Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
48 - 150
مسئلہ ۶۲: از شہر دہلی پہاڑ گنج مسجد غریب شاہ مرسلہ محمد عبدالکریم صاحب ۹ شعبان ۱۳۳۷ھ

حضور! مندرجہ ذیل اشعار کے متعلق یہاں کے مولویوں نے کہا ہے کہ ا س کا جوا ب کوئی اہل اللہ دے گا، لہذا اس کا جواب حضور ہی دیں گے۔ اشعار:

(۱)		چہ خوش گفت بہلول فرخندہ فال    کہ من از خدا پیش بودم دوسال

(۲)		من آں وقت کہ دم خدارا سجود    کہ ذات وصفات خداہم نہ بود

الجواب

دوسرا شعر ایسا مشکل نہیں، نبود سے نہ نفی مطلق مقصود نہ مفہوم بلکہ نفی مقید بوقت سجدہ یعنی جس وقت میں نے سجدہ کیا اس وقت  میں ذات صفات نہیں۔ اوریہ حق ہے کہ ذات وصفات الٰہی وقت و زمانہ سے متعالٰی ہیں۔ وہ کسی وقت میں نہیں وقت سے پاک ہیں۔ جیس کسی مکان میں نہیں مکان سے پاک میں، زمان ومکان سب حادث ہیں اور ذات وصفات الٰہی قدیم، جب زمان ومکان نہ تھے ذات وصفات ان سے جدا تھیں، ایسے ہی اب بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی،

پہلے شعر میں از خدا لفظ پیش سے متعلق نہیں بلکہ بودم سے اور پیش کا متعلق از یں محذوف ہے۔ جیسے عربی
کنا قبل فی اھلنا مشفقین ۱؎
یعنی قبل ہذا اردو میں پہلے کہہ چکا یعنی اس سے پہلے، یوہیں پیش بودم یعنی پیش از یں۔ اس کا اشارہ حالت موجود کی طرف ہے یعنی عالم اجساد میں ہونا، اور سائل سے مراد زمانہ ممتمد کہ یہاں ہزار سال ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ  میں اس عالم اجساد میں آنے سے دوہزار برس پہلے خدا کی طرف سے وجود رکھتاتھا ، موجود تھا، اور یہ حق ہے، حدیث میں ہے:
ان اﷲ تعالٰی خلق الارواح قبل الاجسام بالفی عام ۲؎۔
اللہ تعالٰی نے روحیں جسموں سے دو ہزار برس پہلے بنائیں۔
 (۱؎ القرآن الکریم         ۵۲ /۲۶)

(۲؎ الفوائد المجوعہ مناقب الخلفاء الاربعۃ الخ حدیث ۹۴   دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۳۸۲

الموضوعات لابن جوزی    حدیث ۵۷    دارالکفر بیروت    ۱ /۴۰۱)
باایں ہمہ دونوں شعر موہم معنی کفر ہیں اور ان کا اطلاق سخت اشد حرام، واللہ تعالٰی اعلم۔

مسئلہ ۶۳ تا ۶۵: از شہر بریلی محلہ سہسوائی ٹولہ متصل مسجد چپ شاہ مسئولہ لیاقت حسین طالبعلم ۶ رمضان المبارک ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے شرع درباب اس شعر کے نعت رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھو ہذا:

؎ کردن مہمانی عشق محمد

جگر کے کوفتے دل کے پسندے

(جگر کے کوفتے اور دل کے کباب بناکر عشق محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کی مہمانی کرنا۔ ت)

(۱)  آیا قابلیت نعت اور مولود خوانی کی رکھتا ہے یا نہیں؟

(۲)انسان کا گوشت حلال یا حرام؟

(۳)کس مقدس شخص کی مہمانی میں یا اس کے عشق کی مہمانی میں انسان کا گوشت پیش کرسکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب

انسان کا گوشت انسان پر حرام ہے عشق پر حرام نہیں وہ ایک آگ ہے کہ ماسوائے محبوب کو جلادیتی ہے، گوشت گھلانا اس کا پہلا فعل ہے، ولہذا حدیث میں فرمایا:
ان اﷲ یبغض الحبر السمین ۱؎۔
اللہ دشمن رکھتاہے موٹے عالم کو۔
(۱؎ اتحاف السادۃ المتقین    باب بیان فضیلۃ الجوع    دارالکفر بیروت    ۷/ ۳۸۸)
شعر میں ''مہمانی عشق'' ہی کہا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

مسئلہ ۶۶: ازشہر کہنہ بریلی مسئولہ قاسم حسین رضوی مصطفائی ۱۰ رمضان المبارک ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مندرجہ ذیل اشعار آیا کفر میں داخل ہیں اور ان کا لکھنے والا کافرہے 

یا نہیں؟ دلاور حسین میلاد خواں نے میرے سامنے بیان کیا کہ ایک عالم مجدد نے ایسے شاعرکو کافر فرمایا ہے اور تحریری فتوٰی میرے پاس موجود ہے اگر اس نے جھوٹ بولا اور ایک مسلمان پر کفر ثابت کرنے کے لئے ایک بزرگ پر اتہام رکھ کر ایسے غلط لفظ کہے تو کیا وہ کافر ہونے سے بری ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اشعار یہ ہیں:

۱	جوش کرم پر بحر ہے دیکھو یہ الٹی لہر ہے    ہم بھولے بیٹھے ہیں انھیں ان کو ہماری یادہے

۲	 ہے ہم سے غلاموں کا کعبہ تو در آقا        اللہ مبارک کرے سجدے کا  ادا کرنا

الجواب

حاشا ان میں کوئی بات کفر تو کفر گمراہی کی بھی نہیں، ممکن کہ اور اشعار کی نسبت فتوٰی ہوا ہو اور دلاور حسین نے بے علمی کے سبب ان کے مضمون کو ویسا ہی گمان کرکے یہ کہہ دیا ہو، بہر حال جاہل کو احکام شرح خصوصاً کفر واسلام میں جرأت سخت حرام ہے کوئی ہوکسے باشد۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

مسئلہ ۶۷: ازمراد آباد محلہ شیدی سرائے مرسلہ صابر حسین صاحب ۲۲ جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا یہ شعر ہے : ؎

سکھی پاپ کی گٹھری توسیس دھری کہیں روس نہ جاویں سام ہری



کتے جاکے بروں کہاں ڈوب مروں سیاں سے حیا شرماوت ہے

اس میں سام ہری جو خدا کا نام رکھا ہے سو یہ عمرو کے نزدیک کفر ہے ، آیا یہ قول عمرو کا صحیح ہے یا نہیں؟

الجواب

جاہل احمق نادان شاعر نے جوہندی زبان کی نظم کہی اس میں معبود برحق عزوجلالہ کی طرف انھیں لفظوں سے کنایا کیا جو ہندی میں مستعمل ہے ایسے کلام اس قبیل سے ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت مولوی قدس سرہ المعنوی 

فرماتے ہیں : ؎
خوشتر آں باشد کہ سِرِ دلبراں    گفتہ آید درحدیث دیگرآں ۱؎
 (وہ خوش بخت ہے جو دلبروں کے راز دوسروں کی زبان سے کہتا ہے۔ ت)
 (۱؎ مثنوی مولوی معنوی    دفتر اول بردن بادشاہ طبیب غیب رابرسربیمار    نورانی کتب خانہ پشاور    ص۸)
اولیاء اشعار میں لیلٰی وسلمٰی باندھتے ہیں اور مطلب سعدی دیگر ست، نہ کہ معاذاللہ رب عزوجل کو ان ناموں سے 

تعبیر کیا بلکہ وہی گفتہ آید درحدیث دیگراں،سید الطائفہ جنید بغدادی رضی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
ان مجنون بنی عامر کان من احباء اﷲ تعالٰی سترشأنہ بجنون بلیلٰی ۔ نقلہ الزرقانی فی شرح المواھب الشریفۃ من روضۃ العاشق لابن القیم واستغربہ۔
حضرت مجنون بنی عامر اولیاء سے تھے عشق لیلٰی کو پردہ کر رکھاتھا (امام زرقانی نے شرح مواہب الشریفہ میں روضۃ العاشق لابن قیم سے اسے نقل کرکے غریب کہا۔ ت)

سیدی ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کسی کویہ شعر پڑھتے سنا: ؎
اسأل عن سلمی فھل من مخبر     یکون لہ علم بھا این تنزل
میں سلمٰی کو پوچھتاہوں ہے کوئی بتانے والا کہ وہ کہاں اترے گی، فرمایا
واﷲ مافی الدارین عنھا مخبر ۔
خدا کی قسم دونوں جہان میں کوئی اس کی خبر دینے والا نہیں۔  سیدی ابوسعید خراز رضی اللہ تعالٰی عنہ سوتے سوتے گھبرا کر روتے ہوئے اٹھے اور فرمایا کہ ابھی مجھ سے رب عزوجل نے خواب میں فرمایا: ابو سعید تو لیلٰی وسلمٰی کے اشعار سنتا اور ان کے مضامین کو مجھ پر محمول کرتاہے، اگر میں نہ جانتا کہ تو مجھ کو دوست رکھتا ہے تو وہ عذاب کرتا کہ نہ کیا ہوتا۔ 

ھر زبان ہندی میں جو معبود برحق  کے اسما سے ہے، جیسے ایشور، اور بظاہر اس میں کوئی معنی محال نہیں جیسے رام میں ہیں کہ ہر چیز پر رما ہونے اور سرایت و حلول پر دلیل ہے اور سیام کنھیا کا نام نہیں  اس کا وصف اس سے کرتے ہیں کہ وہ سیہ فام تھا اور سیام سیاہ کر کہتے ہیں۔ اور صوفیہ کرام فرماتے ہیں: تجلی ذات بحت کارنگ خالص سیاہ ہوتاہے ، شاعر نے بڑی خطا کی بہت برا کیا اس پر تو بہ لازم ہے، مگر حکم کفر غلو وغلط ہے،
لایخرج العبد من الایمان الاجحود ما ادخلہ فیہ سواء صرح بہ اوجحد وجحد الجحود وھذا اخبث واعند العنود۔ والعیاذباﷲ تعالٰی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
بندہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا مگر جب کہ وہ ایسی چیز کا انکار کرے جس کے ذریعہ سے وہ ایمان میں داخل ہواتھا خواہ وہ تصریح کرے یا انکار، اور انکار کا انکار یہ زیادہ خبیث اور سبب عناد ہے۔ والعیاذباللہ تعالٰی، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
مسئلہ ۶۸ تا ۶۹: از موضع خورد مئوڈاک خانہ بدو سرائے ضلع بارہ بنکی مسئولہ سید صفدر علی صاحب ۲صفر ۱۳۳۹ھ

(۱)کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ اس شعرکا شاعر اور قائل شرعا کیسا ہے وھوہذا: ؎

نہ مربھوکا نہ رکھ روزہ نہ جا مسجد نہ کر سجدہ

وضو کا توڑکر کوزہ شراب شوق پیتا جا

(۲) بے نمازی کو نہ جانو دیندار     پیر ہو یا ہو مرید بابکار

الجواب

(۱) یہ شعر کفر ہے۔    (۲) یہ شعر ٹھیک ہے۔     واللہ تعالٰی اعلم۔

مسئلہ ۷۰: انتظام علی خاں صاحب چھتہ شیخ بنگلور زیر جامع مسجد دہلی ۱۸ جمادی الآخرہ ۱۳۳۹ھ

شعر اندرون غزل نعتیہ مصنفہ اکبر خاں مرئی: ؎

عجب کھیل کھیلے عجب روپ بدلے        زمانہ بہروپیا بن کے آیا

ا س قسم کے شعر حضور کی شان کے خلاف ہیں کہ نہیں؟ اور ایسے شعر محافل میلاد شریف حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں پڑھنا چاہئے کہ  نہیں ''اللہ اللہ گفتہ اللہ می شوی'' اس سے مراد لی ہے کہ نمک میں ملی شے نمک ہوگئی، جو خدا میں ملا وہ خدا ہوگیا۔ یہ شعر قابل اعتراض ہے کہ نہیں؟ اور مصرعہ بالا
''اللہ اللہ گفتہ اللہ می شوی''
سے مراد اور مطلب کیا حاصل ہونا چاہئے؟

الجواب

بہروپئے والا شعر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صریح توہینوں پر مشتمل ہے، کھیل کھیلنا روپ بدلنا کہنا ہی توہین تھا، مصرع دوم نے کفر پررجسٹری کردی والعیاذباللہ تعالٰی، یہ کہنا کہ جو خدا میں ملا وہ خدا ہوگیا کفر ہے، اس مصرع سے احتراز لازم ہے، مراد یہ ہے
کجہ فنافی اللہ می شوی''، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۷۱: از مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ خانقاہ برکاتیہ مسئولہ والاحضرت عظیم البرکت مولانا مولوی سید محمد میاں صاحب قادری دامت برکاتہم     ۳۰ رجب ۱۳۳۹ھ

حضرت مولانا المعظم والمکرم والمحترم دامت برکاتہم العالیہ، پس از تسلیم مع التعظیم والتکریم معروض خدمت، جناب مولوی حسن رضا خاں صاحب مرحوم کے نگار ستانِ لطافت میں ان کی ایک غزل میں ان کا ایک شعر یہ ہے: ؎

شب اسرٰی کے دولھا پر نچھاور ہونے والی تھی

نہیں تو کیا غرض تھی اتنی جانوں کے بنانے سے

یہ شعر ان کے دیوان ''ذوق نعت'' میں بھی موجود ہے جس سے یہ مطلب نکلتاہے کہ اتنی جانوں کے بنانے سےغرض یہ تھی کہ شب اسرٰی کے دولھا پر ان کی نچھاور کی جائے حالانکہ افعال مولٰی عزوجل معلل بالاغراض نہیں ہواکرتے اس کا حل مجھے مطلوب ہے۔

الجواب

والاحضرت عظیم البرکت دامت برکاتہم العالیہ، تسلیم مع التظیم، یہاں طرز ادا دو ہیں: اول ہم نے یہ کام زید کے لئے کیا ورنہ ہمیں کیا غرض تھی، دوم اور کیا غرض تھی، اول میں اپنی غرض کی نفی مطلق ہےاور ثانی میں اس غرض کا اثبات اور غرض دیگر کی نفی۔ شعر میں طرز اول ہے نہ کہ دوم، تو اس میں مطلقا نفی غرض ہے۔ بیان اس کا یہ ہے کہ فعل اختیاری کے لئے مصلحت یا غرض ضرور ہے ورنہ عبث ہوگا، اورمولٰی تعالٰی عبث سے پاک ہے، اس کے افعال مصالح سے مملو ہیں اور اغراض سے منزہ، وہ مصالح بھی راجع بعباد ہیں۔ مولٰی تعالٰی مصلحت ومفسدت سے پاک، مداح مرحوم مصلحت کااس میں حصر کرتاہے،
لحدیث خلقت  الخلق لاعرفھم کرامتک و منزلتک عندی ولولاک ماخلقت الدنیا ۱؎۔
رواہ ابن عساکر عن سلمان فارسی۔

اس حدیث کی وجہ سے کہ میں نے مخلوق اس لئے پیدا فرمائی تاکہ میرے ہاں جو آپ کا مقام و شرف ہے اسے وہ جان لے، اور اگر آپ نہ ہوتے تومیں دنیا پیدا نہ فرماتا۔ اسے ابن عساکر نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ (ت)
 (۱؎ مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر     ذکرما خص بہ وشرف بہ من بین الانبیاء    دارالفکر بیروت    ۲/ ۱۳۷)
تو عرض کرتاہے کہ مصلحت یہ تھی ورنہ کیاکوئی غرض تھی کہ اگر غرض ومصلحت دونوں نہ ہوں تو عبث لازم آئے ، اور وہ محال ہے۔ لیکن مولٰی تعالٰی غرض سے پاک ہے، لاجرم یہی مصلحت تھی، وہو تعالٰی اعلم۔
Flag Counter