اصل ہفتم (۷۴): اللہ تعالٰی بندوں سے چراچھپاکر، بہلا بھلا کر آیات قرآنیہ جھوٹی کردے تو کچھ حرج نہیں (ت۳۱)بیہات یہ تو اس نے صاف صریح کہا تھامیں متحیر ہوں اسے لزوم میں داخل کروں یا التزام میں، پھر اس پر (۷۵)حشرنشر، حساب کتاب، جنت نار، عذاب، ثواب کس چیز پر ایمان نہ رہا کہ ہرچیز میں صاف صریح احتمال نقص باقی تو یقین کیسا تو ایمان کہاں۔ والعیاذ باللہ رب العالمین ہماری تقریرات سابقہ وتقریرات لاحقہ دیکھنے والا اس امام نجدیہ کے کفریات لزومیہ کو صدہا تک پہنچا سکتا ہے۔ بلکہ جس قدر اوپر مذکور ہوئے وہ بھی یہاں پورے نہ گنے گئے پھر بھی معاذاللہ پچھتر کفرکیا کم ہیں، پھریہ تو صرف ایک ہی قول پر ہیں باقی کفریات، تفویت الایمان وصرام المستقیم کی گنتی ہی کیا ہے پھر وہ اقبالی کفر علاوہ رہے جو ایمان تفویۃ الایمان پر صراط مستقیم میں اہلے گہلے پھر رہے ہیں۔ غرض حضرت کے کفریات لزومیہ واقبالیہ کی تفصیل کرتے فی کفر ایک نقطہ ان کی قبرپر دیتے جائے تو غالبا دم بھر میں ساری قبر کامنہ کالا ہوجائے ، یہ اس کی سزا ہے کہ کفر وشرک دھڑی دھڑی کرکے بیچا محض بلاوجہ سچے مسلما نوں کو کافر مشرک کہا یہاں تک کہ ان کے طور پرصحابہ وتابعین سے لے کر شاہ ولی اللہ وشاہ عبدالعزیز صاحب تک کوئی کفر وشرک سے نہ بچا گویا حضرت کے نزدیک کفر امور عامہ سے تھا پھر یہ خود اس سے بچ کرکہا جاتے کہ کرد کہ نیافت کما تدین تدان ۱؎ (جو کیا تھا نہ پایا، جوکرے گا اس کا بدل دیا جائے گا۔ ت) ؎
دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را چنداں اماں نداد کہ شب راسحر کند
(تم نے دیکھانہیں کہ پروانہ کا خون ناحق شمع کو اسی طرح امان نہیں دیتاکہ رات کو سحری کردے۔ ت)
(۱؎ کنز العمال بحوالہ عد عن ابن عمر حدیث ۴۳۰۳۲ موسستہ الرسالہ بیروت ۱۵/ ۷۷۲)
کذٰلک العذاب ولعذاب الاٰخرۃ لو کانوا یعلمون ۲؎ o
اللھم احفظ لنا الایمان واعصمنا من شر الشیطان بجاہ حبیبک سیدنامحمد سید الانس والجان صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسل وعلی اٰلہ وصحبہ شرف وکرم اٰمین والحمد اﷲ رب العلمین ۔
اسی طرح عذاب ہے، اورآخرت کا عذاب سب سے بڑا ہے، کاش یہ اسے جانیں، اے اللہ! ہمارے ایمان کی حفاظت فرما، شر شیطان سے ہمیں محفوظ فرما بوسیلہ اپنے حبیب محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جو انس وجن کے سردار ہیں آپ پر اورآپ کی آل واصحاب پر شرف وکرم ہو آمین والحمدللہ رب العالمین۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۶۸ /۳۳)
ان امام صاحب پر چالیس بلکہ سوتازیانے اورپر گزرے تھے پچھتر یہ ہوئے کہ ایک جماعت ائمہ کے نزدیک تم پچھتر وجہ سے کافر ہو، امام الطائفہ پر ایک ہی قول میں پونے دو سو کوڑے یادر کھے، اب مقتدی صاحبوں کی طرف چلئے ان میں دیوبندی (عہ) تقلید نے تو دیوبندگی یعنی اس عوام مغوی امام کی پیروی سے قدم آگے نہ بڑھایا یعنی کوئی ایسی نئی بات پیش نہ کی جس پر الزام کفر سے جدید حصہ پاتا صرف انھیں احکام امام کا ترکہ پایا اور اس کی باقی خرافات بشدت اہمال قابل التفات اہل علم نہیں تاہم معرض بیان میں سکوت نا محمود لہذا بطور اجمال تعرض مقصود، قولہ ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے کبھی جھوٹ بولا نہ بولے۔
عہ تنبیہ ضروری: واقف منصب افتاء جانتاہے کہ مفتی سے جس کلام باطل وضلال کی نسبت سوال سائل ہو اس پر اس کلام کی شناعتوں کا اظہار ، قباحتوں کا ایضاح واجب اگرچہ قائل محض عامی وجاہل ہو کہ اتمام جواب و احکام صواب اس پر موقوف اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قابل مخاطبہ ٹھہرا، پس اگر حضرت دیوبندی مثل مدعیان جدید کوئی اکابر ومتبوعین طائفہ سے ہیں جب تو اس رد بلیغ کا ہدیہ مبارک یا اگر مثل صاحب نسبت براہین قاطعہ نقاب عارض امامت کامنہ ہیں تو خطاب متعدد اور مخاطب واحد ورنہ کلام فقیر بضرورت افتاء محض جانب کلام من حیث ہوکلام معطوف اور خصوصی متکلم سے نظر مصروف ۱۲ منہ۔
اقول یہ زبانی اظہار محض بے بنیاد وناپائیدار کہ جب کذب ممکن بلکہ جائز وقوعی ہوا جیسا کہ تمھارے امام کا مشرب، تو ہر گز اس اعتقاد کی طرف کوئی راہ نہیں بلکہ صراحۃً
ام تقولون علی اﷲ مالاتعلمون
(یا خدا پر وہ بات کہتے ہو جس کا علم تمھیں نہیں۔ ت) میں داخل ہونا ہے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۸۰)
وہ تقریریں کہ فقیر نے دلیل دوم تنزیہ دوم میں حاضر کیں یہاں بنہایت وضوح وانجلا جاری، جنھیں بحمداللہ اس اظہار باطل کی ذلت وخواری کی پوری ذمہ داری، سچا ہے تو کذب الٰہی جائز رکھ کر اپنے اعتقاد پردلیل تو قائم کرے اور جب نہ قائم کرسکے تو واضح ہوجائے گاکہ یہ زبانی استمالت بھی صرف خاطر داری عوام کے لئے تھی آخر اس کا امام صراحۃ لکھ ہی چکا کہ چراچھپا کر خدا جھوٹ بول لے تو کچھ حرج نہیں،
اللھم انی اعوذبک من اضلال الشیاطین، والعیاذ باﷲ رب العالمین۔
اے اللہ! میں شیطان کی گمراہی سے تیری پناہ میں آتاہوں، اللہ رب العالمین کی پناہ ہے۔ (ت)
قولہ مگر بول سکتا ہے،اقول انظر
کیف یفترون علی اﷲ الکذب وکفی بہ اثما مبینا ۲؎ o
(دیکھو کیسا اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور یہ کافی ہے صریح گناہ۔ ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۴ /۵۰)
قولہ۔ بہشتیوں کو دوزخ اور دوزخیوں کو بہشت میں بھیج دے، اقول قطع نظر اس سے کہ مومن مطیع کی تعذیب ہمارے ائمہ کرام ماتریدیہ اعلام قدست اسرارہم کے نزدیک محال عقلی مسلم الثبوت اور اس کی شرح فواتح الرحموت میں ہے :امتناع تعذیب الطائع مذھبنا معشر الماتریدیۃ فانہ نقص مستحیل علیہ سبحانہ وتعالٰی عقلا ۳؎ اھ ملخصا۔ مومن مطیع کے عذاب کا ممتنع ہونا ہم ماتریدیہ کا مذہب ہے کیونکہ یہ نقص ہے جو اللہ تعالٰی پر محال عقلی ہے، اھ ملخصا۔ (ت)
(۳؎ فواتح الرحموت بذیل المستصفی الباب الاول فی الحاکم منشورات الشریف الرضی قم ایران ۱/ ۴۶)
اورامام نسفی وغیرہ(عہ۱) بعض علما ء نے عفو کا فرکو بھی عقلا ناممکن جانا، امام ابن الہمام مسایرہ میں فرماتےہیں،
صاحب العمدۃ اختار ان العفو عن الکفر لا یعفو من الکفر ال یجوز عقلا۔۱؎ صاحب عمدہ کا مختار یہ ہے کہ کفر سے عفو عقلاَ جائز نہیں ۔ (ت)
(۱؎ المسایرہ مع المسامرۃ الرکن الرابع فی السفیہات المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص ۲۵۵)
عہ۱: طرفہ یہ کہ وہ ردالمحتار جس سے مدعیان جدید اس مسئلہ میں جہلا متمسک اس میں بھی یہی قول اختیار کیا اور اسی کو صحیح و معتمد قرار دیا،
حیث قل لکنہ مبنی علٰی جواز العفو عن الشرک عقلا ع وعلیہ یبتنی القول بجواز الخلف فی الوعید ، و قد علمت ان الصحیح خلافہ فالد عاء بہ کفر لعد م جواز ہ عقلا و شرعا ۲؎ ۔
انھوں نے کہا یہ اس پر مبنی ہے کہ شرک کا عفو عقلا جائز ہے اور خلف وعید کا قول بھی اسی پر مبنی ہے اور آپ جان چکے صحیح قول اس کے خلاف ہے لہذا اس کا دعوٰی کفر ہے کیونکہ اس کا جواز نہ عقلا ہے نہ شرعا (ت)
کمالا یخفی علٰی من طالعہ بامعان النظر واللہ الموفق ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
جیسا کہ مخفی نہیں ہر اس شخص پر جس نے گہری نظر سے مطا لعہ کیا ہو اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (ت)
اس قائل سے پوچھئے انبیا ء و اولیا ء علیہم الصلٰوۃ والسلام کا جنھوں نے کبھی اطاعت کے سوا کچھ گناہ نہ کیامعاذ اللہ دوزخ میں جانا اورکافروں مشرکوں کا جنت میں آنا محال شرعی بھی مانتا ہے یا نہیں، اگر نہیں تو اپنے ایمان کی فکر کرے اور علماء سے اپنا حکم پُوچھ دیکھئے اور اگر ہا ں تو ممتنع بالغیر ہو اورممتنع با لغیر وہی جس کا وقوع ماننا کسی ممتنع با لذّات کی طرف منجر ہو ورنہ لزوم ممکن سے استحالہ ممکن محض ناممکن ، اب و ہ غیر کیا ہے، یہی لزوم کذب باری عزوجل ، تو آپ ہی کی دلیل(عہ۲) سے ثابت ہوا کہ کذب بار محال ذاتی ہے،
عہ۲: فان قلت لم لا یجوز ایکون ھذا ایضا محالا لغیرہ و ذٰلک الغیرالمستحیل بالذات شیئا اٰخر قلت لم لا یجوزان یکون ھذا ھو ذٰ لک الغیر الامحال بالذات ولا جلہ سارملز و مہ محالا بالغیر فان تشبثت باحتمال تشبثنا باٰ خر و کنا مصیبین وکنت من الخاطئین لا نک مستدل بھذا الرلیل علی امکان الکذب امامد عیا واماغاصبا فکیف یکفیک عسٰی ولعل ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
اگر یہ اعتراض کریں یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ یہ بھی محال لغیرہ ہو اور یہ غیر جو محال بالذات ہو دوسری شیئ ہے میں کہوں گا یہ کیوں جائز نہیں کہ یہ غیر محال بالذات یہی ہو اور اس کی وجہ سے اسکا ملزوم محال بالغیر ہو اور اگر تم کسی اور احتمال سے استدلال کرو تو ہم مصیب اور تم خاطی ٹھہرو گے کیونکہ تم اس دلیل سے امکان کذب پر استدلال کیا تو تم یا تو مدعی ہو یا غاصب اب تمھارے لئے شاید یہ ہو امید ہے کہ ہو، کیسے کام آسکتا ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
اے ذی ہوش ! ورو د نص کے سبب خلاف منصوص کو محال شرعی اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کا وقوع محال عقلی یعنی کذبِ الٰہی کو مستلزم ، شرح عقائد میں ہے :
لوو قع لزم کذب کلام اللہ تعالٰی وھو محال ۱؎۔
اگر قوع ہو جائے تو اللہ تعالٰی کے کلام کا کذب لازم آتا ہے جو محال ہے (ت)
(۱؎ شرح العقائد النسفیہ دار الاشاعۃ الاعربیۃ قندھار افغانستان ص ۷۱)
شرح فقہ اکبر میں ہے،
قال اللہ تعالٰی، لا یکف اللہ نفسا الا وسعھا، وعن ھذا النص ذھب المحققون ممن جوزہ عقلا من الا شاعرۃ الٰی امتنا عہ سمعا وان جاز عقلا ای والا لز م وقوع خلاف خبرہ سبحانہ۔ ۲؎۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے، اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر، اسی نص کی بنا پر ان اشاعرہ میں سے محققین اس طرف گئے ہیں جو اسے عقلا جائز سمجھتے تھے کہ شرعا محال ہے اگرچہ عقلا جائز ہے یعنی ورنہ اللہ تعالٰی کی خبر کے خلاف وقوع لازم آئے گا ۔ (ت)
(۲؎ منح الرو ض الازھر شرح الفقہ الاکبر معنی قرب الباری من مخلوقاتہ و بعدہ عنہم البابی مصر ص ۱۰۷)