Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
62 - 150
تازیانہ ۱: اقول العزۃ ﷲ والعظمۃ ﷲ واﷲ الذی الا الہ الاھو
(عزت اللہ تعالٰی کے لئے اور عظمت اللہ تعالٰی کے لئے ہے، اللہ کی ذات وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ت)
کبرت کلمۃ تخرج من افواھم ط ان یقولون الا کذبا ۲؎
(کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے نرا جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ ت) ﷲ! یہ ظلم شدید و ضلال بعید تماشا کردنی کہ جابجا خود اپنی زبان سے کذب کو عیب ولوث کہا جاتاہے پھر اسے باری عزوجل کےلئے ممکن بتاتا اور اللہ کے جھوٹ نہ بولنے کی وجہ یہ ٹھہراتا ہے کہ حکیم ہے اور مصلحت کی رعایت کرتاہے لہذا ترفعا عن عیب الکذب وتنزہا عن التلوث بہ یعنی اس لحاظ سے کہ کہیں عیب دلوث سے آلودہ نہ ہوجاؤں کذب سے بچتاہے، دیکھو صاف صریح مان لیا کہ باری عزوجل کاعیب دار وملوث ہونا ممکن، وہ چاہے تو ابھی عیبی وملوث بن جائے، مگر یہ امر حکمت ومصلحت کے خلاف ہے اس لئے قصدا پرہیز کرتاہے تعالٰی اﷲ
عما یقولون علوا کبیرا
(اللہ تعالٰی  اس سے کہیں بلند ہے جویہ کہتے ہیں۔ ت) اور خود سرے سے اصل مبنائے خود سری دیکھئے، ملائے مقبوح کا یہ املائے مقدوح اس کلام آئمہ کے رد میں ہے کہ کذب نقص ہے اور نقص باری تعالٰی  پر محال، اس کے جواب میں فرماتے ہیں، محال بالذات ہونا ہمیں تسلیم نہیں بلکہ ان دلیلوں (یعنی دونوں ہذیانوں) سے ممکن ہے تو کیسی صاف روشن تصریح ہے کہ نصرف کذب بلکہ ہر عیب وآلائش کا خدا میں آنا ممکن، واہ بہادر! کیا نیم گردش چشم میں تمام عقائد تنزیہ وتقدیس کی جڑکاٹ گیا، عاجز ، جاہل،
(۲؎ القرآن الکریم     ۱۸/ ۵)
احمق، جاہل، اندھا، بہرا، ہکلا، گونگا سب کچھ ہونا ممکن ٹھہرا، کھانا، پینا، پاخانہ پھرنا، پیشاب کرنا، بیمار پڑنا، بچہ جننا، اونگھنا، سونابلکہ مرجانا، مرکے پھر پیدا ہونا سب جائز ہوگیا، غرض اصول اسلام کے ہزاروں عقیدے جن پر مسلمانوں کے ہاتھ میں یہی دلیل تھی کہ مولٰی عزوجل پر نقص وعیب محال بالذات ہیں، دفعۃ سب باطل وبے دلیل ہوکر رہ گئے، فقیر تنزیہ دوم میں زیر دلیل اول ذکر کر آیا کہ یہ مسئلہ کیسی عظمت والااصل دینی تھا جس پر ہزار ہا مسئلہ ذات وصفات بار عزوجل متفرع ومبنی، اس ایک کے انکار کرتے ہی وہ سب اڑ گئے، وہیں شرح مواقف سے گزرا کہ ہمارے لئے معرفت صفات باری کی طرف کوئی راستہ نہیں مگر افعال الٰہی سے استدلال یا یہ کہ اس پر عیوب ونقائص محال، اب یہ دوسرا راستہ تو تم نے خود ہی بند کردیا، رہا پہلا یعنی افعال سے دلیل لاناکہ اس نے ایسی عظم چیزیں پیدا کردیں اور ان میں یہ حکمتیں ودیعت رکھیں، تو لاجرم ان کا خالق بالبداہۃ علیم وقدیر وحکیم ومرید ہے،
اقول اولا : یہ استدلال صرف انھیں صفات کمال میں جاری جن سے خلق وتکوین کو علاقہ داری باقی ہزار ہا مسائل صفات ثبوتیہ وسلبیہ پر دلیل کہاں سے آئے گی، مثلا مصنوعات کا ایسا بدیع ورفیع ہونا ہرگز دلالت نہیں کرتا کہ ان کا صانع صفت کلام یا صفت صدق سے بھی متصف، یا نوم واکل وشرب سے بھی منزہ ہے،
ثانیا جن صفات پر دلالت افعال وہاں بھی صرف ان کے حصول پر دال، نہ یہ کہ ان کا حدوث ممنوع یا زوال محال، مثلا اس نظم حکیم وعظیم بنانے کے لئے بیشک علم وقدرت وارادہ وحکومت درکار مگرا س سے صرف بناتے وقت ان کا ہونا ثابت ہمیشہ سے ہونے اور ہمیشہ رہنے سے دلیل ساکت، اگر دلائل سمعیہ کی طر ف چلئے،؎
اقول اولا بعض صفات سمع پر متقدم تو ان کا سمع سے اثبات دور کو مستلزم۔

ثانیا سمع بھی صرف گنتی کے سلوب وایجابات میں وارد ان کے سوا ہزاروں مسائل کس گھر سے آئیں گے مثلا نصوص شرعیہ میں کہیں تصریح نہیں کہ باری عزوجل اعراض وامراض وبول وبراز سے پاک ہے، اس کا ثبوت کیاہوگا۔

ثالثا نصوص بھی فقط وقوع وعدم پر دلیل دیں گے، وجوب استحالہ وازلیت وابدیت کا پتا کہاں چلے گا مثلا
بکل شیئ علیم ۱؎علٰی کل شیئ قدیر ۲؎o
(سب کچھ جانتاہے، ہر شی پر قادر ہے۔ ت) سے بیشک ثابت کہ اس کے لئے علم وقدرت ثابت یہ کب نکلا کہ ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے، اور ان کا زوال اس سے محال،
 (۱؎ القرآن الکریم    ۲ /۲۹)		(۲؎ القرآن الکریم        ۲ /۲۰)
یونہی
وھو یطعم ولا یطعم ط۱؎۔
(اور وہ کھلاتاہے اور کھانے سے پاک ہے۔ ت)اور
لاتأخذہ سنۃ ولانوم ۲؎
(اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند۔ ت) کااتنا حاصل کہ کھاتا پیتا سوتا اونھگتا نہیں، نہ یہ کہ یہ باتیں اس پر ممتنع،
 (۱؎ القرآن الکریم    ۶ /۱۴) 		(۲؎ القرآن الکریم        ۲/ ۲۵۵)
ہاں ہاں ان سب امور پر دلالت قطعی کرنے والا ان تمام دعوائے ازلیت وابدیت ووجوب وامتناع پر بوجہ کامل ٹھیک اترنے والا ہزاروں ہزار مسائل صفات ثبوتیہ وسلبیہ کے اثبات کا یکبارگی سچا ذمہ لینے والا، مخالف ذی ہوش غیر مجنون ومدہوش کے منہ میں دفعۃ بھاری پتھر دے دینے والانہ تھا مگروہی دینی یقینی عقلی بدیہی اجماعی ایمانی مسئلہ کہ باری تعالٰی     پر عیب ومنقصت محال بالذات ۔ جب یہی ہاتھ سے گیا سب کچھ جاتارہا، اب نہ دین ہے نہ نقل نہ ایمان نہ عقل،
   اناﷲ وانا الیہ راجعون ۳؎o کذلک یطبع اﷲ علی کل قلب متکبر جبار ۴؎o
ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے، اللہ یوں ہی مہر کردیتاہے متکبر سرکش کے سارے دل پر۔ (ت)
(۳؎ القرآن الکریم       ۲/ ۱۵۶)		(۴؎ القرآن الکریم  ۴۰/ ۳۵)
ہاں وہابیہ نجدیہ کو دعوت عام ہے اپنے مولائے مسلم وامام مقدم کا یہ ہذیان امکان ثابت مان کر ذرا بتائیں تو کہ ان کا معبود بول وبراز سے بھی پاک ہے یا نہیں۔ حاش للہ! امتناع تو امتناع عدم وقوع کے بھی لالے پڑیں گے، آخر قرآن وحدیث میں توکہیں ا س کا ذکر نہیں، نہ افعال الٰہی ا س نفی پر دلیل، اگر اجماع مسلمین کی طرف رجوع لائیں اور بیشک اجماع ہے مگر جان برادر! یہ بیشک ہم نے یونہی کہا کہ یہ عیب ہیں اور عیب سے تنزیہ ہر مسلمان کا ایمان تو قطعا کوئی مسلم ان امور کو روانہ رکھے گا، جب عیب سے تلوث ممکن ٹھہرا تواب ثبوت اجماع کا کیا ذریعہ رہا، کیا نقل وروایت سے ثابت کرو گے، حاشا نقل اجماع درکنار سلفا وخلفا کتابوں میں اس مسئلے کا ذکر ہی نہیں، اگر کہئے بول وبراز کا وقوع ایسے آلات جسمانیہ پر موقوف جن سے جناب باری منزہ، تو اولا ان آلات کے بطور آلات نہ اجزائے ذات ہونے کے استحالہ پر سوا اس وجوب تنزہ کے کیا دلیل جسے تمھارا ۤامام ومولٰی  روبیٹھا۔
ثانیا توقف ممنوع آخر بے آلات زبان ومرد مک وپردہ گوش کلام بصر وسمع ثابت، یونہی بے آلات  بول وبراز سے کون مانع، اسی طرح لاکھوں کفریات لازم آئیں گے کہ تمھارے امام کا وہ بہتان امکان تسلیم ہوکر قیامت تک ان سے مفر نہ ملے گی۔
کذلک لیحق الحق ویبطل الباطل ولوکرہ المجرمون ۱؎۔
اسی طرح کہ سچ کو سچ کرے اور جھوٹ کو جھوٹا اگرچہ برا مانیں مجرم (ت)
 (۱؎ القرآن الکریم        ۸/۸)
مسلمانوں نے دیکھا کہ اس طائفہ تالفہ کے سردار وامام مدعی اسلام نے کیا بس بویااور کیا کچھ کھویا اور لاکھوں  عقائد اسلام کو کیسے ڈبویا، ہزاروں کفر شنیع وضلال کا دروازہ کیسا کھولا کہ اس کا مذہب مان کر کبھی بند نہ ہوگا۔ پھر دعوٰی یہ ہے کہ دنیا پھر میں ہمیں  موحد ہیں باقی سب مشرک، سبحان اللہ یہ منہ اور یہ دعوٰی ،اورناقص وعیبی وملوث خدا کے پوجنے والے! کس منہ سے اپنے تراشیدہ موہوم کو حضرت سبحانہ کہتاہے، سبحان اللہ وہی تو سبحانہ کے قابل جس میں دنیابھر کے عیبوں آلائشوں کا امکان حاصل، العزۃ للہ میں اپنے رب ملک سبوح قدوس عزیز مجید عظیم جلیل کی طرف بہزار جان وصد ہزار جان براءت کرتاہوں تیرے اس عیبی آلائش تراشیدہ معبود اور اس کے سب پوجنے والوں سے، مسلمانو! تمھارے رب کی عزت وجلال کی قسم کہ تمھارا سچا معبود جل وعلا، وہ پاک ومنزہ وسبوح وقدوس ہے جس کے لئے تمام صفات کمالیہ ازلاً ابداً واجب للذات اور اصلا کسی عیب دلوث سے ملوث ہونا جزماًقطعا محال بالذات اس کی پاک قدرت اس ناپاک شناعت سے بری ومنزہ کہ معاذاللہ اپنے عیبی وناقص بنانے پر حاصل ہو،
نعم المولٰی ونعم التصیر ۲؎
( کیا ہی اچھا مولا اور کیا ہی اچھا مدد گار۔ ت)
(۲؎ القرآن الکریم       ۲۲/ ۷۸)
یہ ملا ئے ملوم کا مولائے موہوم تھا جو اپنے لئے عیوب وفواحش پر قدرت تو رکھتاہے مگر لوگوں کے شرم ولحاظ یا ہمارے سچے خدا کے قہر وغضب سے ڈرکر باز رہتاہے۔
ضعف الطالب والمطلوب ۳؎ لبئس المولٰی و لبئس العشیر ۴؎۔
کتنا کمزور چاہنے والا اور جس کو چاہا، بیشک کیا ہی برا مولٰی  اور بیشک کیا ہی برا رفیق۔ (ت)
 (۳؎ القرآن الکریم        ۲۲ /۷۳)	(۴؎ القرآن الکریم        ۲۲ /۱۳)
اوسفید ملوم کذب ظلوم الوہیت ومنقصت باہم اعلٰی  درجہ تنافی پر ہیں، الٰہ وہی ہے جس کے لئے جمیع صفات کمال واجب لذاتہ تو کسی عیب سے اتصاف ممکن ماننا زوال الوہیت کو ممکن جاننا ہے پھر خدا کب رہا،
ولکن الظالمین بایات اﷲ یجحدون ۱؎
(بلکہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔ ت)
(۱؎ القرآن الکریم   ۶/ ۳۳)
عنقریب ان شاء اﷲ تعالٰی     تفسیر کبیر سے منقول ہوگا کہ باری تعالٰی     کےلئے امکان ظلم ماننے کا یہی مطلب کہ اس کی خدائی ممکن الزوال ہے میں گما ن نہیں کرتا کہ اس بیباک کی طرح (مسلمانوں کی تو خدا امان کرے) کسی سمجھ وال کافر نے بھی بے دھڑک تصریح کردی ہو کہ عیب دلوث خدا میں توآسکتے ہیں مگر بطور ترفع یعنی مشیخت بنی رکھنے کے لئے ان سے دور رہتاہے ____ صدق اﷲ (اللہ تعالٰی نے سچ فرمایا۔ ت):
ومن اصدق من اﷲ قیلا۲؎ o

فانھا لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور۳؎ o والعیاذ باﷲ سبحانہ وتعالٰی۔
اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی، بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ (ت
 (۲؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۲۲)		(۳؎ القرآن الکریم     ۲۲/ ۴۶)
ثم اقول طرفہ تماشا ہے کہ خدا کی شان معلم طائفہ کا تو وہ ایمان کہ خدا کے لئے ہر عیب کا امکان اور ارباب طائفہ یوں بے وقت کی چھیڑ کرنا حق ہلکان ''کہ تمام امت (عہ)کے خلاف حق تعالٰی  کے عجز پر عقیدہ ٹھہرانا تو مؤلف کے پیشوایان دین کاہے مؤلف اس پر اظہار افسوس نہیں کرتا۴؎''۔
عہ: یہ عبارت براہین کے اسی صفحہ ۳ کی ہے جس کا خلاصہ صدر استفتاء میں گزرا یہاں ملا گنگوہی صاحب جناب مؤلف یعنی مکر منا مولوی عبدالسمیع صاحب مؤلف انوار ساطعہ پر یوں منہ آتے ہیں کہ تم لوگ اللہ کا عجز مانتے ہو جو محال پر اسے قادر نہیں جانتے ہواور ہم تو اس کے لئے جھوٹ وغیرہ سب کچھ جائز رکھتے ہیں تو عجز تو نہ ہو اگرچہ خدائی گئی، ہزارتف اس بھونڈی سمجھ پر، رہااس مغالطہ عجز کا دنداں شکن حل، وہ اس رسالہ مبارکہ میں جابجا گزرا، سبحان اللہ! محال پر قدرت نہ ہونے کو عجز جاننا الٰہی کیسے نامشخص کی شخیص ہے، واللہ الہادی ۱۲ عفی عنہ۔
 (۴؎ البراہین القاطعہ  مسئلہ خلف وعید قدماء میں مختلف فیہ ہے    مطبع لے ساڈھور     ص۳)
حضرت! ذراگھر کی خبر لیجئے وہاں مولائے طائفہ عجز وجہل وظلم وبخل وسفہ وہزل وغیرہا دنیا بھر کے عیب نقائص کے امکان کا ٹھیکا لے چکے ہیں پھر بفرض غلط اگر کسی نے ایک جگہ عجز مان لیا تو تمھارے امام کے ایمان(عہ۱) پر کیا بے جا کیا، ایک امر کہ خدا کے لئے اس سے کروڑ درجہ بدتر ممکن تھا، اس نے خرمن سے ایک خوشہ تسلیم کرلیا پھر کیا قہر کیا مگر تمھارا امام جو خدا کے ناقص عیبی ملوث آلائشی ہوسکنے  پر ایمان لایا نہ یہ قابل افسوس نہ خلاف امت ہے ،یہ تمھارے پیشوایان دین کی مت ہے، معاذاللہ اس امام کی بدولت طائفہ بیچارے کی کیا بری گت ہے،
عہ۱:  وانتظر ماسنلقی علیک ان السفیہ قائل بالامکان الوقوعی بالوقوع لابمجرد الامکان الذاتی ۱۲ منہ سلمہ اﷲ تعالٰی 

ہماری آئندہ گفتگو کا انتظار کرو یہ بیوقوف امکان وقوعی بلکہ وقوع کاقائل ہے نہ کہ محض امکان ذاتی کا ، ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی    ۔ (ت)
ثم اقول اس سے بڑھ کر مظلمہ حائفہ تناقض صریح امام الطائفہ اسی منہ سے خدا کے لئے عیب و تلوث ممکن مانتا ہے، اسی منہ سے کہتا ہے جھوٹ نہ بول سکے تو قدرت جو گھٹ جائے گی، جی گھٹ جائے گی توکیا آفت آئے گی، 

آخر جہاں ہزار عیب ممکن تھے اینہم برعلم بس(عہ۲) ہے یہ کہ رب کریم رؤف ورحیم عزہ مجدہ اپنے اضلال سے پناہ میں رکھے اٰمین اٰمین بجاہ سید الھادین محمدن الصادق الحق المبین، صلوات اﷲ تعالٰی وسلامہ علیہ وعلٰی الہ وصحبہ اجمعین۔
عہ۲: ولاتنس مااشرنا ک الیہ ۱۲ منہ۔
   جس کی طرف ہم نے تمھیں متوجہ کیا ہے اسے مت بھولنا ۱۲منہ (ت)
Flag Counter