولا : وہ وجہ ہائل کہ تمام مقلدین امام طائفہ کو عموما شامل یعنی یہ اس کے قول مذکور وجمیع اقوال کفریہ میں مقلد اور بیشک جو کفریات میں تقلید کرے قطعا لزومِ کفر سے حصّہ پائے۔
ثانیا : ان حضرت نے جواز خلف بمعنی کذب ، ائمہ دین کی طرف نسبت کیا ور ہم بد لائل قاطعہ مبرہن کر آئے کہ وُہ جس معنی پر خلف جائز فرماتے ہیں اسے قطعا جائز و قوعی بلکہ واقع ٹھہراتے ہیں، تو ان حضرت نے مولٰی سبحانہ و تعالٰی کا کاذب بالفعل ہو نا کہ قطعا اجما عا کفر خالص ہے،ایک جماعت ائمہ دین کا مذہب جانا اور اسے اس قدر ہلکاسمجھا کہ ائمہ اہل سنت کا اختلافی مسئلہ مانا اور اس پر طعن کو بیجا بتایا اور اس سے تعجب کا ر جہلا ٹھہرایا اور بیشک جو شخص کسی عقیدئہ کفر کو ایسا سمجھے خود کافر ہے، اعلام بقواطع الاسلام میں ہمارے علمائے اعلام سے کفر متفق علیہ کی فصل میں منقول ،
یا وُہ تصدیق کرے کلام اہل بدعت کی ، یا کہے میرے ہاں ان کا کلام بامقصد ہے، یا کہٰے اس کا معنی درست ہے الخ (ت)
(۱؎ علامہ بقو اطع الاسام مع سبل النجاۃ فصل کفر متفق علیہ مکتبہ حقیقیہ استنبول ترکی ص ۳۷۱)
عہ: حمل العلامۃ ابن حجر اھل الاھواء علی الذین نکفر ھم ببد عتھم قلت وھو کما افاد ولا یستقیم التخریج علی قول من اطلق الاکفا ر بکل بدعۃ فانہ الکالم فی الکفر المتفق علیہ فلیتبنہ ۱۲۔
علامہ ابن حجر اہل ہوا سے مراد وہ لوگ لیتے ہیں جنھیں ان کی بدعت کی وجہ سے کافر کہا گیا ہے، میں کہتا ہون بات وہی ہے جو انھوں نے کہی اسے یہ حوالہ اس قول پر صحیح نہیں جو مطلقا ہر بدعت کو کفر کہتے ہیں کیونکہ گفتگو اس کفر میں ہو رہی ہے جس پر اتفاق ہو اسے یا د رکھ ۱۲ (ت)
فقیر نے اس مسئلہ کی قدرے تفصیل اپنے رسالہ مبارکہ مقامع الحدید علی خدا المنطق الجدید میں ذکر کی واللہ الموفق۔
ثالثا : الحمد للہ کہ علمائے اہلسنت ان نے جہلا کی جہالت فاحشہ سے پاک نرالے اور ان کے بہتانی خیالوں ، شیطانی ضلالوں پر سب سے پہلے تبراّ کرنے والے مگر ان کی قوتِ واہمہ نے جو انھیں امام الطائفہ کے ترکہ میں ملی، ائمہ متقدمین میں کچھ علما ء ایسے تراشے جو کذب الٰہی کے جواز و قوعی بلکہ وقوع بالفعل کے قائل ہوئے تو وہ تراشیدہ علماء ساختہ ائمہ ( جن کا ان جہال کے وہم و خیال کے سواکہیں وجود نہیں) قطعا جماعا کافر مرتد تھے، اب انھوں نے ان وہمی موجودوں یقینی مرتدوں کو کافر نہ جانہ بلکہ مشا ئخِ دین و علمائے معتمدین مانا تو خود ان پر کفر وار تداد لازم آنے میں کیا کلام رہا کہ جو کسی منکرِ ضروریات دین کو کافر نہ کہے آپ کافر ہے۔ امام علامہ قاضی عیاض قدس سرہ سفا شریف میں فرماتے ہیں :
الاجماع علی کفر من لم یکفراحدا من النصاری والیہود و کل من فارق دین المسلیمن او وقف فی تکفیر ھم او شک ، قال القاضی ابو بکر لا ن التوقیف والا جماع اتفقاعلی کفرھم فمن وقف فی ذٰلک فقد کذب النص و التوقیف اوشک فیہ، والتکذیب والشک فیہ لا یقع الامن کافر ۔۱؎
یعنی اجماع ہے اس کے کفر پر جو یہودونصارٰی یا مسلمانوں کے دین سے جدا ہونیوالے کافر نہ کہے یا اس کے کافر کہنے میں توقف کرے یا شک لائے، امام قاضی ابوبکر باقلانی نے اس کی وجہ یہ فرمائی کہ نصوص شرعیہ و اجماعِ امت ان لوگوں کے کفر پر متفق ہیں تو جو ان کے کفر میں توقف کرتا ہے وُہ نص و سریعت کی تکذیب کرتا ہے یا اس میں شک رکھتا ہے اور یا امر کافر ہی سے صادر ہوتا ہے۔
(۱؎ الشفا ء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل فی تحقیق القول فی اکفارالمتاولین المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ ۲ /۲۹۷ )
اسی میں ہے :
یکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ الاسلام اووقف فیھم اوشک اوصحح مذ ھبھم وان اظھر الاسلام واعتقد ابطال کل مذھب سواہ فھو کافر باظھار ما اظھر من خلاف ذٰ لک ۲؎اھ ملخصا۔
یعنی کافر ہے جو کافر نہ کہے ان لوگوں کو کہ غیر ملت اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں یا ان کے کفر میں شک لائے یا ان کے مذہب کو ٹھیک بتائے اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا اور مذہب اسلام کی حقانیت اور اس کے سواسب مذہبوں کے بطلان کا اعتقاد ظاہر کرتاہوکہ اس نے بعض منکر ضروریات دین کو جب کہ کافر نہ جانا تواپنے اس اظہار کے خلاف اظہار کر چکا ا ھ ملخصا۔
(۲؎الشفا ء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل جی بیان ماھومن المقالات کفر المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ ۲ / ۲۷۱)
آپ کو یاد ہو کہ ان مدعیان جدید نا مہتدی ورشید پر ایک سو بائیس ۱۲۲کوڑے اوپر جوڑے اور ان کے امام کا وبال انھیں کب چھوڑے کہ یہ آخر اسی کے مقلد اور اسکے اقوال کے پورے معتقد، معہذا جب
ضرب الغلام اھا نۃ المولٰی
(غلام کی ضرب مولٰی کی اہانت ہے ۔ت) تو
ضرب المولٰی اھانۃ الغلام
(مولٰی کی ضرب غلام کی اہانت ۔ ت) بدرجہ اولٰی بہر حال یہ پچھتر۷۵ کوڑے جو امام الطائفہ پر تازے پڑے ، ان کے حصّے میں بھی یقینا جڑے ،کُل ایک سو ۱۹۷ ستانوے ہوئے اور تین خاص ان کے دم پر سوار تو اس مختصر رسالے موجز عجالے میں مدعیان جدید پر پُورے دو ۲۰۰ سو کوڑوں کی کامل بوچھار،
کذالک العذاب ولعذاب الاٰخرۃ الکبر لو کانوایعلمون۔ ۳؎۔
مارایسی ہوتی ہے اور بیشک آخر کی مار سب سے بڑی ، کیا اچھا تھا اگر وُہ جانتے ۔ (ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۶۸ / ۳۳)
میں نے جس طرح اس رسالہ کا تاریخی نام
'' سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح''
رکھا یونہی ان تازیانوں کا عدد رخواست کرتا ہے کہ اس کا تاریخی لقب
'' دوصد تازیانہ بر فرق جہول زمانہ ''
رکھوں ، بالجملہ آفتاب روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ایک مذہب علمائے دین پر یہ امام و مقتدی سب کے سب نہ ایک دوکفر بلکہ صد ہا کفر سراپا کفر میں ڈوبے ہوئے ہیں وفی ذٰلک اقول (اس میں میں نے کہا ۔ ت) ؎
فکفر فوق کفر فوق کفر کان الکفر من کثر و وفر
کما ء اٰسنِ فی نتین دفر تتا بَعَ قطرہ من تقب کفر۱؎
( کفر ہرکفر سے بڑھ کرکفر ، ہرکثیرسے بڑھ کرکثیر، جیسا کہ کھڑا پانی بدبودار پانی ملنے سےخوب بدبودار ہوجاتا ہے۔ ت)
وُہ ایک جماعت علماء کے قول پر مرتد ہو گیا اور اس قدر خسران و زیان میں بس ہیں۔
والعیاذ باللہ خیرا الحافظین
(اور بہتر حفاظت کرنے والے کی پناہ ۔ ت)
(۲؎الاعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ مکتبہ حقیقیہ استنبول ترکی ص ۲ ۶ ۳)
پھرجب کہ ائمہ دین ان کے کفر میں مختلف ہو گئے تو راہ یہ ہےکہ اگر اپنا بھلا چاہیں جلد از سرنو کلمہ اسلام پڑھیں اور اپنے مذہب نامہذب کی تکذیب صریح اور اس کے رد و تقبیح کی صاف تصریح کریں ورنہ بطور عادت کلمہ شہادت کافی نہیں کہ یہ تو وہ اب بھی پڑھتے یہں اور اسے اپنے مذہب کا رد نہیں سمجھتے۔
بحر الرائق میں بزازیہ و جامع الفصولین سے ہے :
لواتی باشہادتین علی وجہ العادۃ لم ینفعہ مالم یرجع عماقال ۔۳؎
اگرمعمول کے مطابق وہ کلمہ شہادت پڑھتے تو اسکو وہ نافع نہیں جب تک وہ اپنے قول سے رجوع نہ کرے (ت)
اور جس طرح اس مذہب خبیث کا اعلان کیاہے ویسے ہی توبہ و رجوع کا صاف اعلان کریں کہ توبہ نہاں کی نہاں ہے اورعیاں کی عیاں۔ حضور پر نور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذا عملت سیئۃ فاحد ث عندھا توبۃ السر بالسر والعلا نیۃ بالعلانیۃ ۔ ۱؎ دواہ الامام احمد فی کتاب الزھدوالطبرانی فی المعجم الکبیر بسند حسن علی اصولنا عن معاذ بن جیل رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
جب تو کوئی گناہ کرے تو فورا توبہ کر، پوشیدہ کی پوشیدہ اور ظاہر کی ظاہر۔ ( اسے امام احمد نے کتاب الزہد میں، طبرانی نے المعجم الکبیر مین سند صحیح سے ہمار ے اصولوں کے مطابق حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔(ت)
اس سب کے بعد اپنی عورتوں سے تجدید نکاح کریں کہ کفر خلافی کا حکم یہی ہے ، علامہ حسن شرنبلالی شرح وہانیہ پھر علامہ علائی شرح تنویر میں فرماتے ہیں:
مایکون کفرا اتفاقایبطل العمل والنکاح واولادہ اولاد زنی وما فیہ خلاف یومر بالاستغفاروالتوبۃ و تجدید النکاح ۲؎۔
جو بالاتفاق کفر ہو اس سے اعمال ، نکاح باطل ہوجاتے ہیں تمام اولاد ، اولاد زناقرارپا جاتی ہے اور جس میں اختلاف ہو وہاں استغفار ، توبہ اور تجدید نکاح کروایا جائے گا۔ (ت)
(۲؎درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی ۱ /۳۵۹)
پس اگر مولٰی سبحانہ و تعالٰی ہدایت فرمائے اور اس کے کرم سے کچھ دُور نہیں، یعنی یہ حضرات اپنے مذہب مردود سے باز آئیں اورعلانیہ اب العالمین کی طرف توبہ لائیں
فاخوانکم فی الدین ۳؎
تمھارے دینی بھائی ہیں،ورنہ اہل سنت پر لازم کہ ان سے الگ ہو جائیں، ان کی صحبت کو آگ سمجھیں، ان کے پیچھے نماز ہر گز نہ پڑھیں اگر نادانستہ پڑھ لی ہو اعادہ کر لیں کہ نماز اعطم عباداتِ ربِّ بے نیازہے اور تقدیم وامامت ایک علٰی اعزاز، اور فاسق مجاہر، واجب التوہین ، نہ کہ بدعتی گمرہ فاسق فی الدّین ، والعیازباللہ ربالعالمین
(۳ القرآن الکریم ۳۳/ ۵ )
فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے ان مسائل کے قدرے تحقیق و تفصیل اپنے رسالہ النھی الا کید عن الصلٰوۃ وراء عدی التقلید میں ذکر کی۔
علامہ ابراہیم حلبی غنیـہ شرح منیہ میں فرماتے ہیں :