دلیل ششم: اقول وبحول اﷲ اصول (میں کہتاہوں اور اللہ تعالٰی کی توفیق سے بیان کرتاہوں( کلام الٰہی از ل میں بایجاب کلی حق تھا، معاذاللہ اس کا بعض باطل یا نہ حق نہ باطل شق ثانی تو کفر صریح(عہ۱) اور ثالث میں مطابقت ولا مطابقت دونوں کا ارتفاع اور وہ قطعا محال، اولا(عہ۲) بالبداہۃً۔
فان ارتفاع محمول الانفصال الحقیقی عن الموضوع کارتفاع النقیضین۔
کیونکہ انفصال حقیقی کے دونوں محمول کا موضوع سے ارتفاع نقیضین کے ارتفاع کی طرح ہوتاہے۔ (ت)
یعنی اس پر مخالف بھی راضی نہ ہوگا اور یہ عقلی برہان کے منافی نہیں اختصاراً اس پر اکفتاء کر لیا گیا ورنہ اس کے لئے وہ طریق جو جان چکا کہ وہ کذب کا وجوب اور صدق کا امتناع ہے جو بداہۃ عقل سے باطل ہے ۱۲ منہ (ت)
عہ۲: فیہ المقنع وحدیث الاجماع والنص تبرعی ۱۲ منہ۔
یہی کافی ہے اجماع اور نص کی بات بطور تبرع ونفل ہے ۱۲ منہ (ت)
ثانیا باجماع عقلاً، حتی الجاحظ المعتزلی وانما نزاعہ(عہ۳) فی مجرد السمیۃ۔
حتی کہ جاحظ معتزلی بھی قائل ہے نزاع محض نام میں ہے۔ (ت)
عہ۳: الخبر عند الجمہور اما صادق او کاذب لانہ امامطابق للواقع الذی ھو الممخبر عنہ وھو الصادق، اولامطابق وھو الکاذب وھذہ المنفضلۃ حقیقیۃ دائرۃ بین النفی والاثبات ونزاع من نازع لیس الافی اطلاق لفظ الصدق والکذب لغۃ ھل ھما لھٰذین المعنین لافی صدق ھذہ المنفصلۃ ۱؎ اھ مسلم الثبوت مع شرح فواتح الرحموت لمولانا بحرالعلوم قدس سرہ ۱۲ منہ۔
جمہور کے نزدیک خبر صادق ہے یا کاذب، کیونکہ اگر وہ واقع کے مطابق نہیں تو کاذب، اور یہ مفصلہ حقیقیہ ہے جو نفی واثبات کے درمیان دائرہے اورجس نے بھی اس میں نزاع کیا ہے وہ صرف لغۃ لفظ صدق وکذب کے اطلاق میں کیا ہے کہ کیا وہ ان دونوں معنی کے لئے ہیں منفصلہ حقیقہ جس کے دونوں محمول مرتفع ہوں، کے صدق میں نہیں، اھ، مسلم الثبوت مع شرح فواتح الرحموت لمولانا بحرالعلوم قدس سرہ، ۱۲ منہ (ت)
(۱؎ فواتح الرحموت شرح المسلم الثبوت بذیل المستصفی الاصل الثانی السنہ منشورات الشریف الرضی قم ایران ۲/ ۱۰۷)
ثالثا خود قرآن عظیم نفی واسطہ پر ناطق،
قال مولانا ذوالجلال فما ذا بعد الحق الاالضلل ۱؎۔
ہمارے مالک صاحب جلال کا فرمان ہے پھر حق کے بعدکیا ہے مگر گمراہی۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۱۰ /۳۲)
تو لاجرم شق اول متعین اور شاید مخالف بھی اس سے انکار نہ رکھتاہو اب ہم پوچھتے ہیں کذب ممکن علی فرض الوقوع صرف کسی کلام نقل کو عارض ہوگا یا نفیس کو بھی، اول محض بے معنی کہ صدق وکذب حقیقۃ موصوصف معنی ہے نہ صفت عبارت، ولہذا شرح مقاصد میں فرمایا :
طریق اطراد ھذاالوجہ فی کلام المتنظم من الحروف المسموعہ انہ عبارۃ عن کلامہ الازلی ومرجع الصدق والکذب الی المعنی ۲؎۔
یہ تو ایسی کلام میں جاری ہو رہاہے جو صرف مسموعہ سے بنی ہے اوریہ کلام ازلی سے عبارت ہے اور صدق و کذب کا مرجع معنی ہے۔ (ت)
(۲؎ شرح المقاصد المبحث السادس فی انہ تعالٰی متکلم دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۱۰۴)
بر تقدیر ثانی یہ کلام نفسی وہی کلام قدیم ہے یا علی تقدیر التجزی اس کا بعض ہوگا جو ازل میں ایجاباکلیاصادق تھا یا اس کا غیر شق ثانی پر قیام حوادث لازم اور اول میں انقلابِ صدق بکذب کہ کلامِ بشر میں بھی محال، سچی بات کبھی جھو ٹی (عہ) نہیں ہوسکتی، نہ جھوٹی کبھی سچی، ورنہ مطابقت ولا مطابقت میں تصادم لازم آئے اورتقیضین باہم نقیضین نہ رہیں،
عہ : یہاں بعض اذہان میں یہ شبہہ گزرتاہے کہ زید آج قائم ہے توقضیہ زید قائم حق ہے، کل قائم نہ رہا تو زید لیس بقائم حق ہوگیا اور اس کی حقیقت اس کے کذب کو مستلزم، اقول ان صاحبوں نے فعلیہ ودائمہ میں فرق نہ کیا یا نہ جانا کہ دومطلقہ عامہ میں تناقص نہیں، مسلم الثبوت میں ہے :
الخبر الصادق صادق دائما والکاذب کاذب دائما ۳؎۔
خبر صادق ہمیشہ صادق اور خبر کاذب ہمیشہ کاذب ہوتی ہے۔ (ت)
(۳؎ مسلم الثبوت الاصل الثانی السنۃ مطبع انصاری دہلی ص۱۷۶)
مولانا قدس سرہ فواتح میں فرماتے ہیں:
ولایکن ان یدخلا فی شیئ من الاخبار، وفرق بین تحقق مصداق الخبر وصدقہ فان الاول قدیختلف بحسب الاوقات واما صدق خبر فدائم فان صدق المطلقۃ دائم فالصادق دائما، فلایدخلہ الکذب اصلا ولا اجتمعا والکذب کاذب دائما فایدخلہ الصدق اھ ملخصا ۱۲ منہ سلمہ اﷲ تعالٰی۔
دونوں کاکسی خبر میں جمع ہونا ممکن نہیں، اور خبر کے مصداق کے تحقق اوراس کے صدق میں فرق ہے کیونکہ پہلا اوقات کے اعتبار سے مختلف ہوتاہے ،رہا صدق خبر تو وہ دائمی ہے کیونکہ مطلقہ کا صدق دائمی ہوتاہے لہذا صادق ہمیشہ صادق ہی ہوگا اور اس میں کبھی بھی کذب داخل نہیں ہوسکتا ورنہ دونوں کا اجتماع ہوجائے گا اورکاذب ہمیشہ کاذب ہی رہے گا اس میں صدق داخل نہیں ہوسکتا اھ ملخصا ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی (ت)
بالجملہ کلام صادق کے لئے ثبوت صدق ضروری، تو سلب ضرورت ضرورۃً مسلوب، وھوالمطلوب۔
وانت تعلم ان صدور اکلام القدیم منہ سبحانہ وتعالٰی لیس علی وجہ الاختیار فان القدیم الایستندالی المختار من حیث ھومختار و القراٰن کلام اﷲ غیر مخلوق ولافی اقتدار فلایستزلک الشیطان ان الاستحالۃ انماجاءت من ان المولی سبحانہ وتعالٰی لم یصدر فی الازل الاکلاما صادقاً وھو لایقدر ان ان یخلق لنفسہ صفۃ حادثۃ فبقی الامکان فی بدو الامر علی ماکان۔
اورتم جانتے ہوا للہ تعالٰی سبحانہ سے کلام قدیم کا صدور اختیاری نہیں کیونکہ قدیم کسی مختار من حیث مختار کی منسوب نہیں ہوسکتا، قرآن اللہ تعالٰی کا کلام ہے جو مخلوق نہیں اور تحت قدرت نہیں _____ تمھیں شیطان ا س بات سے نہ پھسلادے کہ استحالہ یہاں سے لازم آیا کہ اللہ تعالٰی سے ازل میں کلام صادق ہی صادر ہوا، اور وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اپنی ذات کے لئے صفت حادثہ پیدا کرے تو ابتدائی امر میں امکان باقی رہا جیسا کہ تھا۔ (ت)
دلیل ہفتم: وھو اختصر واظھر اقول وباللہ التوفیق (جو نہایت مختصر اور بہت ہی واضح ہے، میں کہتاہوں اور توفیق اللہ سے ہے۔ ت) امکان کذب اس کی فعلیت بلکہ ضرورت کو مستلزم کہ اگرم کلام نفسی ازلی ابدی واجب للذات مستحیل التجدد وکذب پرمشتمل نہ ہو تو کلام لفظی کا کذب ممکن نہیں ورنہ وجوددال بلامدلول (عہ) یاکذب دال مع صدق المدلول لازم آئے اور یوں دونوں بالبداہۃ محال، او جب کلام لفظی میں کذب ممکن نہ ہو تو نفسی میں ممکن نہیں، ورنہ باری عزوجل کا عجز عن التعیر لازم آئے تو لاجرم امکان کذب ماننے والا اپنے رب کو واقعی کاذب مانتاہے اور اس کے کلام نفسی میں کذب موجود بالفعل جانتاہے اور وہاں فعل ودوام ووجوب متلازم وبوجہ آخر اوضح وازہر۔
عہ: المدلول ھوالمعنی فلانقض بالمعدوم ۱۲ منہ
مدلول وہ معنی ہی ہے لہذامعدوم کے ساتھ کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۱۲ منہ (ت)
اقول وباﷲ التوفیق
(میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) تمھارے دعوٰی کا حاصل یہ کہ
بعض ماھوکلام اﷲ تعالٰی فھو ممکن الکذب بالضرورۃ
(اللہ تعالٰی کے کلام کابعض ضرور ممکن الکذب ہے۔ ت) اور شک نہیں کہ
کل ماھو ممکن الکذ کاذب بالضرورۃ
(اورجو ممکن الکذب ہووہ ضرور کاذب ہوتاہے۔ ت) کہ کلام واحد میں امکان کذب بے فعلیت کذب متصورنہیں اور فعلیت کذب امتناع صدق اور امتناع صدق ضرورت کذب ہے، نتیجہ نکلا
بعض ماھو کلام اﷲ تعالٰی کاذب بالضرورۃ
(اللہ تعالٰی کے کلام کا بعض ضرور کاذب ہے۔ ت) اب اس میں وصف عنوانی کا صدق خواہ بالفعل
لوکماھو المشہور
(جیساکہ یہ مشہور ہے۔ ت)
خواہ بالامکان لو کما ھو عندالفارابی
(جیسا کہ فارابی کے ہاں ہے۔ ت) ہر طرح باری عزوجل کا معاذاللہ کاذب بالفعل ہونا لازم، برتقدیر اول تو لزوم بدیہی، اور برتقدیر ثانی اس قضیہ یعنی
بعض ماہو کلام اﷲ بالامکان العام کاذب بالضرورۃ
(جو اللہ تعالٰی کا کلام بامکان العام ہے وہ ضرور کاذب ہے۔ ت)کو کبرٰی کیجئے اور
قضیہ کل ماھو کلام اﷲ بالامکان العام فھو کلام اﷲ بالفعل
(ہر کلام جو کلام اللہ بامکان والعام ہے وہ بالفعل کلام اللہ ہے۔ ت) کو صغرٰی ثبوت صغرٰی یہ کہ باری تعالٰی کے لئے کوئی حالت منتظرہ نہیں۔ شکل ثالث کی ضرب خامس پھر وہی نتیجہ دے گی کہ
بعض ماھو کلام اﷲ بالفعل کاذب بالضرورۃ
(بعض کلام اللہ بالفعل ضرور کاذب ہے۔ ت)
والعیاذباللہ تعالٰی، بلکہ حقیقۃ یہ وجہ دلیل (عہ) مستقل ہونے کے قابل،
کما لایخفی علی المتأمل۔ واﷲ الموفق لابطال الباطل
(جیسا کہ کسی صاحب فکر پر مخفی نہیں، اور اللہ تعالٰی ہی ابطال باطل کی توفیق دینے والا ہے۔ ت)
عہ : حاصل الوجہ الاول ان علی قول الامکان لابد من فعلیۃ فی الکلام النفسی و الا لامتنع فی اللفظی لانہ لایکون الاتعبیر ا عن نفسی ولاامکان ھھنا لنفسی اٰخر غیر ھٰذا الموجود المفروض ان لاکذب فیہ والتعبیر عن الصادق بالکاذب محال واذا متنع فی الفظی فی النفسی والالزم العجز عن التعبیر فلو لم یوجد فی النفسی بالفعل لامتنع اصلا لکنہ ممکن عندک فیجب ان یوجد فیدوم فیجب وحاصل الثانی ان لو امکن فی کلام لہ لوجد ذٰلک الکلام لعدم الانتظار فیکون بعض ماھو کلامہ بالفعل ممکن الکذب ولایمکن کذب کلام الا اذاکان کاذباً و الکاذب کاذب بالضرورۃ وظاہران بین الوجھین بوناً بیناً فھما دلیلان مستقلان حقیقۃ والحمد ﷲ وبہ التوفیق ۱۲ منہ سلمہ اﷲ تعالٰی۔
پہلی وجہ کا حاصل یہ ہے کہ قول امکان پر کلام نفسی میں فعلیت ضروری ہے ورنہ کلام لفظی میں امتناع ہوگا، جب لفظی میں امتناع ہوگا تو نفسی میں امتناع ضرور ہوگا کیونکہ لفظی صرف نفسی کی تعبیر ہے جبکہ اس موجود نفسی جس میں کذب نہ ہونا مفروض ہے کے علاوہ کسی اور نفسی کا امکان نہیں اور صادق کی کاذب کے ساتھ تعبیر محال ہے اور جب لفظی میں امتناع ہے تو نفسی میں بھی ہوگا ورنہ تعبیر سے عجز لازم آئے گا، اور اگر وہ نفسی میں عملا موجود نہیں تو وہ اصلا موجود نہ ہوگالیکن وہ تمھارے نزدیک ممکن ہے تو اس کا موجود ہونا ضروری ہوگا پس وہ دائمی اورواجب ہوگا اور ثانی وجہ کاحاصل یہ ہے کہ اگر یہ کلام میں ممکن ہوا تو عدم انتظار کی وجہ سے وہ کلام موجود ہوگا تو بعض کلام عملاً ممکن الکذب ہوگا اور کذب کلام اس وقت ممکن ہوگا جو وہ کاذب ہو، اور کاذب بالضرورۃ کاذب ہی ہوگا، تو بعض کلام عملا بالضرورۃ کاذب ہوگا تو دودلیلوں کے درمیان واضح بعد ہے لہذا یہ دونوں حقیقۃ مستقل دلیلیں ہیں، تمام تعریف اللہ تعالٰی کے لئے اور توفیق اس سے ہے ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی (ت)
دلیل ہشتم اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) صدق الٰہی صفت قائمہ بذات کریم ہے ورنہ مخلوق ہوگا کہ ذات وصفات کے سوا سب مخلوق اور ہر مخلوق عدم سے مسبوق تو لازم کہ غیر متناہی دور ازل میں اللہ تعالٰی سچا نہ ہو، تعالٰی عن ذلک علوا کبیرا (اللہ تعالٰی اس سے بہت بلند ہے۔ ت) اور جب صدق صفت قائمہ بالذات ہے اور صفات مقتضائے ذات اور مقتضائے ذات میں تغیر محال کہ تغیر مقتضی تغیر مقتضی کو مقتضی اور تغیر ذات عموما محال خصوصا جناب عزت میں جہاں تغیر صفت بھی مستحیل تو لاجرم کذب منافی ذات ہوااور منافی ذات کا وقوع نافی ذات اس سے بڑھ کر اور کیا استحالہ متصور۔