اقول وباﷲ التوفیق آیہ کریمہ نص جلی کہ کذب الٰہی محال عقلی ہے، وجہ دلالت سنئے خادم تفسیر وحدیث و واقف کلمات فقہاء پر روشن کہ امثال عبارات اگرچہ بظاہر نفی مزیت غیر کرتی ہیں مگر حقیقۃ تفصیل مطلق ونفی برتر وہمسر کے لئے مسوق ہوتی ہیں۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے افضل کوئی نہیں یعنی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سب سے افضل ہیں
ومن احسن من اﷲ صبغۃ ۵؎
یعنی صبغۃ اللہ سب سے احسن ہے،
ومن احسن قولاممن دعا الی اﷲ ۶؎
ای ھوا احسن قولامن کل من عداہ
(اوراس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے، یعنی وہ دوسرے تمام سے قول میں خوبصورت ہے۔ ت)
(۵؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۳۸) (۶؎ القرآن الکریم ۴۱ /۳۳)
علامۃ الوجود سیدی ابولسعود علیہ الرحمۃ الودود رتفسیر ارشاد میں زیر قولہ تعالٰی عزوجل
ومن اظلم ممن افترٰی علی اﷲ کذبا ۱؎
(اللہ تعالٰی پر جھوٹ افترا بولنے والے سے کون بڑاظالم ہے۔ ت) فرماتے ہیں:
ھو انکار واستعباد لان یکون احد اظلم ممن فعل ذٰلک اومساویالہ وان کان سبک الترکیب غیر معترض لانکار المساواۃ و نفیھا یشھد بہ العرف الفاشی والاستعمال المطرد، فانہ اذا قیل من اکرم من فلان اولا افضل من فلان فالمراد بہ حتما انہ اکرم من کل کریم وافضل من کل فاضل، الایری الی قولہ عزوجل لاجرم انھم فی الاٰخرۃ ھم الاخسرون o بعد قولہ تعالٰی ومن اظلم ممن افترٰی علی اﷲ کذبا الخ والسر فی ذٰلک ان النسبۃ بین الشیئین انما تتصور غالبا لاسیمافی باب المغالابۃ بالتفاوت زیادۃ ونقصانا فاذالم یکن احدھما ازید یتحقق النقصان لامحالۃ ۲؎۔
یہ انکار واستعبار ہے کہ اس سے بڑھ کر یا اس کے مساوی کوئی ظالم نہیں ہو سکتا اگرچہ بظاہر ترکیب انکار و نفی مساوات پر ضرب نہیں لیکن اس پر مشہور عرف اور مسلمہ استعمال شاہد ہے مثلا جب یہ کہا جاتاہے فلاں فلاں زیادہ بزرگ ہے یا فلاں سے کوئی افضل نہیں، توا س سے یقینا مراد یہ ہے کہ ہر کریم سے اکرم اور ہر فاضل سے افضل ہے کیا رائے ہے اللہ تعالٰی کے اس فرمان مبارک میں ''وہ یقینا آخرت میں خسارے میں ہیں'' جس کے بعد فرمایا ومن اظلم ممن افترٰی علی اﷲ کذبا، اوراس میں راز یہ ہے کہ نسبت غالبا دو چیزوں کے درمیان خصوصا غلبہ میں تفاوت کے باب میں زیادتی اور نقصان میں متصور ہوتی ہے جب ان میں سے کوئی ایک زیادہ نہ ہو تو بہر حال نقصان کاہی تحقق ہوگا۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶ /۲۱) (۲؎ ارشاد العقل السلیم (تفسیر ابی السعود) تحت آیۃ ۶ /۲۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۱۱۹)
تو لاجرم معنی آیت یہ ہیں کہ مولٰی عزوجل کی بات سب کی باتوں سے زیادہ صادق ہے جس کے صدق کو کسی کلام کا صدق نہیں پہنچتا اور پر ظاہر کہ صدق (عہ) کلام فی نفسہ اصلا قابل تشکیک نہیں کہ باعتبار ذوات قضایا خواہ اختلاف قدم وحدوث کلام یا بقا وفنائے سخن یا کمال ونقصان متکلم خواہ کسی وجہ سے اس میں تفاوت مان سکیں، سچی سچی باتیں مطابقت واقع میں سب یکساں اگر ذرا بھی فرق ہوا تو سرے سے سچ ہی نہ رہا، اصدق وصادق کہاں سے صادق آئے گا، یہ معنی اگرچہ فی نفسہٖ بدیہی ہیں مگر کلام واحد میں لحاظ کرنے سے ان اغبیاء پر بھی انکشاف تام پائیں گے جنھیں بدیہیات میں بھی حاجت شانہ جنبانی تنبیہ ہوتی ہے،
عہ: الصدق تارۃ ینسب الی القول واخری الی القائل والکلام ھٰھنا فی المعنی الاول فلا یذھبن ھذاعنک ۱۲ منہ۔
صدق کبھی قول کی طرف منسوب ہوتاہے اور کبھی قائل کی طرف، واضح رہے یہاں گفتگو معنی اول میں ہے یہ بات ذین نشین رہے ۱۲ منہ (ت)
قرآن عظیم نے فرمایا محمد رسول اللہ کہ ہم کہتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، کیا وہ جملہ محمد رسول اللہ کہ قرآن میں آیا زیادہ مطابق واقع ہے اور ہم نے جو محمد رسول اللہ کہا کم مطابق ہے، حاشا کوئی مجنون بھی اس میں تفاوت گمان نہ کرے گا یا متعدد باتوں میں دیکھئے تو یوں نظر کیجئے، فرقان عزیز نے فرمایا:
وحملہ وفصالہ ثلثون شھرا ۱؎ ط
(اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں ہے۔ ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴۶/ ۱۵)
ہم کہتے ہیں
لا الہ الا اﷲ الملک الحق المبین
(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہی مالک حق واضح ہے۔ ت) کیا وہ ارشاد کہ بچے کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوٹنا تیس مہینے میں ہے، زیادہ سچا ہے ، اور اس قول کے صدق میں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں معاذاللہ کچھ کمی ہے تو ثابت ہوا کہ اصدقیت بمعنی اشد مطابقۃ للواقع غیر معقول ہے، ہاں نظر سامع میں ایک تفاوت متصور اور اس تشکیک اصدق وصادق میں وہی مقصود معتبر جسے دو عبارتوں سے تعبیر کرسکتے ہیں، ایک یہ کہ وقعت وقبول میں زائد ہے مثلا رسول کی بات ولی کی بات سے زیادہ سچی ہے یعنی ایک کلام کہ ولی سے منقول اگر وہی بعینہ رسول سے ثابت ہوجائے قلوب میں وقعت اور قبول کی قوت اور دلوں میں سکون و طمانیت ہی اور پیدا کرے گا کہ ولی سے ثبوت تک ا س کا عشر نہ تھا اگرچہ بات حرف بحرف ایک ہے۔دوسرے احتمال کذب سے ابعد ہونا مثلا مستور کی بات سے عادل کی بات صادق تر ہے یعنی بہ نسبت اس کے احتمال کذب سے زیادہ دور ہے اور حقیقۃ تعبیر اول اسی تعبیر دوم کی طرف راجح کہ سامع کے نزدیک جس قدر احتمال کذب سے دوری ہوگی اسی درجہ وقعت ومقبولیت پوری ہوگی جب یہ امر ممہد ہوگیا تو آیہ کریمہ کا مفاد یہ قرار پایا کہ اللہ عزوجل کی بات ہر بات سے زیادہ احتمال کذب سے پاک ومنزہ ہے،کوئی خبر اور کسی کی خبر اس امر میں اس کے مساوی نہیں ہوسکتی اور شاید حضرات مخالفین بھی اس سے انکار کرتے کچھ خوف خدا دل میں لائیں، اب جو ہم خبر اہل توارت کو دیکھتے ہیں تو وہ بالبداہۃ بروجہ عادت دائمہ بدیہ غیر متخلفہ علم قطعی یقینی جازم ثابت غیر محتمل النقیض کو مفید ہوتی ہے جس میں عقل کسی طرح تجویز خلاف روا نہیں رکھتی اگرچہ بنظر نفس ذات خبر و مخبرا مکان ذاتی باقی ہے کہ ان کا جمع علی الکذب قدرت الٰہیہ سے خارج نہیں، تلویح میں ہے :
المتو اتریوجب علم الیقینی بمعنی ان العقل یحکم حکما قطعیا بانھم لم یتواطؤا علی الکذب وان مااتفقوا علیہ حق ثابت فی نفس الامر غیر محتمل للنقیض لابمعنی سلب الامکان العقلی عن تواطئھم علی الکذب۱؎ اھ ملخصاً۔
متواتر سے علم یقین حاصل ہونے کا معنی یہ ہے کہ عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ ایسے لوگوں کا اتفاق کذب پر یقیناً نہیں ہوسکتا، جس پر ان کا اتفاق ہوا ہے وہ حق اور نفس الامر میں ثابت ہے اس میں نقیض کا احتمال نہیں ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ ان کے جھوٹ پر جمع ہونے کا امکان عقلی کا سلب ہوگیا ہے۔ (ت)
(جیسا کہ مواقف ااورا س کی شرح میں ہے اوراس کی طرف شرح مقاصد اور شرح عقائد وغیرہ میں اشارہ ہے۔ ت) اسے پیش نظر رکھ کر کلام باری تعالٰی کی طرف چلئے، امکان کذب ماننے کے بعد مباحث مذکورہ دلیل دوم وفرق امور عادیہ وارادہ غیبیہ سے قطع نظر بھی ہو تو غایت درجہ اس قدر کے کلام ربانی وخبر اہل تواتر کانٹے کی تول ہم پلہ ہوں گے، جیسا کہ احتمال کذب یعنی نافی قطع ومنافی جزم اس کلام پاک میں نہیں اس سے خبر تواتر کا بھی دامن پاک اور بنظر امکان ذاتی جو احتمال عقلی خبر تواتر میں ناشی وہ بعینہ کلام الٰہی میں بھی باقی، پھر کلام الٰہی کا سب کلاموں سے اصدق ہونا، اور کسی کی بات اس سے صدقاً بھی ہمسری نہ کرسکنا کہ مفاد آیہ کریمہ تھا معاذاللہ کب درست آیا بخلاف عقیدہ مجیدہ اہلسنت وقایۃ اﷲ لھم دامت (ان کو اللہ تعالٰی کی حفاظت دائمی ہو۔ ت) یعنی امتناع عقلی کذب الٰہی کہ اس تقریر پر کلام مولٰی جل وعلا میں کسی طرح احتمال کذب کا امکان نہیں بخلاف خبر تواتر کہ احتمال امکانی رکھتی ہے اور یہ بات قطعا صرف اسی کے کلام پاک سے خاص، محال ہے کہ کوئی شخص ایسی صورت نکال سکے کہ کسی غیر خد ا پر کذب محال عقلی ہوجائے عصمت اگر بمعنی امتناع صدور وعدم قدرت ہی لیجئے تاہم امتناع ذاتی نہیں کہ سلب عصمت خود زیر قدرت، اب بحمد اﷲ شمس تابندہ کی طرح روشن درخشندہ صادق آیا کہ
من اصدق من اﷲ قیلا ۲؎
(اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔ ت) اور العزۃ اﷲ کیوں نہ صادق آئے کہ آخر
من اصدق من اﷲ حدیثا ۳؎
(اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ۔ ت) یہ دیکھو یہ منشاء تھا علماء کے اس ارشاد کاکہ زیر آیت کریمہ استدلال میں فرمایا کہ کوئی اس سے کیونکر اصدق ہوسکے کہ اس پر تو کذب محال اوروں پر ممکن والحمد اﷲ رب العالمین۔
(۲؎ القرآن الکریم ۴/ ۱۲۲) (۳؎ االقرآن الکریم ۴ /۸۷)
دلیل بست ونہم: قال المولٰی سبحانہ وتعالٰی:
قل ای شی اکبر شہادۃ قول اﷲ ۱؎
( اے نبی! تو کافروں سے پوچھ کون ہے جس کی گواہی سب سے بڑی ہے ۔ توخود ہی فرما کہ اللہ)
(۱؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۹)
اقول اللہ کے لئے حمد ومنت کہ یہ آیہ کریمہ آیہ سابقہ سے بھی جلی و اظہر،اور افادہ مراد میں اجلٰی وازہر، وہاں ظاہر نظر نفی اصدقیت غیر تھا اور اثبات اصدقیت کلام اللہ بحوالہ عرف یہاں صراحۃ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کی گواہیوں سے اکبر واعظم واعلٰی ہے ، اب اگر معاذاللہ امکان کذب کو دخل دیجئے تو ہر گز شہادت الٰہی کو شہادت اہل تواتر پر تفوق نہیں کہ جو یقین اس سے ملے گا اس سے بھی مہیا اور جو احتمال اس میں باق اس میں بھی پیدا تو قرآن پر ایمان لانے والے کو یہی چارہ کہ مذہب مہذب اہل سنت کی طرف رجوع کرے اور جناب عزت کے امکان کذب سے براءت پر ایمان لائے، باقی تقیریر دلیل مثل سابق ہے، فافھم واعلم اﷲ اعلم۔