مسئلہ ۵۲ تا ۵۸: از ریاست رامپور مرسلہ معشوق علی صاحب ۷ جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر میلاد خواں مجلس میلاد شریف میں مفصلہ تحت مضامیں کی نظم یا نثر پڑھتے ہیں:
(۱) میم کی چادر مکھ پر ڈالے احمد بن کر آیا،
(۲) شب وصل خدا نے نبی سے کہا تو اور نہیں میں اور نہیں
ہے میم کا پردہ کیا پردہ تو اور نہیں میں اور نہیں
(۳) کہیں لیلٰی بنا، کہیں مجنون ، کہیں شریں بنا، کہیں فرہاد
ہے میم کا پردہ کیا پردہ تو اور نہیں میں اور نہیں
(۴) کہتاہے یہ تجھ سے خدا دل میں نہ رکھ اپنے خودی تیرے نگین طبع پر میری حقیقت ہے کھدی
جب عین وحدت کی صفت خاص اپنی میں نے تجھ کو دی من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
(۵) تر سیٹھ برس خدا مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں پھر ا کسی نے نہ پہچانا۔
(۶) محمد نے خدائی کی خدا نے مصطفائی کی۔
کوئی سمجھے تو کیا سمجھے، کوئی جانے تو کیا جانے
(۷) ایک روز جبریل علیہ االسلام حضور سرور کائنات علیہ الصلٰوۃ والتحیات کی خدمت میں حاضر ہوئے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اخی! تم کو اپنے مقام سے یہاں تک آنے میں کتنا وقفہ ہوتاہے؟ عرض کیا: حضور دستار مبارک کا پیچ تمام نہیں فرمانے پائیں گے کہ غلام اپنے مقام سےیہاں حاضر ہوجائے گا، آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں سے تم کو حکم ملتاہے وہاں پردہ پڑا ہے جاؤ اس کو اٹھاکر دیکھو،ادھرآں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دستار مبارک زیب سر فرمانا شروع کی، جبریل علیہ السلام نے مقام مذکور پر پردہ اٹھاکردیکھا تو حضور پٹکا زیب سر فرمارہے ہیں، پھر زمین پرآکر اسی طرح پٹکا زیب سر فرماتے ہوئے دیکھا۔ اسی استعجاب میں چند مرتبہ آئے گئے، حیران ہوکر عرض کیا کہ حضور! پھر مجھے کیوں دوڑایا جاتاہے جب یہاں بھی آپ ہے وہاں بھی آپ، اور مثل ان کے، لہذا ایسے مضامین کا پڑھنا اور سننا شرع شریف میں کیا حکم رکھتاہے؟ کسی سے اس بارے میں جھگڑا قصہ نہیں ہے۔ اپنا عقیدہ صاف کرنے کی غرض سے یہ تکلیف دی جاتی ہے۔
الجواب
(۱) اگر آیا کی ضمیر حضرت عزت عز جلالہ، کی طرف ہے تو بیشک عوام کا ایسا بکنا صریح کلمہ کفرہے اور اگر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف ہے تو بیشک احد واحد ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، دونوں حضور کے اسمائے طیبہ سے ہیں اور معنی یہ کہ حضور مظہر شان احدیت ہیں تجلی احدیت حضور کی عبدیت میں جلوہ گر ہے، اگر میم کہ طوق ف وکمر پرستش ہے ساتر نہ ہو تو عالم میں کوئی دیکھنے کی تاب نہ لائے پھر بھی ایسے لفظ سے بچنے ہی کا حکم ہے کہ عوام کا ذہن ایسی دقیق تو جیہ کی طرف نہ جائے گا اوران کے فساد عقیدہ یا اس بات کا موہم ہوگا کہ وہ قائل کو گمراہ جانیں۔ حدیث میں ہے:
ایاک ومایعتذر منہ ۱؎ فان الخیر لایعتذر منہ۔
ہر اس شیئ سے بچو جس پر معذرت کرنی پڑے، اور خیر میں معذرت نہیں کرنا پڑتی۔ (ت)
ف: اصل میں اسی طرح ہے مگر اعلٰحضرت کا خط نہیں اس لئے ناقل سے غالباً سہو ہوا۔
(۱؎ المستدرک للحاکم کتاب الرقاق دارالفکر بیروت ۴/ ۳۲۷)
دوسری حدیث میں ہے :
ایاک ومایسؤ الاذن ۲؎
(ہر اس شے سے بچو جسے کان بُراجانیں۔ ت)
(۲؎ مسند امام احمد بن حبنل بقیہ حدیث ابوالعادیۃ دارالفکر بیروت ۴/ ۷۶)
تیسری حدیث میں ہے :
حدثوا الناس بما یعرفون ۳؎
(لوگوں سے وہی بیان کرو جو ان کے لئے معروف ہے۔ ت)
(۳؎ کنز العمال حدیث ۲۹۳۱۸ موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۰ /۲۴۷)
اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو ایمان نہیں رکھتے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۱۶/ ۱۰۵)
(۳) بظاہر کفر ہے ف۔ اور اس کا مقلد زندیق۔ عوام کو ایسا تفوہ کفرکا کھلا راستہ ہے ، عوام سے مراد وہ ہیں کہ مقام حقائق تک نہ پہنچے اگرچہ علماء کہلاتے ہوں اور ان سے بدتر وہ مسخرگان شیطان کہ جاہل ہیں اور اور علم حقائق کے مدعی۔
ف: اندازہ سے بنایا اصل میں بیاض ہے۔
(۴)فارسی شعر حضرت امیر خسرو قدس سرہ العزیز کا عاشقانہ غزل ہے اسے یوں نعت شریف میں لے جانا اور کلام الٰہی ٹھہرانا اور اللہ ورسول میں یوں اتحاد ماننا بلکہ حضور کو جان اور اللہ کو تن جاننا یہ صریح کفر وارتداد ہے۔
(۵)ا س کا ظاہر بھی کلمہ کفر ہے،
ووقوع مثلہ فی کلام اﷲ وکلام رسولہ کمایذکر عن التورٰۃ جاء اﷲ من طور سیناء واشرق من ساعیر واستعلن من فاران وحدیث یا موسٰی کنت مریضا فلم تعدنی کنت جائعا فلم تطعمنی ۲؎
اس کا وقوع کلام الٰہی اور کلام رسول اہیں جیسا کہ تورات سے ہے کہ اللہ تعالٰی طور سیناء سے آیا اور ساعیر اور فاران ان سے وہ چمکا، اور حدیث میں ہے: اے موسٰی! میں مریض تھا تم نے میری عیادت نہ کی، میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔(۲؎)
وامثال ذٰلک لایکون سندا للجواز فلیس للعبد ان یتعدی طورہ وعلیہ اتباع المحکمات دون ماتشابہ منہ۔
اور اس کے دیگر امثال یہ جواز کی سند ودلیل نہیں بن سکتے، بندے کو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے بندے پر محکمات کی اتباع لازم اور متشابہات سے بچنا لازم ہے۔ (ت)
(۶) پچھلا مصرع توصحیح ہے اور پہلے کا نصف اخیر بھی صحیح ہے کہ کرنا بنانے پیدا کرنے کو کہتے ہیں: ؎
گفتم ایں جام جہاں بیں بتوکے داد حکیم گفت آں روز کہ ایں گنبد مینا می کرد
(میں نے اسے کہا کہ یہ جہاں نما جام تجھےحکیم نےکب دیا؟ اس نے کہا کہ جس دن اس نے یہ گنبد (آسمان بنایا۔ ت)
یعنی اللہ عزوجل نے حضور کی مصطفائی پیدا کی حضور کویہ مرتبہ بخشا، البتہ نصف اول بہت سخت ہے اس میں تاویل بعیدیہ ہے کہ خدائی مخلوق کو کہتے ہیں ع
ساری خدائی اک طرف فضل الٰہی اک طرف
اور خدائی کی پیدائش بطفیل حضور ـسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہے حضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا
لولاک لما خلقت الدنیا ۱؎
(اگر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں دینا پیدا نہ فرماتا۔ ت)
حضور تخم وجودواصل موجود ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، تو نسبت مجاز ہے جیسے انبت الربیع البقل بہار نے سبزہ اگایا۔
وقال اﷲ تعالٰی مما تنبت الارض ۲؎
(اور اللہ تعالٰی نے فرمایا: زمین کی اگائی ہوئی چیزیں۔ ت) اگانے والا زمین کو فرمایا، مگر حق یہ ہے کہ ایسی تاویل نہ لفظ کو کلمہ کفریہ ہونے سے بچائے نہ قاتل کو اشد حرام ہے کے ارتکاب سے، بہار و زمین غیر ذوی العقول پر قیاس نہ ہوگا۔
(۲؎ القرآن الکریم ۲/ ۶۱)
اور ردالمحتار میں ہے :
مجرد ایھام المعنی المحال کاف فی المنع ۳؎۔
منع کے لئے محض محال معنی کا ایہام ہی کافی ہوتاہے۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۳)
(۷) یہ روایت محض کذب وباطل ومردود وموضوع وافتراء واختراع ہے قاتل اﷲ واضعھا (اللہ تعالٰی ایسی روایت گھڑنے والے کو برباد کرے۔ ت)اور اس کاظاہر سخت کفر ملعون ہے۔ ایسے تمام مضامین کاپڑھنا سننا سب حرام ہے، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۹: ازرام پور مرسلہ معشوق علی صاحب ۷ جمادی الاول ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر میلاد خواں میلاد شریف میں ا س نظم کو پڑھتے ہیں :
(۱) اٹھاکر میم کا پردہ سب الااللہ کہتے ہیں احد میں میم کو ضم کرکے صلی اللہ کہتے ہیں
(۲) ظہور ہوکر کے دنیا میں یہ فرمانا کہ بندہ ہوں توسب ناسُوت میں حضرت رسول اللہ کہتے ہیں
(۳) ہوئے ممکن سے جب واجب نبی ملکوت میں پہنچے وہاں سب دیکھ احمد کوظہور اللہ کہتے ہیں
(۴) جو پہنچا مرتبہ جبروت میں مسجود عالی کا تو اس جسم مطہر کو وہ نوراللہ کہتے ہیں
(۵) الست مرتبہ لاہوت سمجھو ذات کا احمد سب اس رتبہ میں آنحضرت کو عین کہتے ہیں
(۶) خدا فرمائے گامحشرمیں بخشالو تم اب احمد گنہ گاران امت کو شفیع اللہ کہتے ہیں
(۷) نزول از تاعروج حضرت کا لکھا ہے حقیقت سے خدا پہچان سب سے حسن للہ کہتے ہیں
الجواب
ان اشعار کا پڑھنا حرام حرام سخت حرام ہے، ان میں بعض کلمہ کفریہ ہیں اگرچہ تاویل کے سبب قائل کوکافر نہ کہیں اور بعض موہم کفر ہیں اور یہ بھی حرام ہے،
ردالمحتار میں ہے :
مجرد ایھام المعنی المحال کاف فی المنع ۱؎۔
منع کے لئے محض محال کا معنی کا ایہام ہی کافی ہوتاہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحضر والاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۳)
ہاں بعض جیسے شعر چہارم وششم ایہام کفر سے خالی ہیں پھر بھی ششم میں مصرعہ دوم ''گنہ گاران امت الخ'' کو حضرت عزت کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں، اور چہارم میں مسجود کا لفظ مناسب نہیں۔ ہاں شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی میں فرماتے ہیں:
ہزاران ہزار عاشق برآستانہ او (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) سجدات می کنند وایں مرتبہ ہیچکس را ندادہ اند۔ مگر بطفیل ایں محبوب (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) برخے ازاولیائے امت راشمہ محبوبیت آں نصیب شدہ مسجود خلائق ومحبوب دلہا گشتہ اند مثل حضرت غوث الاعظم وسلطان المشائخ نظام الدین اولیاء رضی اللہ تعالٰی عنہما ۲؎
(ملخصاً) واللہ تعالٰی اعلم۔
لاکھوں عشاق ان (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کے مبارک آستاں پر سجدہ کرتے ہیں اور یہ مرتبہ جس کی بھی عطا کیا گیا ہیے وہ اس محبوب (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کی طفیل ہے۔ اولیائے امت میں سے جس کو اس محبوبیت سے حصہ ملا ہے وہ مخلوق کے مسجود و محبوب ہوئے مثلا حضرت غوث الاعظم ، سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ (ملخصاً) واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۲؎ فتح العزیز (تفسیر عزیزی) پ عم س الم نشرح مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی ۳۲۲)
مسئلہ ۶۰ : از ناگور مارواڑ دکان سید محمد صدیق لعل محمد سوداگران مرسلہ حضرات مذکورین ۸جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ:
ہمارے سرور عالم کا رتبہ کوئی کیا جانے
خدا سے ملنا چاہے تو محمد کو خدا جانے
یہ شعر عام طور پر حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محفل میلاد میں پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
الجواب
اس شعر کا ظاہر صریح کفر ہے اور اس کا پڑھنا حرام ہے اور جو اس کے ظاہر مضمون کا معتقد ہو یقینا کافر ہے۔ ہاں اگر بقرینہ مصرعہ اولٰی یہ تاویل کرے کہ خدا سے ملنا چاہے تو یوں سمجھے کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مرتبہ کو اللہ ہی جانتاہے تو یہ معنی صحیح ہے، مگر ایسا موہم لفظ بولنا جائز نہیں۔
ردالمحتار میں ہے:
منع کے لئے محض محال معنی کا ایہام ہی کافی ہوتاہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحضر ولاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۳)
مسئلہ ۶۱: از جودھپور مارواڑ مرسلہ قاضی محمد عبدالرحمن صاحب متخلص بہ طالب مدرس درجہ اول سردار اسکول ۱۸ جمادی الآخر ۱۳۳۷ھ
حضرتم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،، بتاریخ ۱۶ مارچ سنہ رواں بروز یک شنبہ جودھپور میں مشاعرہ تھا، مصرع طرح ھو ہذا: ''شب عاشق سحر نہ ہوجائے'' نمبر ۲ پر ایک غزل نعتیہ پڑھی گئی جس کا مطلع یہ ہے: ؎
نعمت خیریہ البشریہ نہ ہوجائے
دل حقیقت نگر نہ ہوجائے
کیا حضور! یہ مطلع نعت میں ٹھیک ہے؟ اس کا قائل کہتاہے کہ آپ کے دیوان میں بھی اس قسم کا کوئی شعر ہے
گر وہ شعر دیوان میں دکھاتانہیں۔ اور خاکسار کے پاس دیوان ہے نہیں۔ لہذا متکلف ہوں کہ اس میں جو کچھ امر حق
ہو جواب سے سرفراز فرمادیں۔
الجواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،، یہ مطلع سخت باطل وناجائز ہے کہ اس میں نعت اقدس سے ممانعت ہے اور نعت اقدس اعظم فرائض ایمان سے ہے، اس سے ممانعت کس حد تک پہنچتی ہے ، اگر تاویل کی جگہ نہ ہوتی تو حکم بہت سخت تھا فقیر کے دیوان میں اصلا کوئی شعر اس مضمون کا نہیں۔ ولہ الحمد وھو تعالٰی اعلم۔