Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
55 - 150
دلیل چہارم: جس کی طرف امام فخر الدین رازی نے نص ۱۶ میں اشارہ فرمایا کہ جب اہلسنت کے نزدیک اللہ عزوجل کا صدق ازلی تو کذب محال کہ ہر ازلی ممتنع الزوال، اقول وباللہ التوفیق تصویر دلیل یہ ہے کہ اللہ عزوجل پر اسم صادق کا طلاق قطع نظر اس سے کہ قرآن (عہ) وحدیث واجماع سے ثابت، مخالفان عنید یعنی طائفہ جدید کو بھی مقبول کہ وہ بھی اللہ عزوجل کو صادق بالفعل تو مانتےہیں اگرچہ صادق بالضرورۃ ہونےسے انکار کرتےہیں کہ جب کذب ممکن جانا اور امکان نہیں مگر جانب مخالف سے سلب ضرورت تو لاجرم باری تعالٰی کے صادق ہونے کو ضروری نہ مانامگر جاہل کہ صادق بالفعل ماننا ہی ان کے مذہب نامہذب کا استیصال کر گیا کہ جب وہ صادق ہے اور صدق مشتق قیام مبدء کو مستلزم، تو واجب کہ صدق اس کی ذات پاک سے قائم اور ذات الٰہی سے قیام حوادث محال، تو ثابت کہ صدق الٰہی ازلی ہے بعینہ اسی طریقہ سے ہمارے ائمہ کرام نے تکوین وغیرہ کا صفات ازلیہ سے ہونا ثابت فرمایا۔
عہ : اما القراٰن فقولہ تعالٰی ذٰلک جزینٰھم ببغیھم وانا لصدقون ۱؎ o وقول تعالٰی من اصدق من اﷲ قیلا ۲؎o فان المعنی ان اﷲ تعالٰی اصدق قائل وحمل الاصدق حمل الصادق مع زیادۃ واماالحدیث فقد عد الصادق من الاسماء الحسنٰی فی حدیث ابن ماجۃ ۳؎ وحدیث الحاکم فی المستدرک وابی الشیخ و ابن مردویۃ فی تفسیریھما وابی نعیم فی کتاب الاسماء الحسنٰی کلھم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واما ا لاجماع فظاھر لاینکر ۱۲ منہ۔
قرآن میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے یہ ہم نے ان کی بغاوت کی سزادی اور ہم یقینا سچے ہیں،دوسرے مقام پر فرمایا: اللہ تعالٰی سے بڑھ کر کون زیاد سچاہے، معنی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی سب سے بڑھ کر صادق ہے، اور اصدق کا حمل صادق مع زیادۃ کا حمل ہے رہی حدیث تو حدیث میں اسماء حسنٰی میں صادق کو شمار وشامل کیا گیاہے، اور یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہے اور اسے ابن ماجہ، حاکم نے مستدرک میں، ابوالشیخ اور ابن مردویہ نے اپنی تفاسیر اور امام ابو نعیم نے ''کتاب الاسماء الحسنی'' میں ذکر کیا، رہا اجماع تو واضح ہے، اس کا انکار کیا ہی نہیں جاسکتا ۱۲ منہ (ت)
 (۱؎ القرآن الکریم    ۶/ ۱۴۶)

(۲؎ القرآن اکریم                        ۴/ ۱۲۲)

(۳؎ سنن ابن ماجہ     ابواب الدعاء باب اسماء اللہ عزوجل    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۸۳)
شرح عقائد نسفی میں ہے :
 (التکوین صفۃ) ﷲ تعالٰی لاطباق العقل و النقل علٰی انہ تعالٰی خالق للعالم مکون لہ وامتناع اطلاق الاسم المشتق علی الشیئ من غیر ان یکون ماخذ الاشاق وصفالہ قائمہ بہ (ازلیۃ) بوجوہ الاول انہ یمتنع قیام الحوادث بذاتہ تعالٰی لما مر ۱؎ اھ ملخصا۔
 (تکوین صفت ہے) اللہ تعالٰی کی، کیونکہ عقل ونقل اس پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالٰی جہاں کا خالق اور بنانے والا ہے اور کسی شے، پر اسم مشتق کا اطلاق اس وقت تک ممتنع ہوتاہے جب تک مادہ اشتقاق اس کا وصف اوراس کے ساتھ قائم نہ ہو (ازلی ہے) اس پر متعدد دلائل ہیں، اول یہ کہ اللہ تعالٰی کی ذات اقدس کے ساتھ حوادث کاقیام ممتنع ہے جیساکہ گزرچکا ہے اھ ملخصا (ت)
 (۱؎ شرح العقائد النسفیہ    بیان صفات باری تعالٰی    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ص۵۰)
اسی میں ہے:
اﷲ تعالٰی متکلم بکلام ھو صفۃلہ ضرورۃ امتناع اثبات المشتق لشیئ من غیرقیام ماخذ الاشتقاق بہ ۲؎۔
اللہ تعالٰی متکلم بکلام ہے اور یہ اس کی صفت ہے کیونکہ یہ بدیہی بات ہے کہ کسی شیئ کے لئے مشتق کا اثبات اس کے ساتھ ماخذ اشتقاق کے قیام کے بغیر ممتنع ہوتاہے۔ (ت)
 (۲؎شرح العقائد النسفیہ    بیان صفات باری تعالٰی    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ص۴۴)
منح الروض میں مسامرہ سے ہے :
الایمان من صفات اﷲ تعالٰی من اسمائہ الحسنی ''المؤمن'' کما نطقق بہ الکتاب العزیز، وایمانہ ھو تصدیقہ فی الازل بکلامہ القدیم ولایقال ان تصدیقہ محدث ولامخلوق تعالٰی اﷲ ان یقوم بہ الحادث ۱؎ اھ ملخصا۔
ایمان، اللہ تعالٰی کی صفات میں سے ہے کیونکہ ا س کے اسماء حسنی میں ''المؤمن'' بھی ہے جیسا کہ قرآن عزیز اس پر ناطق ہے اور اس کا ایمان ازل میں کلام قدیم کی تصدیق ہے،یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ا س کی تصدیق محدث ومخلوق ہے کیونکہ وہ اس سے بلند ہے کہ اس کے ساتھ کوئی حادث قائم ہو  اھ ملخصا (ت)
 (۱؎ منح الروض الازہر شرح فقہ الکبر     باب الایمان مخلوق اولا    مصطفی البابی مصر    ص۱۴۳)
اور جب صدق الٰہی ازلی ہوا تو امکان کذب کا محل نہ رہا کہ اس کا وقوع بے انعدام صدق ممکن نہیں تحقیقا لمعنی التضاد (کیونکہ ان میں تضاد پایا جاتا ہے، ت) اورانعدام صدق محال ہے کہ علم کلام میں مبین ہوچکا کہ قدیم اصلا قابل عدم نہیں فتبصر۔
دلیل پنجم: اگر باری عزوجل کذب سے متصف ہوسکے تو اس کا کذب اگر ہوگا توقدیم ہی ہوگا کہ اس کی کوئی صفت حادثہ نہیں، اور جو قدیم ہے معدوم نہیں ہوسکتا، تو لازم کہ صدق الٰہی محال ہوجائے حالانکہ یہ بالبداہۃ باطل، توکذب سے اتصاف ناممکن، یہ دلیل تفسیر کبیر و مواقف وشرح مقاصد میں افادہ فرمائی، امام کی عبارت یہ ہے زیر قولہ تعالٰی
ومن اصدق من اﷲ حدیثا ۲؎
(اللہ تعالٰی سے بڑھ کر کون سے سچی بات فرمانے والا۔ ت)
(۲؎ القرآن الکریم    ۴/۸۷)
امتناع کذب الٰہی پر اہل سنت کی دلیل بیان کرتے ہیں:
اما اصحابنا فدلیلھم انہ لوکان کاذبا لکان کذبہ قدیما، ولو کان کذبہ قدیما لامتنع زوال کذبہ لامتناع العدم علی التقدیم، ولوامتنع زوال کذبہ قدیما لامتنع کونہ صادقا، لان وجود احد الضدین یمنع وجود الضد الاٰخر فلو کان کاذبا لامتنع ان یصدق لکنہ غیر ممتنع، لانا نعلم بالضرورۃ ان کل من علم شیئا فان لایمتنع علی ان یحکم علیہ بحکم مطابق للمحکوم علیہم والعلم بھذہ الصحۃ ضروری، فاذاکان امکان الصدق قائما کان امتناع الکذب حاصلا لامحالۃ ۱؎۔
ہمارے علماء کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ کاذب ہے تو اس کا کذب قدیم ہوگا اور اس کا کذب قدیم ہے تو اس کے کذب کا زوال ممتنع ہوگا کیونکہ قدیم پر عدم، ممتنع ہوتاہے، اوراگر سا کے کذب کا زوال قدیما ممتنع ہے تو اس کا صادق ہونا ممتنع ہوگا کیونکہ ضدین میں سے ایک کا وجود دوسرے کے وجود کے لئے امتناع کاسبب ہوتاہے،تواگر وہ کاذب ہے تو اس کا صادق ہونا ممتنع ہوگا لیکن یہ تو ممتنع نہیں کیونکہ ہم بداہۃ جانتے ہیں کہ جو شخص کسی شی کے بارے میں علم رکھتاہو اس کے لئے اس شے پر محکوم علیہ کے مطابق حکم لگانےمیں کوئی امتناع نہیں اور اس ضابطہ کی صحبت کا علم و یقین ضروری ہے جب امکان صدق قائم ہے تو کذب کا حصول ہر صورت میں ممتنع ہوگا۔ (ت)
(۱؎ مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر)  تحت آیۃ ومن اصدق من اللہ حدیثاً    المطبعۃ البہیۃ مصر       ۱۰/ ۲۱۷، ۲۱۸)
اقول وباللہ التوفیق تحریر دلیل یہ ہے کہ تم نے باری عزوجل کا تکلم بکلام کذب تو ممکن مانا اس کا کاذب ومتصف بالکذب ہونا بھی ممکن مانتے ہو یا نہیں؟ اگر کہئے نہ تو قول بالمتناقضین اور بداہت عقل سے خروج ہے کہ کاذب ومتصب بالکذب نہیں مگر وہی جو تکلم بکلام(عہ) کذب کرے اسے ممکن کہہ کر اسے محال ماننا نرا جنون ہے۔ اور اگر کہئے ہاں، تو اب ہم پوچھتے ہیں یہ انصاف صرف لم یزل میں ممکن یا ازل میں بھی شق اول باطل کہ امکان قیام حوادث کو مستلزم اور شق ثانی پر جب ازلیت کذب ممکن ہوئی تو اس کا ممتنع الزوال ہونا ممکن ہوا کہ ہر ازلی واجب الابدیۃ اور کذب کا امتناع زوال استحالہ صدق کو مستلزم کہ کذب وصدق کا اجتماع محال، جب اس کا زوال محال ہوگا ا س کا ثبوت ممتنع ہوگا، اورامکان وجود ملزوم امکان وجود لازم کو مستلزم، تحقیقا لمعنی اللزوم حیث کان ذاتیا لالعارض کما ھٰھنا (معنی لزوم کے ثبوت کی وجہ سے ذاتی ہے نہ کہ کسی عارض کی وجہ سے، جیساکہ یہاں ہے۔ ت) تو لازم آیا کہ صدق الٰہی کا محال ہونا ممکن ہواور استحالہ اسی شے کا ممکن ہوگا جو فی الواقع محال ہو بھی کہ ممکن کا محال ہوجا ہر گز ممکن نہیں ورنہ انقلاب لازم آئے اوروہ قطعا باطل۔ تو ثابت ہوا کہ اگرباری تعالٰی کا امکان کذب مانا تو اس کا صدق محال ہوگا لیکن وہ بالبداہۃ محال نہیں تو امکان کذب یقینا باطل، اور استحالہ کذب قطعا حاصل۔
والحمد اﷲ اصدق قائل الدلائل الفائضۃ علی قلب الفقیر بعون القدیر عز جدہ وجل مجدہ۔
تمام تعریف اللہ تعالٰی کی ان سچے دلائل پر جو قدیر عزجدہ وجل مجدکی مدد سے فقیر کے دل پر وارد ہوئے۔ (ت)
عہ:  ای انشاء لاحکایۃ اذلاکلام فیہا کما لایخفی ففی القراٰن العظیم جمل عن الکفار من اراجیفھم الباطلۃ ۱۲ منہ
یعنی بطور انشاء نہ کہ بطور حکایت کیونکہ اس میں کلام ہی نہیں جیسا کہ واضح ہے تو قرآن میں ایسے جملے موجود ہے جن میں کفار کی باطل اداکا تذکرہ ہے ۱۲ منہ (ت)
Flag Counter