صفات مدائح کے درجات متافاوت ہیں بعض مدائح اولٰی ہوتے ہیں یعنی اعلی درجہ کمال، اور بعض تنزلی یعنی فائت الکمال کے مبلغ کمال، پھر یہ اسی کے حق میں مدح ہوں گے جو مدائح اولی نہیں رکھتا، صاحب کمال تام کا اس پر قیاس جہل و وسواس، مثلا عبادت وتذلل وخشوع وخضوع وانکسار وتواضع انسان کے مدائح جلیلہ سے ہیں اور باری جل شانہ پر محال، کہ ان کا مدح ہونا فوت کمال حقیقی یعنی معبودیت پر مبنی تھا، معبود عالم عزجلالہ کے حق عیب و منقصت ہیں بلکہ اس کےلئے مدح تعالٰی وتکبر ہے جل وعلا سبحانہ وتعالٰی، یوہیں ترک نقائص ومعائب میں مخلوق کی مدح بالقصد بازر ہنے پر مبتنی ہونابھی اسکے نقصان ذاتی پر مبنی کہ وہ اپنی ذات میں سبوح وقدوس و واجب الکمال ومستحیل النقصان نہیں بلکہ جائز العیوب والقبوح ہے اور بنظر نفس ذات کے عیوب ونقائص سے منافات نہیں رکھتا تو غایت مدح اس کے لئے یہ ہے کہ جہاں تک بنے اس ممکن سے بچے اور تلوث سے بھاگے،
ولہذا جہاں بوجہ فقدان اسباب وآلات بعض معائب وفواحش کی استطاعت نہ رہے وہاں مدح بھی نہ ہوگی جیسے نامرد لنجھے اپاہج گونگے کا زناکرنا، چوری کو نہ جانا، جھوٹ بولنا کہ مناط مدح کے دور بھاگنا اورت اپنے نفس کا باز رکھتاتھا یہاں مفقود، اور جب امکان ہے تو کیا معلوم کہ عصمت بی بی از بیچاری نہیں شاید اسباب سالم ہوتے تو مرتکب ہوتا، سفیہ جاہل نے اپنے رب جل وعلا کو بھی انھیں گونگوں لنجھوں بلکہ اینٹوں پتھروں پر قیا س کیا اور جب تک عیب ونقصان سے متصف نہ ہوسکے عدم عیب کو مدح نہ سمجھاحالانکہ یہ مدح اول وکمال حقیقی تھا کہ وہ اپنے نفس ذات میں متعالی و قدوس وسبوح وواجب الکمالات و مستحیل القبوح ہے تعالٰی وتقدس تو یہاں عیب ممکن سے باز رہنے اور بطور ترفع بالقصد بچنے کی صورت ہی متصور نہیں، نہ حاش للہ یہ اس کے حق میں مدح بلکہ کمال مذمت وقدح ہے، واﷲ العزۃ جمیعا (تمام عزت اللہ تعالٰی کے لئے ہے۔ ت) ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
تنبیہ نفیس: ایھا المسلمون! ایک عام فہم بات عرض کروں، سفیہ جاہل کا سارا مبلغ یہ ہے کہ کذب پر قدرت پاکر ہی اس سے بچنا صفت کمال ہے نہ کہ کذب ممکن ہی نہ ہو ا، اقول جب کذب ممکن ہوا تو صدق ضروری نہ رہا، اورجو ضرورری نہیں وہ ممکن الزوال، تو حاصل یہ ہواکہ کمال وہی ہے جسے زوال ہوسکے اور جو ایسا کمال ہو، جس کا زوال محال تو کمال ہی کیا ہے، سبحان اللہ! یہ بھی ایک ہی ہوئی، او احمق! کمال حقیقی وہی ہے جس کا زوال امکان ہی نہ رکھے، ہر کمال قابل زوال عارضی کمال ہے نہ ذاتی کمال، مسلمانو! للہ انصاف! باری عزوجل کا مصدق یو ں ماننا کہ ہے تو سچا مگر جھوٹا بھی ہوسکتا ہے،یہ کمال ہوا یا یوں کہ وہ سبوح قدوس تبارک وتعالٰی ایسا سچا ہے جس کا جھوٹا ہونا قطعا محال، اہل اسلام ان دونوں باتوں کو میزان ایمان میں تول کردیکھیں کہ کون گستاخ بے ادب اپنے رب کی تنزیہیہ کو بدعت وضلالت جاننے والا بحیلہ مدح اس کی مذمت وتنقیص پراترتا ہے اور کون سچا مسلمان صحیح الایمان اپنے مولٰی کی تقدیس کو اصل دین ماننے والا ا س کے صدق ونزاہت وجملہ کمالات کوعلی وجہ الکمال ثابت کرتاہے
والحمد اﷲ رب العالمین وقیل بعدا للقوم الظلمین۔
للہ الحمد اس عشرہ کاملہ نے ہذیان ناپاک گستاخ بیباک کی دھجیاں اڑادیں مگرہنوز ان کی نزاکتوں کو تو بس نہیں ع
صدہا سال می تواں سخن از زلف یارگفت
(زلف محبوب کے بارے میں سو سال بھی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ ت)
ابھی حضرت کی اس چار سطری چار دیواری میں شواہد وزوائد وغیرہا مفاسد سے بہت ابکار افکار ستم کیش عیار، آہوان مردم شکارکی چھلبل نظر آتی ہے، جنھیں بے خدمت کامل تسکین بالغ ناشاد نامراد، سسکتا بلکتا چھوڑ جانا خلاف مروت وفتوت ذاتی ہے، لہذا اپنے سمند رَ ہوار، غضنفر خونخوار، صاعقہ برق بار کی دوبارہ عنان لیتا اور خامہ پختہ کار، شہزور شہسوار، شیر گیر ضیغم شکار کو از سر نورخصت جولان دیتاہوں وباﷲ التوفیق۔
تازیانہ ۱۱: قولہ عدم کذب رااز کمالات حضرت حق سبحانہ، می شمارند ۱؎
(عدم کذب کو اللہ تعالٰی سبحانہ وتعالٰی کے کمالات سے شمار کرتے ہیں۔ ت)
(۱؎ رسالہ یکروزی (فارسی) شاہ محمد اسمعیل فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷)
اقول اس ہوشیار عیار کی چالاکی دیدنی، صدق کو چھوڑا ، عدم کذب پر مباحثہ چھیڑا تاکہ جماد وغیرہ کی نظریں جما سکے، ظاہر ہے کہ پتھرکو سچا نہیں کہہ سکتے مگریہ بھی ٹھیک ہے کہ جھوٹا نہیں حالانکہ قلب حاضر اور عقل ناظر ہوتو فقیر ایک نکتہ بدیعہ القاء کرے سلب کیس شی کا بنفسہ ہر گز صفت کمال نہیں ورنہ لازم آئے کہ معدومات کروڑوں اوصاف کمال سے موصوف اور اعلٰی درجہ مدح کے مستحق بلکہ باری تعالٰی کی تنزیہ وتقدیس میں اس کے شریک ہوں کہ بحالت عدم موضوع سب سالبے سچ ہیں جوسرے سے موجود ہی نہیں، وہ جسم بھی نہیں، جہت میں بھی نہیں، زمان میں بھی نہیں، مکان میں بھی نہیں۔ مصور بھی نہیں۔ محدود بھی نہیں۔ مرکب بھی نہیں، متجزی بھی نہیں، حادث بھی نہیں، متناہی بھی نہیں۔ کاذب بھی نہیں۔ ظالم بھی نہیں، مخلوق بھی نہیں، فانی بھی نہیں، ذی زوجہ بھی نہیں، ذی ولد بھی نہیں، اسے خواب بھی نہیں، اونگھ بھی نہیں، بلکنا بھی نہیں، بھول بھی نہیں۔ بیس یہ اوران جیسے صدہا، اور سب صادق ہیں، مگر کوئی مجنون معرض مدح وبیان کمال میں آتاہے جب کسی صفت کمال کے ثبوت پر مبنی اور صفت مدح سے منبئی ہو، ولہذا قضایائے مذکورہ باری عزوجل کے مدائح سے ہیں کہ ان چیزوں کا سلب اعظم صفات کمال یعنی وجوب کے ثبوت سے ناشی اوران کے بیان سے اس کا سبوح وغنی وقدوس ومتعالی ہونا ظاہر، باری عزوجل کو کہنا کہ متجزی نہیں، بیشک مدح ہے کہ اس سے اس کا غنا سمجھا گیا اور نکتہ کو کہنے میں کچھ تعریف نہیں کہ اس کے لئے خوبی نہ نکلی کہ وہاں غناد رکنار متجزی محتاج کے محتاج المحتاج کی محتاجی ہے وعلی ہذالقیاس ، جب یہ امر ممہدہولیا توظاہر ہوگیا کہ حقیقۃً صدق صفت کمال ہے نہ مجرد عدم کذب جو معدومات بلکہ محالات کے بارے میں بھی صادق البتہ سلب کذب وہاں مفید مدح جہاں اس کا سلب ثبوت صدق کو مستلزم مثلا زید عاقل ناطق کی تعریف کیجئے کہ جھوٹا نہیں۔ بیشک تعریف ہوئی کہ جھوٹانہیں تو آپ ہی سچا ہوگا اور سچا ہونا صفت کمال، تو اس سلب نے ایک صفت کمال کا ثبوت بتایا، لہذا محل مدح میں آیا، جہاں ایسا نہ ہو وہاں زنہار مفید مدح مظہر کمال، یہ نکتہ بدیعہ ملحوظ رکھئے، پھر دیکھئے کہ عیار بہادر کی دی ہوئی نظیریں کیا کیا کئے کو پہنچتی ہیں۔ واللہ الموفق۔
تازیانہ ۱۲ و ۱۳: قولہ اخرس وجماد کہ کسے ایشاں رابعدم کذب مدح نمی کند ۱؎ (گونگے اور جماد کی مدد عدم کذب سے کوئی نہیں کرتا۔ ت)
(۱؎رسالہ یک روزہ (فارسی) شاہ اسمعیل فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷ و ۱۸)
اقول دونوں نظیروں پر پتھر پڑے ہیں، گنگ وسنگ کی کیوں مدح کریں کہ وہاں سلب کذب ثبوت صدق سے ناشی نہیں ، گونگہ یا پتھر اگر جھوٹا اگر جھوٹا نہ ہوا تو کیا خوبی کہ سچا بھی نہیں ، تووہ استلزام صفت کمال جو مبنائے مدح تھا یا منتفی، سر یہ ہے کہ منفصلہ حقیقیہ کے مقدم و تالی میں جب دو صفت مدح وذم محمول ہوں توجس فرد موضوع سے ذمیہ کو سلب کیجئے مدحیہ ثابت ہوگی کہ یہاں ہر ایک کا رفع دوسری کے وضع کو منتج مخلاف ان چیزوں کے جو زیر موضوع مندرج ہی نہیں، کہ ان سے دونوں محمول کا ارتفاع معقول، پھر سلب ذم ثبوت مدح پر کیونکر محمول، یہاں قضیہ کل متکلم مخبر اماصادق واما کاذب (ہر متکلم خبردینے والا یاوہ صادق ہوگا یا کاذب ۔ ت) تھا اخرس وجماد پر سرے سے وصف عنوانی ہی صادق نہیں، پھر عدم کذب ان کے لئے کیا باعث مدح ہو، دیکھ او ذی ہوش! یہ فارق ہے نہ وہ کہ جب تک عیب ممکن نہ ہو کمال حاـصل ہی نہیں ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
تکمیل جمیل:اقول او جھوٹی نظیروں سے بیچارے عوام کو چھلنے والے! اس تفرقہ کی سچی نظیر دیکھ مسلمان کو اہل بدعت کے بہتر فرقے پورا گنا کر کہئے رافضی، وہابی، خارجی، معتزلی، جبری، قادری، ناصبی وغیرہ نہیں تو بیشک اس کی بڑی تعریف ہوئی، او ر بعینہ یہی کلمات کسی کافر کے حق میں کہئے تو کچھ تعریف نہیں حالانکہ یہ سالبہ قضیے دونوں جگہ قطعا صادق، توکیا اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان باوجود قدرت رافضی وہابی ہونے سے بچا لہذا محمود ہوا اور دونوں اس کافر کو رافضی وہابی ہونے پر قدرت ہی نہ تھی لہذا مدح نہ ٹھہرا، کوئی جاہل سے جاہل یہ فرق سمجھے گا بلکہ تفرقہ وہی ہے کہ جب یہ فرقے اہل قبلہ کے ہیں تو مسلمان کے حق میں ان بہتر کی نفی سنی ہونے کا اثبات کرے گی لہذا اعظم مدائح سے ہوا اور کافر سرے سے مقسم یعنی کلمہ گو ہی سے خارج ، تو ان کی نفی سے کیس وصف محمود کا ا س کے لئے اثبات نہ نکلا،
تازیانہ ۱۴:قولہ بخلاف کسے کہ لسان اوماؤف شدہ باشد تکلم بکلام کاذب نمی تواند کرد ۲؎
(بخلاف اس کے جس کی زبان ہی ماؤف ہو اور وہ جھوٹا کلام کرہی نہ سکے، ت)
(۲؎رسالہ یک روزہ (فارسی) شاہ اسمعیل فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷ و ۱۸)
اقول اچھا ہوتا کہ تم بھی اسی کس کے مثل ہوتے کہ ایسے کاذب کلاموں کے بس تو نہ بوتے، اے عقلمند! وہ ماؤف اللسان تکلم، بکلام صادق بھی نہ کر سکے تو عدم مدح کی وہی وجہ کہ سلب کذب سے ثبوت صدق نہیں۔
تازیانہ ۱۵:قولہ یاقوت متفکرہ او فاسد شدہ باشد کہ عقد قضیہ غیر مطابق للواقع نمی تواند کرد ۳؎
(یا اس کی سوچ وفکر کی قوت فاسد ہوکر قضیہ غیر مطابق للواقع کا انعقاد نہ کرسکے۔ ت)
(۳؎ رسالہ یک روزہ (فارسی) شاہ اسمعیل فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷ و ۱۸)
اقول تم سے بڑھ کرفاسد المتفکر کون ہوگا، پھر کتنے قضایائے باطلہ عقد کررہے ہو، بھلا حضرت کیا فساد متفکرہ صرف قضایائے کازبہ ہی کے لئے ہوگا ا ور جب مطلقا ہے تو عقد قضیہ پر بھی قدرت نہ ہوگی تو صراحۃ وہی فارق اور و ہم زاہق، ہاں جس تام العقل سالم النطق کو لطف الٰہی صدق محض کی استطاعت دے کہ وجہ مانع غیبی اصدا ر کذب سے ممنوع و مصروف ہو تویہ عدم کذب بیشک مدح عظیم ہوگا اسی وجہ سے کہ اب ثبوت صادقیت کبرٰی سے مبنٰی اور کمال جلیل یعنی عصمت من اﷲ پر مبنی خلاصہ یہ کہ شخص مذکور اس طور پر زیر موضوع مندر ج اور بطور فساد تفکر خارج،