معاوضہ عالیہ امام بریلوی قدس سرہ،
نقل
بنام
مولوی اشرف علی صاحب تھانوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ، ونصلی علی رسولہ الکریم
السلام علی من اتبع الھدٰی،
فقیر بارگاہ عزیز قدیر عز جلالہ، تو مدتوں سے آپ کو دعوت دے رہا ہے اب حسب معاہدہ قرار دادمراد آباد پھر محرک ہے کہ آپ سوالات ومواخذحسام الحرمین کی جواب دہی کوآمادہ ہوں ، میں اور آپ جو کچھ کہیں لکھ کر کہیں اور سنادیں اور وہی دستخطی پرچہ اسی وقت فریقین مقابل کودیتے جائیں کے فریقین میں سے کسی کو کہہ کےبدکنے
کی گنجائش نہ رہے۔ معاہدہ میں ۲۷ صفر ۱۳۱۹ھ)مناظرہ کے لئے مقرر ہوئی ہے، آج پندرہ کو اس کی خبر مجھ کو ملی ، گیارہ روز کی مہلت کافی ہے۔ وہاں بات ہی کتنی ہے،اسی قدر کہ یہ کلمات شان اقدس حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں توہین ہیں یا نہیں ؟ یہ بعونہٖ تعالٰی دو منٹ میں اہل ایمان پر ظاہر ہوسکتاہے،
لہذا فقیر اس عظیم ذوالعرش کی قدرت ورحمت پر توکل کرکے یہی ۲۷ صفر روز جان افروز دوشنبہ اس کے لئے مقرر کرتاہے آپ فوراً قبول کی تحریر اپنی مہری دستخطی روانہ کریں اور ۲۷ صفر کی صبح مرادآباد میں ہوں ۔ اور آپ بالذات اس امراہم واعظم دین کو طے کرلیں اپنے دل کی آپ جیسی بتاسکیں گے وکیل کیا بتائے گا، عاقل بالغ مستطیع غیر مخدرہ کی توکیل کیوں منظور ہو؟ معہذا یہ معاملہ کفر واسلام کا ہے، کفر واسلام میں وکالت کیسی؟ اگر آپ خود
کسی طرح سامنے نہیں آسکتے اور وکیل کا سہارا ڈھونڈلے تو یہی لکھ دیجئے، اتنا توحسب معاہدہ آپ کو لکھنا ہی ہوگا کہ وہ آپ کا وکیل مطلق ہے اس کا تمام ساختہ وپرداختہ ، قبول، سکوت، نکول، عدول سب آپ کا ہے، اور اس قدر اور بھی ضرورلکھنا ہوگا کہ اگر بعون العزیز المقتدر عزوجلالہ، آپ کا وکیل مغلوب یا معترف یا ساقط یافارہوا توکفر سے توبہ علی الاعلان آپ کو کرنی اور چھاپنی ہوگی کہ توبہ میں وکالت ناممکن ہے اور اعلانیہ کفر کی توبہ اعلانیہ لازم،میں عرض کرتاہوں کہ آخر بار آپ ہی کے سر رہتاہے کہ توبہ کرنی ہوئی تو آپ ہی پوچھے جائیں گے پھر آپ خود ہی دفع اختلاف کی ہمت کیوں نہ کریں ؟ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے کو آپ تھے اور بات بنانے دوسرا آئے،
ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔
آپ برسوں سے ساکت اور آپ کے حواری رفع خجلت کی سعی بے حاصل کرتے ہیں ۔ ہر بار ایک ہی طرح کے جواب ہوتے ہیں ، آخر تابہ کے،یہ اخیر دعوت ہے اس پر بھی آپ سامنے نہ آئے تو الحمد ﷲ میں فرض ہدایت اداکرچکا، آئندہ کسی کے غوغہ پر التفات نہ ہوگا۔ منوا دینا میرا کام نہیں اللہ عزوجل کی قدرت میں ہے
واﷲ یھدی من یشاء الٰی صراط مستقیم۔
وصلی اﷲ تعالٰی علی سیدنا ومولانا محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین، والحمد ﷲ رب العلمین۔
فقیر احمد رضاقادری عفی عنہ ۱۵ صفرالمظفر روز چہار شنبہ ۱۳۲۹ھ
(مآل یہی ہوا کہ اکابر دیوبند گھبراتے رہے، خجالت وشرمندگی نبھاتے رہے ،
رجوع واتحا د سے گریز کیا اور ایک بہت بڑا فتنہ باقی رہ گیا۔)
مسئلہ ۱۱: از لائن مین بکسر اسٹیشن ڈاکخانہ گجادھر گنج مسئولہ حاجی عبداللہ خاں صاحب ۲ صفر ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسول مقبول صلی اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ذکر ہو تو صرف
یہ کہنا کہ رسول نے ایسا کیا رسول نے ایسا کہا، کیا مناسب ہے؟
الجواب
نام اقدس تعظیم کے ساتھ لینا فرض ہے، خالی رسول رسول کہنا اگر بقصد ترک تعظیم ہے تو کفر ہے ورنہ بلا ضرورت ہو تو برکات سے محرومی، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۲: از شہر محلا ملوکپور مسئولہ محمود الرحمن صاحب ۲ صفر ۱۳۳۹ھ
فتوٰی حضور والا کا دربارہ شرکت جلوس مسٹر شوکت علی وغیرہم فدویان نے مطالعہ کیا اور دوسرے لوگوں کو ہدایت کی مگر بعض آدمی جواب کے الفاظ پریوں شبہ پیش کرتے ہیں ایسے جلوس میں شرکت مولانا شوکت علی ومحمد علی صاحبان دومسلمان ہیں اور مقاصد حال بھی مسلمانوں ہی کے ہیں پس تعظیم ہندو کے جلوس کی کیونکر ہوئی نیز لفظ فھو منھم (پس وہ انہی میں سے ہے۔ ت) بتلاتاہے کہ شریک ہونے والے کافر ہوجائیں گے، کیا یہ الفاظ حقیقت پر محمول ہیں ؟ مہربانی فرماکر ان دونوں شبہوں کا اور جواب عنایت فرمادیجئے تاکہ حیلہ گروں کو حیلہ کا موقع نہ رہے۔
الجواب
اس میں جو لوگ مسلمان کہلاتے ہیں گاندھی کے تابع ہوکر آرہے ہیں ، اشتہار کی سرخسی میں صرف اس کی آمد ہے اور اس کی خدمات اور قربانیوں کا ذکر کرکے اس کے استقبال کو شاندار بنانے کا شد ومد ہے، باقی مسلم یا نامسلم اس کے ساتھی یا تابع رکھے گئے ہیں اور پیغام بھی اسی کا سنانا لکھا ہے، پھر یہ جلوس دوسرے کا کیونکر ہوسکتاہے، حدیث کے ارشاد پر نکتہ چینی مسلمان کا کام نہیں ، فعل کفر میں جو دل سے شریک ہو وہ ظاہراً باطناً کافر ہے، اور جو اکراہ واضطرار ومجبوری محض سے بظاہر شریک ہو اسے معافی ہے۔ مگر اکراہ صحیح شرعی درکارہے، کسی کی خاطر وغیرہ سے مجبور ہونا شرعی مجبوری نہیں اور بلااکراہ شرعی شرکت کفر پر بھی شریعت مطہرہ لزوم کفر وتجدیداسلام وتجدید نکاح کا حکم دے گی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۳: از شہر محلہ لوکپور چھوٹا دروازہ مسئولہ سید رونق علی صاحب ۳ صفر ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ا س مسئلہ میں کہ خلافت اسلامیہ عرب کی کمیٹی کا جلسہ بریلی میں ہوگا، مولانا محمد علی وشوکت علی اور مہاتما گاندھی وغیرہ آئیں گے، بازار سجایا گیا ہے ، ان سب کا جلوس دھوم دھام سے نکلے گا اورجلسہ میں مسلمان، ہندو، نیچری، وہابی، شیعہ سب شریک ہوں گے۔ ایسی حالت میں مسلمان اہلسنت وجماعت اس جلسہ میں شرکت کریں یا جلوس دیکھیں یانہیں ؟ اوراس جلسہ میں شرکت جائز ہے یا گناہ؟ کیسا گناہ ؟ خدا کے واسطے حکم شریعت اس جلسہ میں چندہ دینے اور بیان سننے وغیرہ کا صاف صاف قرآن وحدیث سے بیان فرمایا جائے۔
الجواب
تعظیم مشرک کےجلوس میں شرکت حرام ہے،اور حرام فعل کا تماشا دیکھنا بھی حرام ہے۔طحطاوی علی الدرالمختار میں ہے: التفرج علی المحرم حرام ۱؎ (حرام پر خوشی بھی حرام ہے۔ ت) ایسے جلسوں میں شرکت گناہ کبیرہ ہے،
قال اﷲ تعالٰی فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظمین ۲؎۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: پس نصیحت ویاد دہانی کے بعد ظالموں کے پاس مت بیٹھو (ت)
(۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار مقدمۃ الکتاب دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۳۱)
(۲؎ القرآن الکریم ۶ /۶۸)
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من سود مع قوم فھو منھم ۳؎
(جس نے جس قوم کی کثرت بنائی وہ انہی میں سے ہے۔ ت)
(۳؎ تاریخ بغداد حدیث ۵۱۶۷ عبداللہ بن عتاب دارالکتاب العربی بیروت ۱۰/ ۴۱)
حرام کاری میں چندہ دینا بھی حرام ہے۔
قال اﷲ تعالٰی: ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ۱؎۔
اللہ تعالٰی کا فرمان مبارک ہے : گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مددنہ کرو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۵ /۲)
اور نامسلم کو واعظ مسلمین بناکر اس کا بیان سننا اشد سے اشد کبیرہ وبدخواہی اسلام ہے،
قال اﷲ تعالٰی یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امرون ان یکفروا بہ ویرید الشیطن ان یضلھم ضلا لابعید ۲؎۔
اللہ تعالٰی کا مقدس فرمان ہے: پھر چاہتے ہیں کہ شیطان کو اپنا پنچ بنائیں اور ان کو تو حکم یہ تھا کہ اسے اصلاً نہ مانیں اورابلیس یہ چاہتاہے کہ انھیں دور بہکادے۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۴/ ۶۰)
سائل نے مہاتما لکھا یہ حرام ہے۔ مہاتما بمعنی روح اعظم ہے کہ خالص لقب افضل الملائکہ ہے علیہ وعلیہم الصلٰوۃ والسلام ، یوہیں جو لوگ ایسا مذہب نکالنا چاہیں کہ مسلم وکافر کا فرق اٹھادے، سنگم و پریاگ کو مقدس
علامت ٹھہرادے جو لوگ کہیں کہ آج تم نے اپنے ہندو بھائیوں کو راضی کرلیا تو اپنے خدا کو راضی کرلیا، جو لوگ کہیں کہ خدا کی رسی مضبوط تھامنے سے اگرچہ دین ہاتھ سے جاتارہے مگر دنیا تو ضرور ملے گی ایسوں کو مولانا کہنا حرام ہے،
حدیث میں فرمایا: لاتقولوا للمنافق یاسیدنا فانہ ان یکن سید کم فقد اسخطتم ربکم ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
منافق کو یا سندنا (اے ہمارے سردار) نہ کہو کیونکہ اگر وہ تمھارا سردار ہے تو تم نے اپنے رب کو یقینا اپنے سے ناراض کرلیا، واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۳؎ مسند امام احمد بن حنبل حدیث بریدہ الاسلمی دارالفکر بیروت ۵/ ۴۷۔ ۳۴۶)