Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
68 - 150
تازیانہ ۱۶ تا ۱۹: قولہ یاشخصے کہ کلام صادق از وصادر می گردد وہرگاہ ارادہ کلام کاذب نماید آواز او بند میگرد د یازبان اوماؤف میشودیا کسے دین او بندیا حقوق خفہ کند ۱؎
 (یا ایسا شخص ہے جو کسی جگہ سچا کلام کرتاہے وہ اس سے صادر ہوتاہے اور جب جھوٹا کلام کرتاہے تو آواز بند ہوجاتی ہے یا زبان ماؤف ہوجاتی ہے یا کوئی اس کا منہ بند کردیتاہے یا گلا دبادیتاہے۔ ت)
(۱؎ رسالہ یک روزہ (فارسی)    شاہ اسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۱۸)
اقول ایسا تو کیا کہوں جو آپ کی طبع نازک کو بلکل خفہ کند، ہاں اتنا کہوں گا کہ اب کی تو اچھل کرتارے ہی توڑ لائے، یہ چار نظیریں وہ بے نظیردی ہیں کہ باید وشاید، او عقل کی پڑیا! جب وہ عزم  تکلم بکذب کرچکا تو کلام نفسی میں کاذب ہوچکا اگرچہ بوجہ مانع صادر نہ ہوسکا ت واس کے عدم سے حکم کذب کیونکر درکار، کذب حقیقۃ صفت معانی ہے نہ وصف الفاظ پھراسکی مدح کیا معنی قطعا مذموم ہوگا بھلالے دے کر اگلی نظیروں میں عدم کذب کی صورت تو تھی یہاں اللہ کی عنایت سے وہ بھی نہ رہی صریح کذب متحقق وموجود اور عدم کذب کی نظیروں میں معدود، جبھی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی جب گمراہ کرتا ہے عقل پہلے لے لیتا ہے والعیاذ باﷲ رب العالمین۔
تازیانہ ۲۰: قولہ یاکسے کہ چند قضایائے صادقہ یاد گرفتہ واصلاً برتکیب قضایائے دیگر قدرت ندارد بناء علیہ تکلم بکاذب از وصادر نہ گرد ۲؎
 (یا کسی نے چند سچے جملے رٹ لئے ہیں دیگر جملوں پر وہ قدرت نہیں رکھتا ہے اس بناء پر اس سے جھوٹ صادر نہیں ہوتاہے۔ ت)
 (۲؎ رسالہ یک روزہ (فارسی)    شاہ اسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۱۸)
اقول یہ صورت بھی ویسا ہی فساد عقل کی ہے جس سے فقط حفظ صوادق کا شعبہ بڑھایا، مگر کام نہ آیا قطع نظر اس سے کہ یہ تصویر کیسی اور ایسے شخص سے حفظ قضایا معقول بھی ہے یا نہیں۔
اولا انسان مرتبہ عقل بالملکہ میں بالبداہۃ ترکیب قضایا پر قادر، تو سرے سے تصویر ہی باطل، اور عقل ہیولانی میں کہ تعقل انطباعی نہیں ہوتا، اگر تعقل نسبت خبر یہ معقول بھی ہو تا ہم حکایت وقصد افادۃ قطعا غیر معقول اور صدق کذب باعتبار حکایت ہی میں، نہ باعتبار مجرد علم، ورنہ معاذاللہ علم کواذب کا ذب ٹھہرے، تویہاں بھی سلب کذب سے ثبوت لازم نہ ہوا  اور وہی فارق پیش آیا۔
ثانیا جواصلا کسی قضیہ کا حتی کہ قضایائے وہمیہ واحکام شخصیہ بدیہیہ حسیّہ پر بھی قادر نہ ہو قطعا مجانین بلکہ حیوانات سے بھی بدتر اور جماد سے ملحق تو اس کا کلام کام نہ ہوگا، صورت بے صورت ہوگا اور صدق وکذب اولا بالذات صفت معانی ہے ، نہ وصف عبارات، تو بات اگرچہ بایں معنی سچی ہو کہ سامع اس سے ادارک معنی  مطلق للواقع کرے مگر اس سے اس جمادی آواز کرنے والے کا صدق لازم نہیں کہ معنی متصف بالصدق اس کے نفس سے قائم نہیں حتی کہ علماء نے کلام مجنون کو بھی خبریت سے خارج کیا، اورپر ظاہر کہ صدق وکذب اوصاف خبر ہیں، نہ شامل مطلق آواز، مولانا بحرالعلوم قدس سرہ فواتح میں فرماتے ہیں:
الکلام الصادر عن المجنون لایکون مقصودا بالافادۃ فلایکون حکایۃ عن امرحتی یکون خبر ۱؎۔
پاگل سے صادر ہونےب والاکلام مقصود کے لئے مفید نہیں ہوتا لہذا کسی امر (واقع ) سے حکایت ہی نہیں حتی کہ اسے خبر قرار دیا جائے۔ (ت)
 (۱؎ فواتح الرحموت بذیل المستصفی  الاصل الثانی السنۃ    مشورات الشریف الرضی قم ایران    ۲/ ۱۰۸)
تنبیہ دائر وسائر بہ تسفیہ جلہ نظائر:
اقول ایھا المسلمون!
سفیہ جاہل نے حتی الامکان اپنے رب میں راہ کذب نکالنے کو نو نظیریں دیں، مگر بحمد اللہ سب نے معنٰی ہم نے اس وقت تک ان کے رد میں اس مر پر بنائے کار رکھی کہ عدم کذب بنفسہ کمال نہیں۔ جب تک ثبوت کمال پرمبنی نہ ہو، اور یہاں ایسا نہیں اس کی سزا کو اسی قدر بس تھا۔، مگر غور کرو کیجئے تو معاملہ اور بھی بالکل معکوس اور عقل مستشہد کا کاسہ منکوس اور تمام نظائر روبہ قفاہیں یعنی یہاں عدم قدرت علی الکذب کا بر بنائے کمال ہونا بالائے طاق الٹا بربنائے عیوب ونقائص ہے، کہیں عدم عقل کہیں عجز آلات، کہیں لحوق مغلوبی کہیں عروض آفات، پھر ایسا عدم کذب اگر ہوگا تو مورث ذم ہوگا نہ باعث مدح، یہ وجہ ہے کہ ان صور میں سلب کذب سے تعریف نہیں کرتے نہ وہ جاہلانہ وسفیہانہ خیال کہ عیب پر قدرت نہ ہونا مانع کمال، اب ختم الٰہی کا ثمرہ کہ سفیہ جاہل کہ خدا وجماد میں فرق نہ سوجھا، اس کا عدم کذب اس کے کمال عالی یعنی سبو حیت وقدوسیت بلکہ نفس الوہیت سے ناشی کہ الوہیت اپنی حد ذات میں ہر کمال کی مقتضی اور ہر نقص کی منافی اور ان کا کذب عیوب ونقائص پر مبنی پھر کیسی پرلے سرے کی کوری یا سینہ زوری کہ عین کمال کو کمال نقص پر قیاس کرے اوراینٹوں پتھروں کے عیوب ونقائص باری جل مجدہ کے ذمے دھرے، جاہل پر ایسی نظیر دینی لازم تھی جس میں عدم کذب باآنکہ کمال سے ناشی ہوتا پھر بھی بحالت عدم امکان مدح نہ سمجھا جاتا ''وانی لہ ذلک'' اب جو اس کا حامی بنے سب کو دعوت عام دیجئے کہ ایسی نظیر ڈھونڈ کر لاؤ،
فان لم تفعلوا ولن تفعلوا ۲؎ الایۃ
(پہر اگر نہ کرسکو گے اور ہر گز نہ کرسکو گے۔ ت)
 (۲؎ القرآن الکریم      ۲ /۲۴)
تنبیہ دوم : اقول اس سے زائد قہر یہ ہے کہ اپنا لکھا خود نہیں سمجھتا، نظیریں دے کر بالجملہ کہہ کر آپ ہی خلاصہ مطلب یہ نکلتاہے کہ عدم کذب اگر بربنائے عجز ہو تو مورث مدح نہیں، معلوم ہوا کہ ان نظائر میں تحقیق عجز وقصور پر مطلع ہے، پھر باری عزوجل کے عدم کذب کو ان سے ملاتاہے حالانکہ وہاں عیب ومنقصت پر عدم قدرت زنہار عجز نہیں بلکہ عین کمال ومدحت، اور معاذاللہ داخل قدرت ماننا ہی صریح نقص ومذمت،یہ تقریرکافی ووافی طور پر مقدمہ رسالہ ونیز رد ثالث، ہذیان اول میں گزری اور وہیں یہ بھی بیان ہوا کہ عجز جب ہے کہ جانب فاعل قصور وکمی ہو جیسے اے سفیہ! ان تیری نظیروں کہ گنگ وسنگ اپنے نقصان کے باعث جھوٹ سچ کچھ نہیں بول سکتے،  نہ یہ کہ جانب قابل نالائق ہو کہ تعلق قدرت کی قابلیت نہیں رکھتا، جس طرح جناب باری عزوجل کا کذب وغیرہ تمام عیوب سے منزہ  ہونا اسے ہر گز کوئی مسلم عاقل عجزگمان نہ کرے گا، یارب مگر ابن حزم ساکوئی ضال اجہل یا ان حضرت ساجاہل اضل، وباﷲ العصمۃ عن موقع الزلل والحمد اﷲ الاعز الاجل (پھسلنے کے مواقع سے الہہ ہی کی طرف سے حفاظت ہوتی ہے اور تمام حمد اﷲ غالب وبزرگ تر کے لئے ہے۔ ت)
بحمداللہ یہ صرف نظار پر تازیانوں کا دوسرا عشرہ کاملہ تھا ، بلکہ خیال کیجئے تو یہاں تک اسی مسئلہ کے متعلق سفاہات شریفہ پر سات تازیانے اور گزرے، تازیانہ اول دوسرا، ثم اقول (میں پھر کہتاہوں۔ ت) جس نے حضرت کا تناقص بتایا، اور دوم سوم ودہم کے بعد کی تنبیہات اور بستم کا ثانیا اور اس کے بعد کی دو تنبیہیں، یہ ساتوں جدا گانہ تازیانے تھے، تو حقیقۃ عشرہ اولٰی میں چودہ اور ثانیا میں تیرہ کل ستائیس تازیانے یہاں تک ہوئے چلتے وقت کے تین اورلیتے جایئے کہ تیس کا عدد جو دونوں تنزیہ سبق میں بھی ملحوظ رہاہے پورا ہوجائے، خصوصا ان میں ایک تو ایسا شدید کامل جس سے جان بچانی مشکل جو آپ کا خلاصہ طلب کھولے اصل مذہب سر چڑھ کر بولے
وباﷲ التوفیق واضافۃ التحقیق
 (توفیق اور حصول تحقیق اللہ ہی کی طر ف سے ہے۔ ت)
Flag Counter