Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
71 - 150
تنزیہ چہارم(عہ) علاج جہالات جدیدہ میں
عہ:تنبیہ ضروری: خوب یاد رہے کہ اس ساری تنزیہ اور اس کے مناسب تمام مواضع رسالہ میں ہمارا روئے سخن ان ناقصوں خاسروں کی طرف نہیں جنھیں عروسان منصہ امامت طائفہ نے اپنے بھولے چہروں کانقاب بنایا ہوبلکہ صرف مخاطبہ ان نئے متبدعوں، تازہ مقتداؤں سے ہے جو کتاب پر تفریظ لکھیں اور اس کے حرف بحرف صحیح ومسلم ہونے کی تصریح کریں والسلام ۱۲ منہ
اقول وبحول اﷲ اصول ایھا المسلمون (میں اﷲ کی توفیق سے کہتاہوں اے اہل ایمان سلام! ت) امکان کذب الٰہی کو خلف وعید کی فرع جاننا اوراس میں اختلاف ائمہ کو وجہ سے امکان کذب کو مختلف فیہ ماننا ایک تو افتراء دوسرے کتنا بے مزہ۔ بیشک مسئلہ خلف وعید میں بعض علماء جانب جواز گئے، اور محققین نے منع وانکار فرمایا، مگر حاشانہ اس سے امکان کذب ثابت، نہ یہ علمائے مجوزین کا مسلک بلکہ وہ اس سے بہزار رزبان تبری وتحاشی کرتے ہیں، پھر ان کی طرف امکان کذب کی نسبت سخت کذب وستم جسارت جس کے بہتان واضح البطلان ہونے پر حج قاہرہ قائم،
حجت اولٰی: یہی نصوص قاطعہ کہ تنزیہ اول میں گزرے جن سے واضح کہ کذب باری محال ہونے پر اجماع قطعی منعقد تمام کتب کلامیہ میں جہاں اس مسئلے کا ذکر آیا ہے صاف تصریح فرمادی کہ اس پر اجماع و اتفاق علماء ہے یا بے حکایت خلاف اس پر جزم کیا فرمایا ہے۔
حجت ثانیہ: اقول طرفہ یہ کہ جو علماء مسئلہ خلف وعید میں خلاف بتاتے ہیں وہی استحالہ کذب پر اجماع نقل فرماتے ہیں، جس شرح مقاصد میں ہے : ان المتاخرین منھم یجوزون الخلف فی الوعید ۱؎۔ان میں کےمتاخرین خلف وعید جائز مانتے ہیں۔
 (۱؎ شرح المقاصد   المبحث الثانی اتفقت الائمۃ علی العفو عن الصغار  دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۲۳۷)
اسی شرح میں ہے:
الکذب وھو محال باجماع العلماء لان الکذب نقص باتفاق العقلاء وھو علی اﷲ علی مح ۱؎۔
کذب الٰہی باجماع علماء محال ہے کہ وہ باتفاق عقلاء عیب ہے اور عیب اس پاک بے عیب پر قطعا محال۔
 (۱؎ شرح المقاصد    المبحث السادس فی انہ تعالٰی متکلم     دارالمعارف النعمانیہ لاہور        ۲ /۱۰۴)
مگر علماء کو خبر نہ تھی کہ امکان کذب جواز خلف وعید پر متفرع تو ہم اسے مختلف فیہ لکھ کر کیونکر اجماع بتائے دیتے ہیں، اب چودھویں صدی میں آکر ان حضرات کو اس تفریع کی خبر ہوئی،
حجت ثالثہ، اقول طرفہ تریہ کہ جو علماء خلف وعید کا جواز مانتے ہیں خود ہی کذب الٰہی کو محال و اجماعی جانتے ہیں، جس مواقف میں ہے : لایعد الخلف فی الوعید نقصا ۲؎۔ خلف وعید تنقص نہیں گنا جاتا۔
 (۲؎ شرح المواقف  المقصد السادس فی تقریر اصحابنا    منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸/ ۳۰۷)
اسی مواقف میں ہے :
انہ تعالٰی یمتنع علیہ الکذب اتفاقا ۳؎۔
کذب باری بالاتفاق محال ہے۔
 (۳؎شرح المواقف   المقصد السابع فی انہ تعالٰی متکلم    منشورات الشریف الرضی قم ایران   ۸/ ۱۰۰)
جس شرح طوالع میں ہے :
الخلف فی الوعید حسن ۴؎۔
وعید میں خلف حسن ہے۔
(۴؎ شرح طوالع الانوار  )
اسی میں ہے :
الکذب علی اﷲ تعالٰی محال ۵؎۔
اللہ تعالٰی کا کذب محال ہے۔
 (۵؎شرح طوالع الانوار  )
جن علامہ جلال دوانی نے شرح عقائد میں لکھا:
ذھب بعض العلماء الی ان الخلف فی الوعید جائز علی اﷲ تعالٰی لافی الوعد وبھٰذا  وردت السنۃ ۶؎۔
 (۶؎ الدوانی علی العضدیہ  مطبع مجتبائی دہلی  ص۷۴)
بعض علماء اس طرف گئے کہ وعید میں خلف اللہ تعالٰی پر جائز ہے نہ وعدہ میں اور یہی مضمون حدیث میں آیا۔

پھر بعد ذکر حدیث اسے عرف وکلام سے مؤید کیا کما نقلہ افندی اسما عیل حقی فی روح البیان (جیسا کہ امام اسماعیل حقی آفندی نے روح البیان میں اسے نقل کیا ہے۔ ت)
وہی علامہ جلال فرماچکے :
الکذب علیہ تعالٰی محال لاتشتملہ القدرۃ ۱؎۔
اللہ تعالٰی کا کذب محال ہےقدرت الٰہی میں داخل نہیں۔
(۱؎ الدوانی علی العضدیۃ    مطبع مجتبائی دہلی  ص۷۳)
مگریہ علماء خود اپنا لکھا نہ سمجھے تھے کہ باہم متلازم چیزوں میں ایک کاجواز دوسرے کا استحالہ کیونکر مان لیتے اور اپنے کلام سے آپ ہی تناقص کرتے ہیں۔ اب صدہا سال کے بعد ان حضرات کو کشف ہوا کہ مذہب کے معنی وہ تھے جو خود اہل مذہب کی فہم نہ تھے۔
Flag Counter