Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
49 - 150
رسالہ

سُبحٰن السبوح عن کذب عیب مقبوح (۱۳۰۷ھ)

(کذب جیسے بدترین عیب سے اللہ تعالٰی کی ذات پاک ومنزہ ہے)
مسئلہ ۷۲: از ابومحمد صادق علی مداح عفی عنہ گڑھ مکٹیسری از میرٹھ بالائے کوٹ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین دربارہ مسئلہ امکان کذب باری تعالٰی جس کا اعلان تحریری وتقریری علمائے گنگوہ ودیوبند اور ان کے اتباع آج کل بڑے زور وشور سے کررہے ہیں، تحریراً کتاب ''براہین قاطعہ'' میں کہ مولوی خلیل انبیٹھی کے نام سے شائع کی گئی، جس کی لوح پر لکھا ہے: ''بامر حضرت چنین وچنان مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی'' اور خاتمہ پر ان کی تقریظ بایں الفاظ ہے: ''احقر الناس رشید احمد گنگوہی نے اس کتاب براہین قاطعہ کو اول سے آخر تک بغور دیکھا، الحق کہ  یہ جواب کافی اور حجت وافی ہے اور مصنف کی وسعت نور علم اور فسحت ذکاء وفہم پر دلیل واضح۔ حق تعالٰی اس تالیف نفیس میں کرامت قبولیت عطافرمائے اور مقبول مقبولین ومعمول عاملین فرمائے ۱؎'' (ملخصاً) جس سے ثابت کہ گویا کتاب ہی تالیف ان کی ہے،
 (۱؎ براہین قاطعہ  خاتمہ کتب  مطبع لے بلا ساواقع ڈھور    ص۲۷۰)
صفحہ ۳ پر یوں مکتوب ہے: ''امکان کذب کا مسئلہ اب جدید کسی نے نہیں نکالا بلکہ قدماء میں اختلاف ہوا ہے کہ خلف وعید آیا جائز ہے۔ ردالمحتار میں ہے:
ھل یجوز الخلف فی الوعید فظاہرمافی المواقف والمقاصد ان الاشاعرۃ قائلون بجوازہ
 (کیا خلف وعید جائز ہے، مواقف اور مقاصد سے یہی واضح ہوتاہے کہ اشاعرہ اس کے جواز کے قائل ہیں ۔ ت) پس اس پر طعن کرنا پہلے مشائخ پر طعن کرنا ہے اور اس پر تعجب کرنا محض لاعلمی اور امکان کذب خلف وعید کی فرع ہے ۱؎۔'' انتہی ملخصا۔
 (۱؎ براہین قاطعہ    مسئلہ خلف وعید قدماء میں مختلف فیہ ہے    مطبع لے بلاساواقع ڈھور     ص۳۵۲)
تقریرا مولوی ناظر حسین دیوبندی مدرس اول مدرسہ عربی میرٹھ نے مسجد کوٹ پر بلند آواز سے چند مسلمان میں کہا کہ ہمارا تو اعتقاد یہ ہے کہ خدا نے کبھی جھوٹ بولا نہ بولے مگر بول سکتاہے، بہشتیوں کو دوزخ اور دوزخیوں کو بہشت میں بھیج دے تو کسی کا اجارہ نہیں، اوریہی امکان کذب ہے، انتہی۔

پس ایسا اعتقاد کیسا ہے اوراس کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں  جس کا عقیدہ ایسا ہے سچی بات بتاؤ اچھا اجر پاؤ۔
الجواب

سبحٰن ربک رب العزۃ عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمد اﷲ رب العالمین، والحمد ﷲ المتعال شانہ عن الکذب والجھل والسفہ والھزل والعجز والبخل، وکل مالیس من صفات الکمال المنزہ عظیم قدرتہ بکمال قدوسیتہ وجمال سبوحیتہ عن وصمہ خروج ممکن او ولوج محال، قولہ الحق ووعدہ الصدق، ومن اصدق من اﷲ قیلا، وکلامہ الفصل وماھو بالھزل فسبحن اﷲ بکرۃ واصیلا، لذاتہ القدم ولنعتہ القدم، فلاحادث یقوم ولاقائم یحول، وکلامہ ازلی وصدقہ ازلی، فلا الکذب یحدث ولاالصدق یزول، والصلاۃ والسلام علی الصادق المصدوق سید المخلوق النبی الرسول الاٰتی بالحق من عند الحق لدین الحق علی وجہ الحق والحق یقول فھو الحق وکتابہ الحق بالحق انزل وبالحق نزل وعلی الحق النزول، واشھد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لاشریک لہ حقا حقا، واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ بالحق ارسلہ صدقاً صدقاً، صلوات اﷲ وسلامہ علیہ وعلی الہ وصحبہ وکل من ینتمی الیہ، وعلینا معھم وبھم ولھم یاارحم الراحمین، اٰمین اٰمین، الہ الحق اٰمین، قال المصدق لربہ بتوفیقہ العظیم المسبح لمولاہ عن کل وصف ذمیم، عبدالمصطفی احمد رضا المحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی، صدق اﷲ تعالٰی قولہ فی الدنیا والاخرۃ ومصدق فیہ ظنہ بالعفو والمغفرۃ، اٰمین، اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔
آپ کار ب رب العزت ہر اس عیب سے پاک ہے جو یہ مخالفین بیان کرتے ہیں ،تمام رسولوں پر سلام ہو، تمام حمد اللہ کے لئے جو تما م جہانوں کا پالنے والا ہے، تمام حمد اللہ کےلئے جس کی شان اقدس ہرقسم کے کذب،جہل، بے عقلی، غیر سنجیدگی، بخل اور ہراس وصف سے پاک ہے جو اس کے کمال منزہ کے خلاف ہے کمال قدوسیت اور جمال سبوحیت کی وجہ سے اس کی قدرت خروج ممکن اور دخول محال کے عیب سے پاک ومبرا ہے، ا س کا فرمان حق اور اس کا وعدہ سچا اور قول کے اعتبار سے اس سے بڑھ کر کون سچاہوسکتا ہے اس کا مقدس کلام حق و باطل میں فیصلہ کن ہے اور وہ ومذاق، ٹھٹھا نہیں ہے پس اللہ تعالٰی کی تسبیح ہے صبح وشام، اس کی ذات بھی قدیم اور صفات بھی قدیم تو حادث قائم نہیں رہتا اور قائم متغیر نہیں ہوتا اور اس کا کلام ازلی ہے اور اس کاصدق ازلی ہے تو اسکے کلام میں کذب کا حدوث نہیں اور اس کے صدق کو زوال نہیں۔ صلٰوۃ وسلام ہو اس ذات اقدس پر جو صادق ومصدوق، تمام مخلوق کے سردار نبی رسول ، حق کی طرف بلانیوالے، بطریق حق، دین حق کے لئے حق لانے والے، حق کا فرمان ہے کہ وہ حق ہیں۔ ان کی کتاب حق جو حق کے ساتھ نازل کیا اور نازل ہوئی اورا س کا نزول حق پر ہوا، میں شہادت دیتاہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ سراپا حق ہے، میں شہادت دیتاہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے خاص بندے اور رسول ہیں اور ان کو حق وصدق دے کر بھیجا، ان پر اللہ تعالٰی کی طرف سے صلوٰۃ وسلام ہوا ور ان کی آل واصحاب اور ان کی طرف ہر منسوب پر، ساتھ ہم پر بھی ان کی وجہ سے ان کی خاطرہو یا ارحم الرحمین آمین آمین الہ الحق آمین، اپنے رب کی تصدیق کرنے والے ا س کی عظیم توفیق سے، ہر برے وصف سے اپنے رب کی پاکیزگی بیان کرنے والا غلام مصطفی احمد رضا محمدی سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی کہتاہے اللہ تعالٰی اس کے قول کو دنیاوآخرت میں سچا فرمائے اور اس کا اپنے بارے میں اللہ تعالٰی سے عفو ومغفرت کے حسن ظن کو سچا فرمائے آمین، اے اللہ! تو ہی حق وصواب کی رہنمائی فرمانے والا ہے۔ (ت) 

فقیر غفرلہ اللہ تعالٰی لہ بحول وقوقت رب الارباب، اس مختصر جواب موضح صواب ومزیح ارتیاب میں اپنے مولٰی جل وعلا کی تسبیح وتقدیس اور اس جناب رفیع وجلال منیع پر جرأت وجسارت والوں کی تقبیح و تفلیس کے لئے کلام کو چار تنزیہوں پر منقسم اور ایک خاتمہ پر مختم اور بنظر ہدایت عوام و ازاحت اوہام ایک ضروری مقدمہ ان پر مقدم کرتا ہے۔

تنزیہ اول میں ائمہ دین وعلمائے معتمدین کے ارشادات متین جن سے بحمداللہ شمس وامس کی طرح روشن ومبین کہ کذا لٰہی بالاجماع محال اور اسے قدیم سے ائمہ سنت میں مختلف فیہ ماننا عناوہ مکابرہ یاجاہلانہ خیال۔

تنزیہ دوم میں بفضل ربانی دعوٰی اہل حق پر دلائل نورانی جن سے واضح ہو کر کذب الٰہی قطعا مستحیل اور ادعائے امکان باطل وبے دلیل۔

تنزیہ سوم میں امام وہابیہ ومعلم ثانی طفائفہ نجدیہ مصنف رسالہ یکروزی کی خدمت گزاری اور ان حضرات کے اوہام باطلہ وہذیانات عاطلہ کی ناز برداری کہ یہی صاحب ان حضرات نو کے امام کہن اور ان کے مرجع وملجاوماخذ ومنتہی، انھیں کے سخن۔

تنزیہ چہارم میں جہالات جدیدہ کا علاج کافی اور اس امر حق کا ثبوت وافی کہ مسئلہ قدیمہ خلف وعید، اس مزلہً حادثہ سے منزلوں بعید۔

خاتمہ میں جواب مسائل وحکم قائل، والحمد اللہ مجیب السائل۔
Flag Counter