Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
54 - 150
دلیل دوم: العظمۃ للہ اگر کذب الٰہی ممکن ہو تو اسلام پر وہ طعن لازم آئیں کہ اٹھائے نہ اٹھیں، کافروں ملحدوں کو اعتراض ومقال وعناد وجدال کی وہ مجالیں ملیں کہ مٹائے نہ مٹیں۔ دلائل قرآن عظیم ووحی حکیم یک دست ہاتھ سے جائیں حشر ونشر وحساب وکتاب وجنت ونار وثواب وعذاب کسی پر یقین کی کوئی راہ نہ پائیں کہ آخر ان امور پر ایمان صرف اخبار الٰہی سے ہے جب معاذاللہ کذب الٰہی ممکن ہو تو عقل کو ہر خبرالٰہی میں احتمال رہے گا، شاید ہونہی فرمادی ہو، شاید ٹھیک نہ پڑے
سبحٰنہ وتعالٰی عمایصفون، ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم
(پاک اور بلند ہے اللہ تعالٰی کی ذات جس کی عبارت سے جو وہ بیان کرتے ہیں
ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔ ت)
یہ دلیل شرع مقاصد میں افادہ فرمائی جس کی عبارت نص چہارم میں گزری، اور امام رازی نے بھی تفسیر کبیر میں زیر قولہ تعالٰی وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا (پوری ہے بات تیرے رب کی سچ وانصاف میں۔ ت) اس کی طرف اشعار کیا کذب الٰہی کے محال ہونے پر دلیل عقلی قائم کرکے فرماتے ہیں:
ولایجوز اثبات ان الکذب علی اﷲ محال بالدلائل السمعیۃ لان صحۃ الدلائل السمعیۃ موقوفۃ علی ان الکذب علی اﷲ محال فلو اثبتنا امتناع الکذب علی اﷲ تعالٰی بالدلائل السمعیۃ لزم الدور و ھو باطل ۱؎۔
اللہ تعالٰی سے کذب کے محال ہونے کو دلائل سمعیہ سے ثابت کرنا جائز ہی نہیں کیونکہ خود ان دلائل سمعیہ کی صحت اس پر موقوف ہے کہ کذب اللہ تعالٰی سے محال ہے اگر ہم اللہ تعالٰی کسے امتناعی کذب کو دلائل سمعیہ سے ثابت کریں گے تو دور لازم آجائے گا جو باطل ہے۔ (ت)
 (۱؎ مفاتیح الغیب    تحت آیۃ وتمت کلمت ربک   المطبعۃ البہیہ مصر    ۱۳/ ۱۶۱)
اقول وباللہ التوفیق۔ تنویردلیل یہ ہے کہ عقلی جس امر کو ممکن جانے گی اور ممکن وہی جسے وجود وعدم وجود دونوں سے یکساں نسبت ہوتو چاہئے وہ امر کیسا ہی مستعبد ہو مگر عقل از پیش خویش اس کے ازلاً ابداً عدم وقوع پر جزم نہیں کرسکتی کہ ہر ممکن مقدور اور ہر مقدور صالح تعلق ارادہ اور ارادہ الہیہ امر غیب ہے جس تک عقل کی اصلا رسائی نہیں پھر وہ بطور خود کیونکر کہہ سکتی ہے کہ اگرچہ کذب الٰہی زیر قدرت ہے مگر مجھے اس کے ارادہ پر خبر ہے کہ ازل سے ابد تک بولا نہ بولے، ارادہ پر حکم وہیں کرسکتے ہیں جہاں خود صاحب ارادہ جل مجدہ خبر دے کہ فلاں امر ہم کبھی صادر نہ فرمائیں گے، کقولہ تعالٰی:
لایکلف اﷲ نفسا الا وسعھا ۲؎۔
اللہ تعالٰی کسی نفس کو ا س کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم       ۳/ ۲۸۶)
وقولہ تعالٰی :
یرید اﷲ بکم الیسر ولایرید بکم العسر ۱؎۔
اللہ تعالٰی تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتاہے تم پر تنگی کا ارادہ نہیں فرماتا۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم      ۲/ ۱۸۵)
امام فخر الدین رازی تفسیر سورہ بقر میں زیر آیۃ کریمہ
ام تقولون علی اﷲ مالاتعلمون
 (یا تم اللہ تعالٰی کے بارے میں

ایسی بات کہتے ہو جس کا تمھیں علم نہیں۔ ت) فرماتے ہیں:
الاٰیۃ تدل علی فوائد (الی ان قال) ثانیہا ان کل ماجاز وجودہ وعدمہ عقلالم یجز المصیر الی الاثبات اوالی النفی لابدلیل سمعی ۲؎۔
یہ آیت مبارک ان فوائد پر دال ہے (آگے چل کر کہا) دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جس شیئ کا وجود ودم عقلا جائز ہو اس کے اثبات ونفی کے لئے سمعی کی طرف رجوع ضروری ہے۔ (ت)
 (۲؎ مفاتیح الغیب     تحت آیۃ ام تقولون علی اﷲ مالاتعلمون    المطبعۃ البہیہ مصر    ۳/ ۱۶۰)
اور تفسیر سورہ انعام میں زیر قول تعالٰی :
قل اﷲ شہید بینی وبینکم قف
 (فرمادیجئے اللہ تعالٰی میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے۔ ت) فرماتے ہیں :
المطالب علی اقسام ثلثۃ منھا ما یمتنع اثباتہ بالدلائل السمعیۃ، فان کل ما یتوقف  صحۃ السمع علی صحت امتنع اثباتہ بالسمع والالزم الدور، ومنھا مایمتنع اثباتہ بالعقل وھو کل شیئ یصح وجودہ ویصح عدمہ عقلا فلا امتناع فی احد الطرفین اصلا فالقطع علی احد الطرفین بعینہ لایمکن الابالدلیل السمعی ۳؎ الخ۔
مطالب کی تین اقسام ہیں: ایک جن کا اثبات دلائل سمعیہ سے ممتنع ہے کیونکہ ہر وہ چیز جس کا اثبات صحت سمع پر موقوف ہے اس کا اثبات سمع سے نہیں ہوسکتا ورنہ دور لازم آئے گا، دوسراجن کا اثبات عقل سے ممتنع ہے اور وہ ہر شی ہے جس کاوجود وعدم عقلا صحیح ہو وہ دونوں میں سے کوئی ممتنع نہ ہو تو اب ایک جانب میں یقین دلیل سمعی کے بغیر ممکن نہیں الخ (ت)
 (۳؎مفاتیح الغیب	 قل ای شی اکبر شہادۃ الخ   المطبعۃ البہیہ مصر    ۱۲/ ۱۷۶)
امام الحرمین قدس سرہ کتاب الارشاد میں ارشاد فرماتے ہیں:
اعلموا وفقکم اﷲ تعالٰی ان اصول العقائد تنقسم الی مایدریک عقلا ولایسوع تقدیر ادراکہ سمعا، الی مایدریک سمعا ولایتقدر ادارکہ عقلاو الی مایجوز ادراکہ سمعا وعقلا فاما مالایدرک الاعقلا فکل قاعدۃ فی الدین یتقدم علی العلم

بکلام اﷲ تعالٰی ووجوب اتصافہ بکونہ صدقا اذا السمعیات تستندالی کلام اﷲ تعالٰی وماسبق ثبوتہ فی المرتبۃ علی ثبوت الکلام وجوبا فیستحیل ان یکون مدرکہ السمع واماما لایدرک الاسمعا فھو القضاء بوقوع مایجوز فی العقل فلایتقدرالحکم بثبوت الجائز ثبوتہ فیما یتقدر الحکم بثبوت الجائز ثبوتہ فیما غاب عنا الابسمع ۱؎ الخ۔
جان لو (اللہ تعالٰی تمھیں توفیق دے) اصول عقائدکی تقسیم یوں ہے کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا ادراک عقل ہے ان کا ادراک سمعی جائز ہی نہیں، کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا ادراک سمعی ہے ان کا ادارک عقلی نہیں ہوسکتا، کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا ادراک عقلا اور سمعا دونوں طرح جائز ہوتاہے، وہ چیزیں جن کا ادراک فقط عقلا ہے تو دین کا ہر وہ قاعدہ جو اللہ تعالٰی کے کلام اور صدق سے اس کے وجوبی اتصاف سے پہلے ہے کیونکہ دلائل سمعیہ کا اعتماد اثبات کلام الٰہی سے ہوتا ہے تو جس کے مرتبہ کا ثبوت کلام کے ثبوت سے پہلے ہونا لازم ہے تو اب محال ہے کہ اس کا سبب ادراک سمع ہو اور جن چیزوں کا ادراک فقط سمع سے ہے تو وہ عقلی طورپر جائز الوجود چیزکے وقوع کافیصلہ ہے تو سمع کے بغیر کسی جائز الوجود چیز جو ہم سے غائب ہے کے ثبوت کا حکم جائز الوجود چیز سے نہیں ہوسکتا الخ (ت)
(۱؎ الارشاد فی الکلام)
شرح عقائد نسفی میں ہے:
القضایا منھا ماھی ممکنات لاطریق الی الجزم باحدجانبھا فکان من فضل اﷲ ورحمتہ ارسال الرسل لبیان ذٰلک۲؎ اھ ملخصا۔
کچھ چیزیں ان میں سے ممکن ہیں ان کی کسی ایک جانب کا جزم نہیں ہوسکتا تو اس کے بیان کے لئے رسولوں کا بھیجنا اللہ تعالٰی کا فضل ورحمت ہے اھ ملخصا (ت)
 (۲؎ شرح العقائد النسفیہ    بیان ارسال رسل    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ص۹۸)
میں کہتاہوں اب آدمیوں ہی میں دیکھ لیجئے کہ جوکام زید کی قدرت میں ہے دوسرا ہر گز اس پر جزم نہیں کرسکتا کہ وہ کبھی اسے نہ کرے گا پھر یہاں بعد اخبار زید بھی جزم وتیقن کی راہ نہیں۔ مثلا زید کہے بلکہ قسم بھی کھائے کہ میں اس سال ہر گز سفر نہ کروں گا تاہم دوسرا اگرچہ صدق زید کا کیسا ہی معتقد ہو قسم نہیں کھا سکتا کہ زید اس سال یقینا سفر نہ کرے گا اور کھائے تو سخت جری وبیباک اور نگاہ عقلاء میں ہلکا ٹھہرے گا تو وجہ کیا، وہی کہ غیب کا حال معلوم نہیں اور زید کی بات سچی ہی ہونی کیا ضرور ممکن کہ فرق پڑجائے جب یہ مقدمہ ذہن نشین ہو لیا اور اب تم نے کذب الٰہی کہ زیر قدرت مانا تو عقلا ہر خبر میں احتمال کذب ہواہی رہا یہ کہ خبر الٰہی یقین دلائے کہ اللہ عزوجل اگرچہ جھوٹ بولنے پر قادر ہے، مگر نہ کبھی بولا، نہ بولے ہیہات اس یقین کی طرف بھی کوئی راہ نہیں کہ آخریہ کلام الٰہی سے خود ایک کلام ہوگی تو عقلا ممکن کہ یہی بروجہ کذب صادر ہوئی ہو پھر وہ کون سا ذریعہ وثوق رہا جس کے سبب عقل یقین کرسکے یہ ممکن جو قدرت الٰہی میں تھا واقع نہ ہواخلاصہ یہ کہ جب کذب عقلا ممکن تو استحالہ عقلی تو تم خود نہیں مانتے، رہا استحالہ شرعی وہ دلیل شرع سے مستفاد ہوتاہے اور دلائل شرع سب کلام الٰہی کی طر ف منتہی۔ کما مر من ارشاد امام الحرمین (جیسا کہ امام الحرمین کے ارشاد سے گزرا۔ ت) تو جس کلام الٰہی سے کذب الٰہی کا استحالہ ثابت کیجئے پہلے خود اسی کلام الٰہی کا وجوب صدق شرعا ثابت کیجئے، لاجرم دو ریا تسلسل سے چارہ نہیں، اب عقلی وشرعی دونوں استحالے اٹھ گئے اور اللہ تعالٰی کی بات معاذاللہ زید وعمرو کی سی بات ہو کررہ گئی تعالٰی اﷲ عما یقولون علوا کبیرا (یہ جو کہتے ہیں اللہ تعالٰی اس سے نہایت ہی بلند ہے۔ ت) پھر حشر ونشر وجنت ونار وغیرہا تمام سمعیات پر ایمان لانے کا کیا ذریعہ ہے،
ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العظیم، ھذا ماعندی فی تقریر دلیل ھٰؤلاء الاعلام وفی المقام ابحاث طوال تعرف بالغوص فی الجج الکلام
 (میرے نزدیک ان علماء اعلام کی دلیل کی وضاحت وتفصیل یہی ہے اس مقام پر بڑے تفصیل مباحث ہیں جو کلام کے سمندر میں غوطہ زن ہونے سے معلوم ہوتے ہیں۔ ت)
دلیل سوم:  مواقف وشرح مواقف میں ہے :
ۤاما امتناع الکذب علیہ تعالٰی عندنا فثلثۃ اوجہ (الٰی ان قال) وایضا فیلزم علی تقدیر ان یقع الکذب فی کلامہ سبحانہ ان نکون نحن اکمل منہ فی بعض الاوقات اعنی وقت صدقنا فی کلامنا ۱؎۔
یعنی کذب الٰہی کا محال ہونا ہم اہلسنت کے نزدیک تین دلیل سے ہے ایک یہ کہ اس کے کلام میں کذب آئے تو بعض وقت ہم اس سے اکمل ہوجائیں یعنی جس وقت ہم اپنے کلام میں سچے ہوں۔
 (۱؎ شرح المواقف    المقصد السابع فی انہ تعالٰی متکلم    منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸/ ۱۰۱)
اقول تقریر دلیل یہ ہے کہ ہر محکی عنہ میں امکان کہ انسان اسے بروجہ صحیح حکایت کرے اور شک نہیں کہ جس حکایت میں جو سچا ہو وہ اس میں جھوٹے پر خاص اس وجہ کی رو سے فضل رکھتاہے اگرچہ اور کروڑوں وجہ سے مفضول ہو، اب اگر کذب الٰہی ممکن ہو تو معاذاللہ جس وقت وہ جھوٹ بولے اور انسان اسی بات کومطابق واقع اداکرے تو لازم کہ آدمی اس وجہ سے افضل ہوجائے اورباری عزوجل پر کسی جہت سے کسی مخلوق کو کسی طرح کا فضل جزئی بھی اگرچہ نہایت ضعیف ومضمحل ہو ملنا محال، تو ثابت ہو اکہ مکان کذب باطل خیال ہے فافھم والعزۃ ﷲ ذی الجلال (پس غور کیجئے اور عزت اللہ ذوالجلال کے لئے ہے۔ ت)
ثم اقول اس دلیل کی ایک مختصر تقریر یوں ممکن ہے کہ اگر کذب خالق ممکن ہو تو کتنی بڑی شناعت ہے کہ خلق سچی اور خالق جھوٹا، العیاذ باللہ رب العالمین، لیکن صدق خلق محال نہیں توکذب خالق ممکن نہیں۔
Flag Counter