اسی ردالمحتار میں اسی مقام پر اسی مسئلہ کے بیان میں آپ کی منقولہ عبارت سے چارہی سطر بعد فرمایا:
ادلۃ المثبتین التی من انصہا قولہ تعالٰی ان اﷲ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذٰلک ۱؎۔
اثبات کرنیوالوں کی مضبوط ترین دلیل اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے بیشک اللہ تعالٰی کفر کو معاف نہیں فرماتا اور کفر سے نیچے جنتے گناہ ہیں جسے چاہے گا بخش دے گا۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۳۵۱)
یوں ہی اس کی ماخذ حلیہ شرح منیہ میں امام محقق ابن امیر الحاج میں ہے اور پر ظاہر کہ دعوٰی دلیل پر متفرع اور اس کے مفاد کا تابع ہوتاہے، سبحان اللہ ! جب جواز خلف خو د ارشاد متکلم بالوعید جل مجدہ کی طرف مستند کہ اس نے فرمادیا ''ہم جسے چاہیں گے بخش دیں گے'' تو دلیل امکان کذب کو اصلا راہ نہیں دیتی مگر مدلول میں زبردستی خدا واسطے کو مان لیا جائے گا اس جہالت کی کوئی حد ہے آپ کے نزدیک یہ علماء اپنے دعوٰی ودلیل کی بھی سمجھ نہ رکھتے تھے کہ خلف تو اس معنی پر جائز مانیں جسے امکان کذب لازم، اور دلیل وہ پیش کریں جو اس معنی کی بالکل قاطع وحاسم، خدارا اپنی جہالتیں، سفاہتیں علماء کے سرکیوں باندھتے ہو، ع
اس آنکھ سے ڈرئےے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ
للہ ! انصاف! اگر بادشاہ حکم نافذ کرے کہ جو یہ جرم کرے گا یہ سزا پائے گا اور ساتھ ہی اسی فرمان میں یہ بھی ارشاد فرمایئے کہ ہم جسے چاہیں گے معاف فرمادیں گے تو کیا اگر وہ بعض مجرموں سے درگزر کرے تو اپنے پہلے حکم میں جھوٹا پڑے گا یا اس آئین کی قدرلوگوں کے دلوں سے گھٹ جائے گی، جیسا کہ وہ احمق جاہل دعوٰی کرتاہے یا اگر کوئی شخص بدلیل اس دوسرے ارشاد کے ثابت کرے کہ بادشاہ نے جو سزا مقررفرمائی ہے کچھ ضرور نہیں کہ ہو ہی کر رہے بلکہ ٹل بھی سکتی ہے تو کیا اس کے قول کا حاصل یہ ہوگا کہ وہ بادشاہ کا کذب مجتمل مانتا ہے، ذرا آدمی سمجھ سوچ کر تو بات منہ سے نکالے، سبحن اللہ! جس ردالمحتار سے سند لائے اسی میں وہیں اسی بیان میں اسی صفحہ میں وہ صاف وروشن تصریحیں موجود ہیں جن سے اس تفریع ناپاک کی پوری قلعی کھلتی ہے، حضرت ایک ذرا سا ٹکڑا نقل کر لائیں اور باقی بالکل ہضم، گویا دیکھا ہی نہیں۔ اسی کانام دین ودیانت ہے۔ اسی پر دعوٰی رشد وہدایت ہے۔ مگر حضرات وہابیہ عادت سے مجبور ہیں، نقل عبارت میں قطع وبریداب صاحبو کا داب قدیم رہاہے۔ یہاں تک کہ ان کے متکلمین نے رسالے کے رسالے جی سے گھڑ کر علمائے سابقین کی طرف نسبت کردیئے۔ انتہی یہ کہ عالم وامام دل سے تراشے کہ باوجود تکرار مطالبہ تمام عالم میں ان کے وجود کا پتا نہ دے سکے۔
فقیر کے بعض احباب سلمہم اللہ تعالٰی نے رسالہ ''سیف المصطفی علی ادیان الافتراء'' اسی باب میں لکھا اور اس میں ان حضرات کے عمائد واکابر کی ڈیڑھ سوسے زیادہ ایسی ہی عبارتوں، بددیانتوں کا ثبوت دیا۔ واقعی حضرات نجدیہ نے ایک حدیث صحیح عمر بھر کے عمل کو بس سمجھی ہے کہ حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اذا لم تستحیی فاصنع ماشئت ۱؎ (جب کوئی بے حیا ہوجائے تو وہ چاہے کرے۔ ت) ع
بے حیا باش وانچہ خواہی کن
(بے حیا ہوجا پھر جو چاہے کرتارہ۔ ت)
(۱؎ المعجم الکبیر مروی از عبداللہ بن مسعود حدیث ۶۵۸ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۷ /۲۳۷)
حجت سادسہ، اقول : امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
قال ابوعمر وبن العلا لعمر وبن عبید، ماتقول فی اصحاب الکبائر؟ قال اقول ان اﷲ منجز ایعادہ کما ھوا منجز وعدہ، قال ابو عمر وانک رجل اعجم، لا اقول اعجم اللسان ولکن اعجم القلب، ان العرب تعدا لرجوع عن الوعدلؤماوعن الایعاد کرماء والمعتزلۃ حکوا ان اباعمروبن العلاء لما قال ھذا الکلام قال لہ عمرو بن عبید یاابا عمرو فھل یسمی اﷲ مکذب نفسہ فقال لا فقال عمرو بن عبید فقد سقطت حجتک، قالوا فانقطع ابوعمرو بن العلاء، وعندی انہ کان لابی عمرو ان یجیب عن ھذا السؤال ان ھذا انما یلزم لوکان الوعید ثابتا جزماً من غیر شرط، وعندی جمیع الوعیدات مشروطۃ بعدم العفو، فلایلزم من ترکہ دخول الکذب فی الکلام اﷲ تعالٰی ۲؎ اھ ملخصاً۔
یعنی امام ابو عمرو بن العلاء رحمہ اللہ تعالٰی نے عمروبن عبید پیشوائے معتزلہ سے فرمایا اہل کتاب کبائر کے بارے میں تیرا کیا عقیدہ ہے؟ کہا میں کہتاہوں اللہ تعالٰی اپنی وعید ضرور پوری کرے گا جیساکہ اپنا وعدہ بیشک پورا فرمائے گا۔ امام نے فرمایا تو عجمی ہے میں نہیں کہتا کہ زبان کا عجمی بلکہ دل کا عجمی ہے، عرب وعدہ سے رجوع کو نالائقی جانتے ہیں اور وعید سے درگزر کو کرم، معتزلہ حکایت کرتے ہیں۔ اس پر عمرونے جواب دیا کیا خدا کو اپنی ذات کا جٹھلانے والا ٹھہرائےے گا۔ امام نے فرمایانہ، عمرو نے کہا تو آپ کی حجت ساقط ہوئی، اس پر امام بند ہوگئے۔ امام رازی فرماتے ہیں میرے نزدیک امام یہ جواب دے سکتے تھے کہ اعتراض تو جب لازم آئے کہ وعید یقینی بلاشرط ہو اور میرے مذہب میں تو سب وعیدیں عدم عفو سے مشروط ہیں تو خلف وعید سے معاذاللہ کلام الٰہی میں کذب کہاں سے لازم آیا۔
(۲؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت آیۃ اﷲ لا یخلف المیعاد المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۷/ ۱۹۷)
اب عاقل بنظر انصاف غور کرے۔ اولاً اگر تجویز خلف امکان کذب مانناہی ہوتی تو برتقدیر صدق حکایت امام کا بند ہونا کیا معنی انھیں صاف کہنا تھا میں جواز خلف مانتاہوں تو امکان کذب میرا عین مذہب اوربرتقدیر کذب معتزلہ علمائے اہلسنت کیوں نہیں فرماتے کہ تم نے وہ حکایت گھڑی جو آپ ہی اپنے کذب کی دلیل ہے، مجوزین خلف توامکان کذب مانتے ہیں پھر امام اس الزام پر بند کیوں ہوجاتے۔
ثانیاً آگے چل کر امام رازی امام ابن العلاء کی طرف سے اچھا جواب دیتے ہیں کہ میرے مذہب میں سب وعیدیں مقید ہیں۔ سبحان اللہ! جب وعیدیں مقید ہوں گی تو امکان کذب کدھر جائے گا۔ کیوں نہیں کہتے کہ میرے مذہب میں کذب ممکن تو الزام ساقط، غرض بے شمار وجوہ سے ثابت کہ مدعی جدید غیر مہتدی ورشید نے علماء کرام پرجیتا طوفان باندھا۔