Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
69 - 150
تازیانہ ۲۸: اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) شاطر عیار نے اگرچہ بظاہر اغوائے جہال کہ عوام اہل اسلام اپنے رب ذوالجلال ولاکرام کے حق میں صریح دشنام سن کر بھڑ ک نہ جائیں، مطلب دل کے روئے زشت پر پردہ ڈالنے کو براہ تقیہ کہ روافض سے بڑھ کر اصل اصیل مذہب نجدیہ ہے، یہ کلمات بڑھا دئے کہ
''کذب مذکور آرے منافی حکمت اوست پس ممتنع بالغیر ست ۱؎''
(ہاں کذب مذکور اس کی حکمت کے منافی ہے لہذایہ کذب ممتنع بالغیر ہے، ت)
(۱؎ رسالہ یک روزہ    شاہ محمد اسمعیل    فاروقی کتب کانہ ملتان    ص۱۷)
مگر اس کے ساتھ ہی جو م ذہب خفیہ جوش پر آیا اور نظیریں دینے کا شوق گرمایا توکھلے بندوں علانیہ بتایا کہ کذب الٰہی میں اصلا امتناع بالغیر کی بوبھی نہیں قطعا جزما جائز وقوعی ہے جس کے وقوع میں استحالہ عقلی وشرعی درکنار استعباد عادی کا بھی نام ونشان نہیں۔ ثبوت لیجئے اگر اس کے مذہب میں کذب الٰہی ممکن بالذات وممتنع بالغیر ہوتا تو نظیریں وہ دیتا جن میں ممتنع بالذات ہوکہ دیکھو جہاں امتناع ذاتی ہوتاہے عدم کذب باعث مدح نہیں ہوتا اور باری عزوجل کے لئے مدح ہے تو اس کے حق میں امتناع ذاتی نہیں، مگر برخلاف اس کے مثالیں وہ دیں جن میں امتناع ذاتی کا پتہ نہیں، مثلا جس کا منہ بند کرلیں یا گلا گھونٹ دیں اوراس وجہ سے وہ جھوٹ نہ بول سکے تو پر ظاہر کہ بولنے پریقینا قادر، اگر بالفرض امتناع ہے تو اس عارض کی وجہ سے تو نہ ہوا مگر امتناع بالغیر امام نجدیہ اسے بھی مانع مدح جان کر باری عزوجل سے صراحۃ سلب کرتا ہے پھرکیوں منافقانہ کہا تھا،
''ممتنع بالغیر ست''
(کذب باری تعالٰی ممتنع بالغیر ہے۔ ت) صاف کہا ہوتا
''اصلا ازامتناع بالغیر ہم بہرہ ندارد''
(امتناع بالغیر سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ت) اے حضرت! دور کیوں جائے پہلی بسم اللہ اخرسی وجمادہی کی نظیر لیجئے بھلا اخرس تو انسان ہے، جماد کے لئے بھی کلام محال شرعی تک نہیں صرف محال عادی ہے کتب حدیث دیکھئے بطور خرق عادت ہزار بار پتھروں جمادوں سے کلام واقع ہوا اور ہزار ہا بار ہوگا قریب قیامت آدمی سے اس کا کوڑا باتیں کرے گا، جب اہل اسلام یہود عنود کو قتل کریں گے اور وہ پتھروں درختوں کی آڑ لیں گے شجر وحجر مسلمان سے کہیں گے اے مسلمان آ یہ میرے پیچھے یہودی ہے، اسی طرح سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے گونگے کاکلام کرنا احادیث میں وارد، اللہ عزوجل فرماتا ہے :
وقالوا لجلود ھم لِمَ شہید تم علینا قالوا انطقنا اﷲ الذی انطق کل شی ۱؎۔
کافر اپنی کھالوں سے بولیں گے تم نے کیوں  ہم پر گواہی دی، وہ بولیں گی ہمیں اس اللہ نے بلوایا جس نے ہر چیز کو گواہی بخشی۔
 (۱؎ القرآن الکریم    ۴۱/ ۲۱)
اگر کلام جماد واخرس ممتنع بالغیر یا محال شرعی ہوتا زنہار وقوع کانام نہ  پاتا کہ ہر ممتنع بالغیر کا وقوع اس غیر یعنی ممتنع بالذات کے وقوع کومستلزم ، تو وقوع نے ظاہر کردیاکہ صرف خلاف عادت ہے جب وقوع کلام ثابت اور ان کے استحالہ کذب پر ہر گز کوئی دلیل عقلی نہ شرعی، تو یقینا اس کے لئے بھی جواز قوعی جو امتناع بالغیر کا منافی قطعی، اب جیوٹ بہادر استدلال کرتاہے کہ ایساعدم کذب مفید مدح نہیں ہوتا، اور باری عزوجل میں مدح ہے،تولاجرم وہاں ایسا عدم بھی نہ ہوگا ، اتناتو اس کے کلام کا منطوق صریح ہے، آگے خود دیکھ لیجےے کہ اخرس وجماد میں کیسا عدم تھا جس کو باری عزوجل میں نہیں مانتا، زنہار نہ امتناع عقلی تھا نہ استحالہ شرعی بلکہ صرف استعباد عادی تو بالضرور ملا ئے بیباک اپنے رب میں کذب کو مستعبد بھی نہیں جانتا، العظمۃ اللہ! اگر لازم قول قول ٹھہرنے تو اس سے بڑھ کر کفر جلی اور کیا ہے، مگریہ حسن احتیاط اللہ عزوجل نے ہم اہلسنت ہی کو عطا فرمایا،ا ہل بدعت خصوصا نجدیہ کہ یہ شخص جن کا معلم وامام ہے کفر وشرک کوٹکے سیر کئے ہوئے ہیں، بات پیچھے اور کفر شرک پہلے، اگر
جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا ۱؎
(اور برائی کا بدلہ اسی کی برابربرائی ہے، ت) کی ٹھہرے تو کیا ہم ان کے ایسے صریح کفریات پر بھی فتوٰی کفر نہ دیتے،
 (۱؎ القرآن الکریم        ۴۲/ ۴۰)
مگر الحمد اللہ یہاں
ادفع بالتی ھی احسن ۲؎
(برائی کو بھلائی سے ٹال۔ ت) پر عمل اور کلمہ طیبہ کا ادب پیش نظر ہے کہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہنے والے کو حتی الامکان کفر سے بچاتے ہیں،
والحمد اللہ رب العالمین۔
(۲؎القرآن الکریم        ۴۱/ ۳۴)
تازیانہ ۲۹: اقول مناجات حکمت کے سبب کذب کو زبانی ممتنع بالغیر کہنا اس سفیہ کا صریح تناقص سے شے ممتنع بالغیر جب ہوسکتی ہے کہ کسی محال بالذات کی طرف منجر ہو ورنہ لزوم ممکن کا ممکن کونا ممکن کرنا لازم آئے اور انتقائے حکمت اگرچہ اہل سنت کے نزدیک ممتنع بالذات مگر ان حضرات کے دین میں بالیقین ممکن کہ اخر سلب حکمت ایک عیب ہے ومنقصت ہے اور وہ تمام عیوب ونقائص کو ممکن مان چکا پھر کس منہ سے کہتاہے کہ منافات حکمت باعث امتناع بالغیر ہوئی ، الحمد اللہ اہل بدعت کے بارے میں اس طرح سنت باری تعالٰی ہے کہ انھیں کے کلام سے انھیں کے کلام پر حجت والزام قائم فرماتاہے ع
ومنھا علی بطلانھا لشواھد
 (ان میں سے ان کے بطلان پر شواہد موجودہیں۔ ت)
سچ کہاہے:
دروغ گو راحافظہ بناشد
 (جھوٹے شخص کا حافظہ نہیں ہوتا۔ ت)
تازیانہ ۳۰: اقول سبحان اللہ! ہم یہ ثابت کررہے ہیں کہ امام الطائفہ نے امتناع بالغیر محض تقیۃمانا حقیقۃ اس کا مذہب جواز وقوعی ہے، مگر غورکیجئے تو وہاں کچھ اور ہی گل کھلاہے، امام وماموم، خادم ومخدو سارا طائفہ ملوم کذب الٰہی کو داقع اور موجود گارہاہے، صراحۃ کہتے ہیں کہ کذب مقدور اورفر بلاشبہہ مقدوریت کذب مقدوریت صدق کو مستلزم،
کما دللنا علیہ فی الدلیل السادس و العشرین
 (جیسا کہ اس پر ہم نے چھبیسویں دلیل میں اشارہ کیاہے۔ ت) اور امام الطائفہ نے توصاف بتادیا کہ بر عایت مصلحت صدق اختیار فرمایا، اب کتب عقائد ملاحظہ کیجئے، ہزار درہزار قاہر تصریحیں ملیں گے کہ جو کچھ باختیار صادر ہو قدیم نہیں تولاجرم صدق الٰہی حادث ٹھہرا  اور ہر حادث ازل میں معدوم اور ازل کیلئے نہایت نہیںَ تو بالیقین لازم کہ ازل غیر متناہی میں مولٰی تعالٰی سچانہ رہا ہوا اور جب سچا نہ تھا تو معاذاللہ ضرور جھوٹا تھا
للانفصال الحقیقی بینہما
 (کیونکہ ان دونوں کے درمیان انفصال حقیقی ہے۔ ت) پھر ضلال پلشت کا چہرہ زشت چھپانے کو کیوں کہتے ہو کہ کذب الٰہی ممکن ہے، کیوں نہیں کہتے کہ خدایئے موہوم طائفہ ملوم کروڑوں برس تک جھوٹا رہ چکاہے، پھر اب بھی اپنی پرانی آن پر آئے تو کیا ہے، تعالٰی اﷲ
عما یقولون علوا کبیرا
(اللہ تعالٰی اس سے بہت بالا ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ ت)
تازیانہ ۳۱: میں نے بارہا قصد کیا کہ تازیانوں میں دس بیس تیس پربس کروں مگر جب ان حضرت کی شوخیاں بھی مانیں وہاں تو ؎
زفرق تابقدم ہر کجا کہ مے بنگرم    کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست
 (سر کی مانگ سے لے کر قدم تک ہر جگہ پر نظر ڈالو دامن دل ہر جگہ کے بارے میں کہے گا جگہ یہی ہے۔ ت)
اسی رسالہ یکروزی میں عبارت مذکور ہ سے دو سطر اوپر جو نظر کروں تو وہاں تو خوب ہی سانچے میں ڈھلے ہیں یہاں عروس مذہب کے جمال مطلب پر پردہ تقیہ تھا وہاں حضرت بے نقاب چلے ہیں، اعتراض تھا کہ اگر حضور سید علم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مثل یعنی تمام اوصاف کمالیہ میں حضور کا شریک من حیث ھو شریک ممکن ہو تو خبر الٰہی کا کذب لازم آئے کہ وہ فرماتے ہیں :
ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ۱؎۔
لیکن اللہ کے رسول اور انبیاء کے آخری ہیں۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم   ۳۳/۴۰)
اور وصف خاتمیت میں شرکت ناممکن، حضرت اس کا ایک جواب یوں دیتے ہیں:
بعداخیتار ممکن ست کہ ایشاں رافراموش گردانیدہ شود پس قول بامکان وجود مثل اصلا منتج بتکذیب نص ازنصوص نگردد وسلب قرآن مجید بوصف انزال ممکن ست داخل تحت قدرت الہیہ، کما قال اﷲ تعالٰی ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک ثم لاتجدلک بہ علینا وکیلا ۱؎۔
 (۱؎ رسالہ یکروزہ (فارسی)    شاہ محمد اسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۷)
اختیار کے بعد یہ ممکن ہے کہ اس آیہ کریمہ کی بھول ہوجائے تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مثل کے وجود کے امکان والی بات نصوص میں سے کسی نص کی تکذیب بالکل نہ ہوگی جبکہ نازل شدہ قرآن کا سلب ممکن ہے جو اللہ کی قدرت کے تحت داخل ہے جیساکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا اگرہم چاہیں تو آپ کی طرف کی ہوئی وحی کو اٹھالیں پھر آپ ہمارے پاس کوئی وکالت کرنے والا نہ پاتے۔ (ت)
حاصل یہ کہ امکان کذب ماننا تکذیب قرآن کو اسی صورت میں مستلزم کہ آیات قرآن محفوظ رہیں حالانکہ ممکن کہ اللہ تعالٰی قرآن ہی کو فنا کردے، پھر تکذیب کا ہے کی لازم آئے۔
اقول ایھا المؤمنون!
دیکھو صاف صریح مان لیا کہ خدا کی بات واقع میں جھوٹی ہوجائے تو ہوجائے اس میں کچھ حرج نہیں، حرج تو اس میں ہے کہ بندے اسے جھوٹا جانیں، یہ اسی تقدیر پر ہوگاکہ آیات باقی رہیں جن کے ذریعہ سے ہم جان لیں گے کہ خدا کی فلانی بات جھوٹی ہوئی اور جب قرآن ہی محو ہوگیا پھر جھوٹی پڑی تو کسی کوجھوٹ کی خبر بھی نہ ہوگی تکذیب کون کرے گا، غرض سارا ڈر اس کا ہے کہ بندوں کے سامنے کہیں جھوٹا نہ پڑے واقع میں جھوٹا ہوجائے توکیا پروا،
انا ﷲ وانا الیہ راجعون
(ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے۔ ت) اے سفیہ ملوم! یہ تیرا خدائے موہوم ہوگا جو بندوں کے طعنوں سے ڈرکر جھوٹ سے بچنے اور ان سے چرا چھپا بہلا بھلا کر خوب پیٹ بھر کر بولے ہمارا سچا خدا بالذات ہر عیب ومنقصت سے پاک ہے کہ کذب وغیرہ کسی میں نقصان کو اس کے سرا پردہ عزت تک بار ممکن نہیں، اور جو افعال اس کے ہیں حاشا وہ ان میں کسی نہیں ڈرتا،
یفعل اﷲما یشاء ۲؎
(اللہ جو چاہے کرے۔ ت) یحکم مایرید ۳؎ (حکم فرماتاہے جو چاہے ۔ ت) اس کی شان ہے اور
لایسئل عما یفعل وھم یسئلون ۴؎
 (ا س سے نہیں پوچھا جاتا جووہ کرے اوران سب سے سوال ہوگا۔ ت)  اس کے جلال عظیم کا بیان
"لہ الکبریاء فی السمٰوٰت والارض ۵؎ سبحانہ وتعالٰی عمایصفون" ۶؎
 (اور اس کے لئے بڑائی ہے آسمانوں اور زمین میں پاکی اور برتری ہے اس کو ان کی باتوں سے۔ ت)
 (۲؎القرآن الکریم      ۱۴ /۲۷)	              (۳؎ القرآن الکریم   ۵ /۱) (۴؎ القرآن الکریم   ۲۱/ ۲۳)		(۵؎ القرآن الکریم     ۴۵ /۳۷)	(۶؎ القرآن الکریم     ۶/ ۱۰۰)
Flag Counter