ثالثا : حضرت کو اسی ''یکروزی'' میں یہ تسلیم روزی کہ کذب عیب ومنقصت ہے اور بیشک باری عزوجل میں عیب ونقصان آنا محال عقلی، اور ہم اسی رسالہ کے مقدمے میں روشن کرچکے محال پر قدرت ماننا اللہ عزوجل کو سخت عیب لگانا بلکہ اس کی خدائی سے منکر ہوجانا ہے، حضرات مبتدعین کے معلم شفیق ابلیس خبیث علیہ اللعن نے یہ عجز وقدرت کا نیا شگوفہ ان دہلوی بہادر سے پہلے ان کے مقتدا ابن حزم فاسد العزم فاقد الجزم ظاہر المذہب ردی المشرب کو بھی سکھایا تھا کہ اپنے رب کا ادب واجلال یکسر پس پشت ڈال کتاب الملل والنحل میں بک گیا کہ انہ تعالٰی
قادر ان یتخذ ولدا اذلو لک یقدر لکان عاجزا ۱
یعنی اللہ تعالٰی اپنے لئے بیٹا بنانے پر قادر ہے کہ قدرت نہ مانو تو عاجز ہوگا۔
(۱؎ الملل والنحل لابن جزم)
تعالی اﷲ عما یقول الظالمون علوا کبیرا لقد جئتم شیئا اداo تکادالسمٰوٰت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھدا o ان دعوا اللرحمن ولدا o وماینبغی للرحمن ان یتخذ ولدا ۲؎o
ظالم جو کہتے ہیں اللہ تعالٰی اس سے کہیں بلند ہے، بیشک تم حد کی بھاری بات لائے، قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گرجائیں ڈھے کر اس پر کہ انھوں نے رحمن کے لئے اولاد بتائی اور رحمن کے لائق نہیں کہ اولاد اختیار کرے۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۱۹/ ۸۹ تا ۹۲)
سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ، القدسی مطالب الوفیہ میں ابن حزم کا یہ قول نقل کرکے فرماتے ہیں:
فانظر اختلال ھٰذا المبتدع کیف غفل عمایلزم علی ھذہ المقالۃ الشنیعۃ من اللوازم التی لاتدخل تحت وھم وکیف فاتاہ ان العجز انما یکون لوکان القصور جاء من ناحیۃ القدرۃ عما اذا کان لعدم قبول المستحیل تعلق القدرۃ فلایتوھم عاقل ان ھذا عجز ۳؎۔
یعنی اس بدعتی کی بدحواسی دیکھنا کیونکر غافل ہوا کہ اس قول شنیع پر کیا کیا قباحتیں لازم آتی ہیں جو کسی وہم میں نہ سمائیں اور کیونکر اس کے فہم سے گیا کہ عجز توجب ہوکہ قصور قدرت کی طرف سے آئے اور جب وجہ یہ ہے کہ محال خودہی تعلق قدرت کی قابلیت نہیں رکھتا توا س سے کسی عاقل کو عجز کا وہم نہ گزرے گا۔
(۳؎ المطالب الوفیہ لعبد الغنی النابلسی)
اسی میں فرمایا:
وبالجملۃ فذلک التقدیر الفاسد یؤدی الی تخلیط عظیم لایبقی معہ شیئ من الایمان ولامن المعقولات اصلا ۱؎۔
یعنی بہ تقدیر فاسد (کہ باری عزوجل محالات پر قادرہے) وہ سخت درہمی وبرہمی کا باعث ہوگی جس کے ساتھ نہ ایمان کا نام ہے نہ اصلا احکام عقل کا نشان۔
(۱؎ المطالب الوفیۃ لعبد الغنی النابلسی)
اسی میں فرمایا:
وقع ھٰھنا لابن حزم ھذیان بین البطلان لیس لہ قدوۃ ورئیس الاشیخ الضلالۃ ابلیس ۲؎۔
یعنی سومسئلہ قدرت میں ابن حزم سے وہ بہکی بہکی بات کھلی باطل واقع ہوئی جس میں اس کا کوئی پیشوا نہ رئیس مگر سردار گمراہی ابلیس۔
(۲؎المطالب الوفیۃ لعبد الغنی النابلسی)
کنز الفوائد میں فرمایا: القدرۃ والارادۃ صفتان مؤثرتان و المستحیل لایمکن ان یتأثربھما اذ یلزم ح ان یجوز تعلقھا باعدام نفسھا واعدام الذات العالیۃ واثبات الالوھیۃ لما لایقبلھا من الحوادث و سلبھا عن مستحقھا جل وعلا فای قصور وفساد ونقص اعظم من ھذا وھذا التقدیر یودی الی تخلیط عظیم وتخریب جسیم لایبقی معہ عقل ولانقل ولاایمان ولاکفر ولعماءۃ بعض الاشیاء من المبتدعۃ من ھذا صرح بنقیضہ فانظر عما ھذا المبتدع کیف عمی یلزم علی ھذا القول الشنیع من اللوازم التی لایتطرق الیھا الوھم ۱؎۔
یعنی قدرت اور ارادہ دونوں صفتیں مؤثرہیں، اور محال کا ان سے متاثر ہونا ممکن نہیں ورنہ لازم آئے کہ قدرت وارادہ اپنے نفس کے عدم اور خود اللہ تعالٰی کے عدم اور مخلوق کو خدا کردینے اور خالق سے خدائی چھین لینے ان سب باتوں سے متعلق ہوسکے اس سے بڑھ کر کون ساقصور وفساد ونقصان ہوگا اس تقدیر پر وہ سخت درہمی اور عظیم خرابی لازم آئے گی، جس کے ساتھ نہ عقل رہے نہ نقل نہ ایمان نہ کفر، اور بعض اشقیائے بدمذہب کو جو یہ امر نہ سوجھا تو صاف لکھ گیا کہ ایسی بات پر خدا قادر ہے اب اس بدعتی کا اندھا پن دیکھو کیونکر اسے نہ سوجھیں وہ شناعتیں جو اس برے قول پر لازم آئیں گی جن کی طرف وہم کو بھی راستہ نہیں۔
(۱؎ کنز الفوائد )
مسلمان انصاف کرے کہ یہ تشنیعیں جو علماء نے اس بد مذہب ابن حزم پر کیں اس بد مشرب عدیم الحزم سے کتنی بچ رہیں،
کذالک قال الذین من قبلھم مثل قولھم تشابھت قلوبھم ۲؎ o وان اﷲ لایھدی کید الخائنین ۳؎۔
ان سے اگلوں نے بھی ایسی ہی کہی ان کی سی بات ، ان کے ان کے دل ایک سے ہیں، اور اللہ دغابازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۸) (۳؎ القرآن الکریم ۱۲ /۵۲)
رابعا اقول العزۃ للہ، اگر دہلوی ملا کی یہ دلیل سچی ہو تو دو خدا، دس خدا ، ہزار خدا، بیشمارخدا ممکن ہوجائیں، وجہ سنئے جب یہ اقرار پایا کہ آدمی جو کچھ کر سکے خدابھی اپنی ذات کےلئے کرسکتاہے، اور معلوم کہ نکاح کرنا، عورت سے ہم بستر ہونا، اس کے رحم میں نطفہ پینچانا قدرت انسانی میں ہے تو واجب کہ ملاجی کا موہوم خدا بھی یہ باتیں کرسکے ورنہ آدمی کی قدرت تو اس سے بھی بڑھ جائے گی، اور جب اتنا ہوچکا تو وہ آفتیں جن کے سبب اہل اسلام اتخاذولد کو محال جانتے تھے، امام وہابیہ نے قطعا جائز مان لیں۔ آگے نطفہ ٹھہرنے ور بچہ ہونے میں کیا زہر گھل گیا ہے، وہ کون سی ذلت وخواری باقی رہی ہے جن کے باعث انھیں مانتے جھجکنا ہوگا بلکہ یہاں آکر خدا کا عاجز رہ جانا توسخت تعجب ہے کہ یہ توخاص اپنے ہاتھ کے کام ہیں جب دنیا بھر میں بزعم ملاجی سب کے لئے اس کی قدرت سے واعق ہوتے ہیں تو کیا اپنی زوجہ کے بارے میں تھک جائیگا اخر بچہ نہ ہونا یوں ہوتاہے کہ نطفہ استقرار نہ کرے اورخدا استفرار پر قادر ہے، یا یوں کہ منی ناقابل عقد و انعقاد یا مزاج رحم مں کوئی فساد یا خلل آسیب مانع اولادتو جب خدائی ہے کیا ان موانع کا ازالہ کرسکے گا، بہر حال جب امور سابقہ ممکن ٹھہرے تو بچہ ہونا قطعا ممکن اور خدا کا بچہ خدا ہی ہوگا، قال اللہ تعالٰی :
قل ان(عہ)کان للرحمن ولد فانا اول العابدین ۱؎۔
تو فرما اگرر حمان کے لئے کوئی بچہ ہے تومیں سب سے پہلے پوجنے والاہوں۔
سدی نے اسے ظاہر پر محمول کیا اور اسی پر اعتماد ہے تکملۃ المفاتیں، بیضاوی، مدارک اورارشاد العقل وغیرھا میں، اور بیشک یہ صحیح صاف ہے اس پر کچھ غبار نہیں تو پھر تاویلات بعیدہ کے ارتکاب کی کیا حاجت ہے ۱۲ منہ (ت)
تو قطعا دوخدا کا امکان ہوا اگرچہ منافی گیر ہو کر امتناع بالغیر ٹھہرے اور جب ایک ممکن ہو تو کروڑوں ممکن کہ قدرت خدا کو انتہا نہیں ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
خامسا : ملائے دہلی کا خدائے موہوم کہاں کہاں آدمی کی حرص کرے گا، آدمی کھانا کھاتاہے، پانی پیتا ہے، پاخانہ پھرتاہے، پیشاب کرتاہے، آدمی قادر ہے کہ جس چیز کودیکھنا نہ چاہے انکھیں بند کرلے، سننا نہ چاہے کانوں میں انگلیاں دے لے، آدمی قادر ہے کہ آپ کو دریامیں ڈوبو دے آگ سے جلالے، خاک پر لیٹے کانٹوں پر لوٹے، رافضی ہوجائے، وہابی بن جائے، مگر ملائے ملوم کامولائے موہوم یہ سب باتیں اپنے لے کرسکتاہوگا، ورنہ عاجز ٹھہرے گا اور کمال قدرت میں آدمی سے گھٹ رہے گا،
اقول غرض خدائی سے ہر طرح ہاتھ دھوبیٹھنا ہے نہ کرسکا تو حضرت کے زعم میں عاجز ہوا اور عاجز خدا نہیں کرسکا تو ناقص ہوا ناقص خدانہیں۔ محتاج ہوا محتاج خدا نہیں۔ ملوث ہوا ملوث خدا نہیں۔ تو شمس ومس کی طرح اظہر و ازہر کہ دہلوی بہادر کا یہ قول ابتر حقیقۃ انکار خدا کی طرف منجر،
ماقدروا اﷲ حق قدرہ ۲؎،
والعیاذباﷲ من اضلا الشیطن۔
(۲؎ القرآن الکریم ۲۲ /۷۴)
انھوں نے اللہ تعالٰی کی صحیح قدر نہیں کی، اور شیطان کی گمراہی سے اللہ تعالٰی کی پناہ۔ (ت)
مگر ''سبحان ربنا'' ہمارا سچا خدا سب عیبوں سے پاک اور قدرت علی المحال کی تہمت سراپا ضلال سے کمال منزہ عالم اور عالم کے اعیان اعراض، ذوات، صفات، اعمال، اقوال، خیر شر صدق کذب حسن قبیح سب اسی کی قدرت کاملہ وارادہ الیہ سے ہوتے ہیں نہ کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر نہ کسی کی قدرت اس کی قدرت کے ہمسر نہ اپنے لئے کسی عیب پر قادر ہونا اس کی شان قدوسی کے لائق ودرخور،
تعالٰی اﷲ
عما یقول الظالمون علواکبیرا o وسبحن اﷲ بکرۃواصیلا، والحمد اﷲ حمد کثیرا۔
اللہ تعالٰی اس سے بہت بلند ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں، صبح وشام اللہ تعالٰی کی تقدیس وپاکیزگی ہے اور تمام اور کثیر حمد اللہ تعالٰی کے لئے ہے۔ (ت)
ثم اقول ذہن فقیر میں ان پانچ کے علاوہ ہذیان مذکور پر اور ابحاث دقیقہ کلامیہ ہیں جن کے ذکر کے لئے مخاطب قابل فہم دقائق درکار نہ وہ حضرات جن میں اجلہ واکابر کا مبلغ علم سیدھی سیدھی نفس عبارت مشکوٰۃ وغیرہ سن سنا کر اجازت وسند کی داد وستد تابہ اذلہ واصاغر چہ رسد،
امرنا ان نکلم الناس علی قدر عقولھم واﷲ الھادی وولی الایادی
(ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم لوگوں کی عقل کے مطابق کلام کریں، اللہ تعالٰی ہی ہادی اور مدد کا مالک ہے۔ ت)
ہذیان دوم مولائے نجدیہ:
عدم کذب رااز کمالات حضرت حق سبحانہ می شمارند واورا جل شانہ بآں مدح می کنند بخلاف اخرس و جماد کہ ایشاں راکسے بعدم کذب مدح نمی کند وپرظاہر ست کہ صفت کمال ہمین ست کہ شخصے قدرت برتکلم بکلام کاذب میدارد وبنا بررعایت مصلحت ومقتضی حکمت بتنزہ از شوت کذب تکلم بکلام کاذب نمی نماید ہماں شخص ممدوح می گردد وبسلب عیب کذب و اتصاف بکمال صدق بخلاف کسے کہ لسان اوماؤف شدہ باشد وتکلم بکلام کاذب نمی تواند کرد یاقوت متفکرہ اوفاسد شدہ باشد کہ عقد قضیہ غیر مطابقہ للواقع نمی تواندکرد یاشخصے کہ ہرگاہ کلام صادق مے گوید کلام مذکور ازوصادر می گردد و ہر گاہ کہ ارادہ تکلم بکلام کاذب می نماید آواز او بند مے گردد یازبان او ماؤف می شود یاکسے دیگر دہن اور رابند می نماید یا حلقوم اور اخفہ می کنند یا کسے کہ چند قضایا صادقہ رایاد گر فتہ است واصلہ پر ترکیب قضایائے دیگر قدرت نمی دارد و بناء علیہ کلام کاذب ازوصادرنمے گردد ایں اشخاص مذکورین نزد عقلا قابل مدح می نشیند بالجملہ عدم تکلم کلام کاذب ترفعا عن عیب الکذب وتنزہا عن التلوث بہ از صفات مدح ست وبنا عجز از تکلم بکلام کاذب ہیچ گونہ از صفات مدائح نیست یا مدح آں بسیار ادون ست ازمدح اول۱؎ انتہی بلفظ الر کیک المختل۔
عدم کذب کو اللہ تعالٰی کے کمالات سے شمار کرتے ہیں اور اس جل شانہ کی اس کے ساتھ مدح کرتے ہیں بخلاف گونگے اور جماد کے، ان کی کوئی عدم کذب سے مدح نہیں کرتا اور یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ کمال یہی ہے کہ ایک شخص جھوٹے کلام پر قادر تو ہو لیکن بنابر مصلحت اور بتقاضائے حکمت تقدس جھوٹے کلام کاا رتکاب اور اظہار نہ کرے ایسا شخص ہی سلب عیب کذب سے ممدوح اور کمال صدق سے متصف ہوگا بخلاف اس کے جس کی زبان ہی ماؤف ہوا ور جھوٹا کلام کر ہی نہیں سکتا یا اس کی سوچ وفکر کی قوت فاسد ہوکر قضیہ غیر مطابق للواقع کا انعقاد نہیں کرسکتا یا ایسا شخص ہے جو کسی جگہ سچا کلام کرتاہے، اس سے وہ صادر ہوتی ہے اور جس جگہ جھوٹا کلام کرنے کا ارادہ کرتاہے تو اس کی آواز بند ہوجاتی ہے یا اس کی زباں ماؤف ہوجاتی ہے، یا کوئی اس کا منہ بند کردیتاہے یااس کا کوئی گلا دبا دیتا ہے یا کسی نے چند سچے جملے رٹ لئے ہیں اور وہ دیگر جملوں پر کوئی قدرت ہی نہیں رکھتا اور اس بناء پر اس سے جھوٹ صادر ہی نہیں ہوتا، یہ مذکور لوگ عقلاء کے نزدیک قابل مدح نہیں ہیں بالجملہ عیب کذب سے بچنے اوراس میں ملوث ہونے سے محفوظ رہنے کے لئے جھوٹی کلام کا عدم تکلم صفات مدح میں سے ہے اورعاجز ہونے کی وجہ سے کلام کاذب سے بچنا کوئی صفات مدح میں سے نہیں یا اس کی مدح ہو بھی تو پہلے سے کم ہوگی (رکیک خلل پذیر عبارت ختم ہوئی)(ت)۔
اس تلمیع باطل وطویل لاطائل کا یہ حاصل بے حاصل کہ عدم کذب اللہ تعالٰی کے کمالات و صفات مدائح سے ہے اور صفت کمال وقابل مدح یہی ہے کہ متکلم باوجود قدرت بلحاظ مصلحت عیب وآلائش سے بچنے کو کذب سے باز رہے، نہ کہ کذب پر قدرت ہی نہ رکھے، گونگے یا پتھر کی کوئی تعریف نہ کرے گا کہ جھوٹ نہیں بولتا تو لازم کذب الٰہی مقدور وممکن ہو۔
اقول وباللہ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) اس ہذیان شدید الطغیان کے شنائع ومفاسد حد شمار سے زائد مگر ان توسنیوں بدلگامیوں پر جو تازیانے بنگاہ اولین ذہن فقیر میں حاضر ہوئے پیش کرتاہوں و