Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
60 - 150
تنزیہ سوم (عہ): رد ہذیانات امام وہابیہ میں۔
عہ:  تنبیہ ضروری: قطع نظر اس سے کہ ان کے امام کا رد اُن کے ردکا امام ہے، بنظر نفس واقعہ فتنہ براہین بھی جس کے باعث یہ استفتاء میرٹھ سے آیا اورحضرت مولانا دام ظلہ العالی نے یہ جواب ہادی صواب رقم فرمایا اس تنزیہ کا لکھنا نہایت ضروری تھا کہ اس براہین قاطعہ
ماارادبہ ان یوصل
(جس کی مطلوب تک رسائی نہیں۔ ت) کا یہ قول اسی امام الوہابیہ کی حمایت میں ہے انوار ساطعہ نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی جناب باری عزاسمہ کو امکانِ کذب  کا دھبا لگاتاہے ۱؎'' اور براہین قاطعہ نے اسی کے درد حمایت وحمیت جاہلیت میں لکھا ''مکان کذب کا مسئلہ تو اب جدید کسی نے نہیں نکالا ۲؂  الٰی  آخر الجہالۃ الفاحشہ''،
 (۱؎ البراہین القاطعہ   مسئلہ خلف وعید قدماء میں مختلف فیہ ہے    مطبع لے بلاساڈھور    ص۲)

(۲؎ الانوار الساطعہ مع البراہین القاطعۃ  مسئلہ خلف وعید قدماء میں مختلف فیہ ہے مطبع لے بلاساڈھور ص۲، ۳)
تو اولا بپاس امامت، ثانیا بشرم حمایت ہرطرح ملاگنگوہی صاحب پر (بشرطیکہ یہ رسالہ قدسیہ دیکھ کر ہدایت نہ پائیں اور بعلت نجدیت نجدت وتہمت مکابرہ پر آئیں) اس تنزیہ کا جواب دینا بھی (اگرنفخ صور سے پہلے دے سکیں) نہایت ضروری ولازم ہے یہ تو کوئی مقتضائے غیرت نہیں کہ گھر بیٹھے حمایت امام کا بیڑا اٹھائے اور جب شیر شرزہ کا نعرہ جانگداز سنئے امام کو چھوڑ کر حمایت سے منہ موڑئے اور
انی بری منک انی اخاف ۳؎
 (میں تجھ سے بری ہوں مجھے ڈر ہے، ت) کی ٹھہرائے، والسلام ۱۲ منہ۔
 (۳؎ القرآن الکریم     ۵۹ /۱۶)
یامعشرالمسلمین ! ان ہمارے عنایت فرما مخالفین ھداھم اﷲ تعالٰی     الی الحق المبین (اللہ تعالٰی     حق مبین کی طرف ان کی رہنمائی فرمائے، ت) کامعاملہ سخت نازک مجہلہ براہ سادگی ایک شخص کو امام بنالیا اور پیش خویش آسمان بریں پر اٹھا کر رکھ دیا، اب اسکے خلاف کسی کی بات قبول ہونی تو بڑی بات، کان تک آئی اور طبیعت نے آگ لی، آہٹ ہوئی اور غصہ نے باگ لی، سننے سے پہلے ٹھہرایا کہ ہر گز نہ سنیں گے، بگڑنے کی قسم بنائے نہ بنائیں گے، ان ہٹوں کا پاس ہدایت سے یاس دلا رہا ہے، مگر پھر بھی اظہار حق کے بغیر چارہ کیا ہے ؎
من آنچہ شرط بلاغ ست باقومی گویم        تو خواہ از سخنم پند گیر وخواہ ملال
 (بات کاپہنچانا ضروری ہے میں نے وہ کردیا اب تو میری بات سے نصیحت حاصل کرلے یا غصہ کرلے۔ ت)
کاش خدا اتنی توفیق دے کہ اک ذرادیر کے لئے تعصب ونفسانیت کو پان رخصت ملے قائل امام طریق ہے، معترض خصم فریق، ان حیثتیوں کے لحاظ سے نظر بچ کر چلے، پھر گوش ہوش کو اجازت شنیدن ہو، پھر میزان خرد کو حکم سنجیدن، اب اگر قول خصم قابل قبول ہو تو اتباع حق سے کیوں ناحق عدول ہو، ورنہ پھر وہی تو وہی تمھارے امام جو بادہ آج بکام ہے کل بھی درجام، اس چند ساعت میں نہ کچھ بنے بگڑ ے نہ رنگ امامت جماہوا اکھڑے، ہاں اے وہ سورا خوجوسرکے دونوں جانب گوہر سماعت کے کان بنے ہو، جن پر ہواکی موجیں نیسانِ سخن سے بارور ہوکر مہین مہین پھوہار سے آواز وں کا جھالا برساتی اور ان قدرتی سیپوں میں ان ننھی ننھی بوندیوں سے سننے کے موتی بناتی ہیں، کیا کوئی تم میں
القی السمع وھو شہید ۱؎
 (کان لگائے اور متوجہ ہو۔ ت)کے قابل نہیں۔
 (۱؎ القرآن الکریم ۵۰ /۳۷)
ہاں اے گوشت کے وہ صنوبر ی ٹکڑوں جوسینوں کے بائیں پہلوؤں میں ملک بدن کے تخت نشین ہوجن کی سرکار میں آنکھوں کے عرض بیگی کانوں کے جاسوس بیرونی اخبار کے پرچے سناتے اور خرد کے وزیر فہم کے مشیر اپنی روشن تدبیر سے نظم ونسق کے بیڑے اٹھاتے ہیں، کیا تم میں کوئی
یستمعون القول فیتبعون احسنہ ۲؎
(کان لگا کر بات سنیں پھر اس کے بہتر پر چلیں۔ ت) کا قائل نہیں؟
(۲؎ القرآن الکریم    ۳۹ /۱۸)
جان برادر! یقین جان تعصب باطل واصرار عاطل کا وبال شدید ہے، آج نہ کھلا تو کل کیا بعید ہے، شب درمیان فردا
"لوکنا نسمع اونعقل" ۱؎
(اگر ہم سنتے یا سمجھتے۔ ت) کا ،
ھٰذا یوم عصیت ۲؎
 (یہ بڑی سختی کا دن ہے۔ ت)
الا ان موعدھم الصبح ط الیس الصبح بقریب ۳؎
 (بیشک ان کا وعدہ صبح کے وقت ہے، کیا صبح قریب نہیں۔ ت) اس دن
رب ارجعون o لعلی اعمل صالحا ۴؎
(اے میرے رب مجھے واپس پھیر دیجئے شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں۔ ت) کا جواب
کلا ۵؎
(ہر گزنہیں۔ ت) ہوگا اور طعن بے
امان الم یاتکم نذیر ۶؎
 (کیا تمھارے پاس کوئی ڈرسنانے والا نہ آیا تھا۔ ت) کے جگر دوزتیر میں بلا کا پلا،
 (۱؎ القرآن الکریم        ۶۷/ ۱۰)		(۲؎ القرآن الکریم        ۱۱/ ۷۷)

(۳؎ القرآن الکریم        ۱۱ /۸۱)		(۴؎؎ القرآن الکریم        ۲۳/ ۹۹ و ۱۰۰)

(۵؎ ؎ القرآن الکریم        ۲۳ /۱۰۰)	(۶؎؎ القرآن الکریم        ۶۷ /۸)
ابھی سویراہے ہوش سنبھالو، آنکھیں مل ڈالو، راستہ سوجھنے کی راہ نکالو، چل تو دئیے، یہ بھی دیکھتے ہو کہ اس جھکی اندھیری میں کس کے پیچھے ہو، جس نے نہ صرف ایک مسئلہ کذب باری بلکہ خوارج، روافض، معتزلہ، مریسیہ، ظاہریہ، کرامیہ وغیرہم طوائف ضالہ کی بدعات شنیعہ اورا ن کے علاوہ صدہا ضلالت قبیحہ قطعیہ کی خندقیں جھنکائیں، اور تمھیں ان قہروں ٹھوکروں ستم لغزشوں کی خبر تک نہ ہوئی، چشم فہم میں وہ بلا کی نیندیں جھک آئیں اور پھر گمان یہ کہ اس بیہٹر راہ کا ہدایت مآل ہیہات ہیہات کہاں ہدایت اور کہاں یہ چال،
؎ اذاکان الغراب دلیل قوم    سیھدیھم طریق الھالکینا
 (جب کوّا کسی قوم کا رہبر ہو تووہ انھیں ہلاکت کی راہ پر ہی لے جائیگا۔ ت)

للہ اپنی حالت پر رحم کرو قبل اس کے کہ پھر معذرت
ربنا ھٰؤلاء اضلونا ۷؎
(اے ہمارے رب! انھوں نے ہم کو بہکایا تھا۔ ت) کام نہ آئے اور
لاتختصوالدی ۸؎
 (میرے پاس نہ جھگڑو۔ ت) کی غضب جھنجھلاہٹ
اذ تبرالذین اتبعوا ۹؎
(جب بیزار ہوں گے پیشوا اپنے پیروؤں سے ۔ت) کارنگ دکھائے
ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیرالفاتحین ۱۰؎
 (اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر اور تیرا فیصلہ سب سے بہتر ہے۔ ت)
 (۷؎ ؎ القرآن الکریم        ۷/ ۳۸)	(۸؎ ؎ القرآن الکریم        ۵۰ /۲۸)

(۹؎؎ القرآن الکریم        ۲/ ۱۶۶)	(۱۰؎؎ القرآن الکریم        ۷ /۸۹)
فقیر اس تمہید حمید وتہدید رشید کو اپنا شفیع بناکر مجال مقال میں قدم دھرتا اور دوڑتے دوڑتے نازک طبعوں گراں سمعوں، چیں بجبینوں،ناتواں بینوں سے کچھ عرض کرتاہے ؎

کہنے کو ان سے کہتاہوں احوال دل مگر

ڈرہے کہ شان ناز پہ شکوہ گراں نہ ہو

یا ایہاالقوم! ان حضرت امام اول وہابیت ہندیہ معلم ثانی طوائف نجدیہ کو اپنی اپج کا مزہ مقدم تھا بیباک روی میں اہلے کا عالم تھا، زبان کے آگے بارہ ہل چلتے، جب ابلتے پھر کیا کسی کے سنبھالے سنبھلتے، جدھر جانکلے مسجد ہو یا دیر لگی رکھنے سے پورا بیر ؎
گہ بت شکنی گاہ بمسجد زنی آتش    از مذہب تو کافر مسلمان گلہ دارد
 (کبھی تو بت توڑتاہے اور کبھی  مسجدجلاتاہے، تیرے مذہب سے کافرو مسلمان دونوں کو گلہ ہے، ت)
اسی لئے حضرت کی ایک کتاب میں جو کفر ہے دوسری میں ایمان، آج جوولی ہے کل پکا شیطان، ایک انکھ سے راضی دوسری سے خفا، ایک پر میں زہر دوسرے میں شفاء، دور کیوں جائے ایک ہاتھ پر صراط ایک پر تقویت رکھ لیجئے، ایک دوسری کا رد کردے تو سہی اب ایک بڑی مصلحت سے جس کے لئے حضرت نے اپنی تصانیف میں بڑے بڑے پانی باندھے، اور پیش خویش آہستہ آہستہ سب سامان کر لئے، جسے فقیر نے اپنے مجموعہ مبارکہ
''البارقۃ الشارقۃ علی المارقۃ المشارقۃ''
مجلد سوم(عہ۱) فتاوٰی فقیر مسمی بہ العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویہ میں مفصل ومدللہ بیان کیا۔
عہ۱:  اب الحمد اللہ وہ بارھواں ہے ۱۲
یہ سوجی کہ وہ مطلب نہ نکلے گا جب تک اللہ تعالٰی  کا وجوب صدق باطل نہ ہو لہذا رسالہ ''یکروزی'' میں امکان کذب کے قائل ہوئے اور اس بیہودہ دعوے کے ثبوت کو بہزار جان کنی دوہذیان بین البطلان ظاہر کئے:
ہذیان اول امام وہابیہ: اگر کذب(عہ۲) الٰہی محال ہوا ور محال پر قدرت نہیں تو اللہ تعالٰی  جھوٹ بولنے پر قادر نہ ہوگا حالانکہ اکثر آدمی اس پر قادر ہیں، تو آدمی کی قدرت اللہ سے بڑھ گئی، یہ محال ہے، تو واجب کہ اس کا جھوٹ بولنا ممکن ہو،
عہ۲:  علمائے دین جوارشاد فرمایا کہ کذب عیب ہے اور عیب اللہ عزوجل پر محال، حضرت اس کے رد میں یوں اپنا خبث نفس ظاہر کرتے ہیں: قولہ وھو محال لانہ نقص والنقص علیہ تعالٰی محال، اقول اگر مراد از محال ممتنع لذاتہ است کہ تحت قدرت الٰہیہ داخل نیست پس لانسلم کہ کذب مذکور محال بمعنی مسطور باشد چہ عقد قضیہ غیر مطالبہ للواقع والقائے آں بر ملائکہ و انبیاء خارج از قدرت الٰہیہ نیست والالازم آید کہ قدرت انسانی ازید از قدرت ربانی باشد چہ عقد قضیہ غیر مطالبہ للواقع والقائے آں برمخاطبین در قدرت اکثر افراد انسانی ست، کذب مذکور آرے منافی حکم اوست پس ممتنع بالغیر ست، ولہذا عدم کذب را ازکمالات حضرت حق سبحانہ بیشمار ند۲؎ الخ
قولہ یہ محال ہے کیونکہ نقص ہے اور اللہ تعالٰی  پر نقص محال ہے اقول اگر محال سے مراد محقق لذاتہ ہے جو قدرت الٰہیہ کے تحت داخل نہیں توہ م نہیں مانتےکہ کذب مذکور محال بمعنی مسطور ہوگا کیونکہ یہ قضیہ غیرمطابق للواقع ہے اور اس کا القاء ملائکہ اورانبیاء پر قدرت الٰہیہ سے خارج نہیں ورنہ لازم آئے گا کہ قدرت انسانی قدرت ربانی سے زائد ہوجائے کیونکہ قضیہ غیر مطابق للواقع، اور اس کاالقاء مخاطبین پراکثر افراد انسانی کی قوت میں ہے، ہاں کذب مذکور اس کی حکمت کے منافی ہے لہذا یہ ممتنع بالغیر ہے اور اسی لئے عدم کذب کو اللہ تعالٰی     کے کمالات سے شمار کرتے ہیں الخ (ت)
(۲؎ رسالہ یکروزی (فارسی)  شاہ محمد اسمعیل فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷)
بقیہ عبارت سراپا شرارت زیر ہذیان دوم آئے گی ۱۲ عفااللہ تعالٰی     عنہ۔
ایھا المسلمون! حماکم اﷲ شرالمجون
(اے اہل اسلام! اللہ تعالٰی     اس خطرناک شر سے محفوظ فرمائے۔ ت) للہ! بنظر انصاف اس اغوائے عوام وطغوائے تمام کو غور کرو کہ اس بس کی گانٹھ میں کیا کیا زہر کی پڑیا بندھی ہیں۔

اولا دھوکا دیا کہ آدمی تو جھوٹ بولتے ہیں خدا نہ بول سکے توقدرت انسانی اس کی قدرت سے زائد ہو حالانکہ اہل سنت کے ایمان میں انسان اور اس کے تمام اعمال واقوال واوصاف واحوال سب جناب باری عزوجل کے مخلوق ہیں،

قال المولٰی     سبحانہ وتعالٰی    :
واﷲ خلقکم وما تعملون ۱؎ ۔
تم اور جو کچھ تم کرتے ہو سب اللہ ہی کا پیدا کیاہوا ہے۔
 (۱؎ القرآن الکریم     ۳۷/ ۹۶)
انسا ن کو فقط کسب پر ایک گونہ اختیار ملاہے، اس کے سارے افعال مولٰی  عزوجل ہی کی سچی قدرت سے واقع ہوتے ہیں، آدمی کی کیاطاقت کہ بے اس کے ارادہ وتکوین کے پلک مارسکے، انسان کا صدق وکذب کفرایمان طاعت عصیان جو کچھ ہے سب اسی قدیرمقتدرجل وعلا نے پیدا کیا،ا ور اسی کی عمیم قدرت عظیم ارادت سے واقع ہوجاتاہے،
وماتشاؤن الا ان شاء اﷲ رب العلمین ۱؎o
تم نہ چاہوں گے مگریہ کہ اللہ چاہے جو پروردگار ہے سارے جہاں کا۔
 (۱؎ القرآن الکریم        ۸۱ /۲۹)
ع	 اس کا چاہا ہوا ہمارا نہ ہوا
؎ ماشئت کان وماتشاء یکون    لامایشاء الدھر والافلاک
 (جوتوں نے چاہا ہوگیا، جو آپ چاہیں گے وہ ہوجائے گا، نہیں ہوگا جو دہر اور افلاک چاہیں گے۔ ت)

پھر کتنا بڑا فریب دیا ہے کہ آدمی کافعل قدرت الٰہی سے جداہے یہ خاص اشقیائے معتزلہ کامذہب نامہذب ہے قرآن عظیم کا مردود ومکذب۔
ثانیا اقول اس ذی ہوش سے پوچھو انسان کو اپنا بڑا جھوٹ بولنے پر قدرت ہے یامعاذاللہ اللہ عزوجل سے بلوانے پر، پھر قدرت(عہ)بڑھنا تو جب ہوتاکہ اللہ تعالٰی     آدمی سے جھوٹ بلوانے پر قابو نہ رکھتا اپنے کذب پرقادر نہ ہو تو انسان کو اس عزیل جلیل کے کذب پر کب قدرت تھی کہ قدرت الٰہی سے اس کی قدرت زائد ہوگئی ولکن
''من لم یجعل اللہ لہ نورا فمالہ من نور ۲؎
'' (لیکن ''جسے اللہ نور نہ دے اس کے لئے کہیں نور نہیں''۔ت)
(۲؎ القرآن الکریم   ۲۴/ ۴۰)
عہ فائدہ عائدہ ضروری الملاحظہ: ایہاالمسلمون پر ظاہر کہ قدرت بڑھنے کے یہ معنی کہ ایک شے پر اسے قدرت ہے اسے نہیں، نہ یہ کہ اسے جس شے پر قدرت ہے وہ تو اس کی قدرت میں بھی داخل ، مگر ایک اور چیز اس کی قدرت سے خارج جوہر گز ا سکی قدرت میں بھی داخل نہ تھی اسے قدرت بڑھنا کوئی مجنون ہی سمجھے گا، یہاں بھی دو چیزیں ہیں: ایک کذب انسان، وہ قدرت انسانی میں مجازا ہے اور قدرت ربانی میں حقیقۃ، دوم کذب ربانی، اس پر قدرت انسانی نہ قدرت ربانی، تو انسان ک قدرت کس بات میں، معاذاللہ مولی سبحانہ وتعالٰی     کی قدرت سے بڑھ گئی، ہوایہ کہ ملاجی نے بغایت سفاہت وغباوت کہ تمغائے عامہ اہل بدعت ہے، یوں خیال کیا کہ انسان کو اپنے کذب پر قدرت ہے، اور بیعینہٖ یہی لفظ جناب عزت میں بول کر دیکھا کہ اسے بھی اپنے کذب پر قدرت چاہئے ورنہ جو چیز مقدور انسان بھی ہو مقدوررحمن نہ ہوئی، ختم الٰہی کا ثمرہ کہ دونوں جگہ اپنے اپنے کا لفظ دیکھ لیا اور فرق معنی اصلا نہ جانا، ایک جگہ اپنے سے مراد ذات انسان ہے، دوسری جگہ ذات رحمن جل وعلا، پھر جوشے قدرت انسانی میں تھی قدرت ربانی سے کب خارج ہوئی،
کذلک یطبع اﷲ علی کل قلب متکبر جبار ۳؎ ۱۲ منہ
(۳؎ القرآن الکریم   ۴۰ /۳۵)
Flag Counter