Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
77 - 150
حجت عاشرہ ظاہرہ باہرہ زاہرہ قاہرہ اَمَر و اَدۡھٰی من قرینتھا الاولٰی۔
اقول وباللہ التوفیق (میں اللہ کی توفیق سے کہتاہوں۔ ت) ہنوز بس نہیں اگرچہ علماء مسئلہ خلف میں بلفظ جواز تعبیر کررہے ہیں مگر عقلی صافی ونظروافی نصیب ہو تو کھل جائے کہ وہ جس معنی پر خلف جائزکہتے ہیں اس معنی پر نہ صرف جائز بلکہ بالیقین واقع مانتے ہیں تو تمھارے زعم خبیث پرقطعالازم کہ ائمہ دین کذب الٰہی کو یقینا واقع وموجود بالفعل جانتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کفر جلی اور کیا ہوگا، دلائل لیجئے۔
إولا ہم ثابت کرآئے کہ خلف وعفو  ان کے نزدیک مساوی ہیں۔ اورایک مساوی کا وقوع مساوی دیگر کو قطعا مستلزم خواہ تساوی فی التحقق ہو یا فی الصدق کہ اول کا توعین منطوق تلازم فی الوجود اور ثانی اس سے بھی زیادہ ادخل فی المقصود، فان الا نفکاک فی الوجود فی الصدق مع شی زائد (کیونکہ وجودمی ں انفکاک، صدق میں انفکاک ہی ہے بلکہ شی زائد کے ساتھ ہے۔ ت) لیکن عفو بالیقین واقع ابھی شرح مقاصد سے گزرا
''جواز الاصحاب بل ائبتوہ ۱؎''
 (اصحاب اسے جائز بلکہ اسے ثابت کرتے ہیں۔ ت)
 (۱؎ شرح المقاصد  المبحث فی عشر  دارالمعارف النعمانیہ بیروت ۲/ ۲۳۵)
تو ثابت ہوا کہ وہ علماء جسے خلف وعیدکہتے ہیں یقینا واقع، اب تم خلف کو ا س معنی ناپاک پر حمل کرتے ہو تو معاذاللہ الٰہی کے بالیقین واقع و موجود ہونے میں کیا کلام رہا، صدق اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی نے سچ فرمایا۔ ت) :
فانھا لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور ۲؎۔
بیشک آنکھیں اندھی ہوتیں وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ والعیاذباﷲ سبحانہ وتعالٰی (اللہ سبحانہ وتعالٰی کی پناہ۔ ت)
(۲؎ا لقرآن الکریم     ۲۲ /۴۶)
ثانیاً : تعیین تساوی سے قطع نظر بھی کیجئے تاہم آیہ کریمہ
ویغفر مادون ذٰلک ۳؎
(شرک سے نیچے معاف فرمادے گا۔ ت) سے ان کا استدالال دلیل قاطع کو خلف عفو س خاص یامباین نہیں لاجرم مساوی نہ سہی تو عام ہوگا۔
 (۳؎القرآن الکریم      ۴ /۱۱۶)
بہر حال وقوع مغفرت ووقوع خلف اور تمھارے طورپر وقوع خلف وقوع کذب کو مستلزم ہوکر کذب الٰہی یقینی الوقوع ٹھہرے گا اور کیا گمراہیوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں۔
ثالثا : مختصر العقائد کی عبارت گزری کچھ دیر نہ ہوئی جس میں خلف وعد کو محال لکھ کر وعید مسلمین کے بارے میں دیکھ لیجئے کیالفظ لکھا
یجوز ان یترک الوعید
(وعید کا ترک کرنا جائز ہے۔ ت) نہ کہا بلکہ صاف صاف
یترک الوعید ۴؎
 (وعید کو ترک کردیا۔ ت) مرقوم کیا۔ پھر ثبوت مدعا میں کیا کلام رہا۔
(۴؎ مختصر العقائد)
رابعاً : ان دلائل قاطعہ کے بعد تمھاری سمجھ کے لائق قاطع نزاع وواقع شغب یہ ہے کہ امام محمد محمد محمد ابن امیرالحاج حلبی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اسی حلیہ میں جواسی ردالمحتار کی جس سے آپ ناقل (اس مقام میں) ماخذ صاف بتادیا کہ خلف وعید صرف عفو سے عبارت ہے۔ اب آپ ہی بولئے کہ آپ کے مذہب میں عفو بالیقین واقع ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو وہی خلف ہے اور تم خلف کو اصل کذب سمجھے تو اپنے خدا کو یقینا  کاذب کہہ چکے یا نہیں۔
حلیہ کی عبارت میں ہے:
الدعاء المذکور یستلزم انہ یجوز الخلف فی الوعید وظاھر المواقف والمقاصدان الاشاعرۃ قائلۃ بہ لانہ لایعد نقصا بل جود اوکرما ولھذامدح بہ کعب بن زھیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حیث قال ؎

نبئت ان رسول اﷲ اوعدنی 		والعفو عند رسول اﷲ مأمول ۱؎
دعا مذکور اس بات کو مستلزم ہے کہ خلف وعید جائز ہے۔ مواقف اور مقاصد کے ظاہر سے ہی معلوم ہوتاہے کہ اشاعرہ اس کے قائل ہیں کیونکہ اسے نقص نہیں بلکہ جو وہ کرم شمار کیا جاتاہے یہی وجہ ہے حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اس کے ساتھ مدح کرتے ہوئے کہا ؎

مجھے بتایا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وعید سنارکھی ہے مگر سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ

 وسلم سے عفو کی ہی امید ہے۔ (ت)
 (۱؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)
دیکھو صراحۃ مدح بالعفو کو مدح بخلف وعید قرار دیا۔ 

اسی طرح ختم نبوت میں قول ابن نباتہ مصری:
الحمد ﷲ الذی اذاوعدی وفا  واذا اوعد عفا ۲؎۔
  تمام حمد اللہ کی جو وعدہ کرکے وفا فرماتاہے اورتو جب وعید سناتاہے تو معاف فرمادیتاہے۔ (ت)
  (۲؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)
کو اسی باب سے ٹھہرایا اب بھی وضوح حق میں کچھ باقی رہا۔ یہ دوسرا مقام یاد رکھنے کا ہے کہ تم نے صراحۃ وقوع و وجودکذب الٰہی کو ائمہ اہلسنت کا مذہب جانا اور ایسےکفر شنیع وارتداد فظیع کو اہل حق کا ایک اختلافی مسئلہ مانا،
کذلک یطع اﷲ علی کل قلب متکبر جبار ولاحول ولاقوہ الا باﷲ الواحد القہار۔  یوں ہی اللہ تعالٰی ہر متکبر اور جابردل پر مہر ثبت فرماتاہے ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ الواحد القہار (ت)
بالجملہ بحمداللہ بحجج قاہرہ وبینات باہرہ شمس وامس سے زیادہ روشن اوابین ہوگیا کہ علماء جس معنی پرخلف جائز مانتے ہیں، حاش اﷲ! اسے امکان کذب اصلا علاقہ نہیں، ان کے نزدیک خلف بمعنی عدم ایقاع وعید بوجہ تجاوز وکرم ہے کہ عین عفو یا عفو کا مساوی وملازم،اوریہ معنی نہ صرف جائز بلکہ باجماع اہلسنت بلاشبہہ واقع رہا۔ خلف بمعنی تبدیل وتکذیب خبر جس کے جواز پر امکان کذب متفرع ہوسکے۔ ہر گز ان علماء کی مراد نہ عالم میں کوئی عالم اس کا قائل بلکہ وہ بالاتفاق یک زبان ویک دل اس سے تبری وتحاشی کامل کرتے ہیں اور کذب الٰہی کے استحالہ قطعی وامتناع عقلی پر اجماع تام رکھتے ہیں۔ اول سے آخرتک ان کے تمام کلمات ومحاورات وجوہ مناظرہ طریق ردواثبات ہزار درہزار طور سے اس امر پر شاہد عدل وناطق فصل وقد ظھر علی کل ذی عقل (اوریہ ہر عقلمند پر ظاہر ہے۔ ت) اورامام ابن امیر الحاج نے تو بحمد اللہ یہ امر باتم وجوہ منجلی کردیاکہ خود جواز خلف کو راجح مان کر اس معنی ناپاک تراشیدہ مدعی بیباک کی وہ بیخ کنی فرمائی جس کی غرب سے شرق تک خبر آئی۔ یونہی امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں باآنکہ کلام امام ابو عمر وابن العلاء قائل جواز خلف کی وہ کچھ تائید کی جو اوپر گزر چکی ۔
جب معنی تبدیل کی نوبت آئی جس پر ان حضرات نے تفریع کی ٹھہرائی اس پر وہ شدید وعظیم نکیر فرمائی کہ کچ فہمی جاہل پر قیامت ڈھائی، اسی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
الخبرا ذاجواز علی اﷲ الخلف فیہ فقد جوز الکذب علی اﷲ تعالٰی وھذا خطاء عظیم بل یقرب من ان یکون کفرافان العقلاء اجمعوا علی انہ تعالی منزہ عن الکذب ومعلوم ان فتح ھذا  الباب یقضی الی الطعن فی القراٰن وکل الشریعۃ اھ ملخصا ۱؂۔
یعنی جب خبر میں خلف اللہ تعالٰی پر جائز رکھا جائے تو بیشک کذب الٰہی کو جائز ماننا ہوگا اور یہ سخت خطا ہے بلکہ قریب ہے کہ کفر ہوجائے اس لئے کہ تمام عقلاء (یعنی نہ صرف اہل اسلام بلکہ سمجھ والے کافر بھی) اتفاق کئے ہوئے ہیں کہ باری تعالٰی کذب سے منزہ ہے۔ اورمعلوم ہے کہ اس دروازے کا کھولنا قرآن مجید اور تمام شریعت میں طعن تک لے جائیگا اھ ملخصا۔
 (۱؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)
بس خدا کی شان ہی شان نظر آتی ہے کہ واضح روشن، ایمانی اجماعی مسائل ہیں مدعیان علم ودیانت و رشد ومشیخت اغوائے عوام وتلبیس مرام کویوں دیدہ ودانستہ کو یہ مفتری بن جاتے ہیں اور خوف خالق وشرم خلائق سب کو یک دست سلام کرکے ائمہ دین پر یوں کھلے بہتان جیتے طوفان اٹھاتے ہیں ؎.
چشم بازو گوش باز وایں ذکا    خیرہ ام درچشم بندے خدا
 ( آنکھیں کھولو، کان کھولو، اے بند ہ خدا! اس سے آنکھیں خیرہ ہیں۔ ت)
فان کنت لاتدری فتلک مصیبۃ    وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم
 (اگر تم نہیں جانتے تو یہ مصیبت وپریشانی ہے اور اگر جانتے ہو تو اس سے بڑھ کر آزمائش ہے۔ ت)

بس زیادہ نہ کہو سوا اس کے کہ اللہ ہدایت دے آمین!
Flag Counter