ھذاخلاصۃ مااطال بہ فی الحلیۃ ۲؎
(یہ حلیہ میں ان کی طویل گفتگو کا خلاصہ ہے۔ ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۳۵۱)
اور یہ صاحب حلیہ خود مسلمانوں کے حق میں جواز خلف کو ترجیح دیتے ہیں، اسی ردالمحتارمیں ان سے منقول:
الاشبۃ ترجح جواز الخلف فی الوعید فی حق المسلمین خاصۃ دون الکفار ۳؎ ۔
اشبہ ومختار یہ ہے کہ خلف وعید کا جواز خاص مسلمانوں کے حق میں ہے نہ کہ کفار کے حق میں ہیں۔ (ت)
اب ملاحظہ ہوکہ یہی امام قائل جوازخود آپ کی اس تفریح شنیع یعنی امکان کذب سے کیسی سخت تحاشی کرتے ہیں۔
(۳؎ ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۳۵۱)
اسی حلیہ میں بعد ختم بحث کے فرمایا:
وحاش ﷲ ان یراد بجواز الخلف فی الوعید ان لایقع عذاب من اراداﷲ الاخبار بعذابہ فانہ محال علی اﷲ تعالٰی قطعا، کما ان عدم وقوع نعیم من اراداﷲ الاخبار عنہ بالنعیم محال علیہ قطعا کیف لا وقد قال تعالٰی ومن اصدق من اﷲ قیلا o ومن اصدق من اﷲ حدیثا o وتمت کلمٰت ربک صدقا وعدلا طلامبدل لکلمٰتہ ۱؎ ج۔
یعنی حاشا ﷲ خلف وعید جائز ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اللہ عزوجل نے جس کے عذاب کی خبر دینی چاہی اس کا عذاب واقع نہ ہویہ اللہ تعالٰی پر قطعا محال ہے جس طرح یہ بالیقین ممکن نہیں کہ اس نے جس کے لئے نعیم کی خبر دی ہو اس کے لئے نعیم واقع نہ ہو اور کیوں کر نہ ہو اس کی ؒخبر کا کذب محال ہے۔ حالانکہ وہ خود فرماتاہے اللہ سے کس کا قول سچاہے، اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہے۔ تیرے رب کی باتیں سچ اور عدل میں کامل ہیں، کوئی اس کی باتوں کو بدلنے والا نہیں۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
کیوں ایمان سے کہنا یہ وہی علماء ہیں جن پر تم امکان کذب ماننے کا بہتان کرتے ہو۔ للہ حیادے۔
حجت ثامنہ بقطع عرق ضلالت ضامنہ۔
اقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق (میں اللہ کی توفیق سے کہتاہوں اور اسی کی توفیق سے تحقیقی بات کو پایاجاسکتاہے۔ ت) علمائے مجوزین کے طریق استدلال ومناظرہ وجدال شاہد عدل ہیں کہ ان کے نزدیک خلف وعید وعفو ومغفرت میں نسبت تساوی اور دونوں جانب سے ترفق کلی ہے، ثبوت سنئے قریب گزرا کہ انھوں نے اپنے دعوے پر آیہ کریمہ
ویغفر مادون ذٰلک لمن یشاء ۲؎
(او کفر سے نیچے جنتے گناہ ہیں جسے چاہے بخش دے گا۔ ت) سے استدلال کیا۔
(۲؎ القرآن الکریم ۴/ ۱۱۶)
اور حلیہ پھر ردالمحتار میں جس سے آپ ہمیشہ کے لئے اپنے پیچھے ایک آفت لگانے کو ذر ا سا ٹکڑا نقل کرلائے۔
اس دلیل کو انص واظہر دلائل مجوزین کہا اور پر ظاہر کہ آیت صرف جواز مغفرت ارشاد فرماتی ہے اسی کو انھوں نے جواز خلف پر دلیل ٹھہرایا تو ان کا استدلال برہان قاطع کہ وہ مغفرت کو خلف سے عام نہیں مانتے کہ جواز اعم ہر گز جواز اخص کا مثبت نہیں ہوسکتا اور عنقریب آتاہے کہ معتزلہ نے امتناع عفو پر آیات وعید سے تمسک کیا۔ اس پر ان علماء نے جواب دیا کہ خلف جائز ہے تو لاجرم جواز خلف کو امتناع عفو کا رد مانا اور زنہار جواز اعم امتناع اخص کا نافی نہیں ہوسکتا۔ تو ان کا یہ جواب دلیل ساطع کو وہ خلف کو مغفرت سے عام نہیں مانتے۔، رہا تباین وہ بالبداہۃ اور خود اس رد واثبات سے سے بین البطلان پس تساوی متعین اور مراد متبین، یعنی ظاہر ہوگیا کہ وہ صرف عدم وقوع وعید بوجہ عفو کو خلف سے تعبیر فرماتے اور جائز ٹھہراتے ہیں کہ یہی مغفرت سے مساوی ہے نہ کہ معاذاللہ تبدیل وتکذیب خبر کہ عفو سے عموم وخصوص دونوں رکھتی ہے مثلا درگزر بر بنائے تخصیص نصوص وتقیید وعید واقع ہوئی تو عفو موجود اور تبدیل مفقود، کسی جرم پر ایک سزائے شدید کی وعید حتمی اور ایقاع کے وقت اس میں کمی کی تو عفو (عہ) مفقود اور تبدیل موجود۔ اوراگر عفو تخفیف کو شامل کیجئے تو عام مطلقا سہی بہر حال خلف کہ اس کا مساوی ہے کذب سے قطعا عام مطلقا یا من وجہ اب تو اپنی جہالت فاحشہ پر متنبہ ہوئے کہ جواز اعم امکان اخص کا مستلزم مان رہے ہو فالحمداﷲ علی اتمام الحجۃ وایضاح المحجۃ۔
عہ: المغفرۃ وقایۃ شرالذنوب بالکلیۃ ۱؎ اھ ۱۲ رضی اﷲ عنہ۔
مغفرت گناہوں کے شر سے کلیۃً محفوظ رہنا ہے اھ ۱۲ رضی اللہ عنہ (ت)
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)