دلیل نہم اقول وباﷲ التوفیق ہم زیر دلیل چہارم وہشتم بدلائل ثابت کرآئے کہ صدق صفت قائمہ بالذات ہے تو کذب بھی اگر ممکن ہو صفت ہی ہو کرممکن ہوگا۔ فانھما ضدان والتضاد مایکون بحسب الورود علی محل واحد (یہ دونوں ضدیں ہیں اور تضاد جو ایک محل پر ورود کی صورت میں ہوتاہے۔ ت) اب مخالف متعسف وفوراستحالات دیکھئے :اولا لازم کہ کذب الٰہی موجود بالفعل ہو کہ صفات باری میں کوئی صفت منتظرہ غیر واقعہ ماننا باطل ورنہ تاثر(عہ۱) بالغیر یا تخلف(عہ۲)مقتضی یا تاخر(عہ۳)اقتضا یا حدوث(عہ۴) مقتضی لازم آئے، تعالٰی اﷲ عنہ علوا کبیرا (اللہ تعالٰی اس سے بہت بلند ہے۔ ت)
عہ۱: ان کان الاتصاف لامن الذات اقول ولو لتعلق الاارادۃ فان التعلق حادث و الحادث غیر فافھم فانہ علم فی نصف سطر ۱۲ منہ۔
اگر اتصاف ذات کے اعتبارسے نہ ہو، اقول اگرچہ تعلق ارادہ کے اعتبار سے ہو کیونکہ تعلق حادث ہے اور حادث غیر ہے، اسے اچھی طرح جان لو کیونکہ اس نصف سطر میں سارا علم ہے ۱۲ منہ (ت)
عہ۲: ان اقتضی الذات ازلا ولم یتحقق۱۲ منہ مدظلہ وزید فیضہ القوی۔
اگر ذات ازالاتقاضا کرے اور وہ متحقق نہ ہو ۱۲ منہ مدظلہ وزید فیضہ القوی (ت)
اگر سب سے فرار کرے اور متقضی اور متقضی کے ساتھ رہنے کا التزام کرے ۱۲ منہ (ت)
ثانیا واجب کہ کذب واجب ہو کہ صفات الہیہ سب واجب للذات ہیں۔
ثالثا صدق (عہ) الٰہی محال ٹھہرے کہ وجوب کذب امتناع صدق ہے۔
عہ : فرق بین بناء الکلام علی قدم الصفۃ وان ماثبت قدمہ استحال عدمہ وھی مقدمۃ عویصۃ الاثبات وبین بناء علی وجوبھا وامتناع ضدھا للذات وھو من اجلی الواضحات والحمد ﷲ رب البرایات ۱۲ منہ سلمہ اﷲ تعالٰی۔
کلام کی بناء پر صفت کے قدیم ہونے پر اور واجب ہونے پر اس میں فرق ہے، اول کا مقدمہ کہ جس کا قدم ثابت ہوااس کے عدم محال ہے، اس کا اثبات پیچدہ ہے، دوسرے کا مقدمہ کہ جو واجب ہوا س کی ضد ذات کے لئے ممتنع ہوتی ہے، یہ بہت واضح ہے، تمام تعریفیں کائنات کے رب کے لئے ہیں ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی (ت)
رابعا کذب صفت کمال ہو کہ صفات باری سب صفات کمال۔
خامساً صدق صفت نقصان ہوکہ وہ عدم کذب کو مستلزم،اوراب عدم کذب عدم کمال،اور عدم کمال عین نقصان۔
سادساً۔ سابعاً، ثامناً :صدق (عہ۵)کل وکذب(عہ۶)جزئی، جب دونوں صفت(عہ۷) اور دونوں ممکن(عہ۸) تو دونوں واجب(عہ۹) تودونوں محال (عہ۱۰)تو اجتماع (عہ۱۱) نقیضین وارتفاع نقیضین واجتماع وارتفاع،سب حاصل،تاسع عشر، حادی عشر، بعینہٖ اسی طریقہ سے دونوں کمال، تو دونوں نقصان، تو دونوں مجمع کمال ونقصان، ثانی عشر، ثالث عشر، رابع عشر، جب دونوں صفت تو دونوں مقتضی، تو دونوں منافی، تو دونوں جامع اقتضاء وتنافی، خامس عشر جب دونوں مقتضی تو وجود ذات مستلزم اجتماع نقتیضین، اور جس کا وجود مستلزم محال ہو تو خود محال،تو بر تقدیر امکان کذب وجود باری معاذاللہ محال ٹھہرتاہے، مدعی معاند دیکھے کہ اس کی سلگائی آگ نے بھڑک کر کہاں تک پھونکا، یہ سردست پندرہ استحالے ہیں اور ہر استحالہ بجائے خود ایک دلیل مستقل، تو اب تک آٹھ اور پندرہ تیئس ۲۳ دلیلیں ہوئیں،
عہ۵: یعنی ہر خبر میں صادق ہونا کہ بالفعل موجود ۱۲ منہ
عہ۶: یعنی بعض اخبار میں صادق نہ ہونا کہ مخالف ممکن مانتاہے ۱۲ منہ
عہ ۷: الاولی لما فی الدلیل الرابع والثامن والثانی لمامر اٰنفا ۱۲ منہ۔
اول جیسا کہ چھوتی، آٹھویں اور دوسری میں ابھی گزرا ۱۲ منہ (ت)
عہ۸: ای بالامکان العام اماالاول فللو جود اما الثانی فبالفرض ۱۲ منہ۔
یعنی امکان عام کے ساتھ پہلا وجود کی وجہ سے اور دوسرا بالفرض ۱۲ منہ (ت)
عہ ۹: وان کل صفۃ تجب للذات ۱۲منہ۔
کیونکہ ہرصفت ذات کےلئے لازم ہے ۱۲ منہ (ت)
عہ۱۰: فان وجوب کل یستلزم استحالۃ الاخر کما مر مرار ۱۲ منہ۔
کیونکہ ہر ایک کا وجوب دوسرے کے محال ہونے سے مستلزم ہے جیساکہ کئی دفعہ گزرا ۱۲ منہ (ت)
عہ۱۱: فان الصدق الکلی یستلزم عدم الکذب والکذب الجزئی عدم الصدق الکلی ۱۲ منہ
کیونکہ صدق کلی عدم کذب کو اور کذب جزئی عدم صدق کلی کو مستلزم ہے ۱۲ منہ (ت)
دلیل بست وچہارم اقول وباﷲ التوفیق، بالفرض اگر کذب کو عیب ومنقصت نہ مانئے تو اتنابالضرورۃ ضرور کہ کوئی کمال نہیں ورنہ مولٰی تعالٰی کے لئے واجب الثبوت ہوتا اور عقل سلیم شاہد کہ باری عزوجلہ کے لئے ایسی شی کا ثبوت بھی محال جو کمال سے خالی ہو اگرچہ نقص نہ ہو،
علامہ سعدالدین تفتازانی مبحث رابع فصل تنزیہات شرح مقاصد میں فرماتے ہیں :
ان لم یکن من صفات الکمال امتنع اتصاف الواجب بہ للاتفاق علی ان کل مایتصف ھو بہ یلزم ان یکون صفۃ کمال ۱؎۔
اگر وہ صفات کمالیہ میںسے نہیں تو اس کے ساتھ واجب کا اتصاف ممتنع ہے کیونکہ اس پر اتفاق ہے کہ واجب جس کے ساتھ متصف ہوگا اس کا صفت کمال ہونا ضروری ہے۔ (ت)
(۱؎ شرح المقاصد المبحث الرابع فی امتناعی اتصافہ بالحادث دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۷۱)
علامہ ابن ابی شریف مسایرہ میں فرماتے ہیں :
یستحیل علیہ تعالٰی کل صفۃ لاکمال فیھا ولانقص لان کلان من صفات الالٰہ صفۃ کمال ۲؎۔
اللہ تعالٰی کے لئے ہر وہ صفت محال ہے جس میں نہ کمال ہو اور نہ نقص ہو کیونکہ اللہ تعالٰی کی ہر صفت صفت کمال ہے، (ت)
دلیل بست وپنجم اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) بداہت عقل شاہد عدل کہ جو مطلق کذب پر قادر ہوگا کذب مطلق پر بھی قدرت رکھے گا کہ بعض کلام میں کذب پر قادر اور بعض میں اس سے عاجز ہونے کے کوئی معنی نہیں، اور قرآن کلام اللہ قطعا حق جس کے بعض قضایا مثل قولہ تعالٰی لاالہ الااللہ وقولہ تعالٰی محمد رسول اللہ وغیرہما کے صدق پر عقل صرف بے توقف شرع وتوقیف سمع خود حکم کرتی ہے تو واجب کہ قرآن عظیم مقتضائے ذات نہ ہو، اورنہ کذب مطلق مقدور نہ رہے گا کہ کلام ہر گز کاذب نہیں ہوسکتا اور جو کچھ ذات نہ مقتضائے ذات وہ قطعا حادث ومخلوق تو کذب الٰہی کا ممکن ماننا قرآن عظیم کلام اللہ کے حادث ومخلوق ماننے کو مستلزم اب بعد تنبیہ بھی اصرار کرو تو اب معتزلی کرامی گمراہ ہونے سے کیوں انکار کرو۔
دلیل بست وششم اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) جب بر تقدیر امکان کذب، بوجہ بطلان ترجیح بلامرجح ونیز بحکم بداہت غیرمکذوبہ، ہر فرد کذب قدرت الٰہی میں ہوا تو ہر فرد صدق مقدور ہوگا ورنہ صدق البعض واجب یا محال ہوگا۔ تو کذب فی البعض محال یا واجب حالانکہ ہر فرد کذب مقدور مانا تھا، ''ہذا خلف'' پس صدق وکذب کا ہر ہر فرد و مقدور ہوا اور ہر مقدور حادث تو کلام الٰہی سے مطابقت ولامطابقت دونوں مرتفع، اویہ بداہۃ محال۔
دلیل بست وہفتم اقول وباﷲ التوفیق کتب حدیث وسیر مطالعہ کیجئے بہت خوش نصیب ذی عقل لبیب صرف جمال جہاں آرائے حضور پرنور سید عالم سرور اکرم مولائے اعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دیکھ کر ایمان لائے، کہ لیس ھذا وجہ الکذابین یہ منہ جھوٹ بولنے والے کا نہیں۔ اے شخص! یہ اس کے حبیب کا پیارا منہ تھا جس پر خوبی وبہار دوعالم نثار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، اور۳ پاکی وقدوسی ہے اس کے وجہ کریم کے لئے، واللہ ! اگر آج حجاب اٹھاویں تو ابھی کھلتا ہے کہ اس وجہ کریم پر امکان کذب کی تہمت کس قدر جھوٹی تھی، مخالف اسے دلیل خطابی کہے مگر میں اسے حجت ایقانی لقب دیتااور مسلمانوں کی ہدایت ایمانی سے انصاف لیتا اور اپنے رب کے پاس اس دن کے لئے ودیعت رکھتاہوں۔