فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر) |
اقول وباللہ االتوفیق (میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتاہوں۔ ت) ایہاالمسلمون! ذرا قلب حاضر درکار اسی مدعی جدید غیر مہتدی ورشید نے کذب باری عزوجل کا صرف امکان عقلی ہی ائمہ دین کی طرف نسبت نہ کیا۔ بلکہ معاذاللہ انھیں کفر صریح کا قائل قرار دیا۔ پھر الحمد اللہ ان کا دامن سنت مامن تو کفروضلالت کے ناپاک دھبوں سے پاک ومنزہ مگر حضرت خودہی اپنے ایمان کی خیر منائیں۔ یوں نہ مانیں تو مفصل جانیں۔ اصل مراد یہ ہے کہ خلف بایں معنی کہ متکلم بایک بات کہہ کر پلٹ جائے اور جو خبرت دی تھی اس کے خلاف عمل میں لائے۔ بلاشبہہ اقسام کذب سے ہے کہ کذب نہیں مگر خلاف واقع خبردیناتو اس معنی پر خلف کو ممکن یا سائغ یا واقع یا واجب جو کچھ مانئے بعینہٖ وہی حکم کذب کے لئے ثابت ہوگا کہ یہ جانب وجود ہے اور جانب وجود میں قسم مقسم کو مستلزم اور عقل احکام قسم سے مقسم پر حاکم کہ اس کا وجود بے اس کے محال وناممکن تو لاجرم اس کا امکان اس کے جواز اوراس کا وجود اس کے وقوع اور اس کا وجوب اس کی ضرورت کو لازم۔ حضرت مدعی جدید نے اپنی جہالت وضلالت سے کلام علماء میں خلف کے یہی معنی سمجھے کہ باری تعالٰی عیاذاً باللہ بات کہہ کرپلٹ جائے خبر د کر غلط کردے لہٰذا جواز خلف پر امکان کذب کو متنفرع کیا حالانکہ حاشاﷲ عالم میں کوئی عالم اس کا قائل نہیں بلکہ وہ صراحۃ اس معنی مردود مخترع عنود کا ردبلیغ فرماتے او جواز خلف کو تخصیص نصوص وتقیید وعید وغیرہما ایسے امور پر بربناکرتے ہیں جن کے بعد نہ معاذاللہ کہہ کر پلٹنا نہ بات کا بدلنا ہو اس امر پر دلائل قاہرہ وتصریحات باہر سن ہی چکے ہیں مگر ان حضرت کویہ مسلم نہیں خواہی نخواہی خلف اسی معنی پر ڈھالتے ہیں جو ایک قسم کذب ہے تاکہ اسکے جواز سے امکان کذب کی راہ نکالیں بہت اچھا اگریہی معنٰی مرادہوں تو اب نظر کیجئے کہ جواز خلف کے کیامعنی ہیں اور وہ اپنے کس معنی پر ائمی میں مختلف فیہ۔ حاشا جواز صرف بمعنی امکان عقلی محل خلاف نہیں بلکہ(عہ۱) قطعا جواز شرعی وامکان وقوعی میں نزاع ہے جس کے بعد امتناع بالغیر بھی نہیں رہتا۔
عہ۱ : اقول ھل عیست ان تتفطن مما القینا ونلقی علیک من الابحاث ونقلنا وننقل لک من کلمات العلماء ان الکلام فی مطلق الخلف فی حق العصاۃ لا الخلف المطلق فیھم ولا الخلف فی الکفار لوفاق اھل السنۃ الوعیدیۃ علی استحالتہ شرعا اما الثانی فظاھر واضح وقد نص علیہ القراٰن العزیز واجمعت علیہ الامۃ جمیعا واماالاول فنقل علیہ ایضا غیر واحد الاجماع وھو الصواب من حیث النظر وان نقل العلامۃ فی حاشیہ العلائی خلافہ ففی ھذین ان کان الخلاف فلایکون الافی الامکان العقلی ولذاحمل علیہ العلامۃ ش بید انی لا اعلم خلافا بین اھل السنۃ فی جواز الاول عقلا والثانی وان وقع فیہ خلاف ولکن المحققین ھٰھنا علی الجواز ولم یخالف فیہ الا اقل قلیل کما سیأتی فالذی(عہ۲) وقع عن العلامۃ ش اشتباہ یجب التنبیہ لہ وقد اوضحناہ علی ہامشہ ولو لا ان عرضنا فی المقام لایتعلق بنقد ذٰلک لاتینا بالتحقیق فیما ھنالکن ثم من البدیھی ان امکان عدم التعذیب عقلا مع استحالتہ شرعا ادخل فی الرد علی ھٰؤلاء الجھلۃ کما لایخفی علی عاقل فضلا عن فاضل و سنلقی علیک تحقیقہ فیما سیأتی فی رد الوھابیۃ الدیوبندیۃ فانتظر واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم ۱۲ منہ قدس سرہ۔
اقول (میں کہتاہوں) آپ نے ہماری اس گفتگو سے جو کی اور کریں گے اور علماء کے منقولہ کلمات سے سمجھ لیں گے کہ کلام گنہ گاروں کے حق میں مطلق خلف میں ہے۔ نہ خلف مطلق میں اور نہ ہی حق کفار میں خلف ہے کیونکہ وعیدی اہلسنت کا اتفاق ہے کہ ایسی خلف وعید شرعاًمحال ہے،دوسری بات (حق کفار میں) تو ظاہر واضح ہے اس پر قرآن عزیز کی تصریح ہے اورتمام امت کا اس پر اتفاق ہے۔ رہی پہلی بات تو اس پر بھی متعدد اہل علم نے اجماع نقل کیا ہے، دلیل کے اعتبار سے یہی صواب ہے، اگرچہ علامہ نے حاشیہ علائی میں اس کے خلاف نقل کیا ہے ان دونوں میں اگر اختلاف ہو بھی تو محض بطور امکان عقلی ہو ہوگا اس لئے علامہ ش نے اسے اس پر محمول کیا مگر میں اول کے جواز عقلی میں اہلسنت کا اختلاف نہیں جانتا، اور دوسری میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن محققین یہاں بھی جواز پر ہیں اگرچہ اس کی مخالفت بہت ہی کم لوگوں نے کی ہے جیساکہ آگے آرہا ہے۔ علامہ ش سے جو واقع ہوا یہ اشتباہ ہے جس پر تنبیہ ضروری ہے اور ہم نے اس کے حاشیہ پر اس کی وضاحت کردی ہے اگر ہماری غرض اس مقام پر تنقیدکرنا ہوتی تو ہم اس تحقیق کو یہاں کردیتے۔ پھر یہ بات بدیہی ہے کہ عقلا عدم عذاب کا محض امکان جو شرعا محال ہے ان جہال کے رد کا ذریعہ بنتاہے جیساکہ کسی عاقل پر مخفی نہیں چہ جائیکہ کسی فاضل پر مخفی ہو۔ عنقریب اس کی تفصیل وتحقیق وہابیہ دیوبندیہ کے رد میں آرہی ہے تھوڑا سا انتظار کرو۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم ۲ ۱منہ قدس سرہ، (ت)
عہ۲: قولہ فالذی وقع حیث نقل النزاع المشہور وکون المحققین علی المنع فی کلامہ علی ھٰذین الخلفین وزعم تبعا للحلیۃ ان الاشبہ ترجح جواز الاول عقلا فاوھم ان جوازہ العقلی مختلف فیہ واوھم ایھا ماً اشد واعظم ان المحققین علی انکارہ وان کان الاشبہ عندہ ترجح الجواز مع انا لانعلم فیہ نزاع اصلا ولانظنہ محل نزاع وان کان فلا شک ان عامۃ الائمۃ علی الجواز ثم اوھم بل صرح اٰخر ان الصحیح عن المحققین منع الثانی عقلا مع ان الامر بالعکس فالحق ان محل النزاع المشہور ھوالجواز الشرعی وکلامھم انما ھو فی مطلق الخلف وتحقیق الحق فی محصلہ ماسنلقی علیک واﷲ الھادی ۱۲ منہ رضی اﷲ عنہ۔
قولہ والذین وقع، کیونکہ انھوں نے جہاں نزاع مشہور نقل کیا ہے اور محققین کااس کے کلام میں دونوں خلفوں پر منع مذکور ہوا اور حلیہ کی اتباع میں اس نے عقلا جوا زاول کی ترجیح کو مختار محسوس کرلیا تو اسے یہ وہم ہوگیاکہ اس کے جواز عقلی میں اختلاف ہے یہ وہم شدید ہے محققین تو اس کا نکار کررہے ہیں اگرچہ اس کے ہاں مختار جواز کو ترجیح دینا ہے حالانکہ ہم تو اس میں نزاع کا علم نہیں رکھتے اورنہ ہی محل نزاع کا گمان کرے ہیں اور اگرہے تو بلاشبہہ اکثر ائمہ جواز پر ہیں پھر وہم میں پڑتے ہوئے آخر تصریح کی کہ محققین کے ہاں صحیح یہ ہے کہ دوسری صورت عقلا منع ہے حالانکہ معاملہ برعکس ہے تو حق یہ ہے کہ نزاع مشہور کا محل جواز شرعی ہے، علماء کا کلام مطلق خلف میں ہے حق کی تحقیق ہم آپ پر عنقریب بیان کریں گے۔ واللہ الھادی ۱۲ منہ رضی اللہ عنہ (ت)
دلائل سنئے : اولا اہلسنت بالاجماع اور معتزلہ کا ایک فرقہ مغفرت عاصیان کبا ئر کردگان وبے تو بہ مردگان کے امکان عقلی پر متفق ہیں یعنی کچھ عقلی محال نہیں جانتی کہ اللہ تعالٰی ان سے مواخذہ نہ فرمائے مگر امکان شرعی میں اختلاف پڑا اہلسنت بالاجماع شرعا بھی جائز بلکہ واقع او ر یہ فرقہ وعیدیہ سمعا ناجائز اور عذاب واجب مانتے ہیں۔ انھوں نے آیات وعید سے استناد کیا اس کے جواب میں جواز خلف کا مسئلہ پیش ہوا یعنی اے معتزلہ! تمھارا استدلال تو جب تمام ہوکہ ہم وقوع وعید شرعا واجب مانیں وہ خود ہمارے نزدیک جائز الخلف ہے تو عفو پھر جائز کا جائز ہی رہا اور شرعا وجوب عذاب کہ تمھارا دعوٰی تھا ثابت نہ ہوا۔ امام علامہ تفتازانی شرح مقاصد میں فرماتے ہیں:
البحث الثانی عشر اتفقت الامۃ ونطق الکتاب والسنۃ بان اﷲ تعالٰی عفو غفور یعفو عن الصغائر مطلقا وعن الکبائر بعد التوبۃ ولایعفو عن الکفر قطعا، واختلفوا فی العفو عن الکبائر بدون التوبۃ فجوزہ الاصحاب بل اثبتوہ خلافاللمعتزلۃ، تمسک القائلون بجواز العفو عقلا وامتناعہ سمعا وھم البصریون من المعتزلۃ وبعض البغدادیۃ بالنصوص الوارۃ فی وعید الفساق واصحاب الکبائر، واجیب بانھم داخلون فی عمومات الوعد بالثواب ودخول الجنۃ علی مامر والخلف فی الوعد لئوم لایلیق بالکریم وفاقا بخلاف الخلف فی الوعید فانہ ربما یعدکرما ۱؎ اھ ملتقطا۔
بارھویں، امت کا اتفاق اور کتاب وسنت اس پر ناطق ہیں کہ اللہ تعالٰی معاف فرمانے والا غفور ہے۔ وہ صغائر تو ہر حال میں معاف فرمادیتاہے اور کبائر کو توبہ کے بعد، کفر کو قطعا معاف نہیں فرماتا۔ بغٖیر توبہ کبائر ک بخشش میں اختلاف ہے ہمارے اصحاب (اہل سنت) اس کے جواز کے قائل بلکہ اس کو دلائل سے ثابت کرنے والے ہیں اس میں معتزلہ کا اختلاف ہے ان میں سے کچھ نے کہا عقلا عفو کا جواز ہے مگر شرعا ممتنع ہے۔ یہ بصری معتزلہ کی رائے ہے۔ بغدادی معتزلہ ان کی نصوص سے استدلال کرتے ہیں جو فساق ا ور اصحاب کبائر کے بارے میں وعیدیں آئی ہیں۔ ان کوجواب یہ دیا گیا ہے کہ وہ وعدہ ثواب ودخول جنت کی عمومی نصوص میں داخل ہیں جیساکہ گزرچکا ہے۔ اور وعدہ میں خلف ایسا قابل ملامت عمل ہے جو بالاتفاق کریم کے مناسب ولائق نہیں بخلاف خلاف وعید کے کہ اسے اکثر کرم ہی شنار کیا جاتاہے اھ ملتقطا۔ (ت)
(۱؎ شرح المقاصد البمحث الثانی عشع دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲ /۲۳۵ تا ۲۳۷)
دیکھو علماء اس جواز خلف سے عذاب کے وجوب شرعی کو دفع فرماتے ہیں اور وجوب شرعی کا مقابل نہیں مگرجواز شرعی اگر صرف امکان عقلی مراد ہو تو وہ ان معتزلہ کے مذہب سے کیا منافی اور ان کی دلیل کا کیونکر نافی ہوگو وہ کب کہتے تھے کہ واجب عقلی ہے جو تم امکان عقلی کا قصہ پیش کرو۔ تو ثابت ہواکہ یہ علماء بالیقین خلف وعید کو شرعا جائز مانتے ہیں۔
ثانیاً محققین کہ جواز خلف نہیں مانتے۔آیہ کریمہ
مایبدل القول لدی ۲؎
(میرے ہاں قول میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ ت) استدلال کرتے ہیں کما فی شرح عقائد النسفی وشرح الفقہ الاکبر وغیرھما (جیساکہ شرح عقائد نسفی، شرح فقہ اکبر اور دیگر کتب میں ہے۔ ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۵۰ /۲۹)
اور پر ظاہر کہ آیت میں نفی وقوع صرف استحالہ شرعی پر دلیل ہوگی نہ کہ امتناع عقلی پر، تو لازم کہ وہ علماء جواز شرعی مانتے ہوں ورنہ محققین کی دلیل محل نزاع سے محض اجنبی اور امر نزاع کی نافہمی پر مبتنی ہوگی وہ نہ کہہ دیں گے کہ اس سے صرف استحالہ شرعی ثابت ہوا وہ امکان عقلی کے کب خلاف ہے جس کے ہم قائل ہیں۔
ثالثاً واحدی نے بسیط میں آیہ کریمہ
انک لا تخلف المیعاد ۳؎
(بیشک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ ت) سے صرف وعدہ مراد لیا اور وعید پر حمل کرنے سے انکار کیا کہ اس میں تو خلف جائز ہے۔
(۳؎القرآن الکریم ۳/ ۱۹۴)
تفسیر کبیر میں فرمایا :
احتج الجبائی بھذہ الاٰیۃ علی القطع بوعید الفساق (ثم ذکر احتجاجۃ والاجوبۃ عنہ الی ان قال) وذکر الواحدی فی البسیط طریقۃ اٰخریٰ۔ فقال لم لایجوز ان یحمل ھٰذا علی میعاد الاولیاء دون وعید الاعداء لان خلف الوعید کریم عندالعرب۱؎ الخ۔
جبائی نے وعید فساق کی قطعیت پراسی آیہ مبارکہ سے استدلال کیا (پھر اس کا استدلال اور اس کے جوابات ذکر کئے پھرکہا) اور واحدی نے بسیط میں ایک اور طریقہ ذکر کرتے ہوئے کہا یہ کیوں جائز نہیں کہ اسے وعدہ اولیاء پر محمول کرلیا جائے نہ کہ وعید اعدا پرکیونکہ خلف وعید عربوں کے ہاں سراپا کریم ہوتاہے ۔(ت)
(۱؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت آیۃ ان اﷲ لایخلف المیعاد المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۷/ ۱۹۶)
ظاہر ہے کہ علمائے مجوزین اگر صرف امکان عقلی مانتے توآیت میں اس حمل کی انھیں کیا حاجت تھی کہ انتفائے شرعی جواز عقلی کے کچھ منافی نہیں۔