Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
51 - 150
 (۳) قوی قدیر تبار وتعالٰی فرماتاہے :
وھوعلی کل شی قدیر ۱؎
وہ ہر چیز پر قدرت والا ہے، یہ موجود ومعدوم سب کو شامل،بشر ط وحدوث وامکان کہ واجب ومحال اصلا لائق مقدوریت نہیں،
 (۱؎ القرآن الکریم    ۵/ ۱۲۰ و ۱۱ /۴)
مواقف میں ہے :
القدیم لا یستند الی القادر ۲؎
 (قدیم کو قادر کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ ت)
 (۲؎ مواقف مع شرح المواقف  المقصد الخامس    منشورات الرضی قم ایران    ۳/ ۱۷۸)
شرح مقاصد میں ہے :
لاشیئ من الممتنع بمقدور ۳؎
(کوئی ممتنع مقدور نہیں ہوتا۔ ت)
 (۳؎ شرح المقاصد  المبحث الثانی القدرۃ الحادثۃ علی الفعل  دارالمعارف نعمانیہ لاہور    ۱/۲۴۰)
امام یافعی فرماتے ہیں:
جمیع المسحیلات العقلیۃ لایتعلق للقدرۃ بھا ۴؎۔
تمام محلات عقلیہ کے ساتھ قدرت کا تعلق نہیں ہوتا۔ (ت)
 (۴؎)
کنزالفوائد میں ہے:
خرج الواجب والمستحیل فلایتعلقان ای القدرۃ والارادۃ بھما ۵؎۔
واجب اور محال خارج ہوں گے ان کے ساتھ قدرت اور ارادہ کا تعلق نہیں ہوسکتا۔ (ت)
 (۵؎ کنز الفوائد)
شرح فقہ اکبر میں ہے :
أقصاھا ان یمتنع بنفس مفہومہ کجمیع الضدین وقلب الحقائق واعدام القدیم، وھذا لایدخل تحت القدرۃ القدیمۃ ۶؎۔
آخری مرتبہ وہ ہے جونفس مفہوم کے اعتبار سے ممنوع ہو مثلا ضدین کا جمع ہونا، حقائق میں قلب، قدیم کا معدوم ہونا یہ قدرت قدیمہ کے تحت داخل ہی نہیں۔ (ت)
 (۶؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر     افعال العبادبعلمہ تعالٰی الخ         مصطفی البابی مصر     ص۵۶)
(۴) علیم خبیر عزشانہ، فرماتاہے:
وھو بکل شی علیم ۷؎
وہ ہر چیز کو جانتاہے،
  (۷؎ القرآ ن الکریم      ۲ /۲۹ ، ۶ /۱۰۱)
یہ کلیہ واجب و ممکن وقدیم وحادث وموجود ومعدوم ومفروض وموہوم غرض ہر شی ومفہوم کو قطعا محیط جس کے دائرے سے اصلاً کچھ خارج نہیں۔ یہ ان عمومات سے ہے جو عموم قضیہ مامن عام الاوقد خص منہ البعض(ہرعام سے کچھ افراد مخصوص ہوتے ہیں۔ ت) سے مخصوص ہیں،
شرح مواقف میں فرمایا :
علمہ تعالٰی یعم المفھوما کلھا الممکنۃ والواجبۃ والممتنعۃ فھوا عم من القدرۃ لانھا تختص بالممکنات دون الواجبات والممتنعات ۱؎۔
اللہ تعالٰی کا علم تمام مفہومات کو شامل ہے خواہ وہ ممکن ہیں یا واجب یاممتنع، اور وہ قدرت سے عام ہے کیونکہ قدرت کا تعلق فقط ممکنات سے ہے واجبات اور ممتنعات کے ساتھ وہ متعلق نہیں ہوتی۔ (ت)
 (۱؎ شرح المواقف     المرصدالرابع     القصد الثالث    منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۷۰)
اب دیکھئے لفظ چاروں ایک جگہ ہے یعنی کل شیئ، مگر ہر صفت نے اپنے ہی دائرے کی چیزوں کو احاطہ(عہ) فرمایا جو اس کے قابل اور اس کے احاطہ  میں داخل تھیں، تو جس طرح ذات وصفات خالق کا دائرہ خلق میں نہ آنا معاذاللہ عموم خالقیت میں نقصان نہ لایا، نقصان جب تھا کہ کوئی مخلوق احاطہ سے باہر رہتا، یا معدومات کا دائرہ ابصار سے مہجور رہتا عیاذاً باللہ، احاطہ بصر الٰہی میں باعث فتور نہ ہوا، فتور جب ہوتا کہ کوئی مبصر خارج رہ جاتا۔
عہ: ای شملت مافی دائرتھا وان لم یشملہ اللفظ کمافی العلم ولم تشمل مالیس فیھا وان شملہ اللفظ کما فی الخلق وذٰلک ان الشیئ عندنا یخص بالموجود قال تعالٰی اولا یذکر الانسان انا خلقنہ من قبل ولم یک شیئا ۲؎ ویعم الواجب، قال تعالٰی ای شی اکبر شھادہ قل اﷲ ۳؎، فافھم ۱۲ منہ رضی اﷲ عنہ۔
یعنی اپنے دائرہ کی ہر شی کو شامل ہے اگرچہ اس کو لفظ شامل نہ ہو جیسے علم میں، اور جو دائرہ میں نہ ہو اس کو شامل نہیں اگرچہ لفظ اس کوشامل ہو جیسےخلق میں،یہ اس لئے کہ ہمارے نزدیک صرف موجود ہی شی کہلاتی  ہے، اللہ تعالٰی نے فرمایا کیا انسان کو یاد نہیں کہ ہم نے اسے پیداکیا جبکہ اس سے قبل کوئی شیئ نہ تھا۔ اور شے واجب کو بھی شامل ہے، اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ فرمادیجئے کون سی شیئ شہادت میں بڑی ہے؟ فرمادو اللہ، اسے سمجھو ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
 (۲؎ القرآن الکریم    ۱۹/ ۶۷)  		(۳؎ القرآن الکریم      ۶/ ۱۹)
اسی طرح صفت قدرت کا کمال یہ ہے کہ جو شے اپنی حدِ ذات (عہ۱) میں ہونے کے قابل ہے۔ اس سب پر قادر ہو، کوئی ممکن احاطہ قدرت سے جدا نہ رہے، نہ یہ کہ واجبات ومحالات عقلیہ کو بھی شامل ہو جو اصلا تعلق قدرت کی صلاحیت نہیں رکھتے،سبحان اللہ محال کے معنی ہی یہ ہیں کہ کسی طرح موجود نہ ہوسکے، اور مقدور وہ کہ قادر چاہے تو موجود ہوجائے، پھر دونوں کیونکہ جمع ہوسکتے ہیں، اور اس کے سبب یہ سمجھنا کہ کوئی شےدائرہ قدرت سے خارج رہ گئی محض جہالت کہ محالات مصداق و ذات سے بہرہ ہی نہیں رکھتے، حتی کہ فرض وتجویز عقلی(عہ۲) میں بھی تو اصلا یہاں کوئی شے تھی ہی نہیں جسے قدرت شامل نہ ہوئی یا
ان اﷲ علی کل شی قدیر ۱؎
کے عموم سے رہ گئی۔
عہ۱:  یشیر الٰی ان مصحح المقدوریۃ نفس الامکان الذاتی ۱۲ منہ
اشارہ کیا کہ مقدوریت کی صحت کا مدار نفس امکان ذاتی پر ہے ۱۲ منہ (ت)
عہ۲:  اوردہ تفسیر ا للمراد بالفرض ۱۲ منہ
فرض سے مراد کی تفسیر کے لئے ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)
 (۱؎ القرآن الکریم    ۲ /۲۰)
یہاں سے ظاہر ہوگیا کہ مغویان تازہ جو اسی مسئلہ کذب ودیگر نقائص وغیرہا کی بحث میں بے علموں کو بہکاتے ہیں کہ مثلا کذب یا فلاں عیب یا فلاں بات پر اللہ عزوجل کو قادر نہ مانا تو معاذاللہ عاجز ٹھہرا اور
ان اﷲ علی کل شیئ قدیر ۲؎
کا انکار ہوا۔
 (۲؎القرآن الکریم    ۲ /۲۰)
یہ ان ہوشیاروں کی محض عیاری وتزیر اور بیچارے عوام کو بھڑکانے کی تدبیر ہے، ایہا المسلمون! قدرت الٰہی صفت کمال ہوکر ثابت ہوئی ہے نہ معاذاللہ صفت نقص و عیب، اور اگر محالات پر قدرت مانئے تو بھی انقلاب ہوا جاتاہے، وجہ سنئے، جب کسی محال پرقدرت مانی اور محال محال سب ایک سے معہذا تمھارے جاہلانہ خیال پر جس محال کو مقدور نہ کہئے اتناہی عجز وقصور سمجھئے تو واجب کہ سب محالات زیر قدرت ہوں، اور منجملہ محالات سلب قدرت الٰہیہ بھی ہے تو لازم کہ اللہ تعالٰی اپنی قدرت کھودینے اور اپنے آپ کو عاجز محض بنالینے پر قادر ہو، اچھا عموم قدرت مانا کہ اصل قدرت ہی ہاتھ سے گئی، یوہیں منجملہ محالات عدم باری عزوجل ہے تو اس پر قدرت لازم، اب باری جل وعلا عیاذاً باللہ واجب الوجود نہ ٹھہرا، تعمیم قدرت کی بدولت الوہیت ہی پر ایمان گیا تعالٰی اﷲ عما یقول الظالمون علوا کبیرا (ظالم جو کچھ کہتے ہیں اللہ تعالٰی اس سے کہیں بلند ہے۔ ت)

پس بحمد اللہ ثابت ہوا کہ محال پر قدرت ماننا قطع نظر اس سے کہ خود قول بالمحال ہے، جناب باری عزاسمہ کو سخت عیب لگانا اور تعیم قدرت کے پردے میں اصل قدرت بلکہ نفس الوہیت سے منکر ہوجاناہے، للہ انصاف!

حضرات کے یہ تو حالات اور اہل سنت پر معاذاللہ عجز باری عزوجل ماننے کے الزامات، ہمارے دینی بھائی اس مسئلہ کو خوب سمجھ لیں کہ حضرات کے مغالطہ و تلبیس سے امان میں رہیں، واللہ الموفق۔
تنزیہ اول ارشادات علماء میں:
اقول وباﷲ التوفیق  : میں یہاں ازالہ اوہام حضرات مخالفین کو اکثر عبارات ایسی نقل کرں گا کہ امتناع کذب الٰہی پر تمام اشعریہ و ماتریدیہ کا اجماع ثابت کریں جس کے باعث اس وہم عاطل کا علاج قاتل ہو کہ معاذاللہ یہ مسئلہ قدیم سے مختلف فیہا ہے حاش للہ! بلکہ بطلان امکان پر اجماع اہل حق ہے جس میں اہل سنت کے ساتھ معتزلہ وغیرہ فرق باطلہ بھی متفق، ناظر ماہر دیکھے گا کہ میرا یہ مدعا ان عبارتوں سے کن کن طور پر رنگ ثبوت پائے گا:

اول ظاہر وجلی یعنی وہ نصوص جن میں امتناع کذب پر صراحۃ اجماع منصوص۔

دوم اکثرعبارتیں علمائے اشعریہ کی ہوں گی تاکہ معلوم ہو کہ مسئلہ خلافی نہیں۔

سوم وہ عبارات جن میں بنائے کلام حسن وقبح عقلی کے انکار پر ہو کہ یہ اصول اشاعرہ سے ہے، تو لاجرم مسئلہ اشاعرہ وماتریدیہ کا اجماعی ہوا اگرچہ عندالتحقیق صرف حسن وقبح بمعنی استحقاق مدح وثواب وذم وعقاب کی شرعیت و عقلیت میں تجاذب آراہے ، نہ بمعنی صفت کمال وصفت نقصان کہ بایں معنی باجماع عقلا عقلی ہیں،
کما نصوا علیہ جمیعا ونبہ علیہ ھٰھنا المولٰی سعدالدین التفتازانی فی شرح القاصد والمولی المحقق علی الاطلاق کمال الدین محمد بن الھمام وغیرھما من الجہابذۃ الکرام۔
جیسا کہ اس پر تمام نے تصریح کی ہے اور اس پر علامہ سعدالدین تفتا زانی نے شرح المقاصد میں اور محقق علی الاطلاق کمال الدین محمد بن ہمام اور دیگر کبار ماہرین علماء نے تنبیہ کی ہے۔ (ت)

اب بتوفیق اللہ تعالٰی نصوص ائمہ وکلمات علماء نقل کرتاہوں:

نص ۱: شرح مقاصد کے مبحث کلام میں ہے :
الکذب محال باجماع العلماء لان الکذب نقص باتفاق العقلاء وھو علی اﷲ تعالٰی محال۱؎ اھ ملخصاً۔
جھوٹ باجماع علماء محال ہے کہ وہ باتفاق عقلاء عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال اھ ملخصاً۔
 (۱؎ شرح المقاصد   المبحث السادس فی انہ تعالٰی متکلم     دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۲ /۱۰۴)
نص ۲: اسی کی بحث وحسن وقبح میں ہے :
قد بینا فی بحث الکلام امتناع الکذب علی الشارع تعالٰی ۱؎۔
ہم بحث کلام میں ثابت کر آئے کہ اللہ عزوجل پر کذب محال ہے۔
 (۱؎ شرح المقاصد  قال وتمسکوا بوجوہ الاول ان حسن الاحسان وقبح العدوان     دارالمعارف النعمانیہ لاہور   ۲/ ۱۵۲)
نص ۳: اسی بحث تکلیف بالمحال میں ہے :
محال ھو جہلہ کذبہ تعالٰی عن ذلک ۲؎۔
اللہ تبارک وتعالٰی کاجہل یا کذب دونوں محال ہیں، بر تری ہے اسے ان سے۔
 (۲؎شرح المقاصد    المبحث الخامس التکلیف مالایطاق   دارالمعارف النعمانیہ لاہور  ۲/ ۱۵۵)
نص۴: اسی میں ہے :
الکذب فی اخبار اﷲ تعالٰی فیہ مفاسد لاتحصٰی ومطا عن فی الاسلام لاتخفی منھا مقال الفلاسفۃ فی المعاد ومجال الملاحدۃ فی العناد وھٰھنا بطلان ماعلیہ الاجماع من القطع بخلود الکفار فی النار، فمع صریح اخبار اﷲ تعالٰی بہ فجواز الخلف وعدم وقوع مضمون ھٰذا الخبر محتمل، ولما کان ھذاباطلاقطعا علم ان القول بجواز الکذب فی اخبار اﷲ تعالٰی باطل قطعاً ۲؎ اھ ملتقطاً۔
یعنی خبر الٰہی میں کذب پر بے شمار خرابیاں اور اسلام میں آشکارا طعن لازم آئیں گے فلاسفہ حشر میں گفتگولائیں گے، ملحدین اپنے مکابروں کی جگہ پائیں گے کفار کا ہمیشہ آگ میں رہنا کہ بالاجماع یقینی ہے اس پر یقین اٹھ

جائیں گے کہ اگرچہ خدا نے صریح خبریں دیں مگر ممکن ہے کہ واقع نہ ہوں۔ اور جب یہ امور یقینا باطل ہیں تو ثابت ہوا کہ خبر الٰہی میں کذب کو ممکن کہنا باطل ہے اھ ملتقطا۔
 (۳؎شرح المقاصد   المبحث الثانی عشر اتفقت الامۃ علی العفوعن الصفاء  دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲ /۲۳۸)
نص ۵: شرح عقائد نسفی میں ہے:
کذب کلام اﷲ تعالٰی محال ۴؎ اھ ملخصا۔
کلام الٰہی کا کذب محال ہے اھ ملخصا
 (۴؎ شرح العقائد النسفیہ    دارالاشاعت العربیہ قندھار، افغانستان  ص۷۱)
نص ۶: طوالع الانوار کی فرع متعلق بمبحث کلام میں ہے :
الکذب نقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال ۵؎ اھ۔
جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال۔
(۵؎ طوالع الانوار للبیضاوی    )
نص ۷ـ: مواقف کی بحث کلام میں ہے:
انہ تعالٰی یمتنع علیہ الکذب اتفاقا اما عند المعتزلہ فلان الکذب قبیح وھو سبحانہ لایفعل القبیح واما عندنا فلانہ نقص والنقص علی اﷲ محال اجماعا۔ ۱؎ (ملخصا)
یعنی اہلسنت ومعتزلہ سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالٰی کا کذب محال ہے، معتزلہ تو اس لئے محال کہتے ہیں کہ کذب برا ہے اور اللہ تعالٰی برا فعل نہیں کرتا اور ہم اہلسنت کے نزدیک اس میں دلیل سے ناممکن ہے کہ کذب عیب ہے اور ہر عیب اللہ تعالٰی پر بالاجماع محال ہے۔
 (۱؎ مواقف مع شرح المواقف    المقصد السابع بحث انہ تعالٰی متکلم   منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۱۰۰، ۱۰۱)
نص ۸: مواقف وشرح مواقف کی بحث حسن وقبح میں ہے :
مدرک امتناع الکذب منہ تعالٰی عندنا لیس ھو قبحہ العقلی حتی یلزم من انتفاء قبحہ ان لایعلم امتناعہ منہ اذلہ مدرک اٰخر وقد تقدم اھ۲؎ ملخصا۔
یعنی ہم اشاعرہ کے نزدیک کذب الٰہی محال ہونے کی دلیل قبح عقلی نہیں ہے کہ اس کے عدم سے لازم آئے کہ کذب الٰہی محال نہ جانا جائے بلکہ ا س کے لئے دوسری دلیل ہے کہ اوپر گزری، یعنی وہ کہ جھوٹ عیب ہے اور اللہ تعالٰی میں عیب محال۔
 (۲؎مواقف مع شرح المواقف    المرصدا لسادس المقصد الخامس       منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۱۹۳)
نص۹: انھیں کی بحث معجزات میں ہے :
قدم فی مسئلۃ الکلام من موقف الالٰھیات امتناع الکذب علیہ سبحانہ وتعالٰی ۳؎۔
یعنی ہم موقف الٰہیات سے مسئلہ کلام میں بیان کرآئے کہ اللہ تعالٰی کا کذب زنہار ممکن نہیں۔
 (۳؎مواقف مع شرح المواقف     الموقف السادس فی السمعیات       منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۲۴۰)
نص ۱۰: امام محقق علی الاطلاق کمال الدین محمد مسایرہ میں فرماتے ہیں:
یستحیل علیہ تعالٰی سمات النقص کالجہل والکذب ۴؎۔
جتنی نشانیاں عیب کی ہیں، جیسے جہل وکذب سب اللہ تعالٰی پر محال ہیں۔
 (۴؎ المسایرۃ متن المسامرۃ    ختم المصنف کتابہ بیان عقیدہ اہلسنت اجمالا    المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر  ص۳۹۳)
نص ۱۱: علامہ کمال الدین محمد بن محمد ابن ابی شریف قدس سرہ، اس کی شرح مسامرہ میں فرماتے ہیں:
لاخلاف بین الاشعریۃ وغیرہم فی ان کل ماکان وصف نقص فالباری تعالٰی منزہ عنہ وھو محال علیہ تعالٰی والکذب وصف نقص اھ ملخصا ۱؎۔
یعنی اشاعرہ وغیرہ اشاعرہ کسی کو اس میں خلاف نہیں کہ جو کچھ صفت عیب ہے باری تعالٰی اس سے پاک ہے اور وہ اللہ تعالٰی پرت ممکن نہیں اور کذب صفت عیب ہے۔ (ملخصا)
 (۱؎ المسامرۃ شرح المسایرۃ    اتفقوا علی ان ذلک غیر واقع        المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی    ص۳۹۳)
نص ۱۲: امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
قول تعالٰی فلن یخلف اﷲ عہدہ یدل علی انہ سبحانہ وتعالٰ منزہ عن الکذب وعدہ و عیدہ۔ قال اصحابنا لان الکذب وصفۃ نقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال، وقالت المعتزلۃ لان الکذب قبیح لانہ کذب فیستحیل ان یفعلہ فدل علی ان الکذب منہ محال۲؎ اھ ملخصاً۔
اللہ عزوجل کا فرمانا کہ اللہ ہرگز اپنا عہد جھوٹا نہ کریگا دلالت کرتاہے کہ مولٰی تعالٰی سبحانہ اپنے ہر وعدہ و وعید میں جھوٹ سے منزہ ہے، ہمارے اصحاب اہل سنت وجماعت ا س دلیل سے کذب الٰہی کو نا ممکن جانتے ہیں کہ وہ صفت نقص ہے اور اللہ عزوجل پر نقص محال، اور معتزلہ ا س دلیل سے ممتنع مانتے ہیں کہ کذب قبیح لذاتہ ہے تو باری تعالٰی عزوجل سے صادر ہونا محال، غرضٰ ثابت ہوا کہ کذب الٰہی اصلا امکان نہیں رکھتا۔ اھ (ملخصا)
 (۲؎ مفاتیح الغیب    تحت آیت فلن یخلف اﷲ عہدہ    المکتبۃ البہیہ مصر    ۳/ ۱۵۹)
نص ۱۳: اللہ عزوجل فرماتا ہے :
وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا ط لامبدل لکلٰمت ج وھو السمیع العلیم ۳؎o
پوری ہے بات تیرے رب کی سچ اور انصاف میں کوئی بدلنے والا نہیں، اس کی باتوں کا، اوروہی ہے سنتا جانتاہے۔
 (۳؎ا لقرآن الکریم       ۶ /۱۱۵)
امام ممدوح اس آیت کے تحت میں لکھتے ہیں :
اعلم ان ھذہ الاٰیۃ تدل علی ان کلمۃ اﷲ موصوفۃ بصفات کثیرۃ (الٰی ان قال) الصفۃ الثانیۃ من صفات کلمۃ اﷲ کونھا صدقا والدلیل علی ان الکذب نقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال ۴؎۔
یہ آیت ارشاد فرمائی ہے کہ کذب اللہ تعالٰی کی بات بہت صفتون سے موصوف ہے، ازانجملہ اس کا سچا ہوناہے

اوراس پر دلیل یہ ہے کہ کذب عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال۔
 (۴؎ مفاتیح الغیب    تحت آیۃ وقت کلٰمت ربک صدق وعدلاً    المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر    ۱۳/۶۱۔ ۱۶۰)
Flag Counter