اللہ تعالٰی کی اخبار،احکام اور مواعید انتہائی کامل ہیں، اخبار مواعید صدق کے اعتبار سے اور قضایا واحکام عدل کے اعتبار سے۔ (ت)
(۳؎ انوارالتنزیل (تفسیر بیضاوی) مع القرآن الکریم تحت ۶/۱۱۵ النصف الاول مصطفی البابی مصر ص۱۴۳)
ارشاد العقل السلیم میں ہے :
المعنی انھا بلغت الغایۃ القاصیۃ صدقا فی الاخبار والمواعید وعدلا فی الاقضیۃ والاحکام لا احدیبدل شیئا من ذٰلک بما ھواصدق واعدل ولابماھو مثلہ ۱؎۔
مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے کلمات اخبار ومواعید میں صدق کے اعتبار سے اور قضایا واحکام میں عدل کے اعتبار سے انتہائی درجہ پر ہیں اس سے بڑھ کر کوئی اصدق واعدل نہیں جو ان میں سے کسی حکم کو بدل ڈالے بلکہ ان کے مماثل بھی کوئی نہیں۔ (ت)
(۱؎ ارشاد العقل السلیم(تفسیر ابی السعود) تحت ۶/ ۱۱۵ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۱۸۷)
اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) صدق قائل کے لئے سات ۷ درجات ہیں:
درجہ اول: روایات وشہادات میں قطعا کذب سے محترز ہو اور مخالف میں بھی زنہار ایسا جھوٹ روانہ رکھے جس میں کسی کا اضرار ہو اگرچہ اسی قدر کہ غلط بات کا بار کرانا مگر مزاحا یا عبثا ایسے کذب کا استعمال کرے جو نہ کسی کو نقصان دے نہ سننے والا یقین لاسکے مثلا آج زید نے منوں کھایا، آج مسجد میں لاکھوں آدمی تھے، ایسا شخص (عہ) کاذب نہ گنا جائے گا یا آثم ومردود الروایۃ نہ ہوگا تاہم بات خلاف واقع ہے اور محض فضول وغیرنافع، اگرچہ نفس کلام میں حکایت واقع، مراد نہ ہونے پر دلیل قاطع،
عہ: قال الامام حجۃ الاسلام محمدن الغزالی قدس سرہ العالی فی منکرات الضیافۃ من کتاب الامر بالمعروف من احیاء العلوم کل کذب لایخفی انہ کذب ولایقصد بہ التلبیس فلیس من جملۃ المنکرات کقول الانسان مثلا طلبتک الیوم مائۃ مرۃ، واعدت علیک الکلام الف مرۃ، ومایجری مجراہ ممایعلم انہ لیس یقصد بہ التحقیق فذلک لایقدح فی العدالۃ ولاترد الشہادۃ بہ۲؎۔ ۱۲ منہ
حجۃ الاسلام امام محمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم کی کتاب الامر بالمعروف میں منکرات ضیافت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہر وہ کذب جس کا کذب ہونا مخفی نہ ہو اور اس سے کوئی فریب ودھوکا متصور نہ ہو تو وہ منکرات میں سے نہیں ہوگا مثلا انسان کہتاہے میں نے آج تجھے سو دفعہ تلاش کیا، میں نے آج تجھے ہزار دفعہ کہا ہے یا ان کے قائم مقام الفاظ جن سے معلوم ہو کہ مقصود تحقیق نہیں تو یہ چیز عدالت پر قادح نہ ہوگی اور نہ ہی اس سے ایسے شخص کی شہادت مردود ہوگی ۱۲ منہ (ت)
(۲؎ احیاء العلوم کتاب الامر بالمعروف الباب الثالث مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ ۲ /۳۴۱)
ولہذا حدیث میں ا رشاد فرمایا: قال بعض اصحابہ فانک تداعبنا یارسول اﷲ فقال انی لا اقول الا حقا ۱؎۔ اخرجہ احمد والترمذی باسناد حسن عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
آپ کے بعض صحابہ کرام نے عرض کیا: یار سول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)! آپ ہم سے مزاج فرماتے ہیں، آپ نے فرمایا: میں صرف حق ہی کہتاہوں، امام احمد اور ترمذی نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوہریرۃ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا۔( ت)
(۱؎ جامع الترمذی ابواب البروالصلہ باب ماجاء فی المزاح امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲/ ۲۰)
(مسند امام احمد از مسند ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ دارالفکر بیروت ۲/ ۳۴۰)
درجہ ۲: ان لغو وعبث جھوٹوں سے بھی بچے مگر نثریا نظم میں خیالات شاعرانہ ظاہر کرتاوہں جس طرح قصائد کی تشبیہیں ع
بانت سعاد فقلبی الیوم متبول
(سعاد کی جدائی پر آج میرادل مضطرب ہے۔ ت)
سب جانتے ہیں کہ وہاں نہ کوئی عورت سعاد نامی تھی نہ حضرت کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ اس پر مفتون، نہ وہ ان سے جدا ہوئی نہ یہ اس کے فراق میں مجروح، محض خیالات شاعرانہ ہیں، مگر نہ فضول بحث کہ تشخید خاطر و تشویق سامع وترقیق قلب وتزئین سخن کا فائدہ رکھتے ہیں تاہم ازانجا کہ حکایت بے محکی عنہ ہے: ارشاد فرمایاگیا:
وما علمنہ الشعر وماینبغی لہ ۲؎
نہ ہم نے اسے شعر سکھایا نہ وہ اس کی شان کے لائق ۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
(۲؎القرآن الکریم ۳۶/ ۶۹)
درجہ ۳: ان سے بھی تحریر مگر مواعظ وامثال میںان امور کا استعمال کرتاہوں جن کے لئے حقیقت واقعہ نہیں جیسے کلیلہ دمنہ کی حکایتیں، منطق الطیر کی روایتیں، اگرچہ کلام قائل بظاہر حکات واقع ہے مگر تغلیظ سامع نہیں کہ سب جانتے ہیں وعظ ونصیحت کے لئے یہ تمثیل باتیں بیان کردی گئی ہیں جن سے دینی منفعت مقصود،
پھر بھی انعدام مصداق موجود، ولہذا قرآن عظیم کو
اساطیر لااولین ۳؎
(پہلوں کے قصے۔ ت) کہنا کفر ہوا جیسے آج کل کے بعض کفار لئام، مدعیان اسلام، نئی روشنی کے پرانے غلام دعوٰی کرتے ہیں کہ کلام عزیز میں آدم وحوا کے قصے شیطان وملک کے افسانے سب تمثیل کہانیاں ہیں جن کی حقیقت مقصود نہیں، تعالٰی اﷲ عما یقول الظلمون علوا کبیرا (ظالم جو کچھ کہتے ہیں اللہ تعالٰی کی ذات گرامی اس سے کہیں بلند ہے۔ ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۶/ ۲۵)
درجہ ۴: ہر قسم حکایت بے محکی عنہ کے تعمد سے اجتناب کلی کرے اگرچہ برائے سہووخطا حکایت خلاف واقع کاوقوع ہوتاہویہ درجہ خاص اولیاء اللہ کا ہے۔
درجہ ۵: اللہ عزوجل سہوا وخطاً بھی صدور کذب سے محفوظ رکھے مگر امکان وقوعی باقی ہو یہ مرتبہ اعاظم صدیقین کا ہے کہ:
ان اﷲ تعالٰی یکرہ فوق سمائہ ان یخطأ ابوبکر الصدیق فی الارض ۱؎۔ رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر واالحارث فی مسندہ وابن شاھین فی السنۃ عن معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
اللہ تعالٰی آسمان کے اوپر اس بات کونا پسند فرماتاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ زمین پر غلطی کریں، اسے طبرانی نے معجم الکبیر میں، شیخ حارث نے مسند میں اور ابن شاھین نے السنۃ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ ت)
(۱؎ کنزالعمال بحوالہ الحارث عن معاذ بن جبل حدیث ۳۲۶۳۱ موسستہ الرسالۃ بیروت ۱۱/ ۵۵۸)
(المعجم الکبیر بحوالہ الحارث حدیث ۱۲۴ المکتبۃ الفیصلیہ البیروت ۲۰/ ۶۸))
درجہ ۶: معصوم من اﷲ ومؤید بالمعجزات ہوکہ کذب کا امکان وقوع بھی نہ رہے مگر بنظر نفس ذات امکان ذاتی ہو یہ رتبہ حضرات انبیاء مرسلین علیہم الصلٰوۃ والسلام اجمعین کا ہے۔
درجہ ۷: کذب کا مکان ذاتی بھی نہ ہو بلکہ اس کی عظمت جلیلہ وجالت عظیمہ بالذات کذب وغلط کی نافی ہو اور اس کی ساحت عزت کے گرد اس گردلوث کا گزر محال عقلی بہ نہایت درجات صدق ہے جس سے مافوق متصور نہیں اب آیہ کریمہ ارشاد فرمارہی ہے کہ تیرے رب کا صدق وعدل اعلی درجہ منتہی پر ہے تو واجب کہ جس طرح اس صدور ظلم وخلاف عدل باجمال اہلسنت محال عقلی ہے یونہی صدور کذب و خلاف صدق بھی عقلا ممتنع ہو، ورنہ صدق الٰہی غایت ونہایت تک نہ پہنچاہوگا کہ اس کے مافوق ایک درجہ اور بھی پیدا ہوگا یہ خود بھی محال اور قرآن عظیم کے خلاف، فثبت المقصود والحمد اﷲ العلی الودود (مقصود ثابت ہوگیا اور حمد اللہ بلند اور محبت فرمانے والے کے لئے ہے۔ ت)
تنبیہ: اقول فرق ہے دلیل سمعی کے مناط استحالہ ومظہر استحالہ ہونے میں اول کے یہ معنی کہ استحالہ صدق آیت پر موقو ف ہے یعنی ورود دلیل نے محال کردیا اگر سمع میں نہ آتا عقلا ممکن تھا یہ استحالہ شرعی ہوگا، اور ثانی کایہ حاصل کہ صدق آیت ماننا استحالہ پر موقوف یعنی اگر محال عقلی نہ مانئے تو مفاد آیت صادق نہیں آتا یہ استحالہ عقلی ہوگا، فقیر نے ان تینوں دلیل آخیرین میں یہی طریقہ برتاہے، غایت یہ کہ کلام مقدمات مسلمہ پر مبنی ہوگا اس قدر دلیل کو عقلیت سے خارج نہیں کرتا کما لایخفی (جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ ت) خلاصہ یہ کہ آیات ان اثبات ہیں نہ لم ثبوت، والحمد ﷲ مالک الملکوت (تمام حمد ملکوت کے مالک کی ہے۔ ت) یہ بحمداللہ تیس۳۰ دلیلیں ہیں کہ عجالۃ حاضر کی گئیں، اور اگر غور استقصا کی فرصت ہوتی تو باری عزوجل سے امید زیادت تھی پھر بھی ع
درنہ خانہ اگر کسی ست یک حرف بس ست
(اگر خانہ میں کچھ ہے توایک حرف ہی کافی ہے۔ ت)
واﷲ الھادی الٰی الحق المبین والحمد اﷲ رب العالمین۔
اللہ تعالٰی ہی واضح حق کی طرف رہنمائی فرمانے والا ہے اور سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ (ت)