Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
50 - 150
مقدمہ، اقول وباللہ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق، مسلمان کاایمان ہے کہ مولٰی سبحانہ وتعالٰی کے سب صفات ،صفات کمال وبروجہ کمال ہیں، جس طرح کسی صفتِ کمال کا سلب اس سے ممکن نہیں یوہیں معاذاللہ کسی صفت نقص کا ثبوت بھی امکان نہیں رکھتا اور صفت کا بروجہ کمال ہونا یہ معنی کہ جس قدرچیزیں اس کے تعلق کی قابلیت رکھتی ہیں ان کا کوئی ذرہ اس کے احاطہ دائرہ سے خارج نہ ہو نہ یہ کہ موجود ومعدوم وباطل وموہوم میں کوئی شیئ ومفہوم بے اس کے تعلق کے نہ رہے اگرچہ وہ اصلا صلاحیت تعلق نہ رکھتی ہو اور اس صفت کے دائرہ سے محض اجنبی ہو۔

اب احاطہ دوائر کا تفرقہ دیکھئے:
 (۱) خلاق کبیر جل وعلا فرماتاہے:
خالق کل شیئ فاعبدوہ ۱؎
وہ ہر چیز کا بنانے والا ہے تو اسے پوجو۔ یہاں صرف حودث مراد ہیں کہ قدیم یعنی ذات وصفات باری تعالٰی عز مجدہ مخلوقیت سے پاک،
 (۱؎ القرآن الکریم        ۶/ ۱۰۲)
 (۲) سمیع وبصیر جل مجدہ فرماتاہے:
انہ بکل شیئ بصیر ۲؎
وہ ہر چیز کودیکھتا ہے،
(۲؎القرآن الکریم      ۶۷/ ۱۹)
یہ تمام موجودات(عہ) قدیمہ وحادث سب کو شامل مگر معدومات خارج یعنی مطلقاً یا جس چیز نے ازل سے ابد تک کسوت وجود نہ پہنی نہ ابد تک  پہنےکہ ابصار کی صلاحیت موجودہی میں ہے جو اصلا ہے ہی نہیں، وہ نظر کیا آئے گا تو نقصان جانب قابل ہے نہ کہ جانب فاعل،
عہ: فائدہ: اعلم انہ ربما یلمح کلام القاری فی منح الروض الی تخصیص بصارہ تعالٰی بالاشکال والالوان وسمعہ بالاصوات والکلام، وقد صرح العلامۃ اللاقانی فی شرح جوھرۃ التوحید بعمومھما کل موجود، وتبعہ سیدی عبدالغنی فی الحدیقۃ و ھذا کلام اللاقانی قال لیس سمعہ تعالٰی خاصاً بالاصوات بل یعم سائرا لموجودات ذوات کانت اوصفات فسیمع ذاتہ العلیۃ وجمیع صفاتہ الازلیۃ کما یسمع ذواتنا وما قام بنامن صفاتنا کعلومنا و الواننا وھکذا بصرہ سبحانہ و تعالٰی لا یختص بالالوان ولابالاشکال والاکوان فحکمہ حکم السمع سواء بسواء فمتعلقھما واحد ۱؎ انتہی۔ اما ماقال اللاقانی قبل ذٰلک حیث عرف السمع بانہ صفۃ ازلیہ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالمسموعات اوبالموجودات۲؎ الخ والبصر بانہ صفتۃ ازلیہ تتعلق بالمبصرات اوبالموجودات ۱؎ الخ
فائدہ: واضح ہوکہ ''منح الروض'' میں ملا علی قاری کے کلام سے اللہ تعالٰی کی بصارت کا اشکال والوان اور اس کی سمع کا اصوات وکلام کے ساتھ اختصاص کا اشارۃ معلوم ہوتاہے حالانکہ علامہ علامہ لاقانی نے ''جوہرۃ التوحید'' کی شرح میں اللہ تعالٰی کی مذکورہ دونوں صفات کو تمام موجودات میں عام ہونے کی تصریح کی ہے اور علامہ عبدالغنی نابلسی نے حدیقہ میں ان کی اتباع کی ہے۔ اور علامہ لاقانی کا کلام یہ ہے، انھوں نے فرمایا اللہ تعالٰی کی سمع صرف اصوات کے ساتھ مختص نہیں کی بلکہ تمام موجودات کو عام ہے خواہ ذوات ہوں یا صفات، تو باری تعالٰی کواپنی ذات وصفات کا سامع ہے جس طرح وہ ہماری ذوات اور ہماری صفات مثلا ہمارے علوم اور الوان کا سامع ہے یونہی سبحانہ وتعالٰی کی بصر کا معاملہ ہے کہ وہ بھی اکوان و الوان و اشکال کے ساتھ مختص نہیں اس کا معاملہ بھی سمع جیسا ہے اور دونوں صفات برابرہیں تو دونوں کے متصلقات بھی ایک جیسے ہیں انتہی، (اور اس پر علامہ نابلسی کا کلام یہ ہے) لیکن علامہ لاقانی نے جو اس سے قبل فرمایا جہاں سمع کی تعریف یوں کی ہے کہ اللہ تعالٰی کی ازل صفت ہے جو اس کی ذات سے قائم ہے اور تمام مسموعات یا موجودات سے متعلق ہے الخ، اور اللہ تعالٰی کی بصر کی تعریف یوں کی ہے کہ وہ اس کی ازل صفت ہے جو تمام مبصرات یا موجودات سے متعلق ہے الخ،
 (۲؎الحدیقۃ الندیہ    بحوالہ اللاقانی    ھی ای الصفات یعنی صفات المعانی الحیاۃ نوریہ رضویہ فیصل آباد  ۱/ ۲۵۵)

(۱؎ الحدیقۃ الندیہ بحوالہ اللاقانی ھی ای الصفات یعنی صفات المعانی الحیاۃ  مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد  ۱/ ۲۵۵)
فاقول لایجب ان یکون اشارۃ الی الخلاف بل اتی اولا بالمبصرات معتمداعلی بداھۃ تصورہ ثم اردت بالموجودات فرارا عن صورۃ الدور، ولیس فی التعبیرین تناف اصلا، فان المبصر مایتعلق بہ الابصار ولیس فیہ دلالۃ علی خصوصیۃ شیئ دون  شیئ فاذاکان الابصار یتعلق بکل شیئ کان المبصر والموجود متسادیین، نعم لما کان ابصار نا الدینوی العادی مختصا باللون ونحوہ ربما یسبق الذھن الٰی ھذا لخصوص فازال الوھم بقولہ اوبالموجودات آتیا بکلمۃ اولتخییرفی التعبیر۔  وھذہ نکتۃ اخری للارداف وانما لم یکتف بہ لان ذکر المبصرات ادخل فی التمیز۔
اقول اس سے متعلق میں کہتا ہوں" او" یعنی یا، سے تعبیر میں ضروری نہیں کہ یہ اختلاف کا اشارہ ہو بلکہ مبصرات کو پہلے ذکر کرکے اس کے تصور کی بداہت کو ظاہر کیا پھر موجوادت کو ساتھ ذکر کیا تاکہ دور لازم نہ آئے جبکہ مبصرات  وموجودات دونوں تعبیر ات میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ مبصر وہ چیز ہے جس سے ابصار کا تعلق ہوسکے جبکہ کسی شیئ سے خصوصیت پر کوئی دلالت نہیں ہے، تو جب ابصار کا تعلق ہر چیز سے ہے تو مبصرا اور موجود دونوں مساوی ہوئے، ہاں ہماری دنیاوی عادی بصار چونکہ الوان وغیرہ سے مختص ہیں اس لئے ہوسکتا ہے کہ ذہن اس خصوصیت کو اپنائے اس لئے انھوں نے مذکورہ وہم کے ازلہ کے لئے ''اوبالموجودات'' کلمہ ''او'' کو تعبیر میں اختیار دینے کے لئے لائے۔ تو مبصرات کے بعد موجودات کو ذکر کرنے کا دوسرا نکتہ ہوا، اور صرف موجودات پر اکتفاء اس لئے نہ کیا کیونکہ مبصرات کو امتیاز میں زیادہ دخل نہیں۔
ثم اقول، تحقیق التقدم ان الابصار لاشک انہ لیس کاالارادۃ والقدرۃ والتکوین التی لایجب فعلیۃ جمیع التعلقات الممکنۃ لھا بل ھو امن صفات التی یجب ان تتعلق بالفعل بکل ما یصلح لتعلقھا کالعلم فعدم ابصار بعض مایصح ان یبصرہ نقص فیجب تنزیھہ تعالٰی عنہ کعدم العلم ببعض مایصح ان یعلم، وھذا ممالایجوز ان یتناطع فیہ عنزان انما الشان فی تعبیر مایصح تعلق الابصار بہ فان ثبت القصر علی الاشکال والوان والاکوان فذاک، وان ثبت عموم الصحۃ بکل موجود وجب القول بتحقق عموم الابصار ازلاً وابدًا لجمیع الکائنات القدیمۃ والحادثۃ الموجودۃ فی ازمنتھا المحققۃ اوالمقدرۃ لما عرف من انہ لا یجوز ھٰھنا شیئ منتظر لکن الاول باطل للاجماع علی رؤیۃ المومنین ربھم تبارک وتعالٰی فی الدار الاٰخرۃ فکان اجماع علی ان صحۃ الابصار لاتختص بماذکر وقد صرح اصحابنا فی ھذا المبحث ان مصحح الرؤیۃھو الوجود وقداجمعوا کما فی المواقف انہ تعالٰی یرٰی نفسہ فتبین ان الحق ھوا التعمیم وان قولہ تعالٰی انہ بکل شیئ بصیر ۲؎ جار علی صرافۃ عمومہ من دون تطرق تخصیص الیہ اصلا ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ ولی التوفیق ومن اتقن ھذا تیسرلہ اجراء فی السمع بدلیل کلام اﷲ سبحانہ وتعالٰی فافھم واﷲ سبحنہٰ وتعالٰی فافھم واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم ۱۲ منہ رضی اﷲ عنہ۔
پھر میں کہتاہوں مقام کی تحقیق یہ ہے کہ ابصار بیشک، ارادہ قدرت اور تکوین صفات جیسی نہیں۔ جن کا تمام ممکنہ تعلقات سے بالفعل متعلق ہونا واجب نہیں بلکہ ابصار ان صفات میں سے جن کا ممکن التعلق سے بالفعل متعلق ہونا واجب ہے جیساکہ علم کا معاملہ ہے توبعض وہ چیزیں جن کا ابصار ممکن اور صحیح ہوسکتاہے ان کا عدم ابصار نقص ہوگا لہذا اللہ تعالٰی کا اس نقص سے پاک ہونا ضروری ہے جیےس علم سے متعلق بعض اشیاء کا علم نہ ہونا نقص ہے جس سے وہ پاک ومنزہ ہے یہ وہ معاملہ ہے جس میں دو آراء نہیں ہوسکتیں، اب صرف یہ بحث ہے کہ ابصار کا تعلق کن چیزوں سے ہوسکتاہے اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ابصار صرف اشکال والوان و اکوان سے ہی متعلق ہوسکتی ہے  تو یہی ہوگا اور اگر ثابت ہوجائے کہ اس کا تعلق تمام موجودات سے صحیح ہوسکتاہے تو پھر ازلاً وابداً تمام کائنات وحادثہ خواہ وہ اپنے زمانوں میں محقق ہوں یا مقدر ہوں سب سے ابصار کا تعلق ماننا اور بیان کرنا واجب ہوگا جیسا کہ واضح ہے کہ اب کوئی چیز انتظار کے مرحلہ میں نہ ہوگی، لیکن پہلی شق باطل ہے کیونکہ آخرت میں مومنین کے لئے اللہ تعالٰی کی رؤیت پر اجماع ہے (حالانکہ اللہ تعالٰی اشکال والوان سے پاک ہے) تو ثابت ہواکہ ابصارکا تعلق اشکال والوان سے مختص نہیں ہے جبکہ ہمارے اصحاب نے اس کے بحث میں تصریح کردی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالٰی کی رؤیت کا مدار صرف وجودہے جبکہ ان کا اجماع ہے کہ اللہ تعالٰی اپنی ذات کو دیکھتاہے جیساکہ مواقف میں ہے، تو ابصار میں تعمیم ہی حق ہے، اور اللہ تعالٰی کے ارشاد
''انہ بکل شیئ بصیر''
کا اجراء اپنے خالص عموم پر ہوگا جس میں کسی قسم کی تخصیص کا شائبہ نہ ہوگا۔ یوں تحقیق ہونی چاہئے جبکہ اللہ تعالٰی ہی توفیق کا مالک ہے جو بھی ا س تحقیق پر یقین رکھے گا اس کے لئے صفت سمع میں بھی عموم کاا جراء آسان ہو گا جس کی دلیل اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے پس سمجھو  واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)
 (۲؎ القرآن الکریم     ۶۷/ ۱۹)
شرح فقہ اکبر میں ہے :
قد افتی ائمۃ سمرقند وبخار ا  علی انہ (یعنی المعدوم) غیر مرئی، وقدذکر الامام الزاھد الصفار فی اٰخرکتاب التلخیص ان المعدوم مستحیل الرؤیۃ، وکذا المفسرون ذکروا ان المعدوم لایصلح ان یکون مرئ اﷲ تعالٰی، وکذا قول اسلف من الاشعریۃ و الماتریدیۃ ان الوجود علۃ جواز الرؤیۃ مع الاتفاق، علی ان المعدوم الذی یستحیل وجودہ لایتعلق بہ برؤیتہ ۱؎ سبحنہ اھ۔
ائمہ سمرقند وبخارا نے یہ فتوٰی دیاکہ (معدوم) دکھائی نہیں دیتا، امام زاہد صفار نے کتاب التلخیص کے آخر میں لکھا معدوم کی رؤیت محال ہوتی ہے، اسی طرح مفسرین نے کہا معدوم اللہ تعالٰی کے دکھائی دینے کے قابل ہی نہیں۔ اسلاف اشعریہ اور ماتیرید یہ کابھی قول یہی ہے کہ جواز رؤیت کی علت وجود ہے اوراس پر اتفاق ہے کہ ایسا معدوم جس کا وجود محال ہے اس کے ساتھ رؤیت باری کا تعلق نہیں ہوسکتا اھ (ت)
 (۱؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر    باب یری اللہ تعالٰی فی الآخرۃ بلاکیف    مصطفی البابی مصر    ص۸۴)
شرح السنوسی للجزائریہ میں ہے :
انھما (یعنی سمعہ تعالٰی وبصرہ) لایتعلقان الابالموجود والعلم یتعلق بالموجود والمعدوم والمطلق والمقید ۱؎ اھ۔
ان دونوں (اللہ تعالٰی کے سمع وبصر) کا تعلق موجودسے ہوتاہے اور علم کا تعلق موجود ومعدوم اور مطلق ومقید سے ہوتا ہے اھ (ت)
(۱؎ الحدیقہ الندیہ   بحوالہ شرح السنوسی للجزائریۃ      ھی الصفات یعنی صفت المعانی الحیاۃ  مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱/ ۲۵۵)
حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے:
المعدومات التی (عہ۱) ماارادھا اﷲ تعالٰی ولاتعلقت القدرۃ بایجادھا فی ازمنتھا المقدرۃ لھا، ولاکشف عنھا العلم موجودۃ فی تلک الازمنۃ فلا یتعلق بھا السمع و البصر، وکذلک المستحیلات بخلاف العلم فانہ یتعلق بالموجودات والمعدوم ۲؎۔
وہ معدومات جن کا اللہ تعالٰی نے اردہ نہیں فرمایا اور از منہ مقررہ میں ان کی ایجاد کے لئے قدرت متعلق نہیں ہوتی اور نہ مقدرہ زمانہ میں موجود ہوکر تحت علم آتی ہیں تو ایسی معدومات سے اللہ تعالٰی کی سمع وبصر متعلق نہیں ہوتی اور محالات کا معاملہ بھی ایسا ہے بخلاف علم کہ ا س کا تعلق موجود اور معدوم دونوں سے ہے۔ (ت)
عہ:  اقول قولہ مارادولا تعلقت ولاکشف عبارات شتٰی عن معبر واحد وھو دوام العدم المناقض للوجود بالفعل فان کل ما اراداﷲ تعالٰی فقد تعلقت القدرۃ بایجادہ بالفعل وبالعکس،   وما کان کذلک فقد کشف العلم عنہ موجودا بالاطلاق العام وبالعکس وذلک لان العلم موجودا تابع اللوجود ولاوجود للمخلوق الابتعلق القدرۃ ولا تعلق للقدرۃ الا بترجیح الارادۃ، کما تقرر کل ذٰلک فی مقرہ، واﷲ تعالٰی اعلم۔ ۱۲ منہ
اقول، حدیقہ کا قول ''ارادہ نہ فرمایا'' قدرت کا تعلق نہ ہو، علم کا کشف نہ ہو، یہ مختلف عبارات ہیں جن کی مراد ایک ہے اور وہ یہ کہ دائمی جو عدم بالفعل وجود کے مناقض ہے کیونکہ اللہ تعالٰی جس چیز کا ارادہ فرماتاہے اس کے ایجاد سے بالفعل قدرت کا تعلق بھی ہوتاہے اور اس کا عکس بھی ہوتاہے جو چیز اس شان میں ہوگی اسی کے بالفعل موجود ہونے کا مطلقا علم بالکشف ہوتاہے اور عکس بھی ، کیونکہ کسی موجود کا علم ا س چیز کے وجو دسے ہوتا ہے جبکہ مخلوق کاوجود قدرت کے تعلق کے بغیر نہیں ہوسکتا اور قدرت کا تعلق ارادہ سے ترجیح پائے بغیر نہیں ہوسکتا جیسا کہ یہ تمام امور اپنے مقام میں ثابت شدہ ہیں، واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (ت)
 (۲؎الحدیقہ الندیہ   بحوالہ شرح السنوسی للجزائریۃ    ھی الصفات یعنی صفت المعانی الحیاۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱/ ۲۵۵)
Flag Counter