(میں اللہ کی توفیق سے کہتاہوں اے اللہ!ہمیں معاف فرمادے اور ہمیں گمراہی اور کفر سے محفوظ فرما۔ ت) جان برادر! یہ پوچھتا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ کیساہے اورا ن کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے، یہ پوچھب کہ امام وماموم پر ایک جماعت ائمہ کے نزدیک کتنی وجہ سے کفرآتاہے۔ حاش للہ حاش للہ ہزار ہزار بار حاش للہ میں ہر گز ان کی تکفیر پسند نہیں کرتا ان مقتدیوں یعنی مدعیان جدید کوتو ابھی تک مسلمان ہی جانتاہوں اگرچہ ان کی بدعت وضلالت میں شک نہیں اور امام الطائفہ کے کفر پر بھی ہم حکم نہیں کرتا کہ ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اہل لا الہ الا اﷲ کی تکفیر سے منع فرمایا ہے، جب تک وہ وجہ کفر آفتاب سے زیادہ روشن وجلی نہ ہوجائے اور حکم اسلام کے لئے کوئی ضعیف ساضعیف محمل بھی نہ رہے فان السلام یعلو ولایعلی (اسلام غالب ہے مغلوب نہیں ۔ت) مگریہ کہتاہوں اور بیشک کہتاہون کہ بلاریب ان تابع ومتبوع سب پر ایک گروہ علماء کے مذہب میں بوجہ کثیرہ کفر لازم ۔
والعیاذ باﷲ ذی الفضل الدائم
(دائمی فضل والے اللہ کی پناہ۔ ت) میرا مقصود اس بیان سے یہ ہے کہ ان عزیزون کو خواب غفلت سے جگاؤں اور ان کے اقوال باطلہ کی شناعت بائلہ انھیں جتاؤں کہ او بے پروا بکریو! کس نیند سورہی ہو، گلا دو رپہنچا، سورج ڈھلنے پر آیا گرگ خونخوار بظاہر دوست بن کر تمھارے کان پر تھپک رہا ہے کہ ذرا جھٹپٹا اور اپنا کام کرے چوپایوں میں تمھاری بیجاہٹ کے باعث اختلاف پڑچکا ہے بہت حکم لگاچکے کہ یہ بکریاں ہمارے گلے سے خارج ہیں بھیڑیاں کھائے شیر لے جائے ہمیں کچھ کام نہیں اور جنھیں ابھی تک تم پر ترس باقی ہے وہ بھی تمھاری ناشائستہ حرکتوں سے ناراض ہوکر اپنی خاص گلے میں تمھارا آنا نہیں چاہتے ہیہات ہیہات اس بیہوشی کی نیند اندھیری رات میں جسے چوپان سمجھ رہے ہو واللہ وہ چوپان نہیں خود بھیڑیا ہے کہ ذیاب فی ثیاب کے کپڑے پہن کر تمھیں دھوکا دے رہا ہے پہلے(عہ۱) وہ بھی تمھارے طرح اس گلے کی بکری تھا، حقیقی بھیڑیے(عہ۲) نے جب اسے اسے شکا رکیا اپنے مطلب کا دیکھ کر دھوکے کی ٹٹی بنالیا اب وہ بھی اکے دکے کی خیر مناتا اور بھولی بھیڑوں کو لگاکر لے جاتاہے للہ اپنی حالت پر رحم کرو۔ عہ۱:یعنی امام الوہابیہ ۱۲ عہ۲: یعنی شیطان۱۲
اورجہاں تک دم رکھتے ہو ان گرگ ونائب گرگ سے بھاگو جیسے بنے ا س مبارک گلے میں جس پر خدا کا ہاتھ ہے کہ یداللہ علی الجماعۃ (جماعت پراللہ کا ہاتھ ہے۔ ت) اور اس کے سچے راعی محمدر سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں آکر ملوں کہ امن چین کا رستہ چلوا ور مرغ ز ارجنت میں بے خوف چرو۔ اے رب میرے ہدایت فرما، آمین!
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہسید العالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو کچھ اپنے رب کے پاس سے لائے ان سب میں ان کی تصدیق کرنا اور سچے دل سے ان کی ایک ایک بات پر یقین لانا ایمان ہے۔
ادامہ اﷲ لنا حتی نلقاہ بہ یوم القیام وندخل بہ بفضل رحمتہ دارالسلام اٰمین!
اللہ تعالٰی اس پر ہمیں دوام عطا فرمائے حتی کہ ہماری روز قیامت آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ملاقات ہو اور اللہ تعالٰی اپنی رحمت سے دارالسلام میں آپ کے ساتھ داخلہ عطا فرمائے۔ (ت)
اور معاذاللہ ان میں کسی بات کا جٹھلانا اور اس میں ادنٰی شک لانا کفر،
اپنے حفظ عظیم سے اللہ تعالٰی ہمیں اپنی پناہ عطا فرمائے اورہمارے عجز اور کمزوری پر لطف عظیم سے رحم فرمائے وہی غفور رحیم ہے، آمین آمین اے معبود برحق آمین! (ت)
پھر یہ انکار جس سے خدا مجھے اور سب مسلمانوں کو پناہ دے دو طرح ہوتاہے، لزومی ولالتزامی، التزامی یہ کہ ضروریات دین سے کسی شئی کا تصریحات خلاف کرے یہ قطعا اجماعا کفر ہے اگر چہ نام کفر سے چڑے اور کمال اسلام کا دعوٰی کرے۔ کفر التزامی کے یہی معنی نہیں بلکہ صاف صاف اپنے کافر ہونے کا اقرار کرتاہو جیسا کہ بعض جہال سمجھتے ہیں۔ یہ اقرار تو بہت طوائف کفار میں بھی نہ پایا جائے گا ہم نے دیکھا ہے بہیترے ہندو کافر کہنے سے چڑتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنی کہ جو انکار اس سے صادر ہوا یا جس بات کا اس نے دعوٰی کیا وہ بعینہ کفر ومخالف ضروریات دین ہو جیسے طائفہ تالفہ نیاچرہ کا وجود ملک وجن وشیطان وآسمان ونار وجنان و معجزات انبیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والسلام سے ان معانی پر کہ اہل اسلام کے نزدیک حضور ہادی برحق صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے متواتر ہیں انکار کرنا اور اپنی تاویلات باطلہ وتوہمات عاطلہ کو لے مرنا نہ ہر گز ہرگز ان تاویلوں کے شوشے انھیں کفر سے بچائیں گے نہ محبت اسلام وہمدردی قوام کے جھوٹے دعوے کام آئیں گے
قاتلھم اﷲ انی یؤفکون ۱؎
(اللہ انھیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۹ /۳۰ و ۶۳ /۴)
اور لزومی یہ کہ جوبات اس نے کہی عین کفر نہیں مگر منجر بکفر ہوتی ہے یعنی مآل سخن ولازم حکم کو ترتیب مقدمات وتتمیم تقریبات کرتے لے چلئے توانجام کار اس سے کسی ضرور دین کا انکار لازم آئے جیسے روافض کا خلاف حقہ راشدہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت جناب صدیق اکبر وامیر المومنین حضرت جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انکار کرنا کہ تضلیل جمیع صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی طرف مؤدی اور وہ قطعا کفر مگر انھوں نے صراحۃ اس لازم کا اقرار نہ کیا تھا بلکہ اس سے صاف تحاشی کرتے اور بعض صحابہ یعنی حضرات اہلبیت عظام وغیرہم چند اکابر کرام علی مولا ھم وعلیہم الصلٰوۃ والسلام کو زبانی دعووں سے اپناپیشوا بناتے اور خلافت صدیقی وفاروقی پر ان کے توافق باطنی سے انکار رکھتے ہیں اس قسم کے کفرمیں علماء اہلسنت مختلف ہوگئے جنھوں نے مآل مقال ولازم سخن کی طرف نظر کی حکم کفر فرمایا اور تحقیق یہ ہے کہ کفر نہیں بدعوت وبدمذہبی وضلالت وگمراہی ہے،
والعیاذ باﷲ رب العالمین
(اللہ رب العالمین کی پناہ ۔ت) امام علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی شفا شریف میں فرماتے ہیں:
من قال بالماٰل یؤدی الیہ قول ویسوقہ الیہ مذھبہ، کفرہ، فکانھم صرحوا عندہ بماادی الیہ قولھم، ومن لم یراخذھم بماٰل قولھم ولاالزمھم موجب مذھبھم لم یراکفارھم قال لانھم اذاوقفوا علی ھٰذا قالوا لانقول بالماٰل الذی الزمتموہ لنا۔ ونعتقد ونحن وانتم انہ کفر، بل نقول ان قولنا لایؤل الیہ علی ما اصلنا، فعلی ھٰذین المأخذین اختلف الناس فی الکفار اھل التاویل والصواب ترک اکفار ھم ۱؎ اھ ملخصا۔
جس نے اس مآل کی طرف دیکھا جس کی طرف اس کا قول مؤدی تھا جس کی طرف ا س کا مذہب چلا جاتا ہے تو اس نے اس کی تکفیر کی گویا اس نے ان کے مؤدی قول کو سمجھا ہے اور جنھوں نے ان کے مآل کو نہ دیکھا اورنہ ان کے تقاضا مذہب کا لزوم دیکھا انھوں نے تکفیر نہیں کی اس لئے جب وہ اس سے اگاہ ہوگئے توانھوں نے کہا ہم اس مآل کا قول دونوں اسے کفر تصور کرتے ہیں بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے اصل کے مطابق ہمارے قول کا وہ مآل ہی نہیں، ان دونوں ماخذوں کی وجہ سے اہل تاویل کے کفر میں لوگوں کااختلاف ہوا اور درست رائے یہی ہے کہ ان کے کفر کا قول نہ کیا جائے اھ ملخصا (ت)
(۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی فصل فی بیان ماھو من المقالات المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ بیروت ۲/ ۲۷۸)
جب یہ امر ہو لیا تو اب ان امام وماموم کے کفریات لزومیہ ہوگئے۔ امام کے کفروں کا شمار ہی نہیں اس نے توصرف انھیں چند سطروں میں جو تنزیہ سوم میں اس سے منقول ہوئیں کفروی لزومی کی ساتھ اصلیں تیارکیں جن میں ہراصل صدہا کفر کی طرف منجر اور اس کا مذہب مان کر ہرگز ان سے نجات نہ مفر، والعیاذباللہ العلی الاکبر۔
اصل اول: جو کچھ انسان کرسکے خدا اپنی ذات کریم کے لئے کرسکتاہے ورنہ قدرت انسانی بڑھ جائیگی (دیکھو ہذیان اول) اس اصل کے کفروں کی گنتی نہیں مگر میںاسی قدر شمار کروں جو اوپر گن آیا ہوں یقینا قطعا لازم کہ اس سفیہ کے مذہب پر (۱) اس کا معبود کھانا کھاسکتا ہے (۲)پانی پی سکتاہے (۳)پاخانہ پھرسکتا ہے (۴)پیشاب کرسکتاہے (۵)اپنا سمع روک سکتاہے (۶)بصر روک سکتا ہے (۷)دریا میں ڈوب سکتاہے (۸)آگ میں جل سکتاہے (۹)خاک پر لیٹ سکتاہے (۱۰)کانٹوں پر لوٹ سکتاہے (۱۱)وہابی ہوسکتاہے (۱۲) رافضی ہوسکتاہے (۱۳)اپنا نکاح کرسکتاہے (۱۴)اجماع کرسکتا ہے (۱۵)عورت کے رحم میں اپنا نطفہ پہنچا سکتاہے (۱۶)اپنا بچہ جنا سکتا ہے (۱۷)نیز اس اصل پر لازم کہ خدا خدا نہیں (۱۸)ہزاروں کروڑوں خدا ممکن ہیں (۱۹) آیہ کریمہ
واﷲ خلقکم وما تعلمون ۱؎
(اور اللہ نے تمھیں پیدا کیا اورتمھارے اعما ل کو۔ ت) حق نہیں ان سب امور کا ثبوت ہذیان مذکور کے ردوں میں ہدیہ ناظرین ہوا۔
(۱؎ القرآن الکریم ۳۷ /۹۶)
اصل دوم : خدا کے لئے عیوب ونقائص محال نہیں بلکہ مصلحت کے لئے ان سے قصدا بچتاہے (ہذیان دوم) اس اصل کفر اصل اول سے صدہا درجے فزوں جس سے لازم کہ اس بیباک کے مذہب ناپاک پر (۲۰)اہل اسلام کے عامہ عقائد تنزیہی وتقدیس کہ ان کے نزدیک ضروریات دین سے ہیں سب باطل و بے دلیل (۲۱)اس نامسعود کا وہمی معبود عاجز (۲۲)جاہل (۲۳) احمق (۲۴)کاہل (۲۵) اندھا (۲۶)بہرا (۲۷)ہکلا (۲۸)گونگا سب کچھ ہوسکتاہے (۲۹)کھاناکھائے (۳۰)پانی پئےے (۳۱)پاخانہ پھرے (۳۲)پیشاب کرے (۳۳)بیمار پڑے (۳۴)بچہ جنے (۳۵)اونگھے (۳۶)سوئے (۳۷)مرجائے (۳۸)مر کر پھر پیدا ہو سب کچھ روا ہے (۳۹)اللہ کے علم (۴۰)قدرت (۴۱)سمع (۴۲)بصر (۴۳)کلام (۴۴)مشیت وغیرہا صفات کمال کے (ازلی) ہونے کا کچھ ثبوت نہیں (۴۵ تا ۵۰) ان کے ابدی ہونے کا کچھ ثبوت نہیں (۵۱)اس کی الوہیت قابل زوال، ان سب لزوم کا بیان تازیانہ اول میں گزرا بلکہ (۵۲) خود اس اصل کا ماننا در حقیقت بالفعل اللہ عزوجل کو نا قص جانتاہے (دیکھو تازیانہ ۲) اور بیشک جو اللہ عزوجل کی طرف نقص کی نسبت کرے قطعا کافر ، اعلام بقواطع الاسلام میں ہے:
من نفی اواثبت ماھو صریح فی النقص کفر۲؎ الخ۔
(۲؎ الاعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ فصل اول مکتبۃ حقیقہ استنبول ترکی ص)
اصل سوم : جن باتوں کی نفی سے خدا کی مدح کی گئی وہ سب خدا کے لئے ممکن ہیں (ہذیان ۲)اس کے کفر بھی
بکثرت ہیں قطعا لازم کہ اس سفیہ کے طور پر (۵۳)اس کے معبود کی جو رو ہوسکتی ہے۔ (۵۴)بیٹاہو سکتاہے (۵۵)بھول سکتاہے (۵۶)بہک سکتاہے (۵۷)بعض اشیاء اس کی ملک سے خارج ہیں الی غیر ذٰلک من الکفریات (اس کے علاوہ دیگر کفریات ۔ ت) (دیکھو ت۵ تا ۸)
اصل چہارم : صدق الٰہی اختیاری ہے (ھ۲) اس سے لازم کہ سفیہ کے مذہب پر (۵۸)قرآن مجید مخلوق ہے جس کے کفر پر ۳۲ فتوے گزرے (۵۹) اس کا معبود از ل میں کاذب تھا (۶۰) اب بھی کاذب ہے (۶۱)کبھی صادق نہیں ہوسکتا (۶۲)قرآن مجید کا جملہ جملہ غلط ہے (۶۳)اللہ مخلوق ہے (۶۴)بلکہ محال ہے الی غیر ذلک وہ کفریات کثیرہ کہ مواضع متعددہ میں جن کا الزام گزرا۔
اصل پنجم : علم الٰہی اختیاری ہے (تنبیہ بعد ت ۳) اس پر لازم کہ جاہل کے نزدیک (۶۵) علم الٰہی مخلوق وحادث ہے جس کے کفر پر فتوٰی امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ گزرا (اللہ تعالٰی از ل میں جاہل تھا (۶۷)جب چاہے جاہل بن جائے (۶۸)اللہ حادث ہے (۶۹)قابل فنا ہے الٰی غیر ذلک۔
اصل ششم: کذب الٰہی ممکن ہے اور ثابت کرآئے کہ اس کا کلام نہ صرف امکان عقلی بلکہ امکان وقوعی بلکہ عدم استبعاد عادی میں نص صریح ہے اور (۷۰)یہ خود کفر ہے، پھر اس تقدیر پرقطعا یقینا (۷۱) شریعت سے یکسر مان مرتفع (۷۲) خداکی خبر سے یقین مندفع (۷۳) اسلام پر مطاعن جن سے جواب ناممکن۔