Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
66 - 150
تازیانہ ۸: آیہ کریمہ
لایضل ربی ولاینسی ۱؎
میرا رب نہ بہکے نہ بھولے،
 (۱؎ القرآن الکریم    ۲۰ /۵۲)
اقول : موسٰی کلیم علی سیدہ وعلیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے عدم ضلال سے اپنے رب کی ثنا کی ''اگر دہلوی میانجی کی دلیل سچی ہو تو لازم کہ باری عزوجل کا بہکنا ممکن ہو کہ مدح اسی میں ہے کہ باوصف امکان عیب ولوث سے بچنے کو ضلال میں نہ پڑے، اگر ضلالت پر قدرت ہی نہ پائی تو مجبوری کی بات میں تعریف کا ہے کی، پتھر کو کوئی نہ کہے گاکہ یہ راہ نہیں بھولتا یا جب پھینکتے ہیں توسیدھا زمین ہی پر آتا ہے، کبھی بہک کر آسمان کو نہیں چلا جاتا، اسی طرح جب کوئی شخص بہکنے کو ہو تو راہ بتادی جائے، یوں بہکنے نہ پائے، اس میں بھی کوئی تعریف نہیں'' یہ چار تازیانے نقض کے لئے بس ہیں، اور جو شخص طرز تصویر سمجھ گیا اس پر راہ اور نقوض کثیرہ کا استخراج (عہ) آسان ، مگر انصاف یہ ہے کہ جو گستاخ دہن دریدہ حیا پریدہ اپنے رب کے لئے دنیا بھر کے عیب وآلائش رواکرچکا، اس سے ان استحالوں کا ذکر بے حاصل کہ وہ سہو وضلالت وجماع ولادت سب کچھ گوارا کرلے گا

 ؎
تیر برجاہ انبیا انداز    طعن درحضرت الٰہی کن

بے ادب زی وآنچہ دانی گوئے    بیحیا باش دہرچہ خواہی کن
 (انبیاء علیہم السلام کے رتبہ پر تیر برسا، بارگاہ الٰہی میں طعن کر، بے ادب ہوجا پھر جو چاہے کہہ بیحیا ہوجا پھر جو چاہے کر۔ ت)
عہ: مثلا قال اللہ تعالٰی   :وما اﷲ بغافل عما تعلمون ۲؎

اللہ غافل نہیں تمھارے کاموں سے، تو ملاجی کے مسلک پر لازم کہ اس کی غفلت ممکن ہو،
(۲؎ القرآن الکریم    ۲ /۸۵ و ۱۴۰  و ۱۴۹ و ۳ /۹۹)
وقال اللہ تعالٰی :  اولم یروان اﷲ الذی خلق السموت والارض ولم یعی بخلقھن ۳؎الایۃ۔

کیا انھوں نے نہ دیکھا کہ وہ اللہ جس نے آسمان اور زمین بنائے اور نہ تھکا ان کے بنانے سے،
(۳؎ القرآن الکریم    ۴۶/ ۳۳)
اب ملاجی  کہیں گے کہ خدا کا تھکنا بھی ممکن، وعلٰی ھذا القیاس ۱۲منہ
تازیانہ ۹:
اقول    ع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگوئے
 (اس کے تمام عیوب بیان کئے اب اسکے ہنر بھی بیان کر۔ ت)

جامعیت اوصاف عجب چیز ہے، اور مجموعہ کا فضل آحاد پرظاہر، دہلوی ملا کو بھی اللہ عزوجل نے جامعیت اصناف بدعت عطا فرمائی تھی، دنیا بھر میں کم کوئی طائفہ ارباب ضلالت نکلے گا جس سے ان حضرت نے کچھ تعلیم نہ لی ہو، پھر ایجاد بندہ اس پر علاوہ، تو اس نئے فتنہ کو چاہے عطر فتنہ کہئے یا ضلالت کی گھانیوں کا عطر مجموعہ، اب یہ نفیس دلیل جو حضرت نے امکان کذب باری عزوجل پر قائم کی، حاشا ان کی اپنی تراشی نہیں کہ وہ دین میں نئی بات نکالنے کو بہت برا جانتے تھے بلکہ اپنے اساتذہ کا ملہ حضرات معتزلہ خذلہم اللہ تعالٰی سے سیکھ کر لکھی ہے، ان خبیثوں نے بعینہ حرف بحرف اس دلیل سے مولٰی  تعالٰی کا امکان ظلم نکالا تھا اور جو نقص فقیر نے ان حضرت پر کئے بعینہ ایسے ہی نقصوں سے ائمہ اہل سنت نے ان باپاکوں کا رد فرمایا، امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں زیر قولہ عزوجل
ان اﷲ لایظلم مثقال ذرہ
فرماتے ہیں:
قالت المعتزلہ الاٰیۃ تدل علی انہ قادر علی الظلم لانہ تمدح بترکہ ومن تمدح بترک فعل قبیح لم یصح منہ ذٰلک التمدح الااذاکان ھو قادراً علیہ الاتری ان الزمن لایصح منہ ان یتمدح بانہ لایذھب فی اللیالی الی السرقۃ والجواب انہ تعالٰی تمدح بانہ لاتاخذہ سنۃ ولانوم ولم یلزم ان یصح ذلک علیہ وتمدح بانہ لاتدرکہ الابصار ولم یدل ذٰلک عند المعتزلۃ (عہ) علی انہ یصح ان تدرکہ الابصار ۱؎۔
یعنی معتزلہ نے کہا آیت مذکورہ دلالت فرماتی ہے کہ اللہ تعالٰی ظلم پر قادر ہے، اس لئے کہ رب عزوجل نے اس میں ترک ظلم سے اپنی مدح فرمائی ور کسی فعل قبیح کے ترک پر مدح جب ہی صحیح ہوگی کہ اسے اس کے کرنے پر قدرت ہو آخر نہ دیکھا کہ لنجھا اپنی تعریف نہیں کرسکتا کہ میں راتوں کو چوری کے لئے نہیں جاتا، ا سکا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی     نے اپنی مدح میں فرمایا کہ اسےنیند آئے نہ غنودگی، حالانکہ معتزلہ کے ہاں بھی اللہ تعالٰی کے لئے یہ ممکن نہیں ۔اور اپنی مدح میں یہ بھی فرمایا کہ ابصار اس کا احاطہ نہ کرسکیں، حالانکہ یہ بھی ان کے ہاں ممکن نہیں (ت)
عہ:  اقول بل وعندنا ایضا اذاکان الادراک بمعنی الاحاطۃ ۱۲منہ
میں کہتاہوں بلکہ ہمارے نزدیک بھی جب ادارک بمعنی احاطہ ہو ۱۲ منہ (ت)
 (۱؎ مفاتیح الغیب (التفسیر کبیر)  آیۃ ان اللہ لایظلم مثقال ذرۃ الخ    المطبعۃا لبہیۃ المصریہ مصر    ۵/ ۱۰۲)
مسلمان دیکھیں کہ معتزلہ ذلیل کی یہ بیہودہ دلیل بعینہ وہی ہذیان ملائے ضلیل ہے یا نہیں۔ فرق یہ ہے کہ انھوں نے اس قدیم العدل پر تہمت ظلم رکھی، انھوں نے اس واجب الصدق پر افترائے کذب اٹھایا،انھوں نے برتقدیر تنزہ اپنے رب کو لنجھے سے تشبیہ دی انھوں نے گونگے اور پتھر سے ملادیا، وفی ذلک اقول (اسی میں میں نے کہا ۔ ت) ؎
ھم اٰمنوا ظلما ملیکھم    ذاقائل کذبا بکذب(عہ) الہہ

لاغر وفیہ اذالقلوب تشابہت    فالشبہ نزاع الی اشباھہ ۱؎
 (وہ ظالم اپنے مالک کے بارے میں ظلم پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ اپنے الہ لوکذاب کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے دل ایک جیسے ہیں اور وجہ شبہ اپنے مشابہات کی طرف کھینچنے والا ہوتاہے ۔ت)
عہ:  قدمر ان القول بالامکان قول بالوقوع بل بالوجوب ۱۲ منہ
    گزرچکا ہے کہ امکان کذب کا قول کذب کے وقوع بلکہ اس کے وجوب کو مستلزم ہے ۱۲ منہ (ت)
(۱؎ الدیوان العربی الموسوم بساتین فی الرد علی القائل بامکان کذب اللہ تعالٰی   دارالاشاعت لاہور، مجمع بحوث الامام احمد رضاکراچی ص ۲۰۴)
اب ائمہ اہل سنت کا جواب سنئے، امام ممدوح فرماتے ہیں اس دلیل سے جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی     نے اپنی تعریف فرمائی کہ اسے غنودگی وخواب نہیں آتی اس سے یہ لازم نہ آیاکہ معاذاللہ یہ چیزیں اس کے لئے ممکن بھی ہوں اور اس نے اپنی تعریف فرمائی کہ نگاہیں اسے نہیں پاتیں اس سے معتزلہ کے نزدیک اس پر نظر پہنچنے کا امکان نہ نکلا انتہی کیوں ہم نہ کہتے تھے ع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری
 (تمام جواصاف رکھتے ہیں تو تنہا ان سے جامع ہے۔ ت)
Flag Counter