قدصح عن ابی یوسف انہ قال ناظرت اباحنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی فی مسئلۃ خلق القراٰن فاتفق رأیی ورأیہ علی ان من قال بخلق القراٰن فھو کافر ۲؎۔
امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالٰی سے بروایت صحیحہ ثابت ہواکہ انھوں نے فرمایا میں نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مسئلہ خلق قرآن میں مناظرہ کیا بالاخر میری اور ان کی رائے متفق ہوئی کہ خلق قرآن ماننے والا کافرہے۔
(۲؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر بحوالہ فخر الاسلام القرآن کلام اﷲ غیر مخلوق مصطفی البابی مصر ص۲۶)
(۲۸) مولانا علی قاری شرح فقہ اکبر میں اسے نقل کرکے فرماتے ہیں:
صح ھذا القول اٰیضا عن محمد ۳؎۔
یہ قول امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی سے بھی بسند صحیح مروی ہوا،
(۲؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر بحوالہ فخر الاسلام القرآن کلام اﷲ غیر مخلوق مصطفی البابی مصر ص۲۶)
(۲۹ و ۳۰) فصر عمادی پھر فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
من قال بخلق القراٰن فھوا کافر۴؎ الخ۔
جس نے قرآن کے مخلوق ہونے کا قول کیا وہ کافر ہے۔ (ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیہ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور ۲/۲۶۶)
(۳۱) خلاصہ میں ہے:
معلم قال تاقرآن آفریدہ شدہ است پنچ شنبہی نہادہ شدہ است یکفر۵؎ الخ۔
اگر معلم نے کہا جب سے قرآن پیدا کیا گیا جمعرات بنائی گئی تو کافر ہوجائے گا الخ۔ (ت)
(۵؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الفاظ الکفرا لجنس التاسع فی القرآن مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴ /۳۸۸)
(۳۲) خزانۃ المفتین میں ہے :
من قال بخلق القراٰن فھو کافر،سئل نجم الدین النسفی عن معلمۃ قالت تاقراٰں افریدہ شد است سیم پنچ شنبی استادنہادہ شدہ است، ھل یقع فی نکاحھا شبھۃ قال نعم لانھا قالت بخلق القرآن ۱؎۔
جس نے خلق قرآن کا قول کیا تو وہ کافر ہے۔ امام نجم الدین نسفی سے ایک معلمہ کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کہا جب قرآن پیدا کیا گیا تیسویں جمعرات استاد رکھا گیا اس معلمہ کے نکاح میں کوئی شبہ واقع ہوگا؟ تو انھوں نے فرمایا: ہاں، کیونکہ اس نے خلق قرآن کا قول کیا ہے۔ (ت)
۱؎ خزانۃ المفتین فصل فی الفاظ الکفر قلمی نسخہ ۱/۱۹۷)
ایہاالمسلمون! امام وہابیہ کے صرف ایک قول کے متعلق صحابہ وتابعین وائمہ مجتہدین وعلمائے دین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے یہ بتیس فتوے ہیں جن کی رو سے اس پر کفر لازم(عہ)، اور اس کے بہت سے اقوال کہ اس کے مثل یا اس سے بھی شنیع ترہیں، ان کا کہناہی کیا ہے ع
اے اللہ! ہم تجھ سے ایمان اور سنت پر خاتمہ مانگتے ہیں، اے عظیم احسان فرمانے والے ! قبول فرما، قبول فرما! (ت)
عہ: لیحمدوا ان المحققین فرقوابین اللزوم والالتزام ثم الایکفیہ مافی ھذا من خسار کامل وبوار تام والعیاذ باﷲ ذی الجلال والاکرام ۱۲منہ۔
محققین نے لزوم اور التزام کے درمیان فرق کیا ہے یہ غنیمت جانیں پھر کیا اسی میں کامل خسارہ اور مکمل ہلاکت کافی نہیں صاحب جلال واکرام ہی کی پناہ ہے ۲۲ منہ (ت)
یہ چار تازیانےخاص ا س امر کے اظہار میں تھے کہ مولائے نجدیہ نے اس ایک قول میں کتنی کتنی بد مذہبیاں کیں، معتزلیت کرامیت وغیرہما کس کس طرح کی ضلالتیں لیں، کیسا کیسا عقائد اجماعیہ اہل سنت کو جٹھلایا، اللہ عزوجل کی جناب میں گستاخی وبے ادبی کو کس نہایت تک پہنچایا، جب بحمداللہ تضلیل مستدل سے فراغت پائی بتوفیق تعالٰی تذلیل دلیل کی طرف چلئے یعنی اس ہذیان دوم میں جو اس نے امکان کذب باری پرایک فریبی مغالطہ دیا، اس کارد بلیغ سنئے، ذرا اس کی تقریر مغالطہ پر پھرایک نظر ڈال لیجئے کہ تازہ ہوجائے، حاصل اس کلام پریشان کا یہ تھا کہ عدم کذب باری تعالٰی کہ صفات کمال سے ہے، جس سے اس کی مدح کی جاتی ہے، در صفت (عہ۱) کمال وقابل مدح ہےکہ کذب پر قادر ہو کر اس سے بچے ، سرے سے قدرت ہی نہ ہوئی، تو عدم کذب میں کیا خوبی ہے، پتھر کی کوئی تعریف نہ کرے گا کہ جھوٹ نہیں بولتا۔ یوہیں جو کذب کا ارادہ کرے مگر کسی مانع کے سبب بول نہ سکے عقلا اس کی بھی مدح نہ کریں گے، اب بتوفیق اللہ تعالٰی پہلے تقوض اجماع لیجئے، پھر حل مغالطہ کا مژدہ دیجئے،
واﷲ الھادی وولی الایادی
(اللہ تعالٰی ہی ہادی ہے اور مدد کا مالک ہے۔ت)
عہ۱: اقول اس احمق کا سارا ہذیان دفع کرنے کو صرف اتنا جملہ کافی جو تنزیہ دوم میں زیر دلیل بست وچہارم گزرا کہ اللہ عزوجل پر ہر وہ شے بھی محال جو کمال سے خالی ہو اگرچہ نقص نہ رکھتی ہو ظاہرہے کہ نفی کمال سے مدح ہونے سے رہی مدح اس کی نفی سے ہوگی جو کمال نہیں، اور جو کچھ نہیں وہ باری عزوجل کے لئے محال ، ایمان ٹھیک ہوتویہی دو حرف بس ہیں ۱۲ منہ
تازیانہ ۵: رب عزوجل فرماتاہے:
وما انابظلام للعبید ۱؎
میں بندوں کے حق میں ستمگر نہیں۔ اور فرماتاہے :
لایظلم ربک احدا ۲؎
تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اورفرماتاہے :
ان اﷲ لایظلم مثقال ذرۃ ۳؎
بیشک اللہ تعالٰی ایک ذرے برابر ظلم نہیں فرماتا۔
(۱؎ القرآن الکریم ۵۰ /۲۹) (۲؎ القرآن الکریم ۱۸/ ۴۹) (۳؎ القرآن الکریم ۴ /۴۰)
اقول ان آیات میں مولٰی عزوجل نے عدم ظلم سے اپنی مدح فرمائی، کیوں (عہ۲) ملاجی! بھلا جو ظلم پر قدرت ہی نہ رکھے اس کی بے ظلمی کی کیا تعریف، یوں تو پتھر کی بھی ثنا کیجئے کہ ظلم نہیں کرتا، اسی طرح جو صوبہ چاہے مگر حاکم بالا کاخوف مانع آئے اسکی بھی مدح نہ کریں گے۔ تو لاجرم باری عزوجل کو ظلم پر قادر رکھئے گا،
عہ۲: بحمدا للہ یہ نقض نہ رفیع بدیع ملائے شفیع کی ساری تقریر فظیع کو سراپا حاوی جس سے اس کے ہذیانوں کا ایک حرف نہ بچ سکے، اس تقریر پریشان کو پیش نظر رکھ لیجئے اور یوں کہہ چلئے ظلم الٰہی محال نہیں ورنہ لازم آئے کہ قدرت انسانی قدرت ربانی سے زائد ہو کہ ظلم وستم اکثر آدمیوں کی قدرت میں ہے، ہاں ظلم خلاف حکمت ہے تو ممتنع بالغیر ہو، اسی لئے عدم ظلم کو کمالات حضرت حق سبحانہ سے گنتے اور اس سے اس کی تعریف کرتے ہیں بخلاف شجر وحجر کہ انھیں کوئی عدم ظلم سے ستائش نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ صنعت کمال یہی ہے کہ ظلم پر قدرت تو ہو مگر بر عایت مصلحت ومقتضائے حکمت الائش ستمگاری سے بچنے کو ظلم نہ کرے، ایساہی شخص سلب عیب ظلم واتصاف کمال عدل سے ممدوح ہوگا بخلاف اس کے جس کے اعضاء وجوارح بیکار ہوگئے ہوں کہ ظلم کرہی نہیں سکتا یا قوت متفکرہ فاسد ہوگئی ہے کہ معنی ظلم سمجھنے اور اس کا قصد کرنے ہی سے عاجز ہے یا وہ شخص کہ جب عدل وانصاف کا حکم دے تو یہ حکم اس سے صادر ہوا ور جب ظلم کا حکم چاہے آواز بند ہوجائے یازبان نہ چلے یاکوئی منہ بند کرلے یا گلا دبادے یا ایک شخص کسی سے سیکھ کر حکم کرتاہے آپ حکم دینا جانتا ہی نہیں اور وہ بتانے والا اسے احکام عدل وانصاف ہی بتاتاہے اس وجہ سے ظلم صادر نہیں ہوتا، یہ لوگ عقلاء کے نزدیک قابل مدح نہیں بالجملہ عیب ظلم سے ترفع اور اس کی آلائش سے تنزہ کے لئے ظلم نہ کرناہی صفت مدح ہے اور عجز ہو تو کچھ مدح نہیں، یا ا سکی مدح پہلے کی مدح سے بہت کم ہے انتہٰی ملاحظہ کیجئے نقض اسے کہتے ہیں کہ نام کو لگی نہ رکھے واﷲ الموفق ۱۲ منہ سلمہ
سبحان اﷲ! تم سے کیا دور جب کذب وغیرہ وآلائش پر قدرت مان چکے تو ظلم میں کیا ستم رکھاہے مگر اتنا سمجھ لیجئے کہ ظلم کہتے ہیں ملکِ غیرمیں تصرف بے جاکو، جب باری سبحانہ و تعالٰی کو اس پر قادر مانئے گا توپہلے بعض اشیاء کو اس کی ملک سے خارج اور غیر کی ملک مستقل مان لیجئے، مسلمانوں کو تو بزور زبان زور وبہتان مشرک کہتے ہو خود سچے پکے کافر بن جائے، قال تعالٰی :
ﷲ مافی السمٰوٰت ومافی الارض ۱؎
اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں۔
وقال تعالٰی : قل لمن مافی السمٰوٰت والارض قل ﷲ ۲؎
تو فرماؤ کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے تو فرماؤ اللہ تعالٰی کاہے، وقال تعالٰی ؛
ام لھم شرک فی السمٰوٰت ۳؎
کیا ان کاساجھا ہے آسمانوں میں، ولہذا اہل سنت وجماعت کا اجماع قطعی قائم کہ باری جل مجدہ سے ظلم ممکن ہی نہیں۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲ /۲۸۴ و ۴/ ۱۲۶)
(۲؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۲) (۳؎ القرآن الکریم ۳۵/ ۴۰ و ۴۶/ ۴)
شرح فقہ اکبر میں ہے :
لایوصف اﷲ تعالٰی بالقدرۃ علی الظلم لان المحال لایدخل تحت القدرۃ وعند المعتزلۃ انہ یقدر ولایفعل ۱؎۔
باری تعالٰی کو ظلم پر قادر نہ کہا جائے گا کہ محال زیر قدرت نہیں آتا، اور معتزلہ کے نزدیک قادر ہے اور کرتانہیں۔
(۱؎منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر باب لایوصف اللہ تعالٰی بالقدرۃ علی الظلم مصطفی البابی مصر ص۱۳۸)
بیضاوی وعمادی وغیرہما تفاسیر میں ہے:
الظلم یستحیل صدورہ عنہ تعالٰی۲؎ اھ ملخصا۔
اللہ تعالٰی سے ظلم صادر ہونا محال ہے۔
(۲؎ انوار التنزیل (بیضاوی) آل عمران آیۃ وما اﷲ یرید ظلما اللعلمین (نصف اول) مصطفی البابی مصر ص۶۹)
تفسیر روح البیان میں ہے :
الظلم محال منہ تعالٰی۳؎
اللہ تعالٰی سے ظلم محال ہے۔
(۳؎ روح البیان تحت آیۃ وما انا بظلام للعبید المکتبۃ الاسلامیہ لصحاحبہا الریاض جزء ۲۶ ص۱۲۶)
تفسیر کبیر میں ہے :
الذی یدل علی ان الظلم محال من اﷲ تعالٰی ان الظلم عبارۃ عن التصرف فی ملک الغیر، والحق سبحانہ لایتصرف الافی ملک نفسہ فیمتنع کونہ ظالما وایضا الظالم لایکون الھا والشیئ لایصح الااذکانت لوازمہ صحیحۃ فلوصح منہ الظلم لکان زوال الھٰیتہ صحیحا وذٰلک محال ۴؎ اھ ملخصا۔
ظلم الٰہی محال ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ظلم ملک غیر میں تصرف (عہ۱) سے ہوتاہے اور حق سبحانہ تعالٰی جو تصرف کرے یا اپنی ہی ملک میں کرتاہے تو اس کا ظلم ہونا محال اور نیز ظالم (عہ۲)خدا نہیں ہوتا اور شے جبھی ممکن ہوتی ہے کہ اس کے سب لوازم ذاتیہ ممکن ہوں، تو اگر ظلم الٰہی ممکن ہو تو لازم ظلم یعنی زوال الوہیت بھی ممکن ہو یہ محال ہے اھ ملخصاً۔
عہ۱: لایخفی علی الفطن الفاھم فرق بین تعبیر الاصل وعبارۃ العبد المترجم ۱۲ منہ۔
صاحب ذہن وفہم کے لئے اصل اور مترجم کی عبارت میں فرق واضح ہے ۱۲ منہ (ت)
عہ۲: یعنی ظلم والوہیت کا جمع ہونا ناممکن کہ ظلم عیب ہے اور الوہیت ہرعیب کو منافی تو صدور ظلم کو عدم الوہیت لازم ۱۲ منہ۔
(۴؎ مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر) آیۃ ان اﷲ لا یظلم مثقال ذرہ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر۱۰/ ۱۰۲)
اسی میں زیر قولہ تعالٰی
ونضح الموازین القسط الیوم القیٰمۃ ۵؎
الاٰیۃ لکھتے ہیں :
الظالم سفیہ خارج عن الاٰلھیۃ فلوصح منہ الظلم لصح خروج عن الالٰھیۃ ۱؎۔
ظالم بے وقوف ہے خدائی سے خارج تواگر خدا سے ظلم ممکن ہو تو اس کا خدائی سے نکل جانا ممکن ہو،
تفسیر کبیر کی وہی عبارت ہے جس کا ہم تازیانہ اول میں وعدہ کرآئے تھے،۔
تازیانہ۶: قال ربنا تبارک وتعالٰی :وقول الحمد اﷲ الذی لم یتخذولدا ۲؎۔
تو کہہ سب تعریفیں اس خدا کو جس نے اپنے لئے بیٹا نہ بنایا۔
(۲؎ القرآن الکریم ۱۷/ ۱۱۱)
وقال تعالٰی حاکیا عن الجن : وانہ تعالٰی جد ربنا مااتخذ صاحبۃ ولاولدا ۳؎۔
بے شک بڑی شان ہے ہمارے رب کی جس نے اپنے لئے نہ عورت اختیار کی نہ بچہ۔
(۳؎ القرآن الکریم ۷۲ /۳)
اقول ان آیات میں سبوح قدوس جل جلالہ نے یوں اپنی تعریف فرمائی، اب بھلا میاں جی کہیں اپنی دلیل سے چوکتے ہیں، ضرو کہیں گے کہ ان کا خدائے موہوم چاہے تو بیاہ کرے، بچے جنائے، مگر عیب ولوث سے بچنے کو فرد رہتاہے، جب تو صفت مدح ٹھہری ورنہ سرے سے قدرت ہی نہ ہو تو خوبی ہی کیا ہے، یحیٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو فرمایاگیا:
سیدا وحصورا ۴؎
سردار اورعورتوں سے پرہیز رکھنے والا، احیز نامرد کی کون تعریف کرے گا کہ عورتوں سے بچتا ہے۔''
(۴؎ القرآن الکریم ۳/ ۳۹)
تازیانہ ۷: قال المولٰی سبحانہ وتعالٰی : وما کان ربک نسیا ۵؎
تیرا رب بھولنے ولا نہیں،
اقول اب دہلوی ملا اپنی ہذیانی دلیل کو آیہ کریمہ میں جاری کر دیکھئے، ''رب تعالٰی ذکرہ، نے عدم نسیان سے اپنی مدح فرمائی او رصفت کمال وقابل مدح یہی ہے کہ باجود امکان نسیان عیب ولوث سے بچنے کو اپنے علوم حاضر رکھے، پتھر کی کوئی تعریف نہ کرے گا کہ یہ بات نہیں بھولتا حالانکہ عدم نسیان قطعا اسے بھی حاصل ، یوہیں اگر ایک شخص بالقصد کسی مسئلہ کو بھلا دینا چاہتاہے اور عمدا اپنے دل کو اس کی یاد سے پھیرتاہے، مگر جب بھولنے پر آتاہے کوئی یاد لاتاہے یوں بھلانے پر قدرت نہیں پاتا عقلا ایسے شخص کو بھی عدم نسیان سے مدح نہ کریں گے تولاجرم واجب کہ باری سبحانہ کا نسیان ممکن ہو اور وہ اپنے علوم بھلادینے پر قادر" تعالٰی اﷲ عن ذٰلک علوا کبیرا (اللہ تعالٰی اس سے بہت بلند ہے۔ ت)