فقیر غفراللہ تعالٰی بتوفیق مولٰی سبحانہ وتعالٰی ان مختصر سطور میں بلحاظ ایجاز کذب باری عزاسمہ کے محال صریح اور توہم امکان کے باطل قبیح ہونے پر صرف تیس دلیلیں ذکر کرتاہے جن سے خمسہ اولٰی کلمات طیبات ائمہ کرام وعلمائے عظام علیہم رحمۃ الملک المنعام میں ارشاد وانعام ہوئیں، اور باقی پچیس ہادی اجل وعزوجل کے فیض ازل سے عبد اذل کے قلب پر القاء کی گئیں والحمد للہ رب العلمین۔
دلیل اول: کہ نصوص سابقہ میں مکرر گزری جس پر طوالع وشرح مقاصد ومسایرہ ومسامرہ ومفاتیح الغیب و مدارک وبیضاوی وارشاد العقل وروح البیان وشرح سنوسیہ وشرح ابہری وشرح عقائد جلالی و کنز الفوائد ومسلم الثبوت وشرح نظامی وفواتح الرحموت وغیرہا کتب کلام وتفیسر واصول میں تاویل فرمائی کہ کذب عیب ہے اور ہر عیب باری عزوجل کے حق میں محال، اور فی الواقع یہ کلیہ اصول اسلام وقواعد علم کلام سے ایک اصل عظیم و قاعدہ جلیلہ ہے جس پر تمام عقائد تنزیہ بلکہ مسائل صفات ثبوتیہ بھی متفرع کمالایخفی علی من طالع کلمات القوم (جیسا کہ ہر اس شخص پر مخفی نہیں جو قوم کے کلمات سے آگاہ ہے۔ ت)
شرح عقائد نسفی میں ہے :
الحی القادر العلیم السمیع البصیر الشائی المرید، لان اضدادھا نقائص یجب تنزیہ اﷲ تعالٰی عنہا ۱؎۔ (ملخصا)
زندہ، قادر، جاننے والا، سمیع، بصیر، مشیت والا، ارادے والا ہے کیونکہ ان کے اضداد نقائص ہیں جن سے اللہ تعالٰی کا بری ہونا لازم ہے۔ (ت)
اما برھان وجوب السمع والبصر والکلام اﷲ تعالٰی فالکتاب والسنۃ والاجماع وایضا لو لم یتصف بھا لزم ان یتصف باضدادھا وھی نقائص والنقص علیہ تعالٰی محال ۲؎۔
اللہ تعالٰی کے لئے سمع، بصر اور کلام کا ہونا لازم ہے اس پر دلیل کتاب، سنت اور اجماع ہے، اور یہ بھی اگر وہ ان سے متصف نہ ہو تو ان کی ضد سے متصف ہوگا اور وہ نقائص ہیں اور نقص اللہ تعالٰی کے لئے محال ہے۔ (ت)
(۲؎ شرح السنوسیہ)
شرح مواقف میں ہے:
لاطریق لنا الی معرفۃ(عہ۱) الصفات سوی الاستدلال بالافعال والتنزیہ عن النقائص ۱؎۔
ہمارے لئے معرفت صفات پر افعال اور نقائص سے تنزیہ کے ساتھ استدلا کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ (ت)
یعنی عقلی طورپر کیونکہ کلام اسی میں ہے اس کی دلیل حصر ہے اس سے واجب تعالٰی کی ذات کا نقائص سے وجوباً پاک ہونے کا عقلا فائدہ حاصل ہوا، تو نقائص سے متصف ہونا عقلا محال ہوگا ۱۲ منہ (ت)
(۱؎ شرح المواقف المقصدالثامن فی صفات اختلف فیہا منشورات الشریف الرضی قم ایران ۴/ ۱۰۵)
اقول وباللہ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) بداہت عقل شاہد ہے کہ اللہ عز مجدہ جمیع عیوب ونقائص سے منزہ، اور اس کا ادراک (عہ۲)شرح پر موقوف نہیں ولہذا بہت عقلائے غیر اہل ملت بھی تنزیہ باری جل مجدہ ہمارے موافق ہوئے۔
وان یثبتوا بجھلم مایستلزم النقص غیر دارکین انہ کذٰلک بل زاعمین (عہ۳) انہ ھوالکمال والاعبرۃ بسخافات الحمقاء، الذین لاعقل لھم ولادین اعاذنا اﷲ تعالٰی من شرھم اجمین۔
اگرانھوں نے اپنی جہالت کے سبب ایسی باتیں ثابت کیں جو نقص کو مستلزم تھیں، ہاں ان کا ارادہ نقص ثابت کرنے کا نہ تھا ان کے گمان میں یہ کمال تھا لیکن ایسے بو وقوفوں کی لا یعنی باتوں کا کیا اعتبار جن کے پاس عقل نہ دین، اللہ تعالٰی ان کے شر سے محفوظ رکھے، (ت)
عہ۲: وقد صرح بہ فی الکنز وشرح المواقف اما الکنز فقد سمعت نصہ واما السید فلما عرقت اٰنفا ۱۲ منہ
اس پر کنز الفوائد اور شرح مواقف میں تصریح کی ہے کنز کی نص آپ نے سن لی اور سید کی بات ابھی آپ نے معلوم کرلی ہے ۱۲ منہ (ت)
جیسا کہ فلاسفہ نے عالم کے صدورکو واجب کہا ہے جیسے عنقریب آئے گا ۱۲ منہ (ت)
یہاں تک کہ فلاسفہ نے بھی بزعم خود اس اصل اصیل پر مسائل متفرع کئے۔
منھا مافی المواقف وشرحہا قال جمہور الفلاسفۃ لایعلم الجزئیات المتغیرۃ والافاذا علم مثلا ان زیدا فی الدار الاٰن ثم خرج زید عنھا فاما ان یزول ذٰلک ویعلم انہ لیس فی الدار اویبقی ذٰلک العلم بحالہ والاول یوجب التغیر فی ذاتہ من صفۃ الی اٰخری والثانی یوجب الجھل وکلاھما نقص یجب تنزیھہ تعالٰی عنہ ۱؎ اھ ومنھا مافیہ ایضا اما الفلاسفۃ فانکروا القدرۃ بالمعنی المذکور لاعتقادھم انہ نقصان واثبتوالہ الایجاب زعمامنھم انہ الکمال التام ۲؎۔
ان میں سے ایک وہ ہے جو مواقف اور اس کی شرح میں ہے جمہور فلاسفہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی تبدیل ہونے والی جزئیات کا علم نہیں رکھتا ورنہ اگر وہ جانتا ہو مثلا زید اس وقت دار میں ہے پھر وہ وہاں سے نکل گیا تو یا تو سابقہ علم زائل ہوجائے گا اور جان لے گا کہ وہ دار میں نہیں یا پہلا علم ہی بحال رہے گا پہلی صورت میں اس کی ذات اقدس میں ایک صفت سے دوسری صفت کی طرف تغیر اور دوسری صورت میں جہل لازم آئے گا اور یہ دونوں باتیں نقص ہیں جن سے اللہ تعالٰی کا منزہ ہونا ضروری ہے اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فلاسفہ نے معنی مذکورہ کے ساتھ قدرت کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کے اعتقاد میں یہ نقص ہے اورانھوں نے اس کی ذات اقدس کے لئے یہ زعم کرتے ہوئے ایجاب کا ثبوت کیا ہے کہ یہ کمال تام ہے۔ (ت)
(۱؎ شرح المواقف المقصد الثالث فی علمہ تعالٰی منشورات الشریف الرضی قم ایران ۸ /۷۴)
(۲؎شرح المواقف المقصد الثانی فی قدرتہ تعالٰی منشورات الشریف الرضی قم ایران ۸ /۴۹)
پھر شرع مطہر کی طرف رجوع کیجئے تو مسئلہ اعلٰی ضروریات دین سے ہے جس طرح قرآن وحدیث نے باری جل مجدہ کی توحید ثابت فرمائی یو ہیں ہر عیب ومنقصت سے اس کی تنزیہ وتقدیس اور خود کلمہ طیبہ سبحانہ اللہ واسمائے حسنی سبوح وقدوس کے معنی ہی یہ ہیں ولہذا تسبیحات حضور پر نورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں وارد سبحان الذی لاینبغی التسبیح الالہ (پاک ہے وہ ذات کہ پاکیزگی فقط اسی کے لئے ہے۔ ت) جس کے باعث توقروہ پر وقف اور تسبحوہ کو اس سے فصل کیا گیا، پر مرتبہ اجمال میں اس پر اجماع اہل اسلام منعقد، کوئی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کہنے والا اپنے رب عزوجل پر عیوب ونقائص روانہ رکھنے گا۔
فالاجماع فی الدرجہ الثالثۃ من الادلۃ لاانہ العمدۃ فی اثبات المسئلۃ کما وقع عن بعض الاجلۃ فاعرف۔
دلائل شرعیہ میں اجماع کا تیسرا درجہ ہے یہ نہیں کہ اجماع اثبات مسئلہ کے لئے بہتر صورت ہے جیسا کہ بعض بزرگوں سے ہے اسے اچھی طرح سمجھ لیجئے۔ (ت)