Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
52 - 150
نص ۱۴: یہیں فرماتے ہیں :
صحۃ الدلائل السمعیۃ موقوفۃ علی ان الکذب علی اﷲ تعالٰی محال ۱؎۔
دلائل قرآن وحدیث کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ کذب الٰہی محال مانا جائے۔
 (۱؎مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)    تحت آیۃ وتمت کلمت ربک الخ  المطبعۃ البہیۃ العربیہ مصر    ۱۳/ ۱۶۱)
نص ۱۵: زیر قولہ تعالٰی:
ماکان اﷲ ان یتخذ من ولد سبحنہ ۲؎۔
اللہ تعالٰی کی شان نہیں کہ وہ بیٹا بنائے وہ پاک ہے (ت)
 (۲؎ القرآن الکریم       ۱۹ /۳۵)
بعض تمسکات معتزلہ کے رد میں فرماتے ہیں :
اجاب اصحابنا عنہ بان الکذب محال علی اﷲ تعالٰی ۳؎۔
اہلسنت نے جواب دیاکہ کذب الٰہی محال ہے۔
 (۳؎ مفاتیح الغیب(تفسیر کبیر)    تحت آیت ماکان اللہ ان یتخذ من ولد سبحنہ        المطبعۃ البہیۃ المصر    ۲۱/ ۲۱۷)
نص ۱۶: علامہ سعد تفتار زانی شرح مقاصد میں انھیں امام ہمام سے ناقل:
صدق کلام تعالٰی لما کان عندنا ازلیا امتنع کذبہ لان ماثبت قدمہ امتنع عدمہ ۴؎۔
کلام خدا کا صدق جب کہ ہم اہلسنت کے نزدیک ازلی ہے تو اس کا کذب محال ہوا کہ جس چیز کا قدم ثابت ہے اس کا عدم محال ہے۔
 (۴؎ شرح القاصد المبحث الثانی العشر اتفقت الامۃ علی العفو الخ  دارالمعارف نعمانیہ لاہور     ۲/ ۲۳۷)
تنبیہ: انھیں امام علام کا ارشاد کہ ''کذب الٰہی کا جواز ماننا قریب بکفر ہے، ان شاء اللہ تعالٰی تنزیہ چہارم میں آئے گا۔
نص ۱۷: تفسیر بیضاوی شریف میں ہے:
ومن اصدق من اﷲ حدیثا o انکار ان یکون احد اکثر صدقا منہ فانہ لایتطرق الکذب الٰی خبرہ بوجہ لان نقص وھو علی اﷲ تعالٰی محال ۵؎۔
اللہ تعالٰی اس آیت میں انکار فرماتاہے اس لئے کہ کوئی شخص اللہ سے زیاد ہ سچاہو کہ اس کی خبر تک تو کسی کذب کو کسی طرح راہ ہی نہیں کہ کذب عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پرمحال۔
 (۵؎ انوار التنزیل واسرار التاویل    (بیضاوی مع القرآن الکریم) تحت آیۃ ومن اصدق الخ   مصطفی البابی مصر ص۹۲)
نص ۱۸: تفسیر مدارک شریف میں ہے:
ومن اصدق من اﷲ حدیثاo تمییز وھو استفھام بمعنی النفی ای لااحد اصدق منہ فی اخبارہ ووعدہ ووعیدہ لاستحالۃ الکذب علیہ تعالی لقبحہ(عہ) لکونہ اخبارا عن الشیئ بخلاف ماھو علیہ ۱؎۔
آیت میں استفہام انکاری ہے یعنی خبر وعدہ وعید کسی بات میں کوئی شخص اللہ سے زیادہ سچا نہیں کہ اس کا کذب تو محال بالذات ہے کہ خود اپنے معنی ہی کے رو سے قبیح ہے کہ خلاف واقع خبر دینے کا نام ہے۔

عہ
:اقول استدل قدس سرہ بالقبح اما فی نظر الظاھر فلانہ رحمہ اﷲ تعالٰی من ائمتنا الما تریدیۃ ولذا عدلت عنہ الاشاعرۃ کصاحب المواقف وصاحب المفاتیح کما سمعت نصھما واما عندالتحقیق فلان عقلیۃ القبح بھذا المعنٰی من المجمع علیہ بین العقلاء وھٰوالاء شاعرۃ رحمہم اﷲ تعالٰی انفسھم ناصون بذلک فلا علیک من ذھول من ذھل کما اومانا الیہ فی صدر البحث واﷲ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ
اقول، علامہ قدس سرہ، نے قبح سے استدلال کیا ظاہر نظر میں تو اس لئے کہ آپ رحمہ اللہ تعالٰی ہمارے ائمہ ماتریدیہ میں سے ہے اسی لئے اشاعرہ نے قبح سے استدلال نہ کیا جیساکہ آپ نے صاحب مواقف اور صاحب مفاتیح کی نصوص سنیں، اورعند التحقیق اس لئے کہ اس معنی میں قبح عقلی ہونا عقلاء اور اشاعرہ میں متقفہ چیز ہے جس کو خود اشاعرہ رحمہم اﷲ تعالٰی نے بیان فرمایا جیسا کہ ہم نے بحث کی ابتداء میں اشارہ کیا ہے کسی کے ذہول سے تجھ پرکوئی اعتراض نہیں، واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (ت)
 (۱؎ مدارک التزیل (تفسیر النسفی)    تحت آیہ ومن اصدق من اﷲ الخ    دارالکتاب العربی بیروت    ۱/ ۲۴۱)
نص ۱۹: تفسیر علامۃ الوجود سیدی ابی السعود عمادی میں ہے:
ومن اصدق من اﷲ حدیثاo انکار لان یکون احد اصدق منہ تعالٰی فی وعدہ وسائر اخبارہ وبیان لاستحالتہ کیف لاوالکذب محال علیہ سبحٰنہ دون غیرہ ۲؎۔
آیت میں انکار ہے اس کا کہ کو ئی شخص اللہ تعالٰی سے زیادہ سچا ہو وعدہ میں یا کسی اور خبر میں، اور بیان ہے اس زیادت کے محال ہونے کا، اور کیوں نہ محال ہو کہ اللہ تعالٰی کا کذب تو ممکن ہی نہیں بخلاف اوروں کے۔
 (۲؎ ارشاد العقل السلیم       تحت آیہ ومن اصدق من اﷲ الخ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۱۲۔ ۲۱۱)
نص ۲۰: تفسیر روح البیان میں ہے :
ومن اصدق من اﷲ حدیثاo انکار لان یکون احد اکثر صدقامنہ فان الکذب نقص وھو علی اﷲ محال دون غیرہ ۱؎ اھ ملخصا۔
آیت اس امرکا انکار فرماتی ہے کہ کوئی شخص صدق میں اللہ تعالٰی سے زائد ہوکر کذب عیب ہے اور وہ خدا پر محال ہے، نہ اس کے غیر پر، اھ ملخصا۔
 (۱؎ تفسیر روح البیان    تحت ومن اصدق من اﷲ حدیثا    المکتبۃ الاسلامیہ الریاض    ۲/ ۲۵۵)
نص ۲۱: شرح السنوسیہ میں ہے:
الکذب علی اﷲ تعالٰی محال لانہ دناءۃ ۲؎۔
اللہ تعالٰی پر کذب محال ہے کہ وہ کمینہ پن ہے۔
 (۲؎ شرح السنوسیہ    )
نص ۲۲: فاضل سیف الدین ابہر ی کی شرح موقف میں ہے:
ممتنع علیہ الکذب اتفاقا لانہ نقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال اجماعا ۳؎۔
کذب الٰہی بالاتفاق محال ہے کہ وہ عیب ہے اور ہر عیب اللہ تعالٰی پر بالاجماع محال ہے۔
 (۳؎ شرح المواقف سیف الدین ابہری (تلمیذ مصنف)
نص ۲۳: شرح عقائد جلالی میں ہے:
الکذب نقص والنقص علیہ محال فلایکون من المکنات ولاتشملہ القدرۃ کسائر وجوہ النقص علیہ تعالٰی کالجھل والعجز ۴؎۔
جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال، تو کذب الٰہی ممکنات سے نہیں، نہ اللہ تعالٰی کی قدرت اسے شامل جیسے تمام اسباب عیب مثل جہل وعجز الٰہی، کہ سب محال ہیں اور صلاحیت قدرت سے خارج
 (۴؎ الدوانی علی العقائد العضدیۃ  بحث ''علی''   مطبع مجتبائی دہلی   ص۷۳)
نص ۲۴: اسی میں ہے :
لایصح علی تعالٰی الحرکۃ والانتقال ولا الجھل ولاالکذب لانھما النقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال ۵؎۔
اللہ تعالٰی پر حرکت وانتقال وجہل وکذب کچھ ممکن نہیں کہ یہ سب عیب ہیں اور عیب اللہ تعالٰی پر محال۔
 (۵؎الدوانی علی العقائد العضدیۃ    بحث ''لیس''    مطبع مجتبائی دہلی    ص۶۶و ۶۷)
نص ۲۵: کنز الفوائد میں ہے :
قدس تعالٰی شانہ من الکذب شرعا وعقلا اذاھو قبیح یدرک العقل قبحہ من غیر توقف علی شرح فیکون محالا فی حقلہ تعالٰی عقلا وشرعا کما حققہ ابن الھمام وغیرہ ۱؎۔
اللہ عزوجل بحکم شرح وبحکم عقل ہرطرح کذب سے پاک مانا گیا، اس لئے کہ کذب قبیح عقلی ہے کہ عقلی خود بھی اس کے قبح کو مانتی ہے بغیر اس کے کہ اس کاپہچاننا شرح پر موقوف ہیو تو جھوٹ بولنا اللہ تعالٰی کے حق میں عقلا وشرعا ہر طرح محال ہے جیسے کہ امام ابن الہمام وغیرہ نے اس کی تحقیق افادہ فرمائی۔
 (۱؎ کنز الفوائد    )
نص ۲۶: مولانا علی قاری شرح فقہ اکبر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
الکذب علیہ تعالٰی محال ۲؎۔
اللہ تعالٰی پر کذب محال ہے۔
 (۲؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر  الصفات الفعلیہ  مصطفی البابی مصر ص۲۳)
نص ۲۷: مسلم الثبوت میں ہے :
المعتزلہ قالوا لولاکون الحکم عقلیا لم یمتعن الکذب منہ تعالٰی عقلا، والجواب انہ نقص فیجب تنزیہہ تعالٰی عنہ کیف وقدمرانہ عقلی باتفاق العقلاء لان ماینافی الوجوب الذاتی من جملۃ النقص فی حق الباری تعالٰی ومن الاستحالات العقلیۃعلیہ سبحنہ ۳؎ اھ ملخصا مع الشرح۔
خاص یہ کہ معتزلہ نے اہلسنت سے کہا اگرحکم عقلی نہ ہو تو اللہ تعالٰی کا کذب محال نہ رہے حالانکہ اسے ہم تم بالاتفاق محال عقلی مانتے ہیں اہلسنت نے جواب دیا کہ کذب اس لئے محال عقلی ہوا کہ وہ عیب ہے تو واجب ہوا کہ اللہ تعالٰی کو اس سے منزہ مانیں اس کے عقلی ہونے پر تمام عقلاء کا اجماع ہے وجہ یہ ہے کہ کذب الوہیت کی ضد ہے اور جو کچھ الوہیت کی ٰضد ہے وہ سب اللہ تعالٰی کے حق میں عیب ہے اور اس کی شان میں محال عقلی ہے اھ ملخصا مع الشرح
 (۳؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفٰی المقالۃ الثانیہ الخ  منشورات الشریف الرضی قم ایران ۱/ ۴۶)

(مسلم الثبوت        الطبع الانصاری دہلی         ص۱۰)
نص ۲۸: مولانا نظام الدین سہال اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
الکذب نقص لان ماینا فی الوجوب الذاتی من الاستحالات العقلیۃ بذالک اثبت الحکماء الذین ھم غیر متشرعین بشریعۃ الاستحالۃ المذکورۃ فان الوجوب والکذب لایجتمعان کما بین فی اکلام ۱؎ اھ ملخصاً۔
جھوٹ بولنا عیب ہے کہ جو کچھ خدا ہونے کے منافی ہے وہ سب محال عقلی ہے، اس پر دلیل سے وہ حکماء اسے محال جانتے ہیں جو کسی شریعت پر ایمان نہیں رکھتے کہ خدائی و دروغ گوئی جمع نہ ہوگی جیسا کہ علم کلام میں ثابت ہوچکا ہے اھ ملخصا۔
 (۱؎ شرح مسلم الثبوت نظام الدین سہالی)
نص ۲۹: مولانا بحر العلوم عبدالعلی ملک العلماء فواتح الرحموت میں فرماتے ہیں:
اﷲ تعالٰی صادق قطعا لاستحالۃ الکذب ھناک ۲؎۔ (ملخصا)
اللہ تعالٰی یقینا سچاہے کہ وہاں کذب کا امکان ہی نہیں۔
 (۲؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المصطفی    الباب الثانی فی الحکم   منشورات الشریف الرضی قم ایران ۱/ ۶۲)
نص ۳۰:  افسوس کہ امام الوہابیہ کے نسبا چچا اور علما باپ اور طریقۃ دادا یعنی شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی نے بھی اس پسر نامور کی رعایت نہ فرمائی کہ تفسیر عزیزی میں زیر قولہ تعالٰی
فلن یخلف اﷲ عھدہ ۳؎
(اللہ تعالٰی ہرگزاپنے عہد کے خلاف نہیں فرماتا۔ ت)
(۳؎ا لقرآان الکریم  ۲ /۸۰)
یوں تصریح کی ٹھہرائی :
خبر اوتعالٰی کلام ازلی اوست وکذب درکلام نقصانے ست عظیم کہ ہرگز بصفات اوراہ نمی یابد در حق اوتعالٰی کہ مبراز جمیع عیوب ونقائص ست خلاف خبر مطقا نقصان ست۴؎ اھ ملخصا۔

ا
للہ تعالٰی کی خبر ازلی ہے، کلام میں جھوٹ کا ہونا عظیم نقص ہے لہذا وہ اللہ تعالٰی کی صفات میں ہرگز راہ نہیں پاسکتا اللہ تعالٰی کہ تمام نقائص وعیوب سے پاک ہے اس کی حق میں خبرکے خلاف ہونا سراپا نقص ہے اھ ملخصا (ت)
(۴؎ فتح العزیز (تفسیر عزیزی)   تحت آیۃ فلن یخلف اللہ عھدہ پ آلم     درالکتب لال کنواں دہلی    ص۳۰۷)
مدعیان جدید سے پوچھا جائے جناب باری میں کہاں تک نقصان مانتے ہیں
ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم
اللہ تعالٰی سچا ادب نصیب فرمائے۔ آمین!
یہاں نصوص ائمہ وتصریحات علماء میں نہایت کثرت اورجس قدر فقیر نے ذکر کئے، عاقل منصف کے لئے ان میں کفایت بلکہ ایسے مسائل میں ہنگام تنبہ  یا ادنی تنبیہ پر سلامت عقلی ونورایمان دوشاہد عدل کی گواہی معتبر،
واذ وعیت ما القی علیک الیراع وتبین الاجماع وبان ان لیس لاحد نزاع فلاعلیک من اضطراب مضطرب الحمد اﷲ المنزہ عن الکذب۔
مذکورہ قیمتی گفتگو اگر قارئین نے محفوظ کرلی ہے تو واضح ہوگیا کہ یہ بات اجماعی ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں لہذا اضطراب ختم ہوجانا چاہئے، تمام تعریف اللہ تعالٰی کی جو کذب سے مبراہے۔ (ت)
Flag Counter