تازیانہ ۳۲: رب جلیل کوخلق کا خوف ماننا حضرت کا قدیمی مسلک ہے تقویت الایمان میں بھی بحث شفاعت میں فرماگئے: ''آئین بادشاہت کا خیال کرکے بے سبب درگزر نہیں کرتا کہ کہیں لوگوں کودلوں میں اس آئین کی قدر گھٹ نہ جاوے۱؎''
(۱؎ تقویۃ الایمان الفصل الثالث فی ذکر رد الاشراک فی التصرف مطبع علیمی لوہاری دروازہ لاہور ص۲۲)
العظمۃاﷲ! سفیہ جہول نے خدا کو بھی دارا وسکندر یاہمایوں و اکبر سمجھا ہے کہ اپنی مرضی پوری کرنے کولوگوں کے لحاط سے حیلے ڈھونڈ تاہے :
الا بعد اللقوم الظلمین ۱؎
(دور ہوں بے انصاف لوگ۔ ت)
(۲؎القرآن الکریم ۱۱/ ۴۴)
تازیانہ ۳۳: قولہ ''سلب قرآن مجید بعد انزال ممکن ست''۲؎
(نزول قرآن مجیدکا سلب ممکن ہے۔ ت)
(۳؎ رسالہ یک روزہ (فارسی) شاہ محمد اسمعیل فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷)
اقول اے طرفہ معجون جملہ بدعات قرآن مجید اللہ عزوجل کی صفت قدیمہ ازلیہ ابدیہ ممتنع الزوال ہے، نہ اس کا وجوداللہ عزوعلا کے ارادہ واختیار وخلق ایجاد سے نہ اس کا سلب واعدام اللہ تعالٰی کی قدرت میں ورنہ اپنی ذات کریم کو بھی سلب کرسکے مقتضائے ذات بے انتفائے ذات منتفی نہیں ہوسکتا۔
تازیانہ ۳۴:قولہ کما قال اﷲ تعالٰی
(اس کا قول: جیساکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے، ت)
اقول کیا خوب، کہاں ذاہب کہاں مسلوب، مگر آپ کو تحریف معنوی مرغٖوب،
تنبیہ :ہیہات یہ گمان نہ کرنا کہ سلب سے مراد قلب سے زوال ہے، اولا جس ضرورت سے اس طرف جائے وہ حضرت کے بالکل خلاف مذہب کہ یہ شخص صفات باری کو علانیہ مخلوق واختیاری مانتاہے، جیساکہ علم الٰہی و صدق ربانی کے بارے میں اس کی تصریحیں ہم نے نقل کیں، اور بیشک وہ چیزیں جو مخلوق ومقدور ہے اس کی ذات کا سلب بھی ممکن ، تو بر خلاف مسلک قائل تاویل قول غلط وباطل۔
ثانیا ہم نے تنزیہ دوم میں بدلائل ثابت کردیا کہ صدق کواختیاری ماننے والا قطعا قرآن عظیم کو حادث مانتاہے اور بیشک ہر حادث قابل فنا پھر اس کے نزدیک فنائے قرآن یقینا جائز۔
ثالثا خاص یہاں بھی حضرت کا مطلب ان کی جاہلانہ نظر میں جبھی نکلے گا کہ قرآن مجیدفی نفسہٖ معدوم ہوسکے کہ جب خبرہی نہ رہی تو کاذب کیا ہوگی، ورنہ مجرد سہو ہوجانا ہر گز منافی نہیں ہوسکتا،
کما لایخفی فاعرف
(جیساکہ مخفی نہیں پس اسے اچھی طرح جان لو۔ ت)
تازیانہ ۳۵: اقول بفرض محال اگر سلب قرآن ممکن بھی ہو، تاہم جناب سفاہت مآب کا جواب عجاب قطعاناصواب، معترض نے لزوم کذب سے استحالہ قائم کیا تھا نہ لزوم تکذیب سے اور بیشک اس تقدیر لزوم کذب سے اصلا مفر نہیں کہ خبر جب خلاف واقع ہو تو اس کا صفحہ عالم سے انعدام مانع کذب قائل نہ ہوگا۔ ماناکہ خبر معدوم ہوگئی، اس کے بعد ا س کاخلاف واقع ہونا تو غایت یہ کہ ظہور کذب کا وقت نہ تھاکہ کذب اس وقت اسے عارض ہوتاہے جس کے لئے وجود معروض درکارتھا، وہ جس وقت موجود تھی اسی وقت بوجہ مخالفت واقع کاذب تھی گو ظہور کذب بعدکی ہو یا کبھی نہ ہو، اب انسان ہی میں دیکھئے اس کا کلام کہ عرض ہے اور عرض علمائے (عہ) متکلمین کے نزدیک صالح بقا نہیں فورا موجود ہوتے ہی معدوم ہوجاتاہے،
عہ :بلکہ مذہب بقا پر بھی مدعا حاصل ، لفظی غیر قار کاانعدام تو ظاہر اور نفسی نسبت مخلوط بالارادہ ملحوظ بقصد الافادہ کانام ہے، پر ظاہر کہ ارادہ افادہ ادائم نہیں، اور جو کچھ بعدکو محفوظ رہے صورت علمیہ ہے، نہ کلام نفسی، معہذا بحالت نسیان وہ بھی زائل، علاوہ بریں روح انسانی اگرچہ اہل سنت کے نزدیک فنا نہ ہو گی مگر قطعا ممکن الانعدام اس کے ساتھ اس کے سب صفات معدوم ہوسکتے ہیں ۱۲ منہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ
باایں ہمہ جب اس کا خلاف واقع ہوتا،کہتے ہیں کہ فلاں کی بات جھوٹی تھی، غرض اس نفیس جواب ملائے عجاب اور ان دوہذیان تباہ وخراب کی قدران کے مثل مجانین ہی جانتے ہوں گے،یا معاذاللہ عفوالٰہی بشرط صلاحیت کام نہی فرمائے تواس کی سچی قدر اس دن کھلیے گی
یوم یقوم الناس لرب العالمین ۱؎
(جس دن سب لوگ رب لعالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔ ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۸۳ / ۶)
الحمد اللہ! یہ حضرت کی چند سطری تحریر پر بالفعل پنتیس کوڑے ہیں اور پانچ ہذیان اول پر گزرے تو پورے چالیس تازیانے ہوئے، واقعی معلم طائفہ نے بغلامی معلم الملکوت ہمارے مولٰی پر کذب وعیوب کا افترائے ممقوت کیا، اور شرعی میں افتراء کی سزا اسی کوڑے مگر غلام کے حق میں آدھی
فعلیھن نصف ما علی المحصنت من العذاب ۲؎
(تو ان پر اس کی سزا آدھی جو آزاد عورتوں پر ہے۔ ت)
تو چالیس کوڑے نہایت بجا واقع ہوئے ،
(۲؎ القرآن الکریم ۴ /۲۵)
اللہ عزوجل سے آرزو کہ قبول فرمائے اور ان تازیانون کو متبوع کے حق میں نکال وعقوبت تابع کےلئے ہدایت وعبرت، اہل سنت کے واسطے قوت واستقامت بنائے، آمین یا ارحم الراحمین! بیشک ہماری طرف کے علماء ''شکر اللہ مساعیہم الجمیلہ''نے حضرت کے ہذیان دوم کی بھی ضرور دھجیاں لی ہوں گی مگر اس وقت تک فقیرکی نظر سے اس بارے میں کوئی تحریر نہ گزریک جو کچھ حاضر کیا بحمداللہ القائے ربانی ہے کہ عبد ضعیف پر فیض لطیف سے فائض ہوا، امید کرتاہوں کہ ان شاء اللہ العزیز اس بسلط جلیل ووجہ جمیل پر نقدجزیل حصہ خاص فقیرذلیل ہے۔
فللّٰہ المنۃ فی کل اٰن وحین والحمد ﷲ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی سید المرسلین محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین۔ آمین!
ہر وقت وہر گھڑی اللہ تعالٰی کی ہی حمد ہے اور حمد ہے تمام جہانوں کے پروردگار کی، صلٰوۃ والسلام رسولوں کے سردار محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر اور آپ کے آل واصحاب تمام پر، آمین! (ت)