Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
81 - 150
سبحان اللہ ! یہ تو عقل و فہم اور الٰہیات میں بحث کاوہم قولہ تو کسی کا اجارہ نہیں اقول یوں تو تم اپنے امام کی طرف سے یہ بھی کہہ سکتے ہو کہہ سکتے ہو اگر باری تعالٰی اپنے آپ کو ناقص و ملوث و عیبی بنالے تو کسی کا اجارہ نہیں، اپنی ذات یا قدرت یا علم یا الوہیت کو فنا کردے تو کسی کا اجارہ نہیں، ظاہر ہے کہ ان محالات کے فرض پر بھی اس کا اجارہ ثابت نہ ہو گا کہ بے علاقہ ملازمت معقول نہیں پھر اسی نفی اجارہ سے ثبوت امکان کیونکر ہو، اور اگر یہ مقصود کہ ایسا کرے تو کچھ حرج نہیں، اور بیشک عرف میں یہ کلام اسی معنی کو مفید ہوتا ہے تو محض غلط و باطل،اور اجماعِ امت و نصوص قاطعہ کے خلاف بیشک کتنا بڑا حرج ہے کہ سارے جہان کا سچّا مالک معاذاللہ جھُوٹا ٹھہرے جس کے استحالہ پر نصوص بے شمار سُنتے آئے اور حلیہ کا کلام تازہ گزرا اور شرح عقائد و شرح فقہ اکبر کی آوازیں تو ابھی تمھارے کان مین گونجتی ہو گی، مگر ہاں تمھارے نزدیک اللہ عزوجل کے جھُوٹے ہونے میں کیا حرج ہوتا تھا، امام توصاف کہہ چکا کہ اس پا ک بےعیب میں دنیا بھر کے عیب آسکتے ہیں پھر انیہم بر علم اللہ ایمان و حیابخشے ۔ قولہ یہی امکانِ کذب ہے۔ اقول (عہ) محض تمھارا کذب ہے ہر ممتنع بالغیرمحال بالذات کو مستلزم، اور باوجود اس کے خود ممکن بالذات ہوتا ہے، اسکا امکان ذاتی اس محال بالذات کے امکان ذاتی کو مستلزم ہو محال بالذات اور کو مستلزم ہونا محال بالذات اور لمَ یہ کہ ان میں استلزام ہی عارضی تھا نہ کہ ذاتی ورنہ محال بالذات ہو تا نہ کہ بالغیر، یُوں تو لازم کہ باری تعالٰی و تقدس واجب الوفود نہ رہے یا تمام موجودات واجب بالذات ہو جائیں ،وجہِ ملازمت سُنئے زید آج موجود ہو ا اس کا وقت وجود علم الٰہی سبحانہ و تعالٰی میں تھا یا نہیں، اگر نہیں تو علم محیط باری جل و علامنتفی ہوا  اور انتفائے علم کہ مقتضائے ذات ہے انتفا ئے مقتضی کو مقتضی تو باری عزوجل معاذاللہ معدوم ہُوا اور اگر تھا تو اس وقت اس کا عدم بھی ممکن ذاتی تھا یا نہیں، اگر نہیں تو زیدواجب بالذات ہُوا اور وہاں تو اس کا اس وقت عدم کہ ممکن بالذات ہے۔ عدم علم اور عدم عالم کو مستلزم تو تمھارے طور پر عدم ذات ممکن تو باری جل جلالہ واجب الوجود نہ ہوا، اب تو آپ کو اپنی جہالت پر یقین آیا،واقعی تم بیچارے معذور ہو کہ حقائقِ علوم و دقائق فہوم میں بیچاری گنگوہی تعلیم کا حصہ رکھا ہی نہ گیا، ذرا کلمات علماء پر نظر کیجئے تو آپ کو اپنی دانشمندی پریقین کامل آئے ۔
عہ: واقول ایضا بلکہ اوجاہل ! اگر یہ تیر دلیل جہالت تام ہو تو باری عزوجل کامعاذاللہ جہل بھی ممکن ٹھہرے کہ اس نے بہشتیوں کے بہشت ، دوزخیوں کے دوزخ جانے کی صرف ہم کو خبر ہی نہ دی بلکہ اس کے علم میں بھی ایسا ہی ہے بااینہمہ وُہ خلاف پر قادر ، اس تقدیر پر اس کا علم غلط پڑے گا اور یہی امکان جہل ہے تعالٰی عن ذلک علو کبیرا اللہ تعالٰی اس سے بڑھ کر بلند ہے۔ت)ہاں اے جاہل ! اب تو یا تو امکان جہل بھی مان یا امکانِ کذب پر ان جُھوٹے شوشوں سے درگزر ، اللہ تعالٰی ہدایت بخشے آمین ! ۲۱ منہ رضی اللہ عنہ۔
علاّمہ سعدالدین تفتازانی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں : ان اللہ تعالٰی لما اوجد العالم بقد رتہ اختیارہ فعد مہ ممکن فی نفسہ مع انہ یلزم من فرض و قوعہ تخلف المعلوم عن علتہ التامۃ وہو محال والحاصل ان لاممکن لایلز م من فرض و قوعہ محال بالنظر الٰی ذاتہ واما بالنظر الٰی امر ز ائد علٰی نفسہ فلا نسلم انہ لا یستلزم المحال۔۱؎
اللہ تعالٰی نے جہان کو اپنی قدرت و اختیار سے تخلیق فرمایا اس کا فی ذاتہ عدم ممکن ہے باوجودیکہ اسکے وقوع کے فرض سے معلول کا اپنی علت تامہ سے تخلف لازم آتا ہے اور یہ محال ہے، حاصلیہ ہے کہ ممکن وُہ ہوتا ہے جی زاتہ جس کے وقوع کے فرج کرنے سے مال لازم نہ آئے لیکن کسی امرزائد کی بنسبت ہم نہیں مانتے کہ محال کو مستلزم نہیں (ت)
 (۱؎ شرح العقائد النسفیہ     دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان     ص ۷۱ و۷۲)
شرح مقاصد میں فرماتے ہیں :
ان قیل ماعلم اللہ او اخبر بعد م بوقوعہ یلزم من فرض وقوعہ محال ھو جھلہ اوکذبہ تعالٰی عن ذٰلک و کل مایلزم من فرض و قوعہ محال فھو محال ضرور ۃ امتناع وجود الملز و م بدون الللازم، فجوابہ منع الکبری وانما یصدق لوکان لزوم المحال لذاتہ امالو کان لعارض کالعلم اوالخبر فبما نحن فیہ فلا لجو ازان یکون ھو مکنافی نفسہ ومنشاء لزوم المحال ھو ذٰلک العارض۔۲؂
اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالٰی نے جس چیز کے عدم وقوع کو جانا یا اُس کی خبر دی ہو تو اس کے وقوع کے فرض سے محال لازم آئے گا وہ جہالت یا اس کا کذب ہے تو جب اس فرض وقوع سے محال لا زم آئے گا تو یہ بہر حال محال ہو گا کیونکہ لازم کے بغیر ملزوم کا وجود ممتنع ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کبرٰی نہیں مانتے، یہ تب سچّاہے کہ اگر لزوم محال لذاتہ ہو اوراگر کسی عارضہ کی وجہ سے ہو مثلا وُہ زیر بحث علم یا خبر ہو تو اس میں محال نہیں کیونکہ یہ فی نفسہٖ ہو سکتا ہے ممکن ہے اور لزوم محال کی عّلت وہ عارض بن رہا ہو۔(ت)
(۲؎ شرح المقاصد   المبث الرابع لاقبیح من اللہ تعالٰی     دارالمعارف النعمانیہ لاہور      ۶/ ۱۵۵)
غرض استحالہ ناشیہ عن نفس الذات وعن خارج میں فرق نہ کرکے بعض نے استلزام عارضی میں بھی استحالہ لازم بالذات سے استحالہ ملزوم بالذات کا حکم کیا جس کا محققین نے یوں حل کر دیا مگر ایسی جگہ امکان ملزوم سے امکان لازم مستحیل بالذّات کا حکم آپ ہی کی عقل شریف کا حصّہ خاصہ تھا کہ اس کے رد میں علماء کا وہ حل کافی و وافی ہوا،سبحان اللہ ! میں اپنے علما ء سے کیوں استنادکروں ۔ آپ اپنے ہی امام کاقول نہ سُنئے،اسی محبث کذب والی یکروزی میں کیا کہتا ہے :
اگر مقصوداین ست کہ وقوع مذکوربالفعل
 (جسے یہاں اپنی بحث میں وقوع تعذیب مطیع و مغفرت کافر فرض کیجئے)
مستلزم کذب ست پس آن مسلم ست و کسے دعوی وقوع مذکوربالفعل نکر دہ اگر مقصودش این ست کہ امکان وقوع مذکور مستلزم کذب نصی ست از نصوص قرآنیہ پس آں نص را تلاوت باید کرد تا واضح گرددکہ کدام نص بر نفی امکان وجودمذکوردلالت میکند واگر مقصوداین ست کہ امکان وجود مذکور مستلزم امکان کذب ست پس ملازمت ممنوع ست زیر ا کہ عدم وجود مذکور معلول صدق نص ست پس تحقق عدم مذکور البتہ مستلزم تحقق امکان صدق نص مذکور ست وزوال عدم مذکور بالفعل مستلزم کذب  ست واما  امکان زوال  عدم مذکور پس مستلزم امکان زوال صدق نیست یعنی امکان وجود مثل مذکور مستلزم امکان کذب نیست چہ امکان زوال معلول مستلزم امکان زوال علت نیست والا لازم آید کہ امکان زوال  عقل اول مستلزم امکان زوال واجب باشد پس امکان زوال عقل اول ممتنع باشد پس عقل اول واجب لذآباشد، حاصلش آنکہ ملازم درمیان علت و معلوم درفعلیت وجود و عدم ست نہ درامکان ذاتی والا لازم آید کہ واجب لذاتہ ممکن لذاتہ اگر دد،چہ معلولات او ہمہ ممکنات اند اھ ۱؎ ملحضا۔
اگر مقصود یہ ہے کہ وقوع مذکور بالفعل ہے (جسے یہاں اپنی بحث میں وقوع تعذیب مطیع و مغفرت کافر فرض کیجئے)تویہ کذب کو مستلزم ہے پس یہ تسلیم شدہ ہے اورکسی نے وقوع مذکورہ بالفعل کا دعوی نہیں کیا ، اور اگر مقصود یہ ہے کہ وقوع مذکورکا امکان قرآنی نص کے کذب کو مستلزم ہے تو اس نص کی تلاوت کی جائے تا کہ واضح ہو جائے کہ کون سی نص وجود مذکورکے نفی امکان پر دلالت کر رہی ہے، اور اگر مقصود یہ ہے کہ وجود مذکور کا امکان امکانِ کذب کو مستلزم ہے تو یہ لزوم ممنوع ہے کیونکہ وجودمذکور کا عدم صدق نص کا معلول ہے تو عدم مذکور کا تحقق یقینا صدق نص مذکور کے امکان کے تحقق کو مستلزم ہے، عدم مذکور کا بالفعل زوال ، کذب کو مستلزم ہے لیکن زوال عدم مذکور کا امکان ، زوال صدق کے امکان کو مستلزم نہیں یعنی امکان وجودمذکور، امکان کذب کو مستلزم نہیں کیونکہ زوال معلول کاامکان ، امکان زوال علت کو مستلزم نہیں ورنہ لازم آئے گا  زوال عقل اول کا امکان، زوال واجب کے امکان کو مستلزم ہو تو زوال عقل اول کا امکان ممتنع ہو تو عقل اول واجب لذاتہ ہو گی۔، اس کا حاصل یہ ہے کہ علت و معلول کے درمیان تلازم فعلیت وجود عدم میں ہے نہ کہ امکان ذاتی میں ، ورنہ ازم آئے گا کہ واجب لذاتہ، ممکن لذاتہ ہو جائے کیونکہ اس کے تمام معلولات ممکن ہیں  اھ ملخصاً(ت)
 (۱؎ رسالہ یک روزی (فارسی)    مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۱۵ و ۱۶)
اگر اس کی یہ تقریر پریشان طویل الذیل جس میں اس نے خواہی  نہ خواہی ذرا سی بات کو بیگھوں میں پھیلایا ہے ، تمھاری مقدس سمجھ میں نہ آئے تواسی کا دوسرا بیان مختصر سنوِ اسی یکروزی میں لکھتا ہے:
اگر مقصوداین ست کہ ازوقوع ممکن ہیچگونہ محال ناشی نمی گرددلابالنظر الٰی ذاتہ ولا بالنظر الی الامور الخارجیۃ پس این مقد مہ ممنوع ست چہ بریں تقدیر لازم می آید کہ وجود ہر معدوم و عدم ہر موجود محال باشد زیرا کہ مستلزم محال ست یعنی کذب علم ازلٰی ۲؎۔
اگر مقصود یہ ہے کہ وقوع ممکن سے کو ئی محال لازم نہیں آتا ، نہ اس کی ذات کے اعتبار سے اور نہ امور خارجی کے اعتبار سے، تو یہ مقدمہ ممنوع ہے کیونکہ اس صورت میں لازم آئے گا کہ ہر معدوم کا وجود اور ہر موجود کاعدم محال ہو کیونکہ یہ محال کو مستلزم ہے یعنی علم ازلی میں کذب ۔ (ت)
 (۲؎رسالہ یک روزی (فارسی)    مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان     ص ۱۶)
Flag Counter