فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر) |
حجت رابعہ، اقول افسوس ان ذی ہوشوں نے انتاہی دیکھا کہ علماء مسلک جواز کا محصل و مبنٰی کیا ٹھہراتے اور اس تفریع شنیع یعنی امکان کذب کو کیوں کر طرح طرح سے دفع فرماتے ہیں یہاں ان سے بعض وجوہ نقل کرتاہوں:
وجہ ۱: وعید سے مقصود انشائے تخویف وتہدید ہے، نہ اخبار، تو سرے سے احتمال کذب کا محل ہی نہ رہا، مسلم الثبوت اوراس کی شرح فواتح الرحموت میں ہے :
الخلف فی الوعید جائز فان اھل العقول السلیمۃ یعد ونہ فضلاء لانقصا دون الوعد فان الخلف فیہ نقص مستحیل علیہ سبحانہ وردبان ایعاد اﷲ تعالٰی خبر فھو صادق قطعا لاستحالہ الکذب ھناک، و اعتذر بان کونہ خبرا ممنو ع بل ھو انشاء للتخویف فلاباس ح فی الخلف ۲؎۔ (ملخصاً)
یعنی وعید میں خلف جائز ہے کہ سلیم عقلیں اسے خوبی گنتی ہیں، نہ عیب، اور وعدہ میں جائز نہیں کہ اس میں خلف عیب ہے اور عیب اللہ عزوجل پر محال اس پر اعتراض ہو ا کہ اللہ تعالٰی کی وعید بھی ایک خبر ہے تو یقینا سچی باری جل وعلا کا کذب محال، اور عذر کیا گیا کہ ہم اسے خبر نہیں مانتے بلکہ انشائے تخویف ہے تو اب خلف میں حرج نہیں۔ (ملخصاً)
(۲؎ فواتح الرحموت بذیل المستصفی الباب الثانی فی الحکم منشورات الرشریف قم ایران ۱/ ۶۲)
دیکھو! خلف وعید جائز ماننے والوں سے استحالہ کذب الٰہی کا صراحۃ اقرار اور اس کے امکان سے بہزار زبان اجتناب وانکار کیا، اور اپنے مذہب کی وہ توجیہ فرمائی جس نے اس احتمال باطل کی گنجائش ہی نہ رکھی، پھر معاذاللہ امکان کذب ماننے کو ان کے سر باندھنا کیسی وقاحت وشوخ چشمی ہے۔
وجہ ۲: فرماتے ہیں آیات عفو سے مخصوص ومقید ہیں، یعنی عفو و وعید دونوں میں وارد، تو ان کے ملانے سے آیات وعید کے یہ معنی ٹھہرے کہ جنھیں معاف نہ فرمائے گا وہ سزا پائیں گے، جب یہ معنی خود قرآن عظیم ہی نے ارشاد فرمائے تو جو از خلف کو معاذاللہ امکان کذب سے کیا علاقہ رہا، امکان کذب تو جب نکلتا کہ جزماً حتماً وعید فرمائی جاتی، اور جب خود متکلم جل وعلا نے اسے مقید بعدم عفو فرمادیا ہے تو چاہے وعید واقع ہو یا نہ ہو ہرطرح اس کا کلام یقینا صادق جس میں احتمال کذ ب کو اصلا دخل نہیں، یہ وجہ اکثر کتب علماء مثل تفسیر بیضاوی انوار التنزیل وتفسیر عمادی ارشاد العقل السلیم وتفسیر حقی روح البیان وشرح مقاصد وغیرہا میں اختیارفرمائی، لطف یہ ہے کہ خود ہی ردالمحتار جس سے مدعی جدید غیر مہتدی و رشید نے مسئلہ خلف میں خلاف نقل کیا، اسی ردالمحتار میں اسی جگہ اسی قول جواز کے بیان میں فرمایا:
حاصل ھذا القول جواز التخصیص لما دل علیہ اللفظ بوضعہ اللغوی من العموم فی نصوص الوعید ۱؎۔
اس قول کا حاصل یہ ہے کہ نصوص وعید میں جو ظاہر لفظ اپنے معنی لغوی کی رو سے عموم پر دلالت کرتا ہے کہ جوشخص ایسا کرے گا یہ سزا پائے گا، اس میں تخصیص جائز ہے۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء بالمغفرۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۵۱)
یعنی عام مراد نہ ہو بلکہ ان لوگوں کے ساتھ خاص ہو جنھیں مولٰی تعالٰی عذاب فرمانا چاہے، ایمان سے کہنا اسی ردالمحتار میں یہیں یہیں یہ تصریح تو نہ تھی جس نے اس تفریع خبیث وقبیح کی صاف بیخ کنی کردی، آج تک کسی عاقل نے عام مخصوص منہ البعض کو کذب کہا ہے، ایسے عام تو قرآن عظیم میں اس وقت بکثرت موجود، پھرامکان کذب کیوں مانو! صاف نہ کہہ دو کہ قرآن مجید میں (خاک بدہن گستاخان) جابجا کذب موجود ہے، واہ شاباش! ردالمحتار کی عبارت سے اچھااسناد کیا کہ آدھی نقل اور آدھی عقل، پھر بھی دعوی رشد ودیانت باقی ہے، ذرا آدمی سے تو حیا کرے
والاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
وجہ ۳: اگر بالفرض کوئی نص مفیدِ تخصیص وعید نہ بھی آتا تاہم کریم کی شان یہی ہے کہ غیر متمرد غلاموں کے حق میں وعید بنظر تہدید فرمائے اور اس سے یہی مراد لے کہ اگر ہم معاف نہ فرمائیں تو یہ سزا ہے، خلاصہ یہ کہ قرینہ کرم تخصیص وتقید وعید کے لئے بس ہے اگرچہ مخصص قولی نہ ہو۔
اقول وبہ یحصل قران المخصص بالمخصص بخلاف ماسبق فھو خاص بمذہب من یجیز التراخی والانفصال وھذا جارٍ علی مذہب الکل۔
میں کہتاہوں اس سے مخصص کاقرینہ حاصل ہوگیا بخلاف ماسبق کے ، وہ صرف اس شخص کے مذہب کےموافق ہے جس نے تراخی وانفصال کو جائز رکھا ہے اور یہ تمام مذہب پر جاری ہے۔ (ت)
یہ وجہ وجیہ فقیر غفراللہ تعالٰی کے خیال میں آئی تھی یہاں تک کہ علامہ خیالی رحمہ اللہ تعالٰی کو دیکھا کہ حاشیہ شرح عقائد میں اس کی تصریح فرمائی :
حیث قال لعل مرادھم ان الکریم اذا اخبر بالوعید فاللائق بشانہ ان یبنی اخبارہ علی المشیۃ وان لم یصرح بذلٰک بخلاف الوعد فلا کذب ولاتبدیل ۱؎۔
یعنی امید ہے کہ خلف وعید جائز ماننے والے یہ مراد لیتے ہیں کہ کریم جب وعید کی خبر دے تو اس کی شان کے لائق یہی ہے کہ اپنی خبر کو مشیت پر مبنی رکھے اگرچہ کلام میں اس کی تصریح نہ فرمائے بخلاف وعدہ کے تو خلف وعید میں نہ کذب ہے نہ بات بدلنا۔
(۱؎ حاشیہ الخیال علی شرح العقائد النسفیہ مطبع اصح المطابع بمبئی (انڈیا) ص ۱۲۱)
مسلمانو! دیکھا کہ خلف وعید جائز ماننے والے اس تفریع ناپاک سے جو مدعی بیباک نے گھڑی کس قدر دور بھاگتے اور کس کس وجہ سے اسے علانیہ رد کرتے ہیں، پھر اپنی جھوٹی بات بنانے کے لئے ناکردہ گناہ ان کے سر ایسا الزام شدید باندھنا کس درجہ جرأت وبے حیائی ہے، قال اﷲ سبحانہ وتعالیٰ :
ومن یکسب خطیئۃ اواثما یرم بہ بریئا احتمل بھتانا واثما مبینا ۲؎۔
(۲؎ القرآن الکریم ۴ /۱۱۲)
او رجو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔ (ت)