(۱) توہین اور تکذیب خدا ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے الزامات قطعیہ جو مدتوں سے آپ اور آپ کے اکابر جناب مولوی گنگوہی ونانوتوی صاحبان پر ہیں ۔ کیا آپ ان میں اس فقیر سے مناظرہ پر آمادہ ہیں یاہونا چاہتے ہیں ؟
(۲) کیا آپ بحالت صحت نفس وثبات عقل بطوع ورغبت بلاجبر واکراہ اقرارفرماتے ہیں کہ حسام الحرمین و تمہید ایمان وبطش غیب وغیرہ کے سوالات واعتراضات کا جواب بالمواجہ مہری ودستخطی دیتے ہیں گئے یونہی ان جوابات پر جو سوالات ورد پیدا ہوں ان کایہاں تک کہ مناظرہ انجام کو پہنچے اور بفضلہٖ تعالٰی حق ظاہر ہوں ۔
(۳) کیا آپ اسی پر اکتفا فرمائیں گے یا حسب ترتیب مذکور ظفرالدین الطیب اس کے بعد سبحان السبوع و کوکبہ شہابیہ وسل السیوف وغیرہا میرے رسائل کے مطالبات سے اپنے اکابر گنگوہی صاحب و اسمعیل دہلوی صاحب کو سبکدوش کریں گے۔
(۴) اگرآپ اپنے ہی اقوال کے ذمہ دارہوں اور اپنے اکابرجناب گنگوہی ونانوتوی دہلوی صاحبان پر سے دفع کفر وضلال کی ہمت نہ فرمائیں ، تو اتنا ارشادہو کہ یہاں دو فریق ہیں : اول مسلمانان اہلسنت عرب وعجم، دوم صاحبان مذکور گنگوہی ونانوتہ ودہلی مع الاتباع والاذناب ومن بلی۔ جناب اگرفریق اول سے ہیں تو الحمد اﷲ ذلک ماکنا نبغ (الحمداللہ ہی ہم چاہتے ہیں ۔ ت) تحریر فرمادیجئے کہ جنابان گنگوہی ونانوتوی ودہلوی سے بری ہوں وہ اپنے اقوال وکفر ضلال وتوہین وتکذیب رب ذوالجلال ومحبوب ذی الجمال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے باعث ویسے ہی ہیں جیسا ان کو علماء حرمین شریفین لکھتے آئے اور جیسا ان کی نسبت حسام الحرمین وفتاوٰی الحرمین وغیرہما میں لکھاہے، اس وقت بلاشبہ ان کے اقوال کا مطالبہ آپ ہی سے نہیں ہوسکتا بلکہ آپ خود بھی ان کے اتباع واذناب سے مطالبہ و مواخذہ میں شریک ہوں گے، اوراگر جناب فریق دوم سے ہیں تو ان کے اقوال خود آپ کے اقوال ہیں پھر جواب مطالبات سے پہلوں تہی کیا معنی؟ اورظاہر اس کا مظنہ نہیں کہ جناب فریقین سے جداہوکر کسی تیسرے طائفہ مثلا رافضی، خارجی، قادیانی، نیچری وغیرہ میں اپنے آپ کو گنیں اور بالفرض ایسا ہو تو اس کی تصریح فرمادیجئے، یوں بھی اس مطالبہ سے آپ کو برأت ہے۔
(۵) واقعی آپ نے اپنے یہاں کے متکلم اکبر چاندپوری صاحب کو جلسہ دیوبند میں مناظرہ مذکورہ کےلئے اپنا وکیل مطلق ومختار عام کیا تھا یا انھوں نے محض جھوٹ مشہور کردیا؟ برتقدیر اول کیا سبب کو اسی کی تصدیق کے لئے جوکارڈ رجسٹر شدہ گیا آج جناب کو آٹھواں مہینہ ہے کہ جواب نہ دیا۔
(۶) وہ آپ نے وکیل کیا یا چاندپوری خود بن بیٹھے؟ بہر حال آپ سے اس کی تصدیق چاہنا ویسا ہی جرم اور انھیں مہذب خطابوں کا مستحق ہے جو چاندپوری صاحب نے تحریر فرمائے یا ان کا وہ زعم محض ہذیان ومکابرہ وبے عقلی وجنون وزبان درازی ودریدہ دہنی ہے برتقدیر اول شرع ، عقل، عرف کس کا قانون ہے کہ زید جو محض اپنی زبان سے وکیل عمرو ہونے کا مدعی ہوا، اسی قدر سے اس کی وکالت ثابت ہوجائے اور تصرفات وہ جو عمرو کے مال واہل میں کرے نافذ وتام قرار پائیں اگرچہ عمرو ہرگز اس کی توکیل کا اقرار نہ دے، برتقدیر ثانی کیا ایسا شخص کسی عاقل کے نزدیک قابل خطاب علوم خصوصاً مسائل اصول دینیہ ہوسکتاہے یا مردود ومطرود نالائق مخاطبہ ہے؟
(۷) سیف النقی کی نسبت بھی ارشاد ہو، آخرمیں آپ بھی اللہ واحد قہار کا نام تو لیتے ہیں اسی واحد قہار جبار کی شہادت سے بتائے کہ یہ حرکات جو آپ کے یہاں کے علماء مناظرین کررہے ہیں صاف وصریح ان کے عجز کامل اور نہایت گندی حملہ بزدل کی دلیل روشن ہیں یا نہیں ؟
(۸)جو حضرات ایسی حرکات اور اتنی بے تکلف اختیار کریں ، جوان کو چھپوائیں ، بیچیں ، بانٹیں ، شائع اور آشکارا کریں ، جو اُن کو پیش کریں ، حوالہ دین، ان پر افتخار کریں ، جو امور مذکورہ کو روا رکھیں ، ترک انسداد وانکار کریں ، کسی عاقل کے نزدیک لائق خطاب ٹھہرسکتے ہیں؟ یا صاف ظاہر ہوگیا کہ مناظرہ آخر ہوگیا، مناظرہ مناظرہ کا جھوٹا نام لینے والے بے روح پھڑکتے بے جان سسکتے ہیں ،
لایموت فیھا ولایحیٰی ۱؎
(اس میں نہ وہ مردے نہ زندہ رہے۔ ت)
(۱؎القرآن الکریم ۸۷/۱۳)
(۹) اس واحد قہار جلیل وجبار کی شہادت سے یہ بھی بتادیجئے کہ وہ رسالہ ملعونہ جو خاص جناب کےمدرسہ دیوبند سے اشاعت ہورہا ہے اور جس کے آخر میں آپ کے دیوبند مولوی کا اعلان لکھا ہے کہ بندہ کی معرفت رسالہ ''سیف النقی علٰی راس الشقی'' بھی مل سکتاہے قیمت ۰۲ آنہ۔ اورمولٰنا محمد اشرف علی صاحب وغیرہ بزرگان دین کی جملہ تصانیف بھی مل سکتی ہیں ۔ راقم بندہ سید اصغر حسین عفی عنہ مدرس مدرسہ اسلامیہ دیوبند ضلع سہانپور۔
اس اشاعت کی آپ کو اطلاع تو ظاہر مگر اس میں اس میں آپ کا شورٰی نہیں ۔ آپ کی شرکت ہے یا نہیں ؟ نہیں تو آپ کی رضا ورغٖبت ہے یا نہیں ؟ نہیں توآپ کو سکوت اور سکوت کا محصل اجازت ہے یا نہیں ؟ نہیں تو آپ نے کیا انسداد کیا؟ اور اس میں اپنی پوری قدرت صر ف کی یا بے پروائی برتی؟ برتقدیر اول اثرکیوں نہیں ہوتا؟ برتقدیر ثانی یہ بھی نیم اجازت ہے یا نہیں ؟
(۱۰) اسی عزیز، مقتدر، منتقم، متکبر عزجلالہ کی شہادت سے یہ بھی حسبۃاللہ فرمادیجئے کہ حالات ومقالات جو ظفرالدین الجید تا اشتہار ہشتم ازنامہ حاضرہ مسمّٰی بہ ابحاث اخیرہ میں مذکور ہوئی سب حق وصواب ہیں یا ان میں سے کون سا خلاف واقع ہے؟ اور جب سب حق ہیں تومناظرہ کا طالب کون رہا اور برابر فرار برفرار، گریز برگریز پر کس نے قرار کیا؟
بَیِّنُوْا تُؤْجَرُوْا
(بیان کیجئے اجر پائے۔ ت)
رَبِّ احکم بالحق وربنا الرحمن المستعان علی ماتصفون ۱؎۔
اے میرے رب! حق فیصلہ فرمادے۔ اور ہمارے رب رحمان ہی کی مدد درکار ہے ان باتوں پر جو تم بناتے ہو (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲۱ /۱۱۲)
جناب مولوی تھانوی صاحب! یہ دس سوال ہیں صرف واقعات یاآپ کے ارادہ وہمت سے استفسار یاصاف واضحات جن کا جواب ہر ذی عقل پر اشکار، بایں ہمہ جواب میں جناب کوتین دن کی مہلت دی گئی اگر جناب کے نزدیک یہ بھی کم ہے تو بے تکلف فرمادیجئے آپ جس قدر چاہیں فقیر توسیع کرنے کو حاضر ہے مگر جواب خود دیجئے، اب وکالت کا زمانہ گیا، وکلاء کا حال کھل گیا۔ مدتوں جناب کو اختیار توکیل دیا کہ آپ گھبراتے ہیں تو جسے چاہیں اپنے مہر ودستخط سے اپنا وکیل بنائے، بار بار سائل واشتہارات میں اس کی تکرار کی مگر آپ نے خاموشی ہی اختیار کی، اور بالآخر چاندپوری صاحب محض بروز زبان خود بخود آپ کے وکیل بنے جس کا انجام وہ ہوا، کیاآپ عالم نہیں ۔ کیاآپ وضوح حق نہیں چاہتے؟ کیا آپ ان کلمات کے قائل نہیں ؟ کیا آپ پر خود اپنا تبریہ لازم نہیں ؟ آپ دوسروں کا سہارا چھوڑ ئے اور اللہ کو مان کر تحقیق حق سے منہ نہ موڑئے، حیرانی و پریشانی میں عوام متقدین کادم نہ توڑئے، ہاں ہاں آپ سے مطالبہ ہے۔ آپ پر مواخذہ ہے۔ اورآپ جواب دیجئے، اپنے قلم وخط سے دیجئے، اپنے مہر ودستخط سے دیجئے، ورنہ صاف انکار کردیجئے کہ عوام کی چپقلش تو جائے، حق اہل فہم پر ظاہر ہوچکا ہے۔ آپ کے ان معتقدین پر بھی وضوح پائے پھر ان میں سے جسے توفیق ہو ضلالت چھوڑ کر ہدٰی پر آئے۔
دستخط
فقیر احمد رضا خاں قادری عفی عنہ
آج بستم ذی القعدہ ۱۳۲۸ھ روز چہار شنبہ کو فقیر نے خود لکھا
اور میری مہر ودستخط سے امضاہوا۔
کاش یہ بات اسی وقت طے ہوجاتی!
ایک تاریخی خط
(بافاضہ حضرۃ علامہ مولٰنا حسنین رضاخاں بریلوی مدظلہ العالی)
علمائے دیو بند کی وہ دین سوز عبارتیں جن پر سارا عرب وعجم چیخ اٹھا تھا، دنیا کے بڑے بڑے علماء کرام ومفتیان عظام ومشائخ ذوی الاحترام وعوام لرز گئے تھے۔ ہر درد مند مخلص تڑپ رہاتھا کہ کسی صورت یہ فتنہ ختم ہو اورملت اسلامیہ سکون واطمینان کا سانس لے۔
دین اور ملت اسلامیہ میں فتنہ اور افتراق کی یہ ہولناک آگ ایسی نہ تھی جس پر مجدد اعظم امام احمد رضاخاں
بریلوی قدس سرہ، خاموش تماشائی رہتے، اسلام کا انتہائی درد، مسلمانوں کی دنیا وآخرت کی تباہی کا خوف اور آپ کے منصب کی ذمہ داری نے آپ کو مضطرب اور بے چین کردیا، علماء دیوبند کو دعوت پر دعوت دی، بہت سے مطبوعہ و غیر مطبوعہ خطوط لکھے، رجسٹریاں بھیجیں کہ اے اللہ کے بندو! تمھاری ان عبارتوں سے اسلام کی بنیادوں پر ضربیں لگی ہیں ، مسلمان سخت مشکلات میں پھنس گیاہے، دنیاکے ساتھ اس کی آخرت بھی برباد ہو رہی ہے۔ آؤ، ہم تم بیٹھ کراس معاملہ کو صاف کرلیں اور اس راہ کو اختیار کریں جو اسلام کا عین منشاء اور مسلمانوں کے لئے صراط مستقیم ہو، مگر افسوس کہ اکابر دیوبند نے یا تو اس سے اجتناب کیایا اگر وعدے بھی کئے تو ایفا نہ کرسکے، خجالت اور شرمندگی دامنگیررہی۔
علماء دیوبند کی اس روش کا نتیجہ یہ نکلاکہ اس وقت کےاندیشوں کے مطابق یہ فتنہ آج اپنے عروج پر پہنچ گیا جس سے نہ صرف مسلمانوں کی دنیا کو شدید نقصان پہنچ رہاہے بلکہ ایک بہت بڑی جماعت اور اس کی مختلف شاخوں کی آخرت بھی بربادی ہورہی ہے۔
ہم ذیل میں مجدد اعظم امام بریلوی قدس سرہ، کے ایک تاریخی خط کی نقل پیش کررہے جو آپ نے آج سے تقریباًستاسٹھ۱؎ سال قبل ۱۳۲۹ھ میں مولوی اشرف علی تھانوی کو لکھا تھا اورجو رسالہ '
"دافع الفساد عن مراد آباد''
میں چھپ چکا تھا۔
(۱؎ موجودہ ۱۴۱۹ھ کے مطابق اب سے تقریباً نوے سال قبل)