Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
63 - 150
تازیانہ ۲:
  اقول وباﷲ التوفیق، ایہا المسلمون!
حاشا یہ نہ جاننا کہ باری عزوجل کا عیوب و نقائص سے ملوث ہونا اس شخص کے نزدیک صرف ممکن ہی نہیں ہے، نہیں نہیں بلکہ یقینا اسے بالفعل ناقص جانتا اور کمال حقیقی سے دور مانتا ہے، اے مسلمان! کمال حقیقی یہ ہے کہ اس صاحب کمال کی نفس ذات مقتضی جملہ کمالات ومنافی تولثات ہو اور قطعا جو ایسا ہوگا اسی پر ہر عیب ونقصان محال ذاتی ہوگا کہ ذات سے مقتضائے ذات کا ارتفاع یکاذات یا منافی ذات کا اجتماع دونوں قطعا بدیہی الامنتاع، اور بیشک ہم اہلسنت اپنے رب کو ایسا ہی مانتے ہیں، اور بیشک وہ سچے کمال والا ایسا ہی ہے، اس شخص نے کہ اس عزیز جلیل پر عیب و نقصان کا امکان مانا تو قطعا کمالات کو اس کا مقتضائے ذات نہ جانا تو یہ کمال حقیقی سے بالفعل خالی اور حقیقۃ ناقص وفاقد مرتبہ عالی ہوا، آج وجہ معلوم ہوئی کہ یہ طائفہ تالفہ اپنے آپ کو موحد اور اہلسنت کو مشرک کیوں کہتاہے، اس کے زعم میں اللہ عزوجل کے لئے اثبات کمالات واجبہ للذات شرک ہے کہ لفظ وجوب جو مشترک ہوجائے گا اگرچہ وجوب بالذات ووجوب للذات کا فرق اس طفل مکتب پر بھی مخفی نہیں جو  اربعہ وزجیت کی حالت جانتاہے، ولہذا اس فرقہ ضالہ نے باتباع کرامیہ کمالات الٰہیہ کو مقتضائےذات نہ ٹھہرایا تو جیسے معتزلہ نے تعدد قدماء سے بچنے کونفی صفات کی اور اپنا نام اصحاب التوحید رکھا، یونہی اس طائفہ جدید نے اشتراک لفظ وجوب سے بھاگنے کو نفی اقتضائے ذات کی اور اپنا نام موحد تراشا، وفی ذلک اقول ؎
خَسِرَالَّذِیْنَ بِالْاِعْتِزَا        لِ وَبِالتَّوَھُّبِ جَاءُوا

ذَا    اَھْلُ تَوْحِیْدٍ وَذَا        کَ مُوَحَّد غَوَاء

نعم القلوب تشابھت     فتناسب الاسماء ۱
(خسارے میں مبتلا ہیں جو معتزلی اور وہابی بنے، معتزلی اہل توحید اور وہابی موحد گمراہ، ان کے دل ایک جیسے ہیں

اور ناموں میں بھی مناسب ہے۔ ت)
 (۱؎ الدیوان العربی بساتین الغفران    رضا دارالاشاعت الاہور    ص۱۴۷)
تنبیہ نبیہ: جہول سفیہ کو جب کہ اس کے استاذ قدیم ابلیس رحیم علیہ اللعن نے یہ نقصان وتلوث باری عزوجل کا مہلکہ سکھایا، تو دوسری کتاب افصاح الباطل مسمٰی بہ اٰیضاح الحق میں ترقیق ضلال وشدت نکال کا رستہ دکھایا ،

یعنی اس میں نہایت دردیدہ دہنی مسائل وتقدیس باری تعالٰی  عزوجل کو جن پر تمام اہلسنت کااجماع قطعی ہے 

صاف بدعت حقیقۃ بتایا، جری بیباک کی وہ عبارتِ ناپاک یہ ہے :
تنزیہ اوتعالٰی  اززمان ومکان وجہت واثبات رؤیت بلاجہت ومحاذات وقول بصدور عالم برسبیل ایجاب واثبات قدم عالم وامثال آں ہمہ از قبیل بدعات حقیقیہ است اگر صاحب آں اعتقادات مذکورہ را از جنس عقائد دینیہ می شمارد۲؎ اھ ملخصا۔
زمان، مکان، جہت اور رؤیت بلاجہت ومحاذات سے اللہ تعالٰی کو پاک کہنا اورجہاں کا صدور بطور ایجاب وعالم کا قدم ثابت کرنا اور ایسے دیگر امور یہ تمام حقیقی بدعات ہیں جبکہ مذکور اعتقاد والے لوگ ان مذکورہ امور کو دینی عقائد میں شمار کرتے ہیں اھ ملخصا (ت)
(۲؎ ایضاح الحق الصریح (مترجم اردو) فائدہ اول	 ان امور کابیان جو بدعت حقیقیہ میں داخل ہیں   قدیمی کتب خانہ کراچی    ص۷۸، ۷۷)
دیکھو کیسا بے دھڑک لکھ دیا کہ اللہ عزوجل کی یہ تنزیہیں کہ اسے زمانہ ومکان وجہت سے پاک جاننا اور اس کا دیدار بلاکیف حق ماننا سب بدعت حقیقیہ ہیں، سچ ہے جب اللہ تعالٰی     کے لئے ہر عیب وآلائش کو ممکن ماننا سنت ملعونہ امام نجدیہ ہے تو اس عزیز مجید جل مجدہ کی تنزیہ وتقدیس آپ ہی بدعت حقیقیہ شریعت وہابیہ ہوگی، وہی حساب ہے ع
کہ تو ہم درمیان ماتلخی
 (کہ تو بھی مصیبت میں مبتلا ہے۔ ت)

مشرکین بھی تو دین اسلام کو بدعت بتاتے تھے،
ماسمعنا بھذا فی الملۃ الاٰخرۃ ج  صلے ان ھذا الاختلاق o۱؎
یہ تو ہم نے سب سے پچھلے دین نصرانیت میں بھی نہ سنی یہ تو نری نئی گھڑت ہے (ت)
(۱؎ القرآن الکریم  ۳۸/ ۷)
خیریہاں تک تو نری بدعت ہی بدعت تھی، آگے شراب ضلالت تیز وتند ہوکر اونچی چڑھی اور نشے کی ترنگ کیف کی امنگ دون پر آکر کفر تک بڑھی کہ اللہ عزوجل کا پاک ومنزہ اور دیدار الٰہی کو بے جہت ومقابلہ ماننے کو مخلوقات کے قدیم جاننے اور خالق کو بے اختیار ماننے کے ساتھ گنا اور اسے ان ناپاک مسئلوں کے ساتھ کہ باجماع مسلمین کفر محض ہیں، ایک حکم میں شریک کیا، اب کیا کہا جائے سوااس کے کہ
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۲؎
(اب جاننا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائی گے، ت)
 (۲؎ القرآن الکریم  ۲۶ /۲۲۷)
ولا حوال ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم،
اچھے امام اور اچھے ماموم ع

مذہب معلوم واہل مذہب معلوم
تازیانہ ۳:
اقول وباﷲ التوفیق
(میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ تعالٰی     سے ہے۔ ت) سفیہ سحیق کی اور جہالت وضلالت دیکھئے خود مانتا جاتاہے کہ صدق اللہ عزوجل کی صفات کمالیہ سے ہے، حیث قال صفت کمال ہمیں ست ۳؎ الخ (جہاں اس نے یہ کہا صفت کمال یہی ہے الخ۔ ت)
(۳؎ رسالہ یکروزی (فارسی) فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷)
پھر اسے امر اختیاری جانتاہے کہ باری تعالٰی  نے باوجود قدرت عدم برعایت مصلحت بطور ترفع اختیار فرمایا، اہل سنت کے مذہب میں اللہ عزوجل کے کمالات اس کے یا کسی کے قدرت واختیار سے نہیں بلکہ باقتضائے نفس ذات بے توسط قدرت وارادہ و اختیار اس کی ذات پاک کے لئے واجب ولازم ہیں نہ کہ معاذاللہ وہ اس کی صنعت یا ان کا عدم اسکے زیر قدرت، تمام کتب کلامیہ اس کی تصریح سے مالا مال، وہ احادیث وآثار تمھارے کان تک بھی پہنچے ہوں گے جن میں کلام الٰہی کو باختیار الٰہی ماننے والا کافر ٹھہرا ہے، اور عجب نہیں کہ بعض ان میں سے ذکر کروں، مجھے یہاں حیرت ہے کہ اس بیباک بدعتی کو کیونکر الزادم دوں، اگر یہ کہتاہوں کہ صفات کمالیہ الٰہی کا اختیاری اور ان کے عدم کا زیر قدرت باری نہ ہونا ائمہ اہلسنت کا مسئلہ اجماعی ہے تو اس نے جیسے اوپر مسائل اجماعیہ تنزیہ وتقدیس کو بدعت حقیقیہ لکھ دیا یہاں کہتےکون اس کی زبان پکڑتاہے کہ ائمہ اہل سنت سب بدعتی تھے، اور اگریوں دلیل قائم کرتاہوں کہ صفت کمال کا اختیاری اور اس کے عدم کازیر قدرت ہونا مستلزم عیب ومنقصت ہے کہ جب کمال اختیاری ہوا کہ چاہے حاصل کیا یا نہ کیا تو عیب ونقصان روا  ٹھہرا اور مولٰی  سبحانہ وتعالٰی   کا موصوف بصفات کمالیہ ہونا کچھ ضروری نہ ہوا تو یہ اس بدمشرب کاعین مذہب ہے وہ صاف لکھ چکا کہ باری عزوجل میں عیب وآلائش کا ہونا ممکن،مگر ہاں ان پیروؤں سے اتنا کہوں گا کہ آنکھ کھول کر دیکھتے جاؤں کس معتزلی کرامی کو امام جانتے ہو جو صراحۃ عقائد اجماعیہ اہل سنت وجماعت کو رد کرتا جاتاہے، پھر نہ کہنا کہ ہم سنی ہیں۔
تنبیہ نبیہ: حضرت نے صفات کمالیہ باری جل وعلا کا اختیاری ہونا کچھ فقط صفت صدق ہی میں نہ لکھا بلکہ مستلزم علم الٰہی میں بھی اس کی تصریح کی، کتاب تقویۃ الایمان مسمی بہ تقویت الایمان، ع
برعکس نہند نام زنگی کافور
 (سیاہ حبشی کانام الٹ کر کافور رکھتے ہیں۔ ت)

میں صاف لکھ دیا: ''غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہو کہ جب چاہئے کرلیجئے یہ اللہ صاحب ہی کی شان ہے''۱؎
 (۱؎ تقویۃ الایمان  الفصل الثانی ردالاشراک فی العلم   مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور    ص۱۴)
حاشا اللہ! اللہ عزوجل پر صریح بہتان ہے، دیکھو یہاں کھلم کھلا اقرار کر گیا کہ اللہ تعالٰی  چاہے تو علم حاصل کرلے چاہے جاہل رہے، شاباش بہادر، اچھا ایمان رکھتاہے خدا پر، اہل سنت کے مذہب میں ازلا ابدا ہر بات کو جاننا ذات پاک کو لازم ہے کہ نہ وہ کسی کے ارادہ واختیار سے نہ اس کا حاصل ہونا یا زائل ہوجانا کسی کے قابو و اقتدار میں، پیر وصاحبو! ذرا پیر طائفہ کی بدمذہبیاں گنتے جاؤاور اپنے امام معظم کے لئے ہم اہلسنت کے امام اعظم ہمام امام الائمہ سراج الامہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی     عنہ کے ارشاد واجب الانقیاد کا تحفہ لو، فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
صفاتہ تعالی فی الازل غیر محدثۃ ولامخلوق فمن قال انھا مخلوقۃ او محدچۃ اووقف فیھا اوشک فیھا فھو کافر باﷲ تعالٰی ۲؎۔ صفات الٰہی ا
زلی ہیں، نہ حادث نہ کسی کے مخلوق تو جو انھیں مخلوق یاحادث بتائے یا ان میں تردد کرے یا شک لائے وہ کافر ہے اور اللہ تعالٰی کا منکر۔
(۲؎ الفقۃ الاکبر   مطبوعہ ملک سراج الدین اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور   ص۴)
اقول وجہ اس کی وہی ہے کہ صفات مقتضائے ذات تو ان کا حادث وقابل فنا ہونا ذات کے حدوث وقابلیت کو مستلزم، اور یہ عین انکار ذات ہے، والعیاذ باللہ رب العالمین۔
Flag Counter