تنبیہ نبیہ: الحمد للہ تحقیق ذروہ علیا کہ پہنچی اور عیارون طراروں کی افترا بندی اپنی سزا کو، اب صرف یہ امر قابل تنقیح رہا کہ جب خلف بمعنی تبدیل کے استحالہ پر اجماع قطعی قائم اور بمعنی مساوی عفو بالاجماع جائز بلکہ واقع تو علمائے مجوزین ومحققین مانعین میں نزاع کس امر پر ہے۔
اقول وباﷲ التوفیق وبہ العروج علی اوج التحقیق علی الخبیر سقطت
( میں کہتاہوں اللہ کی توفیق سے،ا ور اس توفیق سے باخبر کو تحقیق کی بلندیوں پر عروج حاصل ہوتاہے۔ ت) ہاں منشاء نزاع اس اطلاق کی تجویز ہے مجوزین نے خیال کیا کہ خلف وعید معاذاللہ کسی عیب ومنقصت کا نشان نہیں دیتا بلکہ عفو وکرم پر دلیل ہوتاہے اور محل مدح وستائش میں بولا جاتاہے ولہٰذا جابجا عرف عرب سے اس پر استناد کرتے ہیں۔ قائل قائلھم (ان میں سے کسی کا قول ہے۔ ت) ؎
وانی وان اوعدتہ او وعدتہ لمخلف ایعادی ومنجزموعدی
(اگر میں نے اسے وعید سنائی یا اس سے وعدہ کیا تو اپنے وعید کا خلاف اور وعدہ کو پورا کرنیووالاہوں۔ ت)
وقال اٰخر (اور دوسرے نے کہا۔ ت): ؎
اذا وعد السراء انجزوعدہ وان اوعدا فالعفو مانعہ
(جب خوشحال لوگوں سے وعدہ کیا تو وعدہ پور ا کردیا اور جب فقراء کو وعید سنائی تو عفو اس کے مانع ہوگیا۔ت)
بنابراں خلف وعید کی تجویز کی۔ محققین نے دیکھاکہ لفظ معنی محال یعنی تبدیل کا موہوم اور یہاں ایہام محال بھی منع میں کافی، کما نصوا علیہ فی مسئلۃ معقد العنز (جیسا کہ انھوں نے مسئلہ معقد العنز میں اس پر تصریح کی ہے۔ ت) اور اس کے ساتھ وقوع تمدح صرف مخلوق میں ہے خالق عزوجل کا ان پر قیاس صحیح نہیں لاجرم اس تجویز سے تحاشی کی۔
خلاصہ یہ کہ آیات وعیدمیں بنظر ظاہر عموم عدم ایک صورت خلف میں ہے اگرچہ بنظر تخصیص وتقیید حقیقت خلف سے قطعا منزہ، مجوزین اسی خلف صوری کو خلف وعید سے تعبیر کرتے اور اسے جائز رکھتے ہیں کہ مفید مدح ہے اور محققین منع فرماتے ہیں کہ موہم نقص وقدح ہے ورنہ اگر خیال معنی کیجئے تو بلاشبہہ وہ جس امر کو خلف کہتے ہیں قطعا بالاجماع جائز وواقع، ولہذا علامہ شہاب الدین خفا کی مصری نے تسلیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں مسئلہ خلف کواہلسنت کا اتفاقی قرار دیا اور اس میں خلاف صرف معتزلہ کی نسبت کیا،حیث قال الوعید لایجوز تخلفہ عند المعتزلہ لقولھم بانہ یجب علی اﷲ تعالٰی تعذیب العاصی ۱؎۔ جہاں کہاں کہ وعید کا تخلف معتزلہ کے ہاں جائز نہیں کیونکہ ان کا یہ مذہب ہے کہ خاص کو عذاب دینا اللہ تعالٰی پر لازم ہے۔ (ت)
(۱؎ نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض فصل فی بیان ماھو من المقالات کفر الخ دارالفکر بیروت ۴/ ۵۳۱)
پر ظاہر کہ اس نسبت کا منشا وہی نظر معنی ہے کہ معنی مقصود مجوزین کے جواز میں واقعی اشقیائے معتزلہ ہی کو خلاف ہے اہلسنت میں کوئی اس کا منکر نہیں۔ جس طرح معنی کذب وتبدیل کے بطلان وامتناع پر اہلسنت بلکہ اہل ملل بلکہ اہل عقل کا اجماع ہے جس میں کسی فرقہ کا خلاف معلوم ظاہر نہیں۔ یہ ہے بحمد اللہ محل نزاع کی تحریر انیق وتقریر رشیق،والحمد اللہ ولی التوفیق علی الھام التحقیق وار شاد الطریق (حمد ہے اللہ تعالٰی میں جو عطاء تحقیق اور رہنما طریق کی توفیق کا مالک ہے۔ ت) امام محقق مدقق علامہ حلبی نے اسی حلیہ میں جواز خلف مان کر معنی کذب وتبدیل سے وہ تحاشی عظیم فرمائی جس کی نقل حجت سابعہ میں گزری پھر تصریح مراد کی یوں ارشادکی :
المراد بالوعید صورۃ العموم بالوعید من ارید بالخطاب ۱؎۔
مسئلہ جواز خلف میں وعید سے صورت عموم مراد ہے کہ بظاہر حکم سب مخاطبوں کو شامل نظر آتاہے۔
(۱؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)
یعنی تنہا الفاظ وعید پر نظر کیجئے تو صاف یہی حکم ہے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ایسا کریں گے سب سزا پائیں گے پھر جبکہ بدلائل قاطعہ ثابت ہوا کہ بعض کو نہ ہوگی تو بظاہر وعید متحلف ہوئی حالانکہ وہ عموم صرف صوری تھا۔ نہ حقیقی کہ حقیقت میں عمومات وعید آیاتِ مشیت سے مکتسب تقیید ،جن کا حاصل یہ ہے کہ ہم معاف نہ فرمائیں تو سزا ہوگی بس اس قدر محصل خلف ہے جسے معاذاللہ کذب وتبدیل سے کچھ علاقہ نہیں۔ پھر اس مراد و مقصود کی تحقیق فرماکر ارشاد کرتے ہیں:
ثم حیث کان المراد ھذا فالوجہ ترک اطلاق جواز الخلف فی الوعد والوعیددفعالایھام ان یکون المراد منہ ھذا المحال ۲؎۔
یعنی جب معلوم ہوگیا کہ جواز خلف سے صرف اس قدر مراد ہے نہ وہ کہ معاذاللہ امکان کذب کو راہ دے کہ کذب وتبدیل تو یقینا اللہ تعالٰی پر مستحیل، تو مناسب یہی ہے کہ وعدہ یا وعید کسی میں جواز خلف کا لفظ نہ بولیں کہ اس سے کسی کو اس معنی محال کا وہم نہ گزرے.
(۲؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)
واقعی امام ممدوح کا گمان بجا تھا۔ آخر دیکھئے ناکہ اس چودھویں صدی میں جہال سفہاء کو وہ ہم آڑے ہی آیا۔
والعیاذ باللہ سبحانہ وتعالٰی پھر فرماتے ہیںـ: وانما وافقنا ھم علی الاطلاق لشھرۃ المسئلۃ بینھم بھٰذہ الترجمۃ ونستغفر اﷲ العظیم من کل مالیس فیہ رضاہ ۱؎ ۔
(۱؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)
ہم نے جو اس لفظ کے اطلاق میں علمائے سابقین کا ساتھ دیا اس پر باعث یہ تھا کہ مسئلہ ان میں سے اسی نام سے شہرت رکھتاہے اور ہم اللہ عزوجل سے مغفرچاہتے ہیں ہر اس بات کی جو اسے پسند یدہ نہیں۔
سفیہ جاہل دیکھے کہ اس کے امکان کذب کے شوشے کدھر گئے۔
قل جاء الحق وزھق الباطل ط ان الباطل کان زھوقا ۲؎۔
فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بشیک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۱۷ /۸۱)
فقیرغفر اللہ تعالٰی نے بتوفیی المولٰی سبحانہ وتعالٰی اس مقام کی زیادہ تحقیق حواشی شرح عقائد وشرح مواقف پرذکر کی اگر مخافت تطویل نہ ہوتی تو ان نفائس جلیلہ کو زیور گوش سامعین کرتا۔
وفیما ذکرنا کفایۃ و الحمد اﷲ ولی الھدایۃ
(جو کچھ ہم نے ذکر کردیا وہی کافی ہے۔ حمد ہے اللہ تعالٰی کی جو ہدایت کا مالک ہے۔ ت) غرض اس مقدار سے زائد کسی امر کو محل نزاع ٹھہرانا خود ان کے مقتضائے کلام ومقال وتمسک واستدلال سے جدا پـڑنا اور توجیہ القول بالایرضی بہ قائلہ کرنا اوران کے اجماعیات قاطعہ سے منکر ہونا اوران مہالک شنیعہ و نتائج فظیہ کا ان کے ذمے باندھنا ہے جن سے ہو ہزارجگہ بتصریح صریح تبری کرتے ہیں۔ اور واقعی بحمد اللہ بارہا دیکھا ہے کہ ائمہ اہلسنت میں جو مسئلہ اصول مختلف فیہ رہاہے اگرچہ بعض ناظرین ظواہر الفاظ سے دھوکا کھائیں مگر عند التحقیق اس کا حاصل نزاع لفظی یا ایسی ہی کسی بلکہ بات کی طرف راجع ہوا ہے۔ پھرایک فریق کے دوسرے پر الزامات حقیقۃ اپنے معنی مرادپر الزام ہیں جس سے دوسرے کا ذہن خالی نہ اس کی مراد سے انھیں تعلق نہ اسے دیکھ کر کوئی عاقل یہ وہم کرسکتاہے کہ وہ امر جس کا الزام دیا گیا فریقین میں مختلف فیہ ہے بلکہ یہ تو عامہ نزاعات حقیقیہ معنویہ میں بھی نہیں ہوتا چہ جائے صور یہ ولفظیہ میں الزام اسی امر سے دیتے ہیں جس کا بطلان متفق علیہ ہو مختلف فیہ سے مختلف فیہ پر احتجاج یعنی چہ خصوصا جب کہ ایک امرمیں اختلاف دوسرے میں تنازع کی فرع ہو کہ اس تقدیر پر فرع سے الزام مصادرہ علی المطلوب ہے۔ یہ نکتہ بھی یادرکھنے کے قابل کہ طرف مقابل سخت ابلہ وجاہل، خیر بات دور پہنچی نظائر لیجئے۔ مثلاایمان مخلوق ہے یا غیر مخلوق، امام عارف باللہ حارث محاسبی وجعفر بن حرب وعبداللہ بن کلاب وامام المتکلمین عبدالعزیز مکی وائمہ سمرقنداول کے قائل اور اسی طرف امام ہمام ابو الحسن اشعری قدس سرہ، مائل، بلکہ اسی پر امام الائمہ سراج الامہ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نص شریف دلیل کامل ،اور امام عماد السنہ احمد بن حنبل وغیرہ جماعت محدثین سے قول منقول اوریہی ائمہ بخارا ''ومن وافقہم'' کے نزدیک مختار و منصور ومعتمد مقبول، اس پر ائمہ سمر قند وبخارا میں نزاع کو جو طول ہوا مخفی نہیں انہوں انھوں نے ان پر مخلوقیت قرآن کا الزام رکھا انھوں نے ان پر نامخلوقیت افعال عباد کا طعن کیا اور حقیقت دیکھئے تو بات کچھ بھی نہیں اپنی اپنی مراد پر دونوں سچ فرماتے ہیں ایمان مخلوق بیشک مخلوق کہ مخلوق وصفات مخلوق سب مخلوق اور ایمان کہ صفت خالق عزوجل ہے جس پر اسمائے حسنٰی سے پاک مومن دلیل یعنی اس ملک جلیل جل جلالہ کا ازل میں اپنے کلام کی تصدیق فرمانا وہ قطعا غیر مخلوق کہ خالق وصفات خالق مخلوقیت سے منزہ۔ ھکذا قررہ الفاضل العلامۃ کمال الدین بن ابی شریف القدسی فی المسامرۃ شرح المسایرۃ۔ اسی طرح اس کی تفصیل فاضل علامہ کمال الدین بن ابی شریف المقدسی نے المسامرۃ شرح المسایرۃ میں کی ہے۔ (ت)
اب کیا کوئی احمق جاہل اس نزاع کو دیکھ کر یہ گمان کرے گا کہ بعض صفات خالق کا مخلوق یا بعض افعال مخلوق کا نامخلوق ہونا ائمہ اہل سنت میں مختلف فیہ ہے۔ حاشاہ کلایوں ہی مسئلہ زیادت ونقصان ایمان کہ قدیم سے مختلف فیہاہے۔ امام رازی وغیرہ بہت محققین اسے بھی نزاع لفظی پر اتارتے ہیں۔
منح الروض میں ہے:
ذھب الامام الرازی وکثیر من المتکلمین الی ان ھذا الخلاف لفظی راجع الی تفسیر الایمان ۱؎۔
امام رازی اور بہت سے متکلمین ا س طرف گئے ہیں یہ اختلاف لفظی ہے جو ایمان کی تفسیر ک طرف لوٹتا ہے۔ (ت)
(۱؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر ومنہا ان الایمان لایزید وینقص مصطفی البابی مصر ص۱۳۵)
پھر کہا:
ھذا ھوالتحقیق الذی یجب ان یعول علیہ ۲؎۔
یہ وہ تحقیق ہے جس پر اعتماد لازم ہے (ت)
(۲؎منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر ومنہا ان الایمان لایزید وینقص مصطفی البابی مصر ص۱۳۵)
اسی طرح اور مسائل پائے گا۔ اگر اس پر حمل کیجئے جب تو امرنہایت ایسر کہ مجوزین بمعنی مساوی عفہ لیتے ہیں اورمانعین بمعنی تبدیل قول دونوں سچ کہتے ہیں اور دونوں اجماع باتیں ہیں مگر فقیر نے بحمد اللہ جو تنقیح مناط کردی اس پر نزاع بھی معنوی رہی اورقول مانعین کا محقق وراج ہونا بھی کھل گیا اور جہالت جاہلین کا علاج بھی بحمداللہ بروجہ کافی ہولیا،
ذٰلک من فضل اﷲ علینا وعلی الناس ولکن اکثر الناس لایشکرون o اللھم لک الشکر الابدی والمن السرمدی ، والحمد ﷲ رب العالمین۔
یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر او لوگوں پرلیکن اکثر لوگ شکرنہیں بجالاتے۔ اے اللہ! شکر ابدی اور احسان دائمی تیرے لئے ہے اور سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ (ت)
تسجیل جلیل و تکمیل جمیل
اقول وباللہ التوفیق (میں اللہ کی توفیق سے کہتاہوں۔ ت) مدعی جدید بیچارے کی حالت نہایت قابل رحم غریب نے امام الطائفہ کی بات بنانے کو عقل ودیانت کو پان رخصت دیا۔ اپنے رب کو جیسے بنے لائق کذب کردینے کا ذمہ لیا۔ ائمہ امت وسادات ملت پر کھلی آنکھوں جیتا بہتان کیا، غرض لاکھ جتن کو چھوڑے مگرکال نہ کٹا یعنی امام کی پیشانی سے داغ ضلالت مٹنا تھا نہ مٹا۔ آپ کو یاد ہو کہ اصل بات کا ہے پر چھڑی تھی، ذکر یہ تھا کہ حضور پر نور سید المرسلین خاتم النبیین اکرم الاولین والاخرین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مثل وہمسر حضور کی جلہ صفات کمالیہ میں شریک برابر محال ہے کہ اللہ تعالٰی حضورکو خاتم النبیین فرماتاہے اورختم نبوت ناقابل شرکت تو امکان مثل مستلزم کذب الٰہی اور کذب الٰہی محال عقلی ؎
منزہ عن شریک فی محاسنہ فجوھر الحسن فیہ غیر منقسم
(اپنے محاسن میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کسی شریک سے بالا ہیں آپ کو ہر حسن تقسیم نہیں کیا گیا۔ ت)
اس پر اس سفیہ نے جواب دیا کہ کذب الٰہی محال نہیں۔ ممکن ہے کہ خدا کی بات جھوٹی ہوجائے اور اس پر جو ہذیانات بکے ان کی خدمت گزاری توآپ سن ہی چکے اب یہ حضرت اس کی حمایت میں خلف وعید کا مسئلہ پیش کرتے ہیں یعنی ان کے امام نے نئی نہ کہی بلکہ اس کا قول ایک گروہ ائمہ کے موافق ہے۔ اے سبحان اللہ! ؎
اما چنیں مقتدے چناں جہاں چوں نہ بیند بدلے چناں
(ایسے امام اور ایسے مقتدی، جہاں نے ایسے بدنہ دیکھے ہوں گے۔ ت)
اے حضرت! سب کچھ جانے دیجئے مگریہ آیہ کریمہ
ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ۱؎
(۱؎ القرآن الکریم ۳۳ /۴۰)
(ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔ ت)بھی معاذاللہ کوئی وعید ہے جس کے امکان کذب کو جواز علت پر متفرع کیجئے گا یہ تو وعدہ ہے یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بشارت عظیمہ کو تمھیں اس فضل جلیل سے مشرف کیا گیا تمھاری شریعت مطہرہ کو شرف افضلیت بخشا تم ناسخ ادیان ہوئے تمھارے دین متین کا ناسخ کوئی نہ آئے گا تم سب سے بلند وبرتر تم سے بالاکوئی ہوا نہ ہوگا۔اس میں خلف تو ہر طرح بالا جماع محال ہے پھر تمھارے امام کا کیا کام نکلا اورمخالف اجماع مسلمین واحداث بدعت ضالہ فی الدین کا داغ کیونکر مٹا۔ ہاں یہ کہ اس کی اور ساتھ لگے تمھاری عقل ودیانت کاکام تمام ہوا، اسے کام نکلنا سمجھ لیجئے چاہئے کام ہوجانا قسمت کا بداکہ دین ودیانت سے یوں کٹی چھٹی اور امام بیچارے کی بات نہ بنی ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم حبک الشی یعمی ویصم
(تجھے شی کی محبت اندھا اور بہرہ کردے گی۔ ت)
؎ ذلیل وخوار وخراب وخستہ نہ اس سے ملتے نہ ایسے ہوتے
بہک گئے دین حق کا رستہ نہ اس سے ملتے نہ ایسے ہوتے
صدق القائل ( کہنے والے نے سچ کہا ۔ت) ؎
اذا کان الغراب دلیل قوم سیھدیھم طریق الھالکینا
(جب قوم کا رہنما کوّا ہو تو اس کو ہلاکت والے راستہ ہی کی رہنمائی کرے گا۔ ت)
الحمد اللہ! یہ بظاہر دس حجج باہرہ اور حقیقۃ اکیس دلائل قاہرہ ہیں کہ حجت رابعہ میں وجہ ۲ ووجہ ۳ حجت سادسہ میں ثانیا، حجت تاسعہ وعاشرہ دونوں میں ثانیا ثالثا رابعا، بالجملہ کے بعد عبارت امام رازی تنبیہ نبیہ میں کلام امام حلبی، یہ گیارہ مستقل حجتیں تھیں۔ انھیں مدعی جدید پر اکیس کوڑے سمجھئے تو بائیسواں تازیانہ تسجیل جلیل کا ہوا، اوپر کے سو ملاکر ایک سو بائیس کوڑے انھیں جمع رکھئے اور آگے چلئے کہ سائل کے بقیہ سوال کو اظہار جواب وتحقیق صواب کا انتظار کرتے دیر گزری، اب وقت وہ آیا کہ ادھر عطف عنان کروں اور بیان حکم قائل کے لئے میدان بدیع تحقیق رفیع میں قدم دھروں:
واﷲ الھادی ولی الایادی والصلٰوۃ علی حبیبہ سراج النادی۔
رہنمائی فرمانے والا اللہ ہے اور وہی مدد کا مالک ہے اس کے محبوب پر صلٰوۃ والسلام ہو جو مجلس کائنات کے چراض ہیں۔ (ت)